زین العابدین ابن نجیم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
زین العابدین ابن نجیم
معلومات شخصیت
وفات سنہ 1563ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قاہرہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فقیہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شیخ زين الدين بن ابراہيم بن محمد المعروف بابن نُجَيْم (926ھ-970ھ) فقہ حنفی کے صاحب اصول اور صاحب تالیف ہیں۔

نام[ترمیم]

علامہ زین العابدین یا زین الدین بن ابراہیم بن محمد بن محمدبن بکر المصری الحنفی ہے۔ آباء واجداد میں کسی کا نام نجیم تھا اس وجہ سے ان سے منسوب ہوکر ابن نجیم کہلائے۔

ولادت[ترمیم]

ان کی ولادت 926ھ میں قاہرہ میں ہوئی۔فقہ حنفی کے بہت بڑے فقیہ ہیں اصول فقہ کے بڑے ماہر ،عالم محقق اور کثیر التصانیف ہیں

حصول علم[ترمیم]

آپ نے قاہرہ کے علما سے تحصیل علم کی۔ ساری عمر درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں مصروف رہے۔ اور خلقِ خدا نے آپ سے فائدہ اٹھایا۔ آپ علم و فضل میں اونچے مقام پر تھے۔ علم و فضل میں اونچے مقام پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ آپ خُلقِ عظیم کے زیور سے خوب آراستہ تھے۔ آپ فقیہ، اصولی اور محقق عالم تھے۔

اساتذہ[ترمیم]

آپ نے علماِ قاہرہ سے کسبِ فیض کیا۔ آپ کے فقہ کے اساتذہ میں شیخ امین الدین ابن عبد العال الحنفی (م968ھ)، شیخ قاسم بن قطلوبغا، برہان الدین الکرکی، شیخ ابو الفیض السلمی، شیخ شرف الدین البلقینی اور شیخ الاسلام احمد بن یونس المصری الحنفی الشہیر بابن الشلبی (م947ھ)شامل ہیں۔ جبکہ علومِ عربیہ و عقلیہ کی تحصیل شیخ نور الدین الدیلمی المالکی اور شیخ شقیر المغربی وغیرہ سے کی۔ اساتذہ نے آپ کو درس وتدریس اور افتاء کی اجازت دی تھی اور یوں آپ نے اپنے اساتذہ کی حیات ہی میں درس وتدریس اور افتاء کی ذمہ داریاں بحسن و خوبی سر انجام دیں۔

شاگرد[ترمیم]

ان کے شاگردوں میں ان کے چھوٹے بھائی الشیخ العلامۃ سراج الدین عمر بن إبراہیم بن محمد ابن نجیم (م1005ھ) صاحبِ النہر الفائق شرح کنز الدقائق، علّامۃ شمس الدین أبو عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن أحمد الخطیب بن محمد الخطیب بن إبراہیم الخطیب الغزی التمرتاشی صاحبِ تنویر الأبصار، الشیخ محمد العلمی سبط ابن أبی شریف المقدسی، محمد بن عبد اللہ العربی الحنفی ا ورالشیخ عبد الغفار مفتی القدس شامل تھے۔

علم باطنی[ترمیم]

طریقت کا علم شیخ عارف باللہ سلیمان حصیری سے حل کیا،آپ کو حل مشکلات قوم میں بڑا ذوق تھا۔ عارف شعرانی کا قول ہے کہ میں نے دس سال آپ کی مصاحبت کی مگر کوئی عیب کی بات آپ میں نہ دیکھی اور 953ھ میں آپ کے ساتھ حج کیا سو آ پ کو اپنے جیران وغلمان کے حق میں جاتے آتے بڑا خلیق و شفیق پایا حالانکہ آدمی کے اخلاق سفر میں بدل جاتے ہیں۔

تصنیفات[ترمیم]

ان کی بہت سی تصانيف، میں سے چند ایک یہ ہیں

  • الأشباہ والنظائر فی اصول الفقہ،
  • البحر الرائق شرح كنز الدقائق آٹھ جلدوں میں،
  • الرسائل الزينيۃ 41 رسالۃ فی مسائل فقہيۃ،
  • اورالفتاوى الزينيۃ ہیں۔( الأعلام للزركلي)[1]
  • التحفۃ المرضيہ فی الأراضی المصریہ
  • تعليق الأنوار على أصول المنار للنسفی
  • حاشیہ على جامع الفصولين فی الفقہ الحنفي
  • لب الأصول مختصر تحرير الأصول لابن الهمام
  • الفوائد الزينية في الضوابط والاستثناءات
  • فتح الغفار بشرح المنار المعروف بمشكاة الأنوار في أصول المنار

وفات[ترمیم]

وفات آپ کی بقول سید احمد حموی اور مصنف رسائل زینیہ؍ماہ رجب 970ھ بمطابق 1562ء میں ہوئی۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. موسوعۃ فقہیہ، جلد 1 ،صفحہ 441 ،جینوین پبلیکیشنز نیو دہلی انڈیا
  2. معجم المؤلفین