شریف حسین شاکر بغدادی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

قدوۃ السالکین سید شریف حسین شاکر بغدادی 1330ھ

نام و نسب[ترمیم]

آپ کا اسم شریف یہ شریف حسین تخلص شاکر ،اور بغدادی مشہور ہیں والد کا اسم گرامی سید محمد سعید جان، دادا کا اسم مبارک آقا سید سکندر شاہ تھا اور ’’شاکر بغدادی‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔ آپ کی عمر صرف تین ماہ کی تھی کہ والدہ صاحبہ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا ۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

جب عمر چار برس کی ہوئی تو حافظ جی سید ولایت شاہ سے قرآن مجید شروع کرایا گیا۔ اور دیگر فارسی اُردو کی کتابیں بھی پڑھیں۔ ساتھ ہی پرائمری اسکول میں انگریزی تعلیم بھی شروع کی۔ عربی کی تعلیم صدار المدرسین دار العلوم رفیع الاسلام بھانہ ماڑی سید محمد ایوب شاہ سے تکمیل کی۔

سیرت و کردار[ترمیم]

جناب خلیفہ عبد الرشید تحریر کرتے ہیں’’ آپ بچپن ہی سے بڑے فیاض اور سخی تھے۔ کسی سائل کا سوال رد نہیں فرماتے تھے۔ بچپن ہی سے اولیاء اللہ اور مزارات سے بڑا اُنس تھا۔ جب کسی بزرگ یا مزار کا پتہ ملتا تھا۔ فوراً وہاں تشریف لے جاتے تھے اور فیوض و برکات حاصل کرتے تھے‘‘۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ کے والد کا 1935ء میں جب انتقال ہو ا۔ قل کے دن آپ کے چچا جناب آغا سید تجمل حسین صاحب نے آپ کو اپنے والد کی جگہ صاحب سجادہ مقرر کر دیا اور سلسلہ قادریہ چشتیہ میں بیعت کر کے صاحب مجاز و معنعن بھی کر دیا اور جب تک زندہ رہے آپ کی تربیت کرتے رہے۔

صاحب سجادہ ہونے کے بعد اپنے آباؤاجداد کی طرح اپنے سلسلہ کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہو گئے۔ آپ کی محبت بھری شخصیت اور اخلاق کریمانہ نے تمام مریدین و مخلصین کو آپ کو گرویدہ بنا رکھا تھا۔ ہندوستان پنجاب اور افغانستان کے اکثر سجادہ نشین آپ سے بڑی محبت کرتے اور آپ کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ذکر اذکار کی محفلیں منعقد کرتے اور مریدین کو ہمیشہ ذکر جہر کرنے کی تلقین کرتے۔ آپ کے حلقہ ذکر میں ہمیشہ ایسی گرمی اور یمن و برکت ہوتی تھی کہ لوگ بیتاب ہو کر وجد و حال میں تڑپتے تھے۔ نماز، روزہ اور شریعت کی انتہائی پابندی کرتے تھے۔ اور باقاعدہ تہجد ادا کرکے اپنے اورا دو اشغال میں مصروف ہوجاتے۔ سلسلہ چشتیہ میں لاہور، چونیاں، قصور کے اکثر احباب کو مرید کیا۔ سماع کی محفل میں انتہائی آداب کی پابندی کرتے اور آپ کی توجہ اور نظر کرم سے اہل محفل ماہی بے آب کی طرح تڑپتے رہتے۔ آپ پر خود بھی وجد و حال کی کیفیت رہتی۔ باوجود ان سب باتوں کے ہمیشہ اپنی ذات کی نفی فرماتے۔

آپ نے معرفت الہٰی کے حصول کے لیے دور دراز کے سفر کیے۔ مزار شریف، کابل، بغداد شریف، نجف اشرف، کربلائے معلی اور ہندوستان کی تمام مزارات (بالخصوص اجمیر شریف تو ہر سال تشریف لے جاتے تھے)پر حاضر ہوئے۔ اثنائے سفر میں خدا رسیدہ لوگوں سے ملاقاتیں بھی کیں اور فیوض و برکات حاصل کیے۔

وصال[ترمیم]

7 شوال 1379ھ 4 اپریل 1960ء پیر کا دن آپ کا یوم وفات ہے۔ آپ کی وفات کی خبر تمام پشاور میں بجلی کی طرح پھیل گئی۔ پشاور کے بڑے بڑے بازار بند ہو گئے۔ دوسرے دن آپ کا جنازہ صبح دس بجے اُٹھایا گیا۔ ہزارہا لوگ پشاور، مضافات، راولپنڈی، لاہور، قصور اور چونیاں اور ہزارہ سے آئے اور جنازہ میں شامل ہوئے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ علما و مشائخ سرحد جلد اوّل، صفحہ 267 تا 271،محمد امیر شاہ قادری ،مکتبہ الحسن کوچہ آقہ پیر جان یکہ توت پشاور