سلیم اللہ خان (عالم دین)

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
سلیم اللہ خان (عالم دین)
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1921ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مظفر نگر  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 15 جنوری 2017ء (95–96 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کراچی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان
برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد مولانا عادل خان  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
صدر نشین (6 )   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
8 جون 1989  – 15 جنوری 2017 
در وفاق المدارس پاکستان 
محمد ادریس میرٹھی 
عبدالرزاق اسکندر 
عملی زندگی
مادر علمی دار العلوم دیوبند  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استاذ سیّد عبدالحق نافع کاکاخیل  ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص ڈاکٹر مولانا منظور احمد مینگل،  محمد تقی عثمانی،  نظام الدین شامزئی  ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ عالم  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت جامعہ فاروقیہ  ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان کا ابای تعلق پاکستان کے آزاد قبایلی علاقے خیبر ایجنسی سے ہے ان کے ابا و اجداد پاکستان کی آزادی سے قبل انڈیا منتقل ہو گی حضرت شیخ نے دینی علوم حاصل کرنے کے لے دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا پاکستان کے جس علاقے سے ہندوستان منتقل ہوئے آج وہ علاقہ خیبر ایجنسی میں تیراہ کے قریب چورا کہلاتا ہے۔ آپ 25 دسمبر 1921 کو ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے مشہور قصبہ حسن پورلوہاری کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، آپ کا تعلق آفریدی پٹھانوں کے ایک خاندان ملک دین خیل سے ہے۔ حسن پور لوہاری ہمیشہ اکابرین کا مسکن ومرجع رہا ہے۔ حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی کے شیخ میاں جی نور محمد صاحب ساری زندگی اسی گاؤں میں سکونت پزیر رہے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم حضرت حکیم الامت کے مشہور خلیفہ مولانا مسیح الله خان صاحب کے مدرسہ مفتاح العلوم میں حاصل کی۔ 1942ءء میں آپ اپنے تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے لیے ازہر ہند، دار العلوم دیوبند میں داخل ہوئے، جہاں آپ نے فقہ، حدیث و تفسیر و دیگر علوم وفنون کی تکمیل کی اور1947ء میں آپ نے امتیازی نمبرات کے ساتھ سند فراغت حاصل کی۔ دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے علاقے میں موجود اپنے استادو مربی حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب رحمة الله علیہ، خلیفہ خاص حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ، کی زیر نگرانی مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں تدریسی وتنظیمی امور انجام دینے شروع کیے۔ آٹھ سال تک شب وروز کی انتہائی مخلصانہ محنت کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ مدرسہ حیرت انگیز طور پر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا اور مدرسہ کے طلبہ کا تعلیمی اور اخلاقی معیار اس درجہ بلندا ہوا کہ دار العلوم دیوبند اور دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں یہاں کے طلبہ کی خاص پزیرائی ہونے لگی۔ مدرسہ مفتاح العلوم میں آٹھ سال کی شبانہ روز محنتوں کے بعد حضرت شیخ الحدیث مدظلہ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمة الله علیہ کی قائم کردہ پاکستان کی مرکزی دینی درس گاہ دار العلوم ٹنڈوالہ یار سندھ میں تدریسی خدمات انجام دینے کے لیے پاکستان تشریف لے آئے۔ تین سال یہاں پر کام کرنے کے بعد آپ ملک کے معروف دینی ادارے دارالعلوم کراچی میں تشریف لائے اور پھر مسلسل دس سال دار العلوم کراچی میں حدیث، تفسیر، فقہ، تاریخ، ریاضی، فلسفہ اور ادب عربی کی تدریس میں مشغول رہے، اسی دوران آپ ایک سال حضرت مولانا محمدیوسف بنوری رحمة الله علیہ کے اصرار پر جامعة العلوم الإسلامیہ بنوری ٹاؤن میں دار العلوم کی تدریس کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں مختلف اسباق پڑھانے کے لیے تشریف لاتے رہے۔ قدرت نے آپ کی فطرت میں عجیب دینی جذبہ ودیعت فرمایا تھا جس کے باعث آپ شب وروز کی مسلسل اور کامیاب خدمات کے باوجود مطمئن نہیں تھے اور علمی میدان میں ایک نئی دینی درس گاہ ( جو موجودہ عصری تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہو) کی تاسیس کو ضروری خیال فرماتے تھے۔ چناں چہ23 جنوری1967ء مطابق شوال1387ھ میں آپ نے جامعہ فاروقیہ کراچی کی بنیاد رکھی۔ آپ کی یہ مخلصانہ کوشش الله تبارک وتعالیٰ کے ہاں اتنی قبول ہوئی کہ تاسیس جامعہ کے بعد سے لے کر اب تک (سنہ 2007ء)کے مختصر عرصہ میں جامعہ نے تعلیمی وتعمیری میدان میں جو ترقی ہے وہ ہر خاص وعام کے لیے باعث حیرت ہے۔ فللہ الحمد علی ذلک آج الحمدلله جامعہ فاروقیہ کراچی ایک عظیم دینی و علمی مرکزکی حیثیت سے پاکستان اور بیرون پاکستان ہر جگہ معروف مشہور ہے اور یہ الله تبارک وتعالیٰ کے فضل واحسان اور حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب کی مخلصانہ جدوجہد کا نتیجہ ہے۔

وفاق المدارس سے تعلق[ترمیم]

حضرت شیخ الحدیث مدظلہ کی تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے 1980ء میں آپ کو وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا آپ نے وفاق کی افادیت اور مدارس عربیہ کی تنظیم وترقی اور معیار تعلیم کے بلندی کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں وہ وفاق کی تاریخ میں ایک قابل ذکر روشن باب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ نے وفاق المدارس العربیہ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دیں وہ درج ذیل ہیں:

آپ نے وفاق کے طریقہ امتحانات کو بہتر شکل دی، بہت سی بے قاعدگیاں پہلے ان امتحانات میں ہوا کرتی تھیں انھیں ختم کیا۔

پہلے وفاق میں صرف ایک امتحان دورہ حدیث کا ہوا کرتا تھا۔ آپ نے وفاق میں دورہ حدیث کے علاوہ سادسہ(عالیہ)، رابعہ،ثالثہ(ثانویہ خاصہ) ثانیہ (ثانویہ عامہ)، متوسطہ، دراسات دینیہ اور درجات تحفیظ القرآن الکریم کے امتحانات کو لازمی قرار دیا۔

نئے درجات کے امتحانات کے علاوہ آپ نے ان تمام مذکورہ درجات کے لیے نئی دیدہ ذیب عالمی معیار کی سندیں جاری کروائیں۔

وزارت تعلیم اسلام آباد سے طویل مذاکرات کیے جن کے نتیجے میں بغیر کسی مزید امتحان میں شرکت کیے وفاق کی اسناد کو بالترتیب ایم اے، بی اے، انٹر، میٹرک، مڈل اور پرائمری کے مساوی قرار دیا گیا۔

فضلائے قدیم جو وفاق کی اسناد کے معادلے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائد سے محروم تھے ان کے لیے خصوصی امتحانات کا اہتمام کرایا تاکہ انھیں بھی وفاق کی سندیں فراہم کی جا سکیں۔

وفاق سے ملحق مدارس میں پہلے سے موجود قلیل تعداد کو جو چند سو پر مشتمل تھی اور جس میں ملک کے بہت سے قابل ذکر مدارس شامل نہیں تھے اپنی صلاحتیوں سے قابل تعریف تعداد تک پہنچایا۔ اب (2019ء میں) یہ تعداد 22 ہزار مدارس و جامعات پر مشتمل ہے۔ جس کی بنا پر اب وفاق المدارس العربیہ کو ملک کی واحد نمائندہ تنظیم قرار دیا گیا ہے۔

مدارس عربیہ میں موجود نظام کو بہتر کرنے کے لیے آپ نے نصاب درس اصلاحی کی مہم شروح کی چناں چہ اب پورے پاکستان میں یکساں نصاب پورے اہتمام سے پڑھایا جا رہا ہے۔ جبکہ پہلے صورت حال نہایت ابتر تھی اور تقریباً ہر مدرسہ کا اپنا الگ الگ نصاب ہوا کرتا تھا۔

وفاق کے مالیاتی نظام کو بھی آپ نے بہتر کیا جب کہ پہلے کوئی مدرسہ اپنی فیس یا دیگر واجبات ادا کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کرتا تھا۔ اب آپ کی مسلسل توجہ کے نتیجے میں وفاق ایک مستحکم ادارہ بن چکا ہے۔ آپ نے وفاق کی مرکزی دفاتر کی طرف بھی توجہ فرمائی اور اس کے لیے بہتر و مستقل عمارت کا انتظام کرایا جب کہ اس معاملے میں پہلی عارضی بندوبست اختیار کیا جاتا تھا۔


آپ کی انہی گراں قدر خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کو 1989ء میں وفاق کا صدر منتخب کر لیا گیا، جب سے لے کر آپ آخر عمر تک بحیثیت صدر وفاق کی خدمات انجام دینے میں مصروف رہے۔

الله تبارک وتعالیٰ نے حضرت کو تدریسی میدان میں جو کمال عطا ء فرمایا ہے وہ قدرت کی عنایات کا حصہ ہے آپ کی تدریسی تاریخ تقریباً نصف صدی پر محیط ہے، بے شمار لوگ آپ کے چشمہٴ فیض سے سیراب ہوئے ہیں، قدرت نے آپ کو فصاحت وبلاغت کا وافر حصہ عطا فرمایا ہے، مشکل بحث کو مختصر اور واضح پیرائے میں بیان کرنا آپ ہی کی خصوصیت ہے۔

گذشتہ کئی سالوں سے آپ کے تقریری و درسی ذخیرے کو مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور آپ کے صحیح البخاری کے دروس کشف الباری اور مشکوٰة المصابیح کے لیے آپ کی تقاریر نفحات التنقیح کے نام سے شائع ہو کر علما و طلبہ میں مقبولیت حاصل کر چکی ہیں، اب تک (2007ء) کشف الباری کی 12 جلدیں اور نفحات التنقیح کی تین جلدیں منصہ شہود پر آ چکی ہیں جب کہ بقیہ جلدوں پر کام جاری ہے۔

وفات[ترمیم]

آپ 15 جنوری 2017ء کو کراچی کے ایک ہسپتال میں مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے، ان کے فرزند مولانا ڈاکٹر عادل خان ان کے جانشین بنے تھے،

شاگرد[ترمیم]

مفتی تقی عثمانی، مفتی رفیع عثمانی مولانا جمشید علی، مفتی نظام الدین شامزئی، ولی خان مظفر، مولانا محمد عادل خان وغیرہ

[1]

تصانیف[ترمیم]

http://www.elmedeen.com/cat-207-کشف-الباری-اردو-شرح-صحیح-البخاریآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ elmedeen.com (Error: unknown archive URL)

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب مرحوم رحمۃ اللہ پر ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ کے اسلامک اینڈ ریلیجس ڈیپارٹمنٹ میں ایم فل لیول پر ایک مقالہ بھی لکھا گیا ہے جس کا عنوان ہے (تحریک تحفظ مدارس دینیہ اور مولانا سلیم اللہ خان) یہ مقالہ ہزارہ یونیورسٹی کے ایم فل سکالر مولانا محمد معروف صدیقی ساکنہ چکیاہ ضلع و تحصیل مانسہرہ نے لکھا ہے جبکہ ان کے سپر وائیزر پروفیسرڈاکٹر سید ازکیا ہاشمی صاحب تھے=

حوالہ جات[ترمیم]

  1. "تذکرہ شیخ الکل مولانا سلیم اللہ خان نور اللہ مرقدہ، صفحہ 503 - مکتبہ جبریل"۔ 22 اگست 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 مئی 2018