پاکستان قونصلیٹ بریڈفورڈ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


پاکسان قونصلیٹ کے دفتر سے قبل اکتوبر 1961 میں حکومت پاکستان نے ایک ویلفئیر آفیسر مسٹر ہوگن کو تعینات کیا۔ پاکسان قونصلیٹ بریڈفورڈ کا قیام باقاعدہ طور پر 1962 میں سن برج روڈ پر عمل میں آیا۔ چوہدری فضل حسین کو پہلا قونصلر نامزد کیا گیا جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ کچھ عرصہ بعد جب آصف مجید نامی شخص قونصلر بنا تو اس نے دفتر کو لیڈز منتقل کر دیا۔ بعد ازاں ذو الفقار شاہ قونصلر جنرل بنائے گئے تو انھوں نے قونصلیٹ کو ایک بار پھر بریڈفورڈ کی چیپ سائڈ روڈ منتقل کر دیا۔

بریڈفورڈ قونصلیٹ کی موجودہ عمارت[ترمیم]

بریڈفورڈ قونصلیٹ کی موجودہ عمارت لیڈز روڈ کے علاقے لیسٹر ڈائک میں ایک پرانی اور انتہائی خستہ حال عمارت میں ہے۔ یہ عمارت دراصل پرانے وقتوں میں ایک مل تھی۔ جب پاکستان قونصلیٹ کی عمارت مل میں منتقل ہوئی تو یہ پاکستانیوں کے لیے باعث ندامت تھی چونکہ عمارت انتہائی خراب حالت میں تھی، اندرونی کیفیت کا عالم یہ تھا کہ فرش پر گندے لکڑی کے تختے تھے۔ عمارت رنگ و روغں سے بھی محروم تھی اور مہمانوں اور کسٹمرز کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں تک نہ تھی۔

قونصلر ذو الفقار شاہ[ترمیم]

اس وقت کے قونصلر ذو الفقار شاہ نے عمارت کو انتہائی مہنگے کرایہ پر حاصل کیا جس کے پندرہ سالہ معاہدے میں یہ بھی درج تھا کہ اگر حکومت پاکستان عمارت کو چھوڑنا چاہے تو اسے پندہ سال کا بقیہ کرایہ ادا کرنا ہوگا۔ شہر کے پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ خستہ حال اور بدحال عمارت کا انتہائی مہنگے داموں کرایہ پر لیا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس میں بے انتہا کرپشن ہوئی ہے۔ قونصلر ذو الفقار شاہ شہر کے کلبوں اور جوئے خانوں میں باقاعدگی کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ ذو الفقار شاہ وہ واحد قونصلر ہے جو شہر میں دو مرتبہ تعینات ہوا۔ قونصلر کی بدعنوانیاں زبان زد عام تھیں۔ ضیاء الحق کی ناگہانی موت کے بعد وہ پیپلز پارٹی کی نئی حکومت میں ایک بار پھر قونصلر نامزد کر دیا تھا۔ موصوف کے بچے اس وقت بھی برطانیہ میں ہی مقیم ہیں مگر وہ خود روس میں پاکستانی سفیر کے طور پر متعین ہیں۔

قونصلیٹ کی تزئین و آرائش[ترمیم]

بریڈفورڈ کے پاکستانیوں نے وطن کی عزت کی خاطر قونصلیٹ کی عمارت کی تزئین و آرائیش اپنے ذمہ لی اور اپنے جیب چالیس ہزار پائونڈ سے زائد کی رقم خرچ کرکے اسے قابل استعمال بنایا۔ ان عطیہ دہندگان میں شہر کے معروف پاکستانی و کشمیری تاجر حاجی مصدق حسین، حاجی نذیر حسین اور تین چار دیگر افراد شامل تھے۔ نصف رقم حاجی مصدق نے خرچ کی تھی۔ قونصلیٹ عمارت کی تزئین و آرائش کا یہ عالم تھا کہ جب جنرل پرویز مشرف نے فوجی بغاوت کے ذریعے حکومت پر 1999 میں قبضہ کیا تو قونصل کے دفاتر کے خامتے کا اعلان کیا تو بریڈفورڈ کا دفتر اس سے مستثنٰی تھا چونکہ یہ عمارت مقامی کمیونٹی نے بنائی تھی۔

قونصلیٹ میں بدعنوانیاں[ترمیم]

روز اول ہی سے پاکستان قونصلیٹ بدعنوانیوں کا گڑھ رہا ہے۔ ابتدائی ادوار میں صحافیوں کی جانب سے بدعنوانیوں کی خبریں منظر عام پر آیا کرتیں مگر بعد ازاں افسران نے مقامی صحافیوں سے کچھ ایسے روابط قائم کرلیے کہ ان کے خلاف خبروں کی اشاعت ناممکن ہو گئی۔ آج کل قونصلر طارق اقبال سومرو ہیں جنہیں جنرل (ر) مشرف کی وفاداری کے عوض قونصلر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔