ابو الفضل صدیقی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ابو الفضل صدیقی
معلومات شخصیت
پیدائش 4 ستمبر 1908ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بدایوں ،  اتر پردیش ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 16 ستمبر 1987ء (79 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی ،  پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن پاپوش نگر   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی سینٹ جارجز کالج، مسوری   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ناول نگار ،  افسانہ نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل ناول ،  ناولٹ ،  افسانہ ،  خاکہ نگاری ،  خود نوشت ،  ترجمہ   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

ابوالفضل صدیقی (پیدائش: 4 ستمبر، 1908ء- وفات: 16 ستمبر، 1987ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے صف اول کے افسانہ نگار، ناول نگار اور مترجم تھے۔

حالات زندگی[ترمیم]

ابوالفضل صدیقی 4 ستمبر، 1908ء کو عارف پور نوادہ، بدایوں، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں ایک معزز زمیندار خاندان میں پیدا ہوئے۔[2][3][4] ان کا خاندان 1857ء کی جنگ آزادی میں مجاہدین کی مدد کرنے کے پاداش میں معتوبین ِحکومت میں رہ چکا تھا۔ آپ کے دادا چوہدری احمد حسن علاقے کے معزز زمیندارہونے کے ساتھ شاعر بھی تھے اور علیل تخلص کرتے تھے، اس کے علاوہ قانون پر اچھی دسترس رکھنے کی وجہ سے حکومت کی طرف سے اعزازی عدالتی عہدے 'منصفی' پر بھی فائز تھے۔ چوہدری احمد حسن کے چھوٹے بیٹے اور ابوالفضل کے والد محترم ابو الحسن صدیقی بھی علی گڑھ کے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، معروف وکیل اور شاعر و ادیب بھی تھے۔ اس وقت کے مستند ادبی رسائل میں ان کی نگارشات شائع ہوتی تھیں۔ اس خاندان کے علم و شائستگی کا اتنا چرچا تھا کہ زمینداری کا روایتی رعب داب ان کی حویلی کے دروازے پر ہی کھڑا رہتا تھا، زمینداروں کے مظالم کی جگہ شاعرانہ حساسیت نے لے لی تھی، یہی وجہ تھی کہ ان کے مزارع اپنے مالکوں پر جان چھڑکتے تھے۔ ابوالفضل کے والد نے بدایوں میں ابوالفضل کو ایک مشن اسکول میں داخل کروا دیا۔ مشن اسکول میں دو سال گزارنے کے بعد وہ سینٹ جارجز کالج مسوری میں داخلہ لینے میں کامیاب ہو گئے جو اس وقت ہندوستانیوں کے لیے بہت مشکل تھا۔ بہرحال وہاں سے سینئر کیمبرج کر کے واپس آئے تو اپنی زمینداری سنبھالی۔ شکار، زراعت، باغات اور جانوروں کا باریک بینی سے مشاہدہ ،غرض جنگل اور دیہات سے متعلق ان کا سارا علم کتابِ فطرت سے براہِ راست اکتساب کا نتیجہ تھا جو پھر ان کے لازوال افسانوں میں جھلکا اور ایک زمانے کو اپنا معترف بنا لیا۔[5]

ابو الفضل صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز 1932ء میں ہوا۔ ہفت روزہ ریاست دہلی کے 15 اگست، 1932ء کے شمارے میں ایک طنزیہ مضمون لکھا جوان کی پہلی مطبوعہ تحریر ہے۔ ابو الفضل صاحب کا پہلا افسانہ سماج کا شکار ہے جو رسالہ ادبی دنیا لاہور میں 1941ء میں اور پہلا افسانوی مجموعہ 1945ء میں شائع ہوا۔[3] انہی دنوں برصغیر میں نفرت کا جوالا مکھی پھوٹ پڑا۔ ابوالفضل اور ان کا خاندان چونکہ مسلم لیگی مشہور تھا، گھرانہ بھی مسلم روایت پسند تھا، پھر ان کی حویلی اطراف کے دیہاتوں میں پھوٹ پڑنے والے خونی فسادات سے متاثر ہونے والے مسلمانوں کی پناہ گاہ بن گیا تو گویا بہانہ ہاتھ آ گیا۔ سازشی سازشوں کے جال بننے لگے، لیکن ابوالفضل اتنے حوصلہ مند اور ذکی تھے کہ نہایت حکمت و بصیرت سے ان سازشوں کے تاروپود بکھیرتے رہے۔ لیکن جب تقسیم ہند کے بعد حکومت ہند نے تنسیخ زمینداری کا قانون نافذ کر دیا جس سے جس سے بڑے بڑے زمیندار معاشی طور پر بدحال ہو گئے تو ابوالفضل صدیقی کا جی اتنا برا ہوا کہ بالآخر 1954ء میں پاکستان ہجرت کر آئے اور کراچی میں جیکب لائنز کے ایک دو کمروں کے کوارٹر میں رہنے لگے۔ کہاں ایکڑوں پر پھیلی ہوئی حویلی اور نوکروں کی قطاریں اور کہاں یہ دو کمرے! کوئی اور ہوتا تو ماضی کی یادیں اوڑھ کر لیٹا رہتا لیکن انھوں نے نہ صرف پامردی سے حالات کا مقابلہ کیا بلکہ ساتھ ساتھ قلم سے افسوں بھی پھونکتے رہے۔ ایک کے بعد ایک ان کی لازوال کہانیاں آتی گئیں۔ ان کے موضوع بہت منفرد تھے۔ دیہات، وہاں کے تمام طبقات، کسان، کھیت، مزدور، مہاجن، جاگیرداروں اور ان کے کارندوں، دیہاتیوں کے مسائل اور ان کی نفسیات، پھرجنگل، نباتات، جانوروں، چرند پرند، درند،ان کی عادات و خصائل، جبلت اور انسان سے ان کے باہمی رشتوں کو جس طرح انھوں نے لکھا، وہ بلاشبہ اردو ادب کے سرمائے میں اپنی نوعیت کا ایک منفرد ذخیرہ ہے ۔[5]

اعزازات[ترمیم]

ابو الفضل صدیقی کی علمی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کے افسانہچڑھتا سورج پر 1957ء میں ان کو یونیسکو کا بین الاقوامی انعام دیا گیا۔ ناولٹ گل زمین کی تلاش میں پر 1983ء نقوش صدارتی ایوارڈ دیا گیا اور ناولترنگ پر نیشنل بک کونسل ایوارڈ برائے 1989ء دیا گیا۔[3]

تصانیف[ترمیم]

ابوالفضل صدیقی کی تصانیف و تراجم درج ذیل ہیں :

  • اہرام (افسانوی مجموعہ)
  • تعزیر (ناول)
  • رموز باغبانی
  • سرور(ناول)
  • چار ناولٹ (ناولٹوں کا مجموعہ)
  • انیس سو چوراسی (جارج آرویل کے ناول کا اردو کا ترجمہ)
  • جوا لامکھی (افسانوی مجموعہ)
  • آئینہ (افسانوی مجموعہ)
  • انصاف (افسانوی مجموعہ)
  • ترنگ (ناول)
  • گلاب خاص ( افسانوی مجموعہ)
  • دن ڈھلے ( افسانوی مجموعہ )
  • عہد ساز لوگ ( شخصی خاکوں کا مجموعہ)
  • ستاروں کی چال ( افسانوی مجموعہ)
  • زخم دل ( ناول)
  • شکنی (افسانوی مجموعہ)
  • کہاں کے دیر و حرم (خود نوشت سوانح عمری)

وفات[ترمیم]

ابوالفضل صدیقی 16 ستمبر، 1987ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔[3][4][2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.rekhta.org/authors/abul-fazal-siddiqui
  2. ^ ا ب پروفیسر محمد اسلم، خفتگانِ کراچی، ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب لاہور، نومبر 1991، ص 174
  3. ^ ا ب پ ت عقیل عباس جعفری، پاکستان کرونیکل، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء، ص 620
  4. ^ ا ب ابوالفضل صدیقی، بائیو ببلوگرافی ڈاٹ کام، پاکستان
  5. ^ ا ب اردو ادب کے مایہ ناز ادیب- ابوالفضل صدیقی،ہماری ویب ڈاٹ کام، پاکستان