اسلامی اقتصادی نظام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

زمرہ جات


اسلامی اقتصادی نظام [1] دراصل اسلام کا ایک مکمّل اقتصادی نظام ہے، جس کی بنیاد قرآن، حدیث اور فقہی اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ یہ سرمایہ داری نظام، اشتراکیت اور اشتمالیت سے الگ ایک مکمّل اقتصادی نظام ہے۔ اس نظام میں باقی نظاموں کی طرح کوئی خامی نہیں۔[2][3] ان کی بنیادی ستونوں میں

  1. سود کی ممانعت
  2. زکوٰۃ
  3. طلائی دینار اورنقرئی درہم بطورِ زر (پیسہ)
  4. وادیعہ (بینک کامتبادل مخزن کا ادارہ )
  5. قمار، غرر وغیرہ کی ممانعت
  6. آزاد بازار (سوق) وغیرہ شامل ہیں۔[4]
    اسلامی اقتصادی نظام سرمایہ داری نظام اور اشتراکیت وغیرہ سے یکسر مختلف ہے۔ اسلامی معاشی نظام کو مختصر یوں بیان کیا جا سکتا ہیں کہ اس نظام کا ‘‘دِل’’تجارت ہے۔ لہٰذا اسلامی اقتصادی نظام میں ‘‘زر’’یعنی پیسہ حقیقی دولت پر مبنی جنس ہوتا ہے جیسے طلائی دینار اورنقرئی درہم، گندم، چاول وغیرہ۔ یہ سود ٹیکس، قمار ٹیکس، غرر ٹیکس سے پاک ہوتیں ہیں۔ یہ آزاد بازاروں پر مبنی ہوتی ہے جہاں پر ہر شخص اپنی تجارتی اشیاء کی فروخت کر سکتا ہے۔ جہاں تھوک فروشی تک ہر شخص کی یکساں رسائی ہوتی ہے۔ ہر چھوٹا کاری گر وصنعت کار اپنا کارخانہ خود بنا سکے گا۔ ان اوقاف میں شرکت،مضاربت، مرابحہ وغیرہ کے طریقوں سے تجارت ہوتی ہے۔[5] وادیعہ (بینک کامتبادل) کے ذریعے حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ان کی حسابوں میں منتقل کرے گی اور وہاں ان کی دولت امانت کے طور پر محفوظ رکھی جائے گی۔ ‘‘شرعی زر’’کا معیار حکومت مہیا کرتی ہے۔ ملکی خزانہ بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ ان سب اداروں کی نگرانی حسابہ کرتی ہے۔ غریب عوام سے کوئی محصول ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا بلکہ حکومت امیروں سے محصول (Tax)، زکوٰۃ، عُشر، خراج، جزیہٹیکس وغیرہ کی صورت میں لے کر غریبوں میں بانٹے گی۔ اسلامی اقتصادی نظام میں نجکاری مطلب بیکل محدود مدت تک ہے مضمون تھوڑا لمبہ ہے اس لیے ویٹ کو محدود کیا جاتا ہے اور سرکاری اداروں کی نجکاری پر مکمل پابندی ہوتی ہے۔ دریاؤں، ڈیموں، نہروں، تیل، گیس، کوئلے، بجلی، جنگلات، چراگاہوں وغیرہ کی نجکاری نہیں کی جا سکتیں۔ روٹی، کپڑا، مکان اور پانی کی حکو مت کی جانب سے مفت فراہمی کی جائے گی۔ بیمہ کمپنیوں پر مکمل پابندی لگائی جائے گی۔ لہٰذا سونے کے دینار اور چاندی کے درہم موجودہ کاغذی نوٹوں کی جگہ لے گی۔ وادیعہ کے مراکز قائم کرنے سے بینکوں کا کام ختم ہو جائے گا۔ اوقاف کی بحالی سے بازاروں، تھوک فروشی اور صنعتی مراکز کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ بین الاقوامی تجارت کے لیے مال کے بدلے مال کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور جہاں کہی یہ طریقہ ممکن نہ ہو تو وہ وہاں پرسونے کو بطور زر استعمال کیا جائے گا۔ ‘‘شرعی زر’’کو بنانے کے لیے حکومت ضرب خانے (ٹکسال) بناتی ہے اور ملکی خزانہ بیت المال میں جمع ہوتا ہے۔ جس سے مرکزی بینک کا خاتمہ ہو جائے گا اور نفع کمانے کے لیے لوگ اوقاف کا رُخ کریں گے جہاں حقیقی معنوں میں تجارت اور کاروبار ہوگی۔ لہٰذا بازار حصص (Stock Exchange) کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ اور ‎شرعی زر کے دوسرے ممالک کی کرنسیوں سے باہم مبادلے کے لیے وکالہ کے آزاد مراکز قائم کیے جائے نگے۔ لہٰذا اجارہ داری پرمبنی صرافہ بازاروں (Foreign Exchange Markets) کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور ملکی بجٹ ملکی آمدنی کودیکھ کر بنایا جائے گا۔ جس کی وجہ سے قومی اور گردشی قرضوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور نہ ہی ورلڈ بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) کے قرضوں کی ضرورت ہوگی۔ مسلم ممالک کے مابین آزاد تجارت ہو گی اور ان ممالک کے اموال تجارت پر کوئی محصول نہیں لگایا جائے گا جو مسلمان ممالک کے اموال پر ٹیکس نہیں لگاتے۔ جس کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی تجارت میں انتہائی اضافہ ہو جائے گا۔

لہٰذا اسلامی معاشی نظام کی مکمل بحالی سے ہمارے سارے کام بطریق اَحسن انجام پائیں گے اور ہمیں مغربی نظام سے کوئی چیز لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

تاریخ[ترمیم]

اسلام میں دو چیزیں ہیں ایک عبادات اور دوسرا معاملات۔ دین کا تقریباً پچھتر فیصد(75%) حصّہ معاملات پر مشتمل ہیں۔ تو معاملات میں اسلامی اقتصادی نظام، اسلامی سیاسی نظام، اسلامی قانونی و معاشرتی نظام وغیرہ سب شامل ہیں۔ تو اسلامی اقتصادی نظام معاملات کا ایک حصّہ ہے۔ لہٰذا ہمیں معاملات کو اسلامی بنانا ہے اور معاملاتِ اسلامیہ کا عملی نفاذ ہمارا مقصد زندگی ہونا چاہیے۔ شیخ عمر واڈیلو صاحب نے اسلامی اقتصادی نظام کو 'نظام معاملات' (System of Muamalat) کا نام دیا ہے۔ اور اس کی انتہاہ کو ' نظام مدینہ' (Madinaism) کہا جائے گا۔ لہٰذا 'نظام معاملات'، سرمایہ دارانہ نظام، اشتراکیت اور مخلوط معیشت کا متبادل ہے۔ اس نظام کو سب سے پہلے حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم نے مدینہ منوّرہ میں نافذ کیا۔ بعد میں خلافائے راشدین نے اس کے نظام کو نافذ کیے رکھا۔ اور حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں زکوٰۃ نا دینے والوں کے خلاف اعلانِ جنگ کیا گیا۔ اور بعد میں خلافتِ بنو امیہ اور عباسی خلافت میں اس کا نفاذ تھوڑے بہت کوتاہیوں کے ساتھ نافذ رہا۔ خلافت عثمانیہ میں بھی اسی نظام کو نافذ کیا گیا۔ اور 1924ء میں سقوطِ خلافت کے بعد اس کا نفاذ بھی ترک کر دیا گیا۔ اور 1928ء میں طلائی دینار کی اجرا کو ترک کر دیا گیا۔ لہذا اس نظام کو متروک ہوتے ہوئے تقریباً ایک صدی گذر چکی ہیں۔ تا ہم دنیا کے کئی اسلامی ممالک میں اس کا جزوی طور پر دوبارہ آغاز ہو چکا ہیں۔ جس میں ملایشیا، انڈونیشیا، پاکستان، افغانستان، ایران وغیرہ شامل ہیں۔

اسلام کی دوسرے ادیان سے امتیازی حیثیت[ترمیم]

اسلام دوسرے ادیان کی طرح صرف چند اخلاقی اصولوں کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک مکمل نظامِ حیات ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے میں انسانیت کی مکمل راہنمائی کرتی ہے۔ مثلاً یہودیت میں بھی سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو بائیبل کے عہد نامہ قدیم کی کتاب، خروج کی سورۃ نمبر 22 آیت نمبر 25)۔ مسیحیت میں بھی سود حرام ہے (ملاحظہ ہو بائیبل کے عہد نامہ جدید کی کتاب، ‘‘لوقا’’کی سورۃ نمبر 6 آیات 35۔ 34)۔ ہندومت میں بھی سود حرام ہے (ملاحظہ ہو، ہندوؤں کی مقدس کتاب، ‘‘مَنو سمیتی’’سورۃ نمبر11 آیت 62)۔ لیکن اسلام اور ان مذاہب میں فرق یہ ہے کہ اسلام آپ کو ایک پورا ا قتصادی نظام دیتی ہے کہ کس طرح سود سے پاک معیشت کو حاصل کیا جاتا ہے جبکہ باقی ادیان یہ چیزیں نہیں بتاتی۔ اور مزید یہ کہ اسلام نہ صرف نظریاتی طور پر آپ کو ایک نظام دیتی ہے بلکہ عملی طور پر اس کے نظام کا طریقہ بھی بتاتی ہیں اور اسلامی اقتصادی نظام کو سب سے پہلے جس انسان نے نافذ کیا، اس کا نام ہے محمد ﷺ۔ اور جس علاقے میں اس کو پہلی مرتبہ نافذ کیا گیا،اس کا نام ہے مدینہ منورہ۔ لہٰذا موجودہ دَور کے تمام اقتصادی کتابوں میں سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) کے بانی کا نام درج ہے، ایڈم سمتھ (Adam Smith)، اشتراکیت کے بانی کا نام کارل مارکس(Karl Marks)۔ لیکن اسلامی اقتصادی نظام کے بانی کا نام محمّد ﷺ کو انھوں نے دنیا کے تمام اقتصاد کے نصابی کتابوں سے نکال دیا ہے اور اسلام کو سرمایہ دارانہ نظام کے تابع بنانے کے لیے اور سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت کے لیے انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام میں کچھ سرسری تبدیلیاں کرکے اُسے اسلامی معیشت (Islamic Economic) اور اسلامی اکاؤنٹنگ (Islamic Accounting) کا نام دے دیا۔ اور ہماری نئی نسل یہ سمجھتی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں کچھ تبدیلیاں کرکے اسلامی معیشت وجود میں آتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کو اسلامی جامہ پہنانا[ترمیم]

1924ء میں خلافت عثمانیہ کے سقوط کے بعد مغربی طاقتوں نے اسلامی اقتصادی نظام کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اس کی جگہ مغربی نظام معیشت کو ہر نئے آزاد ہونے والے اسلامی ملک میں نافذ کر دیا۔ مغربی طاقتوں نے خلافت کے بعد نئی مسلم دنیا کو چھ بڑے تحفے دیے۔ پہلا سود، دوسرا کاغذی کرنسی، تیسرا مرکزی بینک، چوتھا قومی قرضہ، پانچواں آئین(دستور) اور چھٹا جمہوریت۔ تو ابتدا میں ہمارے روایتی علما اور مفتیوں نے ان سب کی مخالفت کی اور ان کے خلاف فتوے دئیں۔ مثلاً سود حرام ہے، ہر شکل میں۔ کاغذی کرنسی حرام ہے کیونکہ ابتدا میں یہ سونے اورچاندی کے رسیدیں ہوا کرتی تھی لہٰذا رسیدوں کو فروخت کرنا جب تک آپ اس کے پیچھے رکھے ہوئے سونے اور چاندی پر قبضہ نہ کر یں، مکمل طور پر حرام ہے۔ سود اور کاغذی کرنسی کا گڑھ بینک ہوتا ہے، لہٰذا بینک کا وجود بھی حرام ہے۔ اور جو قرضہ عوام سے پوچھے بغیر حکومت لیں اور پھر بعد میں عوام کے مرضی کے خلاف محصولوں کی صورت میں ان سے واپس لیں تو یہ کام قطعی غیر شرعی اور حرام ہیں۔ اور جب رب کا قرآن موجود ہو تو کسی دوسرے آئین کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا اسلام کی تیرہ سو سال کی تاریخ میں قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا قانون (آئین یا دستور) نہیں تھا۔ اور فقہی قوانین کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہر مسئلے کا فیصلہ کیا جاتا۔
لیکن مغربی قوتوں نے آئین کو سب سے اوپر کا درجہ دیا جس کی رُو سے انھوں نے اسلامی دنیا میں سود ،کاغذی کرنسی، مرکزی بینک، قومی قرضہ وغیرہ سب کو حلال کر دیا۔ اگر کوئی اس نظام کے خلاف آواز اُٹھائے تو اُسے آئین یا دستور کا پاس نہ کرنے پر مجرم قرار دیا جاتا ہے اور آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ دنیا میں دو ہی ایسے ملک ہیں جہاں پر تحریری آئین موجود نہیں ہیں۔ ایک کا نام ہے برطانیہ اور دوسرے کا نام ہے اسرائیل۔ اور آپ کو مزید حیرانی اس بات پر ہوگی کہ دنیا میں دو سو سے زیادہ ممالک ہیں لیکن ان سب کا آئین اور دستور اقتصادی لحاظ سے ایک جیسا ہے مثلاً دنیا کے سارے ممالک کے آئینوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ ملک میں ایک مرکزی بینک ہو نا چاہیے۔ ملک کی تمام کرنسی (پیسے) یہی مرکزی بینک چھاپے گا، مرکزی بینک جو چیز چاہے اُسے کرنسی (پیسے) کے طور پر استعمال کر سکتی ہیں مثلاً کاغذ، پلاسٹک وغیرہ، دنیا کا کوئی ملک سونے کو بطور کرنسی استعمال نہیں کر سکتی، ملک کی ضروریات کے پیشِ نظر حکومت قرضہ لے سکتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا ساری دنیا کو آئین دے کر وہ خود آئین کے پابند نہیں ہیں اور موجودہ جمہوریت کی بنیاد فرانس اور برطانیہ نے رکھی لہٰذا اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔ لیکن بدقسمتی سے، اس دَور میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے جنھوں نے اس مغربی نظام کی مخالفت کی بجائے اس کو اسلامی جامہ پہنانے کا کام شروع کیا۔ مغربی نظام کا گڑھ بینک ہے تو انھوں نے اسلامی بینک ایجاد کیا۔ اسی طرح اسلامی بیمہ، اسلامی کریڈٹ کارڈ، اسلامی جمہوریت وغیرہ کے غیر اسلامی اداروں کی بنیاد رکھیں۔
1903ء میں پہلی مرتبہ محمد عبد و (مصر کا عالم) نے خلافت عثمانیہ میں یہ فتویٰ دیا کہ بینک میں جاری کھاتہ (Current Account) کھلوانا حرام نہیں بلکہ حلال ہے۔ پھر بعد میں اس کے شاگرد راشد رضا نے یہ فتویٰ دیا کہ اسلام میں جس سود(ربوٰ) سے منع کیا گیا ہے وہ موجودہ دَور کے ربوٰ سے مختلف ہے لہٰذا اگر نیت صحیح ہو تو بینک میں رقم جمع کرکے اس پر سود لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ اسی لیے موجودہ اقتصاد کی جتنی کتابیں دنیا بھر کے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے، اس میں اسلام کا اقتصادی نظام سرے سے موجود ہی نہیں۔ بلکہ سرمایہ دارانہ نظام میں کچھ ردّ و بدل کرکے اس کو اسلامی معیشت قرار دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری تین چار نسلیں یہی سمجھتی ہیں کہ اسلام کا کوئی علاحدہ معاشی نظام نہیں ہے۔ لہٰذا مغربی نظامِ معیشت کے بغیر اسلام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ یا دوسرے لفظوں میں وہ نظام اس جدید دَور میں چل نہیں سکتا۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا اپنا اقتصادی نظام ہے جس کو اب بھی اگر نافذ کیا جائے تو مغربی نظام کی ایک ستون پر عمل کیے بغیر مسلمان نہ صرف اپنے ممالک کے اقتصادی نظام کو بطریق اَحسن چلا سکتے ہیں بلکہ دنیا میں پھر سے سُپر پاور(Super Power) بن سکتے ہیں۔
آخر وہ کون سا نظام تھا جن پر مسلمانوں نے تیرہ سو سال عمل کیا اور دنیا میں عالمی طاقت کے طور پر حکومت کی۔ یہ نظام ہمارے موجودہ اقتصادی نصاب سے ختم کر دیا گیا ہے اور اس کو ختم ہوتے تقریباً ایک صدی گذر چکی ہے۔ آئیے اس نظام کا مختصر جائزہ لیں۔

بنیادی ستون[ترمیم]

جس طرح مغربی معاشی نظام کم از کم مندرجہ ذیل ستونوں پر قائم تھا، ہمارا معاشی نظام بھی کم از کم مندرجہ ذیل نوستونوں پر قائم ہیں اور ان ستونوں پر عمل کرکے ہمیں کسی مذہب یا نظام سے کوئی چیز مستعار لینے کی ضرورت نہیں۔

سود (ربوٰ) کی ممانعت[ترمیم]

اسلامی اقتصادی نظام کا پہلا اور بنیادی ستون سود سے پاک معیشت ہے۔ اسلام میں سود کی کوئی گنجائش نہیں۔ قرآن میں سود کی انتہائی شدت سے ممانعت کی گئی ہے اور سود کرنے والے کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم ؐ کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا گیا ہے۔ (سورۃ البقرۃ سورۃ نمبر2 آیت نمبر278)۔ اور رسول صلی اللہ عليہ وسلم ؐ نے فرمایا ‘‘کہ سود کا ایک درہم لینا، اپنی ماں کے ساتھ زنا سے بدتر ہے۔ ’’(ابن ماجہ)
قرآن میں سود کے لیے ربوٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی لغوی معنی ‘‘زیادتی’’کے ہے اور اصطلاح میں جب آپ کسی کو پیسے وغیرہ قرض دیتے ہیں اور واپسی پر اس سے زیادہ وصول کرتے ہیں تو اس کو سود کہا جاتا ہے۔ یعنی اگر آپ نے ایک شخص کو سو(100)روپے قرض دیے اور واپس(120) روپے مانگے تو یہ بیس اضافی روپے سود ہوا۔ اس کو ربوٰ النسیہ کہتے ہیں اور انگریزی میں اس کو( Interest) کہا جاتا ہے لیکن ربوٰ کی ایک اور قسم بھی ہے جسے ربوٰالفضل کہا جاتا ہے۔ ہر وہ چیز جو آلہ مبادلہ کے طور پر استعمال ہو یعنی جو پیسے کے طور پر استعمال ہو اُس میں بھی زیادتی سود میں داخل ہیں۔ مثلاً رسولﷺ کے دَور میں مدینے کے بازار میں چھ چیزیں آلہ مبادلہ کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ سونے اور چاندی کے سکے ّ، اس کے علاوہ گندم، جو، کھجور اور نمک بھی آلہ مبادلہ کے طور پر استعمال ہوتیں تھیں۔ اس لیے رسول ﷺ نے ان میں بھی زیادتی کو سود قرار دیا گیا۔ تو اسلام میں ربوٰ مکمل طور پر حرام ہے۔ چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو۔
اسلامی اقتصادی نظام نا صرف سود سے پاک ہے بلکہ اس میں قمار بازی، سٹّے بازی، دغہ بازی ،اجارہ داری (Monopoly)وغیرہ بھی منع ہیں۔

اسلامی زر[ترمیم]

اسلامی زر یا اسلامی کرنسی ( انگریزی: Islamic Money or Shariah Currency) دراصل اسلامی اصولوں کے مطابق زر یا پیسے کو کہا جاتا ہے۔ اسلام کی تیرہ سو سال تاریخ میں ‘‘کرنسی ‘‘ یا ‘‘زر’’ہمیشہ سونے اور چاندی سے بنے سکے ّ ہوا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب کرنسی کا ذکر قرآن میں کیا ہے تو سونے کے دینار اور چاندی سے بنے دراہم کا ذکر کیا ہے۔
سونے کے دینار اور چاندی کے دراہم کو’’شرعی زر’’اس لیے کہا جاتا ہے کہ شریعت نے اس کے ساتھ دین کے کئی معاملوں کا تعلق جوڑ دیا ہے۔ مثلاً زکوٰۃ، مہر اور حدود وغیرہ میں۔ لہٰذا سونے اور چاندی کا ہر سکّہ دینار و درہم نہیں کھلائے گا بلکہ وہ سکہّ جو کم از کم بائیس(22k) قرات سونے سے بنا ہو اور اس کا وزن 4.25 گرام ہو تو اُسے ہم ایک دینار کہیں گے اور کم از کم 99%چاندی سے بنا سکہ جس کا وزن 2.975گرام ہو اُسے ہم ایک درہم کہیں گے۔ اور ان دونوں کو شریعت نے ثمن قرار دیا ہے۔ اس لیے اسلامی معاشی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کو معلومات کی جلد رسائی کے لیے استعمال کیا جائے گا ناکہ بطورِ ‘‘زر’’۔

خلافت امویہ کے عبدالملک بن مروان کے عہد کے طلائی دینار

محمدصلی اللہ عليہ وسلّم کے دور میں چاندی کے ساسانی سکّے استعمال ہوا کرتے تھے، چاندی کے سکّے کا وزن 3 گرام سے لے کر 5۔ 3 گرام ہوا کرتا تھا۔ جبکہ سونے کے سکّے کا وزن4.44 گرام سے لے کر 4.5گرام ہوا کرتا تھا۔ اہل عرب اس کاتبادلہ وزن کے حساب سے کیاکرتے تھے لیکن محمدصلی اللہ عليہ وسلّم نے ایک دینار کا وزن ایک مثقال قرار دیا، جو 72 جو(جو) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتاہے۔ اور جدید معیار وزن کے مطابق اس کا وزن تقریبا 4.25 گرام ہوتاہے۔ حضرت عمر کے دور میں ان سکّوں کو کاٹھا گیا اور اس کے وزن کوایک مثقال تک لایاگیا۔ اور آپ نے ایک معیار قائم کیا کہ سات دینار کا وزن دس دراہم کے برابر ہو۔ لہذا ایک درہم کا وزن تقریبا 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) ہوتاہے۔ حضرت عثمان کے دور میں اس پر بسم اللہ لکھا گیا۔ حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن زبیر اور حضرت امیر معاویہ نے پہلی مرتبہ اپنے سکّے جاری کیے۔ بعد میں عبدالملک بن مروان نے مسلمانوں میں باقائدہ طورسے اپنے سکّے ڈھالنے شروع کیے۔ جس کاوزن نہایت احتیاط کے ساتھ 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) رکھا گیا۔[6]

چاندی کا درہم جس پرحضرت عثمان رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے دور میں بسم اللہ لکھا گیا۔ اس کا وزن تقریبا 3 گرام ہے۔ اس کوحضرت عمر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ نے 5۔ 3 گرام سے کم کرکے 3 گرام کیا تھا۔

جدید طلائی دینارکا وزن بھی ایک مثقال رکھا گیا ہے۔ جس کا وزن 72 جو(جو) کے دانوں کے وزن کے برابر ہوتاہے، جو 25۔ 4 گرام کے برابر ہوتاہے۔ حضرت عمر کے قائم کردہ معیارکے مطابق سات دینار کا وزن دس دراہم کے برابر ہو، تو ایک درہم کا وزن تقریبا 2.975 گرام (تقریبا 3 گرام) ہوتاہے۔ اور اس کی خالصیت کم ازکم 22 قیرات (یعنی 7۔ 91 فیصد) ہونی چاہئیے۔ اس لیے جدید طلائی دینار بنانے والی اکثرکمپنیاں مثلاً عالمی اسلامی ٹکسال، وکالہ انڈیوک نوسنتارہ، ضراب خانہ اسعار سنّت وغیرہ اسی معیار کو استعمال کرتی ہیں۔[7]

وادیعہ[ترمیم]

وادیعہ ( انگریزی:Wadiah) امانتیں محفوظ رکھنے کے مرکز کو کہا جاتا ہے۔ اور یہ موجودہ جدید بینک کا متبادل ہے۔ یعنی آپ اپنی دولت امانت کے طور پر وادیعہ میں جمع کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس کو واپس نکال سکتے ہیں۔ وادیعہ میں آپ رقم امانت کے طور پر بھی رکھ سکتے ہیں اور اس کو کسی کاروبار میں بھی استعمال کر نے کے لیے جمع کرا سکتے ہیں۔ اور کاروبار میں سرمایہ کاری کے لیے آپ کو اسلامی آزاد بازار کی طرف رجوع کرنا ہوگی۔ وادیعہ کی بحالی سے نجی بینکوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔[8][9] وادیعہ میں آپ شرعی زرجمع کر سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر آپ اس کو نکال سکتے ہیں۔ موجودہ دَور کی اصطلاح میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ آپ وادیعہ میں اپنا حساب کھلوا سکتے ہیں اور آپ بغیر کسی خطرے کے اپنے حساب سے کسی دوسرے کے حساب میں رقم (طلائی دینار اور نقرئی درہم کی شکل میں) منتقل کر سکتے ہیں۔ اسلامی حکومت جب آپ کو تنخواہ دے گی تو وہ آپ کی وادیعہ کے حساب (Wadiah Account) میں منتقل ہوگی اور آپ کسی بھی وقت اُسے لے سکتے ہیں۔[10] پہلے وادیعہ کا قیام اپریل 2013ء میں ملائیشیاء میں لایا گیا۔ جب وادیعہ نوسونتارہ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر رقوم (شرعی زر) کی منتقلی کے لیے 1999ء میں ای۔ دینار (e–dinar) کا نظام عمل میں لایا گیا۔ جس کی مدد سے دنیا کے کسی کونے میں کوئی بھی دو اشخاص یا تاجر’’شرعی زر’’کو ایک حساب سے دوسرے حساب میں آسانی سے منتقل کر سکتے ہیں۔ جس میں کوئی بینک ملوث نہیں ہوگا۔ دونوں اشخاص e–dinar میں اپنا حساب (Account) کھلوايے گے اور اس ادارے میں بیٹھے وکیل کے توسط سے آپ ایک حساب سے دوسرے حساب میں آسانی سے رقم منتقل کر سکتے ہیں۔

اسلامی وکالہ[ترمیم]

اسلامی وکالہ( انگریزی: Islamic Wakalah) دراصل اسلامی صرافی کی دکان کو کہا جاتا ہے۔ جیسے مختلف ممالک کے کا غذی کرنسیوں کے باہم تبادلے کے لیے صرافہ بازارہو تے ہیں، اسی طرح شرعی زر کے آپس میں اور دوسرے ممالک کے کرنسیوں کے باہم تبادلے کے لیے وکالہ کے ادارے ہوں گے۔ وکالہ کے قیام سے موجودہ صرافہ بازار کا زور بہت کم ہو جائے گا۔[11][12] پہلے اسلامی وکالہ کا قیام 1999ء میں میں لایا گیا۔ جب e–dinar کی بنیاد رکھی گئی۔ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر رقوم (شرعی زر) کی منتقلی اور باہم تبادلے کے لیے 1999ء میں ای۔ دینار (e–dinar) کا نظام عمل میں لایا گیا۔ جس کی مدد سے دنیا کے کسی کونے میں کوئی بھی دو اشخاص یا تاجر’’شرعی زر’’کو ایک حساب سے دوسرے حساب میں آسانی سے منتقل کر سکتے ہیں۔ جس میں کوئی بینک ملوث نہیں ہوگا۔ دونوں اشخاص e–dinar میں اپنا حساب (Account) کھلوايے گے اور اس ادارے میں بیٹھے وکیل کے توسط سے آپ ایک حساب سے دوسرے حساب میں آسانی سے رقم منتقل کر سکتے ہیں۔

اسلامی آزاد بازار[ترمیم]

اسلامی آزاد بازار(انگریزی:Islamic Open Markets) قرآن، حدیث اور فقہی اصولوں کے مطابق بنائے گئے بازار کو کہا جاتا ہے۔ مغربی نظام معیشت کا قلب ‘‘سود’’ہے جبکہ اسلامی نظامِ معیشت کا قلب ‘‘تجارت’’ہے۔ رسول ﷺ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں جاکر دو بڑے ادارے قائم کیے۔ ایک مسجد اور دوسرا بازار(مارکیٹ)۔ اور دونوں کو اوقاف کہا جس طرح مسجد کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہوتا بلکہ یہ وقف ہوتا ہے اور اس پر اس علاقے کے تمام افراد کا یکساں حق ہوتا ہے۔ کوئی بھی مسجد میں اپنے لیے جگہ خاص نہیں کر سکتا لہٰذا جو مسلمان پہلے آئے گا وہ پہلے صف میں کھڑا ہونے کا حقدار ہوگا۔ اسی طرح اسلامی نظامِ معیشت میں بازار بھی وقف ہوتا ہے اور وہ اس علاقے کے سارے عوام کی مجموعی ملکیت ہوتا ہے۔ اس لیے بازار کے لیے جگہ حکومت فراہم کرے گی اور اس جگہ پر ہر شخص کا یکساں حق ہوگا۔ جیسا کہ مال وغیرہ کارخانے میں بنتا ہے، پھر گوداموں اور تھوک فروشی کے مراکز میں آتا ہے۔ پھر وہاں سے مارکیٹ /بازار میں آتا ہے۔ رسول ﷺ کے دَور میں بازار کے لیے خاص جگہ مخصوص تھی لیکن گوداموں اور کارخانوں کے لیے خاص جگہ مخصوص نہیں تھی بلکہ اکثر چھوٹے کارخانے اورتھوک فروشی ایک ہی جگہ ہوا کرتے تھے، جس کو ‘‘سوق’’کہتے تھے لیکن بعد کے اَدوار میں تینوں کے لیے الگ الگ جگہیں بنائیں گئیں اور خلافتِ عثمانی میں یہ اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ اس لیے ہم اوقاف کو کم از کم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ (i سوق المفتوحہ (آزاد بازار) (ii الخان المفتوحہ (آزاد مال تقسیم کرنے کے مراکز) (iii حرفۃ المفتوحہ (آزاد پیداواری مراکز)[13][14]

سوق المفتوحہ (آزاد بازار): ‘‘سوق’’عربی میں بازار کو کہتے ہیں۔ سوق المفتوحہ کے لفظی معنی ہے 'آزاد بازار' یعنی وہ بازار جس کے لیے جگہ حکومت فراہم کرے اور اس میں معاملات سود اور قمار وغیرہ سے پاک ہو اور جس میں ‘‘زر’’شرعی زر استعمال ہوتی ہو یعنی دینار و درہم۔ حکومت اس جگہ کی فراہمی کے لیے کسی بھی قسم کا محصول (Tax)، کرایہ وغیرہ نہیں لے گی۔ ہر وہ بندہ جو پہلے آئے گا وہ اپنے لیے جگہ مخصوص کرکے اپنی اشیاء فروخت کرے گا۔ اور جو ہی وہاں سے اُٹھ گیا تو جگہ دوسرے کے لیے خالی ہو جائے گی۔ اس لیے وہاں کوئی شخص اپنا مستقل دُکان قائم نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جگہ ایک شخص کی نہیں بلکہ سارے عوام کی ملکیت ہے۔ موجودہ دور میں سستے بازاران کی بہترین مثال ہیں۔ مغربی معاشی نظام میں ملک کی ساری خور و نوش کی اشیاء کی خرید و فروخت پر چند سرمایہ داروں کا قبضہ ہوتا ہے مثلاً برطانیہ میں تقریباً ستّرفیصد(70%) اشیاء خور و نوش کا قبضہ صرف پانچ بڑی کمپنیوں کے پاس ہیں جو ہر چیز پر اجارہ داری قائم کرکے اشیاء کی قیمتوں میں آسانی سے اضافہ کر سکتی ہیں۔ لہٰذا مغربی نظام معیشت ہمیں سُپر سٹورز، ہائیپر سٹورز اور بڑے بڑے مالز(Malls) فراہم کرتا ہے جبکہ اسلام ہمیں آزاد بازار فراہم کرتا ہے جہاں ہر چھوٹا بڑا تاجر اپنے سامان کی تجارت کر سکتا ہے۔

الخان المفتوحہ (مال تقسیم کرنے کے آزاد مراکز): بازار میں مال آنے سے پہلے یہ گوداموں اور تھوک فروشی کے مراکز میں آتا ہے۔ خلافتِ عثمانی میں مال تقسیم کرنے کے لیے الگ مراکز قائم کیے گئے ،جہاں پر مقامی اور بین الاقوامی مال آتا تھا اور وہاں سے پھر بازاروں میں تقسیم ہوتا تھا۔ ان مراکز کو عربی میں ‘‘خان’’کہا جاتا تھا۔ ترکی زبان میں اُسے ‘‘حان’’، فارسی زبان میں اُسے ' کاروان سرائے ' کہا جاتا تھا۔ آزاد بازار کی طرح ان مراکز کے لیے بھی جگہ حکومت فراہم کرتی تھیں اور ضروریات کی دوسری اشیاء بھی سب مل کر استعمال کرتے تھے۔ وہاں پر تجارت زیادہ تر قرض کی بنیاد پر ہوتاتھا لیکن مغربی نظام کے آنے کے بعد ان کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹایا گیا جیسا کہ وہ تھے ہی نہیں۔

حرفۃ المفتوحہ (صنعت و پیداوارکے آزادمراکز): حرفۃ المفتوحہ، صنعت و پیداورا کے آزاد مراکز کو کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے بھی جگہ اور دوسرے ضروریات کے وسائل حکومت فراہم کرے گی جہاں ہر شخص اپنی چھوٹی یا بڑی صنعت بنائے گا۔ جس پر حکومت اس سے کوئی محصول(Tax)، کرایہ وغیرہ وصول نہیں کرے گا۔ حرفت میں اکثر کاروبار شراکت کی بنیادپر ہوتا ہے۔ لہٰذا اوقاف کی وجہ سے ہر چھوٹے سے چھوٹے تاجر و صنعت کار کے لیے پیداواری مراکز، تھوک فروشی اور بازار تک براہِ راست رسائی ہوگی جبکہ مغربی نظام معیشت میں صنعت، تھوک فروشی اور بازار پر چند سرمایہ داروں کا قبضہ ہوتاہیں۔

اسلامی نجکاری[ترمیم]

اسلامی نجکاری (انگریزی:Islamic Privatization) قرآن، حدیث اور فقہی اصولوں کے مطابق نجکاری کو کہا جاتا ہے۔ نجکاری کو مغربی نظام معیشت خصوصا سرمایہ دارانہ نظام میں خصوصی اہمیت حاصل ہیں لیکن اسلامی اقتصادی نظام میں اس کو محدود کیا گیا ہے۔ اسلامی اقتصادی نظام میں سرکاری اور عوامی ذرائع اور اداروں کی نجکاری نہیں کی جا سکتی۔ سنن ابودا‎وداورابن ماجہ میں ابن عبّاس سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا، "سارے مسلمان تین چیزوں میں شریک ہیں، پانی، چراگاہ اور آگ۔ "[15]
اس حدیث کے روشنی میں دریا‎ؤں کے پانی کی نجکاری نہیں کی جا سکتی اور نا ہی ڈیموں کی نجکاری کی جا سکتی ہیں اور نا ہی ان سے نکالی گئی نہروں کی نجکاری کی جا سکتی ہیں۔ چراگاہوں اور جنگلات کی نجکاری بھی منع ہیں۔ اور رسول صلی اللہ عليہ وسلم اللہ کے زمانے میں آگ دو مقاصد کے لیے استعمال ہوا کرتی تھیں، ایک ایندھن اور دوسری روشنی کے لیے۔ یعنی تیل، گیس،سلفر اورکوئلے وغیرہ کی ذخیروں اور کانوں کی نجکاری نہیں کی جا سکتیں اور نا ہی بجلی کی پیداواری ذرائع کی نجکاری کی جا سکتی ہیں۔ سنن ترمذی اورابن ماجہ میں ابیض بن حمل مربی سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ عليہ وسلم اللہ نے ان سے نمک کا کان واپس لے لیا، جس کو رسول صلی اللہ عليہ وسلم اللہ نے ان کو تحفے میں دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے یہ اس وقت ان سے واپس لیا جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ مسلمانوں کی مشترکہ استعمال میں تھی۔

اسلامی میزانیہ (بجٹ)[ترمیم]

اسلامی میزانیہ (انگریزی:Islamic Budget) قرآن، حدیث اور فقہی اصولوں کے مطابق اسلامی میزانیہ یا بجٹ کو کہا جاتا ہے۔ اسلام ميں بجٹ سازی مغربی معاشی نظام کے بجٹ سازی سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام ميں بجٹ سارے آمدنی کا صحيح تخمينہ لگا کر اس کو مختلف مصارف ميں عادلانہ طور پر خرچ کرنے کو کہتے ہيں۔ لہٰذا اسلام ميں بجٹ کی بنياد آمدنی (income) ہے، جس سے مصارف کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ لہٰذا اسلامی بجٹ اس اصول پر چلتی ہے کہ " جتنی چادر ہو اتنے ہی پاؤں پھيلاو ۔" يعنی جتنی آمدنی ہو اتنا خرچ۔ اس کے برعکس مغربی بجٹ سازی ميں آمدنی کم اور خرچے زيادہ ہوتے ہيں جس کا خسارہ عوام پر زيادہ ٹيکس اور بيرونی اور اندرونی قرضوں کی صورت ميں پورا کيا جاتا ہے۔ ليکن اسلامی بجٹ سازی آسان، سادہ اور مطنقی ہے يعنی خرچ کا دارومدار آمدنی پر ہے۔ لہٰذا اسلامی نظام ميں ميزانيہ Budget) (ہميشہ متوازن یا فاضل Budget) (Surplus ہوتا ہے۔ لہٰذا کسی قرضے يا نئے محصول يا خساراتی تمويل ( يعنی نوٹوں کو زيادہ چھاپنا ) کی ضرورت نہيں ہو گی۔ لہٰذا اسلامی نظام بجٹ موجودہ معاشی نظام کے بھاری قرضوں، افراط زر، گردشی منديوں (Cyclic Depression) اور کسادباری (Recession) کے خلاف ايک محافظ کا کام کرے گا۔ لہٰذا اسلامی بجٹ سازی بنيادی طور پر دو قسم کی ہوگی ايک عمومی بجٹ اور دوسرا فلاحی بجٹ۔ زکوٰۃ، عشر اور صدقات سے آنے والی آمدنی صرف غرباء اور محتاجوں ميں تقسيم ہوگی اور ان کی تفصيل قرآن ميں دی گئی ہے جبکہ دوسرے محصولی اور غير محصولی آمدنی دوسرے کاموں کيلئے خرچ کی جائے گی جو عمومی بجٹ کا حصّہ ہو گی۔ لہٰذا اگر فلاحی بجٹ ميں کمی ہو گی تو اس کا اذالہ عمومی بجٹ سے پورا کيا جائے گا جبکہ اگر عمومی بجٹ میں کمی ہو جائے تو فلاحی بجٹ سے اس کا اذالہ کرنے کی اجازت نہيں ۔[16]

اسلامی تجارت[ترمیم]

اسلامی تجارت (انگریزی:Islamic Trade) قرآن، حدیث اور فقہی اصولوں کے مطابق داخلی اور بین الاقوامی تجارت کو کہا جاتا ہے۔ اسلام ميں تجارت پر خاصہ زور ديا گيا ہے چاہے وہ ملکی ہو يا بين الاقوامی۔
ايک حديث ميں آتا ہے کہ " رزق کے دس ميں سے نو حصّے تجارت ميں ہے ۔" ( کنزالعمال)
مزيد فرمايا کہ " سچے اور امانت دار تاجر کا حشر نبيوں اور صديقوں اور شہيدوں کے ساتھ ہو گا ۔" ( ترمذی )
تجارت ميں ترغيب کے ساتھ ساتھ اسلام تجارت کو دو بڑے حصوں ميں بانٹتا ہيں ايک حلال تجارت اور دوسرا حرام تجارت۔ حرام تجارت ميں سودی تجارت، شراب کی تجارت، سؤر کی گوشت وغيرہ کی تجارت وغيرہ شامل ہيں جبکہ سود، قمار، سٹے بازی اور دھوکا وغيرہ سے پاک تجارت کو حلال تجارت کہا جاتا ہے۔
مسلمان ممالک کے اندر ايک جگہ سے دوسری جگہ سامان تجارت لے جانے پر کوئی محصول وصول نہيں کيا جائے گا۔ اور جيسا کہ اسلام ميں کوئی سرحدات مسلمان علاقوں کے درميان نہيں ہيں لہٰذا تمام اسلامی ممالک کو ايک ہونا چاہيے ليکن موجودہ دور ميں ايسا نہيں لہٰذا مسلمان ممالک کے درميان مال تجارت کی درآمدات و برآمدات پر کوئی محصول وصول نہيں کيا جائے گا۔ اور رہی بات غیر مسلم ممالک سے تجارت کی، تو جو ممالک مسلمان ممالک کی اشياء پر محصول وصول نہيں کريں گے تو ان کے مال تجارت پر محصول وصول نہيں کيا جائے گا اور جوممالک مسلمان ممالک کے مال تجارت پر محصول لگاتے ہيں تو ان ممالک کے مال تجارت پر محصول لگايا جائے گا۔ لہٰذا اسلام کے ملکی اور بين الاقوامی تجارت کی قوانين کے نفاذ سے ملکی اور بين الاقوامی تجارت نہايت سہل ہو جائے گی اور چھوٹے سے چھوٹے تاجر کو اپنا مال دوسرے ممالک کی منڈيوں ميں بيچنے کا موقع مل جائے گا اور بين الاقوامی تجارت ميں بيسوں گنا اضافہ ہو جائے گا جس سے ہر چيز کی قيمت نہايت کم ہو جائے گی ۔[17]

بیت المال[ترمیم]

بیت المال(انگریزی:Public Treasury) کو اسلامی اقتصادی نظام میں حکومتی خزانہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس میں حکومت کا سارا خزانہ حقیقی دولت کی شکل میں محفوظ ہوتا ہے۔ مثلاً سونے کے دینار، چاندی کے درہم، گندم، چاول، تیل وغیرہ۔ جہاں سے حکومت ملکی نظام کو چلانے کے لیے مال استعمال کرے گی۔ حکومت کی ساری محصولی اور غیر محصولی آمدنی بیت المال میں آتی ہے اور یہاں سے ہی سرکاری ملازمین کو نتخواہے دیں جاتی ہیں۔ لہٰذا وادیعہ کے آنے سے بینک کی ضرورت نہیں رہے گی، جب کہ بیت المال کے آنے سے مرکزی بینک کی ضرورت نہیں رہے گی۔[18]

اسلامی محصول( Tax)[ترمیم]

اسلامی محصول( ضریبہTax) وہ محصول ہے جو اسلامی حکومت اپنے رعایا سے لیتی ہیں۔ مغربی نظامِ معیشت میں محصول (Tax) کو خاص مقام حاصل ہے جس میں حکومت غریب عوام کا خون چوستی رہتی ہیں۔ اسلام میں غریب سے کوئی محصول نہیں لیا جائے گا بلکہ امیروں اور دولت مندوں سے محصول، زکوٰۃ کی شکل میں لے کر غریب عوام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی آمدنی کے لیے عُشر، جزیہ، خراج وغیرہ عوام سے اُصول کیا جاتا ہے۔[19][20]

زکوٰۃ: سونے اور چاندی یا تجارتی مال اور پیسے پر سال گزرنے کے بعد ڈھائی (2.5%) فیصد زکوٰۃ واجب الادا ہوتی ہیں، جب یہ مال نصاب کو پہنچ جائے۔ اسی طرح مال مویشی پر زکوٰۃ 1% فیصد سے لے کر 2.5% تک ہیں۔

جزیہ: جزیہ وہ محصول ہے جو اسلامی حکومت غیر مسلموں پر ان کے جان و مال کی حفاظت کے بدلے میں لگاتی ہے۔ رسول صلی اللہ عليہ وسلم اللہ کے زمانے میں یہ ایک دینار یا بارہ 12 دراہم سالانہ تھی، جبکہ حضرت عمر کے دور میں ملکی ضروریات اور محصول کی آمدنی میں بڑوتھری کے پیش نظر مالدارطبقے سے چار دینار، متوسط طبقے پر دو دینار اور نچھلے طبقے سے ایک دینار محصول وصول کیا جاتا۔ اس محصول سے عورتیں، نابالغ بچّے، بوڑھے، بیمار، اندھے یا لنگڑے، غلام، مسکین اور گدا گر، دیوانے اور وہ غیر مسلم جنھوں نے اسلامی فوج میں شمولیت اختیار کی ہو، کو استثناء حاصل ہیں۔

عشر: عشر کے معنی ہے 'دسواں (حصّہ)'۔ یہ ایک زرعی محصول ہے جو صرف مسلمانوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اگر زمین قدرتی منبع سے سیراب ہوتی ہو مثلاً بارش، چشمے، ندی وغیرہ۔ تو اس پیداوار کا دسواں حصّہ (یعنی 10%) محصول کی صورت میں حکومت لے گی جب کہ وہ زمین جو مصنوعی طریقے سے سیراب ہو مثلاً کنویں، ٹیوب ویل وغیرہ تو کل پیداوار کا بیسواں حصّہ (یعنی 5%) عشر کی صورت میں وصول کیا جائے گا۔

خراج: غیر مسلم کے زرعی زمینوں کے پیداوار سے جو محصول وصول کیا جاتا ہے، اسے خراج کہتے ہیں۔

خمس: خمس کے معنی ہے "پانچواں (حصّہ)"۔ مال غنیمت، معدنیات، خزانوں اور سمندر سے نکالے گئے موتیوں پر 20%محصول لگانا خمس میں شامل ہیں۔ یعنی پانچواں حصّہ حکومت کو دینا پڑے گا۔

الفئے  : الفئے کے معنی ہے 'واپس لوٹنا'۔ جب مسلمان کسی ملک یا علاقے کو فتح کرتے ہیں تو اس ملک پر لگائے گئے محصول کو فئے کہاجاتاہے۔ اگر کوئی علاقہ جنگ کے بغیر ہتھیار ڈال دیں، تو ان پر لگائے محصول کو بھی الفئے میں داخل کر دیا جائے گا۔

متفرّق محصولات: ان چھ بڑے محصولات کے علاوہ ضروریات کے تحت آپ دیگر محصولات کی بھی وصولی کر سکتے ہیں۔ مثلاًدر آمدات اور برامدات پر محصول وصول کرنا جو حضرت عمر نے دور میں نافذ ہوا۔ اس کے علاوہ اسلامی خلافت کے آمدنی کے دوسرے بہت سے محصولاتی اور غیر محصولاتی آمدنی ہوتی ہیں۔

اسلامی اصول برائے بنیادی ضروریات زندگی[ترمیم]

عوام کے لیے بنیادیں ضروریات (Basic Needs) زندگی کی فراہمی اسلامی حکو مت کی ذمہ داری ہے مثلاً روٹی، کپڑا، مکان، پانی وغیرہ۔ رسول صلی اللہ عليہ وسلم اللہ کا ارشاد پاک ہے : " کہ اولاد انسان کے لیے اس سے بہتر حق کوئی نہیں ہو سکتا کہ اس کے پاس رہنے کے لیے ایک مکان ہو اور کچھ کپڑا جس سے وہ اپنی ستر کو چھپا سکے اور کچھ روٹی اور کچھ پا نی۔ " [21][22]
آپ نے مزید فرمایا کہ، : "حکومت اس شخص کی نگہبان ہے جس کا کو ئی نگہبان نہیں۔ " [21][23]
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے انسان کی چار بنیادیں ضروریات کا ذکر کیا ہیں جو ان کو ملنی چاہیے، پہلا مکان، دوسرا کپڑا، تیسرا روٹی اور چوتھا پانی۔ کارل مارکس نے صرف پانی نکال کر روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر اشتراکیت کی بنیاد رکھی۔
حضرت علی نے فرمایاکہ :' اللہ نے دولت مندوں(بشمول حکومت ) پر یہ فرض کیا ہے کہ وہ غریبوں کی بنیادی ضروریات کو مہیا کریں۔ اگر یہ بھوکے یابرہنہ یا کسی دوسری معاشی تنگ دستی میں مبتلا ہیں تو یہ صرف اس لیے کہ دولت مند(بشمول حکومت ) اپنا فریضہ پورا نہیں کر رہا ہے۔ اس لیے قیاُمت کے دن اللہ ان سے اس بارے میں پوچھے گا اور اسی کی مطابق سزا دے گا۔ " [22][24]

موجودہ دور میں اس کے نفاذ کا آغاز[ترمیم]

اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کا آغاز دنیا کے مختلف علاقوں میں ہو چکا ہے۔ سونے کے دینار اور چاندی کے درہم جو اسلامی معیشت میں خون کا کام کرتی ہیں، کا آغاز 1992ء میں ہسپانیہ کے شیخ عمر واڈیلو نے کیا۔ جس نے سنتِ رسول صلی اللہ عليہ وسلم ی کو تقریباً ایک صدی بعد پھر زندہ کیا، جس کو ہماری چار نسلیں بھولا چکی تھی اور آپ کی محنت سے 2010ء میں ملائیشیاء کے صوبے کیلانتن (Kelantan) نے طلائی دینار اورنقرئی درہم کو قانونی حیثیت دے دیں اور سرکاری ملازمین کی رضاکارانہ طور پر پچیس فیصد (25%) تنخواہیں دینار و درہم میں دینے شروع کی۔ اس کے بعد 2012ء میں ملائیشیاء کے صوبے پیرک (Perak) نے بھی سونے کے دینار اور چاندی کے درہم کو قانونی حیثیت دے دیں۔ ان کی تقلید میں ملائیشیاء، انڈونیشیاء،فلپائن، سنگاپور، عراق وغیرہ میں طلائی دینار اورنقرئی درہم کا آغاز ہوا۔ حال ہی میں شیخ عمر واڈیلو صاحب پاکستان میں ‘‘شرعی زر’’کو جاری کرنے کے عمل میں مصروف ہیں۔ 2014ء میں کابل، افغانستان میں اس علاقے کا پہلا دینار اور درہم جاری کیا گیا۔
اب رسول اللہ صلی عليہ وسلم کی یہ حیرت انگیز پیش گوئی اور خوش خبری کو سنیے، رسول صلی اللہ عليہ وسلم اسلام کا ارشاد پاک ہے، حضرت ابوبکر بن ابی مریم روایت کر تے ہیں کہ انھوں نے رسول آخر زمان صلی اللہ عليہ وسلم کو یہ کہتے ہو ئے سنا کہ:
" عنقریب بنی نوع انسان پر وہ وقت آنے والا ہے جب دینار (یعنی سونے کا سکّہ) اور درہم (چاندی کا سکّہ) کے علاوہ کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہے گی جو انسانیت کے کام ( نفع) کی ہو گی۔ "[25][26]
یہ بشارت اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ موجودہ فریبی مالیاتی نظام جو اس وقت پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے، ایک دن یقینا تباہ ہو جائے گا۔
سونے کی اہمیت کے پیش نظر امریکا کے ریاست 'یوٹاہ (Utah) نے 2007ء میں سونے کے سکے ّ جاری کر دیے اور اِسے زر قانونی کی حیثیت دی گئی۔ امریکا کی تقریباً دس ریاستیں اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ وہ سونے اور چاندی کو قانونی زر کی حیثیت دے دیں۔ کاغذی کرنسی کی ناکامی کو دیکھتے ہوئے مختلف ممالک نے سونے اور چاندی کے سکے ّ جاری کرنے شروع کر دیے۔ جس میں برطانیہ، جنوبی افریقا، کینیڈا، چین،آسٹریا وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ملائیشیاء میں اوقاف یعنی آزاد بازار کا قیام عمل میں لایا گیا اور پہلے وادیعہ کا قیام اپریل 2013ء میں ملائیشیاء میں لایا گیا۔ اس کے علاوہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر رقوم (شرعی زر) کی منتقلی کے لیے 1999ء میں ای۔ دینار (e–dinar)کا نظام عمل میں لایا گیا۔ جس کی مدد سے دنیا کے کسی کونے میں کوئی بھی دو اشخاص یا تاجر’’شرعی زر’’کو ایک حساب سے دوسرے حساب میں آسانی سے منتقل کر سکتے ہیں۔ جس میں کوئی بینک ملوث نہیں ہوگا۔ دونوں اشخاص e–dinar میں اپنا حساب (Account) کھلوايے گے اور اس ادارے میں بیٹھے وکیل کے توسط سے آپ ایک حساب سے دوسرے حساب میں آسانی سے رقم منتقل کر سکتے ہیں۔ شیخ عمر واڈیلو کی سربراہی میں 1993ء میں ‘‘عالمی اسلامی ٹکسال (World Islamic Mint) کے ادارے کا قیام وجود میں آیا جو ‘‘شرعی زر’’کی خالصیت، وزن، حجم وغیرہ کے معیار کے یقین دہانی قرآن و حدیث کی روشنی میں کرتی ہیں اور اسی معیار کو نظر میں رکھتے ہوئے دنیا کے سارے اسلامی ممالک دینار و درہم کو بناتی ہیں اور انشاء اللہ اسلامی معیشت کے دوسرے ستون مثلاً خان، حرفۃ، بیت المال، حسبۃ، بیت السلم وغیرہ کو بھی جلد ہی عملی صورت پہنائی جائے گی۔
حامیانِ نفاذ: اسلامی اقتصادی نظام کے دوبارہ احیاء و نفاذ کے کئی حامیان ہیں، جس میں شیخ عبدالقادر الصوفی، شیخ عمر واڈیلو،جناب عبد الرحمٰن، شیخ عمران نزار حسین، جناب آصف شیراز، ڈاکٹر احمد کامیل محی الدین میرا، جناب احمد تھامسن، مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا عمران اشرف عثمانی وغیرہ شامل ہیں۔

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "Islamic Economic System Promotes Balance and Sustainability"۔ Green Chip Stocks۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2014  , Retrieved 2014-12-10
  2. "Islam and Economic Justice: A 'Third Way' Between Capitalism and Socialism?"۔ 07 جنوری 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 دسمبر 2014 
  3. How Do We Know Islam Will Solve the Problems of Poverty and Inequality?
  4. The economic system in contemporary Islamic thought: Interpretation and assessment, by Timur Kuran, International Journal of Middle East Studies, 18, 1986, pp. 135–64
  5. The Cambridge economic history of Europe, p. 437. Cambridge University Press, ISBN 0-521-08709-0.
  6. Ibn Khaldun, The Muqaddimah, ch. 3 pt. 34.
  7. Vadillo, Umar Ibrahim. The Return of the Islamic Gold Dinar: A Study of Money in Islamic Law & the Architecture of the Gold Economy. Madinah Press, 2004.
  8. Ferdian, Ilham Reza, Miranti Kartika Dewi, and Faried Kurnia Rahman. "The Practice of Islamic Credit Cards: A Comparative Look between Bank Danamon Indonesia’s Dirham Card and Bank Islam Malaysia’s BI Card." Diakses Pebruari (2012).
  9. Rachmawati, Erna, and Ekki Syamsulhakim. "Factors affecting Mudaraba deposits in Indonesia." Third International Islamic Banking and Finance Conference. 2004.
  10. RachmawatiHaron, Sudin, Norafifah Ahmad, and Sandra L. Planisek. "Bank patronage factors of Muslim and non-Muslim customers." International Journal of Bank Marketing 12.1 (1994): 32-40.
  11. Wahab, Abdul Rahim Abdul. "Takaful Business Models-Wakalah based on WAQF." Second International Symposium on Takaful. 2006.
  12. Annuar, Hairul Azlan, Saiful Azhar Rosly, and Hafiz Majdi Abdul Rashid. "The Impact of the Wakalah System on the Performance of Takaful Business in Malaysia." Source: http://islamiccenter[مردہ ربط]. kau. edu. sa/arabic/Ahdath/Con05/5th% 20conf% 20ppr% 20for% 20Bahrain/The 2 (2005).
  13. Subhi Y. Labib (1969), "Capitalism in Medieval Islam", The Journal of Economic History 29 (1), p. 79-96 [81, 83, 85, 90, 93, 96].
  14. Robert Sabatino Lopez, Irving Woodworth Raymond, Olivia Remie Constable (2001), Medieval Trade in the Mediterranean World: Illustrative Documents, Columbia University Press, ISBN 0-231-12357-4.
  15. Muhammad Sharif Chaudhry (2003)۔ "Fundamentals of Islamic Economic System: Public Ownership"۔ MuslimTents.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2014 
  16. Muhammad Sharif Chaudhry (2003)۔ "Fundamentals of Islamic Economic System: Islamic Budget"۔ MuslimTents.com۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2014 
  17. Muhammad Sharif Chaudhry (2003)۔ "Fundamentals of Islamic Economic System: Islamic Trade"۔ MuslimTents.com۔ 05 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 دسمبر 2014 
  18. Muhammad Sharif Chaudhry (2003)۔ "Fundamentals of Islamic Economic System: Baitul Maal"۔ MuslimTents.com۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2014 
  19. C. Décobert (1991), Le mendiant et le combattant, L’institution de l’islam, Paris: Editions du Seuil, pp 238-240
  20. Elias Shoufani (1973), Al-Riddah and the Muslim Conquest of Arabia, University of Toronto Press, ISBN 978-0-8020-1915-8
  21. ^ ا ب ترمذی
  22. ^ ا ب المحلی الاثار، ابن حزم
  23. ابو داؤد
  24. Muhammad Sharif Chaudhry (2003)۔ "Fundamentals of Islamic Economic System: Social Security"۔ MuslimTents.com۔ 12 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2014 
  25. مشکو ٰہ:کتاب البیوع، حدیث نمبر 2783
  26. مسند احمد، حدیث نمبر 16569