حائر حسینی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مزار حسین کا خط الوقت[1]
61ھ‍ (12 محرم) سب سے پہلے امام حسین علیہ السلام کا مزار بنانے والے بنو اسد تھے۔
65ھ‍ امیر مختار نے مزار پر اینٹوں اور چونے کا گنبد تعمیر کروایا۔
132ھ‍ ابو العباس سفاح نے مرقد کے ساتھ ایک سرپوشیدہ عمارت بنوائی۔
146ھ‍ ابو جعفر منصور نے اس عمارت کو ویران کیا۔
158ھ‍ مہدی عباسی نے اس کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
171ھ‍ ہارون الرشید نے عمارت کو ویران کیا اور قریب ہی بیری کا درخت بھی کٹوا دیا۔
193ھ‍ امین نے حرم کی عمارت کو از سر نو تعمیر کیا۔
236ھ‍ متوکل عباسی نے عمارت کو ویران کردیا اور زمین میں ہل چلوایا۔
247ھ‍ منتصر عباسی نے بلڈنگ کی تعمیر نو کروائی؛ علویوں اور سب سے پہلے سید ابراہیم مجاب نے مرقد امام(ع) کے اطراف میں سکونت کا آغاز کیا۔
273ھ‍ تحریک طبرستان کے قائد محمد بن محمد بن زید کے ہاتھوں حرم کی تعمیر نو۔
280ھ‍ علوی داعی نے قبر کے اوپر ایک گنبد بنوایا۔
367ھ‍ عضد الدولہ دیلمی نے حرم کے لئے ایک گنبد، چار ڈیوڑھیوں اور ہاتھی دانت سے بنی ضریح کی تعمیر کا اہتمام کیا اور شہر کے لئے برجوں اور فصیل کا انتظام کیا۔
397ھ‍ عمران بن شاہین، نے رواق سے متصل اپنے نام پر ایک مسجد تعمیر کی۔
407ھ‍ دو شمعیں گرنے کی وجہ سے حرم آگ میں جل گیا، وزیر حسن بن سہل نے حرم کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
479ھ‍ ملک شاہ سلجوقی، نے حرم کے اطراف کی دیوار کی مرمت کروائی۔
620ھ‍ ناصر لدین اللہ عباسی، نے مرقد امام(ع) کے لئے ایک ضریح بنوائی۔
767ھ‍ سلطان اویس جدایری نے اندرونی گنبد بنوایا اور قبر شریف کے گرد ایک صحن قرار دیا۔
786ھ‍ سلطان احمد اویس، نے حرم کے لئے دو سنہرے گلدستے قرار دیئے اور صحن کی توسیع کا اہتمام کیا۔
914ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی حرم کے کناروں پر سونے کا کام کروایا اور سونے کے 12 چراغدان حرم کو بطور عطیہ پیش کئے۔
920ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی، نے ساج کی قیمتی لکڑی کا ایک صندوق ضریح کے لئے بنوایا
932ھ‍ شاہ اسماعیل صفوی دوئم نے چاندی کی جالیدار اور خوبصورت ضریح حرم کو بطور عطیہ پیش کی۔
983ھ‍ علی پاشا، شہرت "وند زادہ" نے گنبد کی تعمیر نو کا اہتمام کیا۔
1032ھ‍ شاہ عباس صفوی نے تانبے کی ضریح بطور عطیہ پیش کی اور گنبد پر کاشی کاری کا کام کروایا۔
1048ھ‍ سلطان مراد چہارم (عثمانی) نے حکم دیا کہ حرم کو باہر سے چونا لگا کر سفید کیا جائے۔
1135ھ‍ نادر شاہ افشار کی زوجہ نے حرم امام (ع) کی وسیع تعمیر نو کی غرض سے بہت سے اموال حرم کو بطور عطیہ پیش کئے۔
1155ھ‍ نادرشاہ افشار نے موجودہ عمارتوں کی تزئین کا اہتمام کیا اور حرم کے گنجینے کو بیش بہاء عطیات پیش کئے۔
1211ھ‍ آقا محمد خان قاجار نے طلائی گنبد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔
1216ھ‍ نو ظہور وہابی مذہب کے پیروکاروں نے کربلا پر حملہ کیا، ضریح اور رواق کو ویراں کردیا اور حرم کے اموال کو لوٹ کر لے گئے۔
1227ھ‍ فتح علی شاہ قاجار، نے عمارت کی تعمیر نو اور گنبد پر لگے طلائی اوراق کی تبدیلی کا حکم دیا۔
1232ھ‍ فتح علی شاہ قاجار نے چاندی کی ضریح بنوائی اور ایوانوں پر سونے کا کام کروایا۔
1250ھ‍ فتح علی شاہ قاجار نے گنبد و بارگاہ کی تعمیر نو کا اہتمام کیا اور حضرت غازی عباس کے مزار پر بھی گنبد تعمیر کیا۔
1273ھ‍ ناصر الدین شاہ، نے گنبد کی تعمیر نو اور طلاکاری کی مرمت کروائی۔
1418ھ‍ انتفاضۂ شعبانیہ میں صدام نے گنبد کو توپوں کا نشانہ بنایا اور طلا کاری کا ایک حصہ منہدم ہوگیا۔
1428ھ‍ صحن کو جدید انداز سے مسقف کیا گیا۔
1431ھ‍ حرم حضرت غازی عباس (ع) کے گلدستوں پر طلا کاری کا کام کیا گیا۔


حائر حسینى کربلا میں مدفون شیعیان اہل بیت(ع) کے تیسرے امام امام حسین علیہ السلام کے روضے اور اس کے ارد گرد علاقے کا نام ہے۔ سب سے پہلے یہ لفظ امام صادق(ع) نے زیارت امام حسین(ع) کی فضیلت و ثواب بیان کرتے ہوئے، قبر امام(ع) اور اس کے ارد گرد کے محصور علاقے کو حائر کا نام دیا۔ رفتہ رفتہ یہ لفظ شیعیان اہل بیت(ع) کے ہاں رائج ہوا اور حرم امام حسین(ع) اور اس کی حدود کو حائر حسین اور حائر حسینی کہا جانے لگا۔ حرم حسینی اور تین دیگر مقامات یعنی حرم مکی، حرم نبوی اور مسجد کوفہ کے لیے خصوصی احکامات ہیں جیسے ان کا تقدس اور احترامات نیز مسافر ان مقامات پر 10 دن سے کم قیام کی صورت میں بھی پوری نماز ادا کر سکتا ہے؛ یہی نہیں بلکہ یہاں پوری نماز ادا کرنا مستحب یعنی بہتر قرار دیا گیا ہے۔

حائر کے لغوی معنی[ترمیم]

حائر کے معنی حیران و سرگردان کے ہیں۔ ایسا مقام جس کا درمیانی حصہ ہموار اور چاروں اطراف سے بلند ہو اور اس میں جمع ہونے والے پانی کے لیے نکاسی کا راستہ نہ ہو تو اسے بھی "حائر" کہتے ہیں۔ زمین کربلا کے ناموں میں سے ایک نام "حائر" بھی ہے۔[2] اس مقام سے منسوب افراد حائری کہلاتے ہیں۔[3]

وجہ تسمیہ[ترمیم]

اس مقام کے حائر کہلانے اور اس لفظ کے رائج ہونے کے اسباب کے بارے میں کئی اقوال ہیں اور سب سے مشہور قول یہ ہے کہ جب متوکل عباسی (حکومت 232 تا 247 ھ) نے حکم دیا کہ قبر کے اوپر بنی عمارت کو منہدم کر کے، اس زمین پر پانی چھوڑ دیا جائے چنانچہ پانی قبر کے قریب رک گیا اور قبر پانی میں نہ ڈوبی (حارَ الماءُ) اور اسی بنا پر یہ مقام حائر کہلایا،[4] لیکن بعض مصنفین نے اس قول کو قبول نہیں کیا ہے کیونکہ امام صادق(ع) نے متوکل عباسی کی پیدائش سے برسوں قبل اس مقام کو حائر کا نام دیا تھا۔[5] دوسرا قول یہ ہے کہ دوسری صدی ہجری کے آغاز میں مرقد مطہر کے گرد ایک دیوار تعمیر کی گئی تھی اور اس دیوار کے اندر کے حصہ کو حائر کہا گیا اور لگتا ہے کہ یہ دیوار امویوں نے بنائی تھی تاکہ زائرین کی تلاشی لینا اور ان کی نگرانی کرنا، آسان ہو۔ تیسرا قول یہ ہے کہ یہ علامتی اور رمزی سا لفظ بروئے کار لایا گیا کیونکہ یہ لفظ امویوں کی توجہ کم ہی زائرین کی نسبت کی جانب مبذول کرتا تھا۔[6] یا پھر اس لیے اس کو حائر کہا گیا کہ اس کے لغوی معنی اس زمین سے مطابقت رکھتے ہیں۔ آج کل امام حسین(ع) کا مدفن "حرم حسینی" اور "روضۂ حسینی" کے نام سے معروف ہے۔[7]

پہلا استعمال[ترمیم]

حسین بن ثویر بن ابی فاختہ کہتے ہیں: امام صادق(ع) نے مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے حسین! جو اپنے گھر سے نکل کر قبر حسین بن علی علیہما السلام کی زیارت کا عزم کرے اگر پائے پیادہ ہو تو خداوند متعال اس کو ہر قدم کے بدلے ایک حسنہ یعنی نیکی عطاء کرتا ہے اور ایک گناہ اس کے نامۂ اعمال سے مٹا دیتا ہے حتی کہ حائر میں پہنچ جائے۔

زیارت حسین (ع) کا ثواب
قال الإمام الصادق(ع): مَنْ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ يُرِيدُ زِيَارَةَ قَبْرِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ ص إِنْ كَانَ مَاشِياً كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَى عَنْهُ سَيِّئَةً ، حَتَّى إِذَا صَارَ فِي الْحَائِرِ كَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْمُصْلِحِينَ الْمُنْتَجَبِينَ، حَتَّى إِذَا قَضَى مَنَاسِكَهُ كَتَبَهُ اللَّهُ مِنَ الْفَائِزِينَ ، حَتَّى إِذَا أَرَادَ الِانْصِرَافَ أَتَاهُ مَلَكٌ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ص يُقْرِؤُكَ السَّلَامَ وَ يَقُولُ لَكَ: اسْتَأْنِفِ الْعَمَلَ فَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا مَضَى۔
ترجمہ: امام صادق(ع) نے فرمایا: جو شخص گھر سے نکلا اور اس کا ارادہ مزار حسین بن علی علیہما السلام کی زیارت ہے، اگر وہ پائے پیادہ ہو تو خداوند متعال ہر قدم کے بدلے اس کو ایک حسنہ (یعنی نیکی) عطاء کرے گا اور اس کا گناہ محو کرے گا (یعنی نامہ اعمال سے مٹا دے گا)؛ حتی کہ وہ حائر میں پہنچتا ہے تو خداوند متعال اس کو نیکوکاروں، مصلحین اور پسندیدہ و برگزیدہ افراد کے زمرے میں لکھ دیتا ہے؛ جب مناسک و اعمال کو مکمل کرتا ہے خداوند متعال اس کو فائزین (کامیاب افراد) زمرے میں قرار دیتا ہے، حتی کہ واپسی کا ارادہ کرتا ہے تو ایک فرشتہ آتا ہے اور کہتا ہے: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، تم پر سلام کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: "اپنے اعمال کے ابتدا سے شروع کرو؛ تمھارے تمام سابقہ گناہ بخش دیے گئے"۔۔[8]۔[9]۔[10]۔[11]۔[12]

ابن طاؤوس،كامل الزيارات ص132۔

سب سے پہلے لفظ حائر زیارت امام حسین(ع) کی زیارت کے آداب و فضائل کے سلسلے میں امام صادق(ع) سے منقولہ حدیثوں میں استعمال ہوا ہے[13] اور اس کا اطلاق مرقد منور کے محصور احاطے پر ہوا۔[14] رفتہ رفتہ یہ اصطلاح شیعیان اہل بیت(ع) کے درمیان رائج ہوئی اور مذکوہ مرقد اور اس کے ارد گرد کی حدود کو حائر حسین اور حائر حسینی کہا جانے لگا۔[15]

شیعہ کے نزدیک[ترمیم]

حرم حسینی شیعیان اہل بیت(ع) کے نزدیک بہت زیادہ حرمت کا حامل ہے۔ آئمۂ معصومین علیہم السلام دشواریوں اور حکام وقت کے شدید دباؤ اور سخت گیریوں کے باوجود کربلا کی فضیلت اور حائر حسینی کی رفیع منزلت بیان کرکے لوگوں کو اس کی زیارت اور تکریم و تعظیم کی رغبت دلاتے تھے۔ متعدد احادیث میں، اخروی اجر و ثواب اور حرم امام حسین(ع) کی زیارت کے آثار کے علاوہ، حرم میں حاضری کے آداب اور آنجناب کے مزار کی زيارت کے طریقے بھی تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔[16]

احاطہ حرم[ترمیم]

امام صادق(ع) سے منقولہ احادیث کے مطابق، حرم کی حدود مختلف طریقوں سے معین کی گئی ہیں جن میں فرسخ اور ذراع کو بھی معیار قرار دیا گیا ہے۔[17] ان بظاہر متعارض احادیث کو جمع کرکے کہا گیا ہے کہ ان احادیث میں معین کردہ تمام مقامات حرم کے احاطے میں آتے ہیں اور لائق احترام ہیں؛ تاہم فضیلت کے مراتب مختلف ہیں؛ جو مقام، امام (ع) کے مدفن کے قریب تر ہو اس کی حرمت و شرافت بیش تر ہے۔[18] حرم کی حدود کے لیے کم از کم فاصلے مدفن امام(ع) سے 20 سے 25 ذراع تک ہیں، اس بنا پر حائر کا تقریبی قطر 22 میٹر قرار دیا گیا اور یوں حائر کی حدود ایک طرف سے امام صادق(ع) کے زمانے میں مدفن کے ارد گرد کے احاطے سے اور دوسری طرف سے ان اقوال سے، مطابقت رکھتی ہیں جن میں مقام شہادت (مشہد)، مسجد اور مرقد کو حرم اور حائر سمجھتے ہیں۔[19]

نماز کا فقہی حکم[ترمیم]

حائر حسینی کی حدود کا تعین اس لیے اہم ہے کہ اس کے لیے ـ بالخصوص نماز مسافر کے موضوع میں ـ خاص فقہی حکم وارد ہوا ہے اور وہ حکم حرم مکی، حرم نبوی اور مسجد کوفہ کے لیے مختص احکام میں سے بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ 10 دن سے کم قیام کرنے والے مسافر کے لیے صرف ان مقامات مقدسہ میں پوری نماز پڑھنا نہ صرف جائز، بلکہ مستحب ہے۔ یہ امامیہ کا مشہور فتوی ہے، گو کہ نماز قصر پڑھنا بھی ایسے فرد کے لیے جائز ہے۔۔[20][21]

جن احادیث کی بنیاد پر یہ فقہی حکم صادر ہوا ہے، ان میں بیان ہوا ہے کہ جن حدود میں زائرین امام حسین(ع) کے لیے پوری نماز پڑھنا جائز ہے اس کو حرم، حائر یا مدفن کے پاس ("عِندَ القَبرِ")، کے جیسے عناوین دیے گئے ہیں۔۔۔۔[22][23] بعض فقہا[24][25] نے حائر کی حدود کے لیے مرکزی نقطے (قبر امام(ع) سے ) کئی فرسخ کے فاصلے پر دلالت کرنی والی احادیث سے استناد کرتے ہوئے پورے شہر کربلا کو حائر ـ اور اس حکم کا مصداق ـ قرار دیا ہے؛ لیکن فقہا کی اکثریت نے اس حکم کو صرف حائر حسینی کے مفہوم خاص ـ یعنی حرم کے اہم ترین قریبی حصے ـ کی حد تک قبول کیا ہے۔[26][27] البتہ حائر کی دقیق اور صحیح حدود کے سلسلے میں ان کی آراء و اقوال میں فرق ہے، جیسے:

  1. حضرت عباس(ع) کے حرم کے علاوہ امام حسین(ع) کا مرقد منور اور دوسرے شہداء کے مراقد حائر کی حدود میں شامل ہیں آج کل یہ احاطہ حرم کہلاتا ہے۔۔[28][29]
  2. صفوی دور کے توسیعی اقدامات سے پہلے حرم اور صحن کا حصہ حائر میں شامل ہے ۔۔[30][31]
  3. بعض فقہا احتیاط کی بنا پر، صرف روضۂ مقدس ہی کو حائرقرار دیتے ہیں اور حتی کہ رواق میں موجود مسجد کو بھی حائر کا حصہ نہیں سمجھتے۔ پوری نماز کے اس مخصوص حکم میں روزہ کا قصر ہونا شامل نہیں ہے۔۔[32][33]
  4. ضریح مطہر کے اطراف۔۔۔[34][35][36]

تعمیر حرم کی مختصر تاریخ[ترمیم]

امام حسین علیہ السلام کے مزار اقدس پر عمارت کی تعمیر کا تعلق آپ(ع) کی شہادت کے فورا بعد کے ایام سے ہے اور روایات میں ہے کہ سنہ 65 ھ تک قبر مطہر پر صندوق رکھا گیا تھا اور اوپر چھت تعمیر کی گئی تھی؛ تاہم بظاہر حائر حسینی پر سب سے پہلا بقعہ مختار ابن ابی عبیدہ ثقفی (مقتول بسال 67 ھ) کے زمانے میں ـ امام حسین علیہ السلام کی خونخواہی کے لیے شروع کی جانے والی تحریک میں ان کی کامیابی کے بعد ـ (بسال 66 ھ) تعمیر ہوا ہے۔ اینٹوں کی اس عمارت پر ایک گنبد بنا ہوا تھی اور اس کے دو دروازے تھے۔۔[37][38] دوسرے شہدائے کربلا کا مقبرہ عمارت کے باہر واقع ہوا تھا[39] مرقد امام حسین(ع) کی زيارت کے آداب و فضائل کے سلسلے میں امام صادق(ع) سے منقولہ بعض احادیث[40] معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمارت آپ(ع) کے دور تک موجود تھی۔[41]

بعد کے ادوار میں افراد یا حکومتوں نے حرم و حائر میں متعدد تعمیراتی کام کیے، نئے صحن اور رواق تعمیر کیے مسجد تعمیر کی اور مدفن کے لیے صندوق اور ضریح کا اتنظام کیا نیز اطراف حرم بنے ہوئے حصار کی تعمیر نو، احاطے میں پتھروں کے بنے ہوئے فرش کی تبدیلی، گنبد کی مرمت اور اس پر سونے کا پانی چڑھانا، میناروں، دیواروں اور رواقوں کی سونے، کاشی[42] اور آئینوں سے تزئین اور حرم کے لیے قالینوں کے تحائف دینا اور اس کے لیے پانی کا مخزن تعمیر کرنا، ان کے ان اقدامات میں سے ہیں۔[43]

حکومتوں کی روش[ترمیم]

حائر حسینی کی تعمیر یا انہدام کے سلسلے میں حکومتوں کی روش یکسان نہ تھیں۔ مثال کے طور پر امویوں کے دور میں زائرین امام حسین علیہ السلام کے خلاف تشدد آمیز رویوں اور سخت گیریوں کے باوجود۔[44] حائر کو کبھی منہدم نہیں کیا گیا[45] لیکن بعض عباسی خلفاء، منجملہ ہارون الرشید اور متوكل عباسی، نے کئی بار حائر پر تعمیر شدہ عمارت کو منہدم کیا تاکہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کے آثار مٹ جائیں اور لوگ وہاں زيارت کے لیے نہ آئیں۔ متوکل نے اس غرض سے حکم دیا ہے حائر کی زمین میں ہل چلایا جائے اور مقبرے پر پانی چھوڑ دیا جائے۔[46][47] ان کے مقابلے میں آل بویہ، آل جلائریہ، صفویہ اور قاجاریہ کے ادوار میں حرم حسینی کی توسیع و تزئین کے لیے بنیادی اقدامات عمل میں لائے گئے۔[48] تخریب و انہدام کا تازہ ترین اقدام اس وقت انجام پایا جب وہابیوں نے سنہ 1216 ھ میں کربلا پر حملہ کیا۔ اس حملے میں شہر کے باشندوں اور زائرین حسینی کا قتل عام کیا گیا، حائر حسینی کو منہدم کیا گیا اور اموال کو لوٹ لیا گیا۔[49] محمد سماوى (وفات 1371ھ) اپنی کتاب "مجالى اللُطف بأرض الطَّف"، نے حائر حسینی کی تخریب و تعمیر کے مختلف مراحل کو منظوم کیا ہے۔[50]

شیعیان اہل بیت کا کربلا میں قیام[ترمیم]

آئمۂ معصومین(ع) کی طرف سے حائر حسینی کی تعظیم و تکریم پر تاکید اور مستنصر عباسى (حکومت: 247 تا 248 ھ) کے دور میں کسی حد تک زیارت امام حسین علیہ السلام کی آزادی، کے باعث علویوں میں سے ایک جماعت نے حائر حسینی کے ارد گرد سکونت اختیار کی جن میں سے پہلے امام کاظم(ع) کے پوتے ابراہیم مُجاب، بن محمد عابد تھے۔ ابراہیم مجاب کا مزار حرم کے مغربی رواق میں ہے۔۔۔[51][52] ان کے بیٹے محمد حائری کربلا کے خاندان سادات آل فائز کے مورث اعلی ہیں اور اس خاندان کے بعض افراد حرم حسینی کے متولی بھی رہے ہیں۔[53][54]

علاوہ ازیں حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام کے آفیشل ویب گاہ پر حائر حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام کے متعلق مزید معلومات حاصل کرسکتے ہیں [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. راہنمای مصور سفر زیارتی عراق، ص244-246.
  2. ابن منظور؛ طریحى؛ زبیدى، ذیل «حیر»
  3. كلیدار، تاریخ كربلاء و حائرالحسین(ع)، ص26
  4. شہید اول، ذكری‌الشیعۃ فى احكام الشریعۃ ج4، ص291
  5. طہرانى، شفاء الصدور فى شرح زیارۃ العاشور، ص294
  6. بستان آبادى، شہر حسین(ع) یا، جلوہ گاه عشق، ص174ـ175
  7. كلیدار، تاریخ كربلاء و حائرالحسین(ع)، ص73
  8. سید ابن طاؤوس، اقبال الاعمال، ص253۔
  9. صدوق، ثواب الاعمال ص117۔
  10. طوسی، تہذيب الاحکام، ج6 ص43۔
  11. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج14 ص439۔
  12. مجلسی، بحار الانوار، ج101 ص72۔
  13. ابن‌قولویه، كامل الزیارات، ص254ـ255، 358ـ362
  14. كرباسى، تاریخ‌المراقدالحسین و اهل‌بیته و انصاره ج1، ص259
  15. كلیدار، تاریخ كربلاء و حائرالحسین(ع)، ص71ـ72
  16. مفید، كتاب‌المزار، ص44ـ62، 64ـ82
  17. ابن قولویہ، كامل الزیارات، ص456ـ458
  18. طوسی،تہذیب الاحكام ج6، ص81ـ82
  19. كلیدار، تاریخ كربلاء و حائرالحسین(ع)، ص51ـ52، 58ـ60۔
  20. شہید ثانى، الروضۃ البہیۃ فى شرح اللمعۃ الدمشقیۃ ج1، ص787ـ788۔
  21. طباطبائى یزدى، العروۃ الوثقى ج2، ص164۔
  22. بروجردى، مستند العروۃ الوثقى ج8، ص418ـ419۔۔
  23. حرّعاملى، وسائل الشیعہ، ج 8، ص524، 527ـ528، 530ـ532
  24. ابن سعید، الجامع للشّرائع، ص93۔
  25. نراقى، مستند الشیعۃ فى احكام الشریعۃ ج8، ص313، 317
  26. بحرانى، الحدائق النّاضرۃ فى احكام العترۃ الطاهرۃ ج11، ص462۔
  27. نراقى، مستند الشیعۃ فى احكام الشریعۃ ج8، ص313ـ314
  28. مفید، الارشاد ج2، ص126۔
  29. حلّى، السرائر ج1، ص342
  30. مجلسى، بحار، ج 86، ص89ـ90۔
  31. كلیدار، تاریخ كربلاء و حائرالحسین(ع)، ص53ـ54۔
  32. مجلسى، بحار، ج 86، ص89۔
  33. خمینى، تحریرالوسیلہ ج1، ص233۔
  34. طباطبائى یزدى، تحریر الوسیلہ، ج 2، ص164ـ165۔
  35. بروجردى، مستند العروۃ الوثقى ج8، ص419ـ420، 425ـ 426۔
  36. نراقى، مستند الشیعۃ فى احكام الشریعۃ ج8، ص419ـ420، 425ـ 426۔
  37. كرباسى، تاریخ المراقد الحسین و اہل بیتہ و انصارہ ج1، ص245ـ250۔
  38. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس،ص70ـ73۔
  39. ابن‌قولویه، كامل الزیارات،ص420۔
  40. مجلسى، بحار، ج 98، ص177ـ178، 198ـ199، 259ـ260۔
  41. كرباسى، تاریخ‌المراقدالحسین و اهل‌بیته و انصاره ج1، ص255ـ259۔
  42. کاشی = tile یعنی مخصوص نقش نگار والے پتھر۔
  43. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، ص87ـ 93۔
  44. ابن قولویہ، كامل الزیارات، ص203ـ206، 242ـ245۔
  45. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، ص73۔
  46. ابوالفرج اصفہانى، مقاتل الطالبیین، ص395ـ396۔
  47. طوسى، الامالى، ص325ـ329۔
  48. كلیدار، تاریخ كربلاء و حائرالحسین(ع)، ص171ـ173۔
  49. Longrigg, Four centuries of modern Iraq,217۔
  50. آقا بزرگ طہرانى، الذریعہ، ج 19، ص373۔
  51. آل طعمہ، تاریخ مرقد الحسین و العباس، ص147ـ148۔
  52. علوى اصفہانى، مہاجران آل ابو طالب، ص202ـ203۔
  53. ابن‌عنبہ، عمدۃ الطالب فى انساب آل ابی طالب، ص263ـ266۔
  54. كلیدار، معالم انساب الطالبیین فى شرح كتاب (سرّالانساب العلویۃ) تصنیف ابى نصربخارى، ص157ـ167۔

مآخذ[ترمیم]

  • ابن ادریس حلّى، كتاب السرائر الحاوى تحریرالفتاوى، قم 1410ـ1411ھ ۔
  • ابن سعید، الجامع للشّرائع، قم 1405ھ ۔
  • ابن طباطبا علوى اصفہانى، مہاجران آل ابو طالب، ترجمہ محمدرضا عطائى، مشہد 1372ہجری شمسی۔
  • ابن‌عنبہ، عمدۃ الطالب فى انساب آل ابی طالب، طبع مہدى رجایى، قم 1383ہجری شمسی۔
  • ابن قولویہ، كامل الزیارات، چاپ جواد قیومى، قم 1417ھ ۔
  • ابن منظور؛ ابوالفرج اصفہانى، مقاتل الطالبیین، طبع كاظم مظفر، نجف 1385ھ/1965ء، طبع افست قم 1405ھ ۔
  • خمینی، امام سید روح الله، تحریرالوسیلۃ، بیروت 1407ھ /1987ء۔
  • بحرانى، یوسف بن احمد، الحدائق النّاضرۃ فى احكام العترۃ الطاهرۃ، قم 1363ـ1367ہجری شمسی۔
  • بروجردى، مرتضى، مستند العروۃ الوثقى: كتاب الصلاۃ، تقریرات درس آیت اللّه خوئى، ج 8، [قم] 1367ہجری شمسی۔
  • خوانساری، احمد، جامع المدارك فى شرح المختصرالنافع، حاشیہ علی‌اكبر غفارى، ج 1، تہران 1355ہجری شمسی۔
  • زبیدى، محمد بن محمد، تاج العروس من جواہرالقاموس، طبع علی شیرى، بیروت 1414 ھ/ 1994ء۔
  • شہید اول، محمد بن مكى، ذكری الشیعۃ فى احكام الشریعۃ، قم 1419ھ ۔
  • شہید ثانی، زین الدین بن على، الروضۃ البہیۃ فى شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، طبع محمد كلانتر، نجف 1398ھ، طبع افست قم 1410ھ ۔
  • طباطبائى یزدى، محمد كاظم بن عبد العظیم، العروۃ الوثقى، بیروت 1404ھ/1984 ء۔
  • طریحى، فخر الدین بن محمد، مجمع البحرین، پبلشر، احمد حسینى، تہران 1362ہجری شمسی۔
  • آل طعمہ،سید سلمان ہادى، تاریخ مرقد الحسین و العباس (ع)، بیروت 1416ھ/1996 ء۔
  • طوسى، محمد بن حسن، الامالى، قم 1414 ھ ۔
  • طوسى، محمد بن حسن، تہذیب‌الاحکام، چاپ علی اكبر غفارى، تہران 1376ہجری شمسی۔
  • طہرانى، ابوالفضل بن ابو القاسم، شفاء الصدور فى شرح زیارۃ العاشور، تہران 1376ہجری شمسی۔
  • كرباسى، محمد صادق، تاریخ المراقد الحسین و اہل بیتہ و انصارہ، ج 1، لندن 1419ھ/ 1998 ء۔
  • كلیدار، عبد الجواد، تاریخ كربلاء و حائرالحسین علیہ السلام، نجف بے تا۔، چاپ افست قم 1376ہجری شمسی۔
  • كلیدار، عبد الجواد، معالم انساب الطالبیین فى شرح كتاب (سرّالانساب العلویۃ) تصنیف ابى نصربخارى، پبلشر، سید سلمان ہادى آل طعمہ، قم 1380ہجری شمسی۔
  • كلیدار، عبد الحسین، بغیۃ النبلاء فى تاریخ كربلاء، چاپ عادل كلیدار، بغداد 1966 ء۔
  • گلپائیگانى، محمد رضا، هدایۃ العباد، قم 1413 ھ ۔
  • مدرس بستان آبادى، محمد باقر، شہر حسین(ع) یا، جلوہ گاه عشق، تہران 1414ھ ۔
  • مفید، محمد بن محمد، الارشاد فى معرفۃ حجج اللّه علی العباد، قم: دارالمفید، بے تا۔
  • مفید، محمد بن محمد، كتاب المزار، چاپ محمد باقر موحدى ابطحى، قم 1409 ھ ۔
  • مقدس اردبیلى، احمد بن محمد، مجمع الفائدۃ و الب رہان فى شرح ارشاد الاذہان، چاپ مجتبى عراقى، على پناه اشتہاردى، و حسین یزدى اصفہانى، ج 3، قم 1362 ہجری شمسی۔
  • نجفى، محمد حسن بن باقر، جواہرالكلام فى شرح شرائع الاسلام، ج 14، چاپ عباس قوچانى، بیروت 1981 ء۔
  • نراقى، احمد بن محمد مہدى، مستند الشیعۃ فى احكام الشریعۃ، ج 8، قم 1416 ھ ۔
  • Stephen Hemsley Longrigg, Four centuries of modern Iraq, Beirut 1968

بیرون روابط[ترمیم]