سمیہ بنت خباط

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سمیہ بنت خباط
(عربی میں: سمية بنت خياط ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 550ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 615ء (64–65 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مکہ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات ضرب بدن  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاتل ابوجہل[1]  ویکی ڈیٹا پر (P157) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شوہر یاسر بن عامر  ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد عمار بن یاسر[2]  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سمیہ بنت خباط یا سمیہ بنت خبط

نام و نسب[ترمیم]

ان کا نام سمیہ بنت خباط یا سمیہ بنت خبط تھا ابو حذیفہ بن مغیرہ بن عبد اللہ بن عمرو مخزوم کی کنیز تھیں[3] عمار ابن یاسر کی والدہ ماجدہ کا نام سمیہ بنت (خباط)ابو حذیفہ بن مغیرہ مخزومی کی کنیزہ تھیں۔

نکاح[ترمیم]

یاسر عبسی سے کہ ابو حذیفہ کے حلیف تھے، نکاح ہوا عمار پیدا ہوئے تو ابوحذیفہ نے ان کو آزاد کر دیا۔

قبول اسلام[ترمیم]

مکہ مکرمہ میں سمیہ یاسر اور عمار تینوں نے اسلام قبول کیا، ابوجہل اور دیگر کفارکے ہاتھوں تکلیف اٹھاتیں سمیہ کا اسلام قبول کرنے والوں میں ساتواں نمبر تھا، کچھ دن اطمینان سے گذرے تھے کہ قریش کا ظلم و ستم شروع ہو گیا اور بتدریج بڑھتا گیا، چنانچہ جو شخص جس مسلمان پر قابو پاتا طرح طرح کی دردناک تکلیفیں دیتا تھا۔ سمیہ کو بھی خاندانِ مغیرہ نے شرک پر مجبور کر دیا لیکن وہ اپنے عقیدہ پر نہایت شدت سے قائم رہیں، جس کا صلہ یہ ملا کہ مشرکین ان کو مکہ کی جلتی تپتی ریت پر لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کرتے تھے، لیکن ان کے عزم و استقلال کے چھینٹوں کے سامنے یہ آتش کدہ سرد پڑجاتا تھا۔ آنحضرتﷺ ادھر سے گذرے تو یہ حالت دیکھ کر فرماتے: ’’آلِ یاسر! صبر کرو۔ اس کے عوض تمھارے لیے جنت ہے۔‘‘[4]

شہادت[ترمیم]

اسلام لانے کی وجہ سے مکہ کے کافروں نے ان کو بہت زیادہ ستایا ایک مرتبہ ابو جہل نے نیزہ تان کر ان سے دھمکا کر کہا کہ تو کلمہ نہ پڑھ ورنہ میں تجھے یہ نیزہ مار دوں گا حضرت بی بی سمیہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سینہ تان کر زور زور سے کلمہ پڑھنا شروع کیا ابو جہل نے غصہ میں بھر کر ان کی ناف کے نیچے اس زور سے نیزہ مارا کہ وہ خون میں لت پت ہو کر گر پڑیں اور شہید ہوگئیں۔[5][6] حضرت سمیہ بنت خُبَّاط رضی اللہ تعالیٰ عنہا مظلومانہ شہادت کے علاوہ اور بھی سختیاں جھیل چکی ہیں ان کو گرمی کے وقت سخت دھوپ میں کنکریوں پر ڈالا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کیا جاتا تاکہ دھوپ کی گرمی سے لوہا تپنے لگے۔ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم کا ادھر سے گذر ہوتا تو صبر کی تلقین اور جنت کا وعدہ فرماتے یہاں تک کہ سب سے بڑ ے دشمن اسلام ابو جہل کے ہاتھوں ان کی شہادت ہوئی۔[7]

غزوہ بدر میں جب ابوجہل مارا گیا، تو آپﷺ نے عمار سے فرمایا "دیکھو تمھاری ماں کے قاتل کا خدا نے فیصلہ کر دیا۔"[8]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. عنوان : Абу Джахль
  2. عنوان : Аммар ибн Йасир
  3. الاصابہ فی تمیز الصحابہ،جلد 8 صفحہ 235،مکتبہ رحمانیہ لاہور
  4. سیر الصحابیات، مؤلف، مولانا سعید انصاری 87،مشتاق بک کارنر لاہور
  5. الاستیعاب ،کتاب النساء ،باب السین3421،سمیۃ ام عمار بن یاسر،ج4،ص419
  6. جنتی زیور،عبد المصطفٰی اعظمی،صفحہ508،ناشرمکتبۃ المدینہ باب المدینہ کراچی
  7. اسدالغابۃ،ج7،ص167
  8. اصابہ ج8 ص114