لبید بن ابی ربیعہ عامری کا معلقہ قصیدہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

لبید ابن ابی ربیعہ عامری دورِ جاہلیت میں عربوں کا مشہور شاعر تھا، جس نے عہد نبوی بھی پایا اور بحالت مسلمان وفات پائی۔ اُس کا معلقہ قصیدہ خانہ کعبہ میں لٹکا ہوا تھا۔ اِس قصیدہ کے مکمل 88 اشعار ہیں جنہیں چار حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا حصہ شعر نمبر1 سے 22 تک، دوسرا حصہ شعر نمبر23 سے 44 تک، تیسرا حصہ شعر نمبر 45 سے 66 تک، چوتھا حصہ شعر نمبر 67 سے 88 تک ہے۔

اشعار نمبر1 تا 22[ترمیم]

عَفَتِ الدِّيارُ مَحَلُّهَا فَمُقَامُهَا بمنًى تأبَّدَ غَوْلُها فَرِجَامُهَا

منیٰ میں زیادہ دِن اور تھوڑے دِن ٹھہرنے کے مکانات مٹ گئے اور (کوہِ)غول اور جام کے مکانات وحشت کدہ بن گئے۔

فمُدافعُ الرَّيَّانِ عُرِّيَ رَسْمُهاخَلَقاً كما ضَمِنَ الوُحِيَّ سِلَامُها

پھر (کوہِ) ریان کی نالیاں (احباب کے چلے جانے کی وجہ سے وحشت ناک ہوگئیں) جن کے نشانات دراں حالیکہ وہ پرانے پڑ گئے تھے، اِس طرح واضح کردیے گئے جس طرح کہ کندہ پتھر نقوشِ کتابت کا ضامن ہوتا ہے۔

دِمَنٌ تَجَرَّمَ بعدَ عَهْدِ أنِيسِهَا حِجَجٌ خَلَوْنَ حَلالُهَا وحَرَامُهَا

(اُن مکانوں کے ) ایسے نشان ہیں جن پر اُن کے باشندوں کے زمانہ کے بعد بہت سے مکمل سات یعنی اُن کے حلال اور حرام مہینے گذرے (تو پھر کیوں ویران نہ ہوتے؟)۔

رُزِقَتْ مَرابيعَ النُّجُومِ وَصَابَهَا وَدْقُ الرَّوَاعِدِ جَوْدُهَا فَرِهَامُها

اُن مکانات پر منزلوں (منازل نجوم) کی تاثیر سے موسم ربیع کی اِبتدائی بارش برسائی گئی اور اُن پر کڑکنے والے بادلوں کی موسلادھار اور ہلکی مگر دیر تک برسنے والی بارشیں برسیں۔

منْ كلِّ سَارِيَةٍ وغادٍ مُدْجِنٍ وَعَشِيَّةٍ مُتجاوبٍ إرْزامُهَا

(وہ مکانات) ہر رات کے برسنے والے اور صبح کے وقت برسنے والے تاریک اور شام کے برسنے والے ایسے اَبر سے (سیراب کیے گئے) جس کی کڑک آپس میں ایک دوسرے کو جواب دینے والی تھی۔

فَعَلا فُرُوعُ الأيْهُقَانِ وَأطْفَلَتْ بالجَلهَتين ظِبَاؤهَا ونَعَامُهَا

پس (زمین کے سیراب ہوجانے کی وجہ سے ) جھڑ بیری کی شاخیں بڑھ گئیں اور وادی کے اَطراف میں ہرنوں نے بچے اور شترمرغ نے (انڈے) دیے۔

والعِينُ ساكِنَةٌ على أطْلائِهَا عُوذاً تَأجَّلُ بالفضَاءِ بِهَامُها

وحشی گائیں درآں حالیکہ وہ نوزائیدہ ہیں، اپنے بچوں کے پاس کھڑی ہیں اور اُن کے بچے کھلے میدان میں ریوڑ، ریوڑ (پھرتے) ہیں۔

وجَلا السُّيولُ عن الطُّلُولِ كأنّها زُبُرٌ تُجِدُّ مُتُونَهَا أقْلامُها

سیلابوں نے کھنڈروں کو (مٹی میں دَب جانے کے بعد) ظاہر کر دیا۔ گویا کہ وہ کتابیں ہیں جن کے قلموں نے اُن کی کتابت کو دوبارہ چمکا دیا ہے۔

أوْ رَجْعُ واشِمةٍ أُسِفَّ نَؤورُهَا كِفَفاً تَعَرَّضَ فَوْقَهُنَّ وِشَامُها

یا گودنے والی کے دوبارہ گودنے کے نشان ہیں، جن کے حلقوں میں اُس کا کاجل بھر دیا گیا ہے جن پر اُس کے گودنے کے نشان ظاہر ہو گئے ہیں۔

فوقفتُ أسْألُهَا، وكيفَ سُؤالُنَا صُمَّاً خَوالدَ ما يُبِينُ كَلامُهَا

پس میں ٹھہرا اور اُن کھنڈر سے (محبوبہ کے احوال) دریافت کرنے لگا حالانکہ یہ باقی ماندہ ٹھوس پتھروں سے کہ اُن کی گفتگو ظاہر نہیں ہوتی، کیسے سوال ہو سکتا ہے۔ (دوسرے مصرع سے اپنی وارفتگی کا عالم دکھانا مقصود ہے)۔

عَرِيَتْ وكان بها الجميعُ فأبْكَرُوا منها وَغُودرَ نُؤيُهَا وَثُمَامُها

وہ گھر (رہنے والوں سے ) خالی ہو گئے اور پہلے اُس میں سب تھے، پس وہ صبح سویرے اُس گھے سے سفر کر گئے اور اُس کی نالیاں (جو خیمہ کے اردگرد کھودی جاتی ہیں) اور جھنوا سے (کی باڑیں جو حفاظت کے لیے خیمہ کے چاروں طرف لگادی جاتی ہیں) چھوڑ دی گئیں۔

شاقَتْكَ ظُعْنُ الحيِّ حينَ تَحَمّلُوا فتكنَّسُوا قُطُناً تَصِرُّ خِيَامُها

تجھ کو قبیلہ کی ہودج نشین عورتوں نے اُس وقت (اور زیادہ) مشتاق بنایا جبکہ وہ (روانگی کے لیے) سوار ہوئیں اور وہ نئے ہودجوں میں داخل ہوئیں۔ درآں حالیکہ اُن کے خیموں کی لکڑیاں (نئی ہونے کے سبب) چڑ چڑ کر رہی تھیں۔

من كلِّ مَحْفُوفٍ يُظِلُّ عِصِيَّهُ زَوْجٌ عليه كِلَّة ٌ وَقِرَامُهَا

جن ہودجوں میں وہ عورتیں جا بیٹھیں، اُن میں سے ہر ہودج کپڑوں میں پوشیدہ تھا جس کی لکڑیوں پر ایک دبیز پردہ تھا۔ جس پر ایک باریک پردہ اور ایک سرخ منقش کپڑا پڑا ہوا تھا۔

او رجع واشمۃ اسف نئورھا وظِبَاءَ وَجْرَةَ عُطَّفاً آرَامُهَا

وہ (عورتیں) گروہ دَر گروہ (جن ہودجوں میں سوار ہوئیں تو معلوم ہوتا تھا کہ) گویا مقارم توضح کی وحشی گائیں اور مقام وجرہ کی سفید ہرنیاں اُن ہودجوں پر سوار ہیں، اِس حالت میں کہ وہ اپنے بچوں کو پیار سے دیکھ رہی ہیں۔

زُجَلاً كأنَّ نِعَاجَ تُوضِحَ فَوْقَهَا کففا تعرض فوقھن وشامھا

وہ سواریاں تیز ہنکائی گئیں اور قطعات سراب اُن سے جدا ہو گئے (یعنی سواریاں اُن میں سے ہوکر نکلیں تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ) گویا وہ وادی بیشہ کے موڑوں پر جھاو کے درخت یا پتھر کی چٹانیں ہیں۔ (کثرت اور ضخامت میں سواریوں کو جھاؤ کے درختوں یا پتھر کی چٹانوں سے تشبیہ دی ہے)۔

رجلا کان نعاج توضیح فوقھا وظباء وجرۃ عطفا اراء مھا

اُن نوار (معشوقہ) کی یاد کیا؟ (اُس کا تذکرہ بے سود ہے) جبکہ وہ دور ہو گئی اور اُس کے قومی اور ضعیف علائق (دوستی) منقطع ہو گئے۔

'حُفِزَتْ وَزَايَلَهَا السَّرَابُ كأنها أجْزَاعُ بِيشةَ أثْلُهَا وَرُضَامُهَا

وہ (نوار) مریہ ہے (کبھی مقام) فید میں جا اُتری اور (کبھی) حجازیوں کی پڑوسن بنی، سو اَب تیرا مقصد (حاصل ہونا) اُس سے دشوار ہے۔

بل ماتد کرمن نوار وقد نات و تفطعت اسبابھا و رمامھا

وہ (نوار بنو طے کے دو پہاڑ) اَجا اور سلمیٰ کے مشرق میں (مقیم ہوئی) یا (مقام) محجر میں پھر اُس کو (کوہِ) فردہ اور اُس کے رخام نے اپنے اندر سما لیا۔

مریۃ حلت بفید و جاورت اھل الحجاز فاین منک مرامھا

پھر (مقامِ) ضوائق نے اُس (نوار کو اپنی گود میں لے لیا) اور اگر یمن میں آئی تو اُس کے متعلق وَحاف القہر یا اُس کے طلخام کے بارے میں خیال ہے (کہ وہ اُس کی فروگاہ ہوں گے)۔

بمشارق الجبلین او بمحجر فتضمنتھا فردۃ فرخامھا

جس کا وصل (تعلق) معرضِ زوال میں ہو اُس سے قطع تعلق کرلے۔ دوستی کرنے والا وہی بہتر ہے جو (ضرورت کے وقت) قطع تعلق کرلے (تاکہ ہجر کے مصائب زیادہ برداشت نہ کرنے پڑیں)۔

فصوائق ایمنت فمظنۃ فیھا و حاف القھر او طلخامھا

عمدہ معاملہ کرنے والے کو بہت سا مال (یا وَدِ کثیر دے) اور اُس سے قطع کرنا (بھی) باقی رہے جبکہ دوستی کی رفتا ٹیڑھی اور اَصل کج ہو جائے۔

فاقطع لبانۃ من تعرض وصلہ ولخیر واصل خلۃ صرامھا

سفروں کی وجہ سے درماندہ اونٹنی کے ذریعہ (تعلقات قطع کرو) جس میں سفروں نے کچھ تھوڑا حصہ باقی چھوڑا ہو پس (لاغری کی وجہ سے ) اُس کی پشت اور کوہان چمٹ گئے ہوں۔

واحب المجامل بالجزیل وصرمہ باق اذا ظلعت وزاغ قوامھا
بطلیح اسفار ترکن بقیۃ منھا فاحنق صلبھا و سنامھا

اشعار نمبر23 تا 44[ترمیم]

  1. و اذا تغالی لحمھا و تحسرتو تقطعت بعد الکلال خدامھا۔
  2. فلھا ھباب فی الزمام کانھاصھباء خف مع الجنوب جھامھا۔
  3. او ملمع و سقت لا حقب لاحہطرد الفحول و ضربھا و کدامھا۔
  4. یعلوبھا حدب الاکام مسحجقد رابہ عصیانھا و وحامھا۔
  5. باحزۃ الثلبوت یربافوقھاقفر المراقب خوفھا ارامھا۔
  6. حتیٰ اذا سلخا جماذی سنۃجزا فطال صیامہ و صیامھا۔
  7. وجعا بامرھما الی ذی مرۃحصد و نجح صریمۃ ابرامھا ۔
  8. و رمیٰ دوابرھا السفاو تھیجتریح المصائف سومھا وسھامھا۔
  9. فتنازعا سبطا یطیر ظلالہ کدخان مشعلۃ یشب ضرامھا۔
  10. مشمولۃ غلثت بنابت عرفج کدخان نار ساطع اسنامھا۔
  11. فمضی وقدمھا و کانت عادۃ منہ اذا حی عردت اقدامھا۔
  12. فتوسطا عرض السری و صدع مسجورۃ متجاورا قلامھا۔
  13. محفولۃ وسط الیسراع یظلھامنہ مصرع غابۃ و قیامھا۔
  14. افتلک ام وحشیۃ مسبوعۃخذلت و ھادیۃ الصوار قوامھا۔
  15. خنساء ضیعوت الفریر فلم یرمعرض الشائق طوفھا و بغامھا۔
  16. لمعفر قھد تنازع شلوہغبس کواسب لا یمن طعامھا۔
  17. صادھن منھا غرۃ فاصبنھاان المنایا لا تطیش سھامھا۔
  18. باتت واسبل اکف من دیمۃ یروی الخمائل دائما تسجامھا۔
  19. یعلو طریقۃ منھا متواترفی لیلۃ کفرا النجوم عمامھا۔
  20. تجتاف اصلا قالصا متنبذابعجوب انقاء یمیل ھیامھا۔
  21. وتضیء فی وجہ الظلام منیرۃ کجانۃ البحری سل نظامھا۔
  22. حتیٰ اذا انحسر الظلام واسطرتبکرت تزل عن الشری ارلامھا۔
  23. جبکہ اُس (ناقہ) کا گوشت گھل جائے اور وہ درماندہ ہو جائے اور تھک جانے کے بعد اُس کے (موزہ کے ) تسمے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔
  24. پھر بھی اُس کے لیے مہار میں (رہ کر) ایسا نشاط ہو گویا کہ وہ سرخ رنگ کا بادل ہے جس میں سے ایک اَب رہے باراں نے جنوبی ہوا کے ساتھ حرکت کی ہے۔
  25. یا (وہ ناقہ) گورخرنی (کی طرح) ہے جو ایسے گورخر سے حاملہ ہوئی جس کو نَروں کے دفع کرنے اور مارنے کا کاٹنے نے بد روب کر دیا ہو۔
  26. زخمی گورخر اُس گورخرنی کو ٹیلوں کی بلندی پر بھگائے پھرتا ہے (تاکہ دوسرے نَروں سے دور لے جا کر اور تھکا کر اُس پر قادر ہو سکے) درآں حالیکہ اُس گورخرنی کی نافرمانی اور شہوت نے اُس کو شک میں ڈال رکھا (کہ کہیں یہ حاملہ تو نہیں کیونکہ حالتِ حمل میں گدھی جفتی نہیں کھاتی)۔
  27. وہ (گدھا اُس گدھی کو) ثلبوت کے ٹیلوں پر لے چڑھا (اِس حال میں کہ) خالی کمیں گاہوں کی دیدبانوں کی طرح دیکھ بھال کرتا تھا (کہ مباداء کوئی صیاد نہ چھپا بیٹھا ہو)۔ اُن میں کوف کا باعث پتھر تھے۔
  28. یہاں تک کہ جب دونوں نے جاڑوں کے چھ مہینے گزار دیے (اور موسمِ ربیع آگیا یا جمادی الچانی گزار دیا) اِس حال میں کہ بدونِ پانی پئے تر گھاس پر اِکتفاء کرتے تھے، پس اُس گدھے اور گدھی کا روزہ (پانی سے رکنا) دراز ہو گیا (جواب اِس اگلے شعر میں ہے)۔
  29. تو اُن دونوں نے اپنے مقصد کو مستحکم ارادہ کی طرف لوٹا (پانی پینے کی ٹھانی) اور ارادہ کا کامیابی اِس کے محکم کرنے میں ہے (خام ارادہ میں کامیابی نہیں ہوتی)۔
  30. (موسمِ گرماء کے آغاز کی وجہ سے ) گو گھر دان کے پچھلے حصوں میں چبھنے لگے اور گرمیوں کی ہوا یعنی اُس کا چلنا اور گرمی بھڑک اُٹھی۔
  31. پس اُن دونوں نے ایسے لمبے غبار میں ایک دوسرے سے (بڑھنے میں) مقابلہ کیا جس کا سایہ اُس روشن آگ کے دھویں کی طرح (اُڑ رہا) تھا جس کی چھپٹیاں خوب بھڑکا دی گئی ہوں۔
  32. وہ آگ ایسی ہے جس پر بادِ شمالی چلی ہے جس میں (درخت) عرفج کی تر شاخیں ملا دی گئی ہیں اور اُس کا دھواں اُس آگے کے دھویں کی طرح ہے جس کی لپٹیں بلند ہو رہی ہیں۔
  33. وہ (گدھا) چلا اور اُس (گدھی) کو اپنے آگے دھر لیا اور اُس گدھے کی یہ عادت تھی کہ جب وہ راستہ منحرف ہونے کا ارادہ کرتی تو اُس کو آگے کرلیتا تھا۔
  34. پھر وہ دونوں نہر کے ایک گوشے کے بیچ میں داخل ہوئے اور اُن دونوں نے ایک ایسے لبریز چشمہ کو چیرا جس کا فلام گھاس قریب قریب تھا۔
  35. وہ (نہر) کے وسط میں گھری ہوئی ہے اور اُس پر جھاڑی میں سے گری ہوئی اور کھڑی ہوئی نے سایہ کر رہی ہے۔
  36. پس یہ گورخرنی (میری اونٹنی کے مشابہ ہے) یا وہ بقرہ وحشیہ جس کے بچوں کو درندوں نے کھالیا ہو جو ریوڑکے پیچھے رہ گئی تھی درآں حالانکہ ریوڑ کا اگلا جانور محافظ ہوتا ہے۔
  37. وہ چینی ناک والی (بقرہ وحشیہ) ہے جس نے بچہ کو ضائع کر دیا (اُس کی غفلت سے بھیڑئیے کھاگئے) پس پتھریلی زمین کے اطراف میں ہمیشہ اُس کا چکر لگانا اور پکارنا رہا۔
  38. (اُس بقرہ وحشیہ کا دوڑنا اور پکارنا) زمین پر پچھاڑے ہوئے سفید رنگ بچہ کی وجہ سے تھا جس کے اعضاء میں بھوسلے شکاری بھیڑیوں (یا کتوں) نے چھین جھپٹ کی تھی جن کی روزی منقطع نہیں ہوتی (بلکہ وہ ہمیشہ اِسی طرح شکار کرکے پیٹ بھرتے ہیں)۔
  39. اُن بھیڑیوں (یا کتوں) نے بقرہ وحشیہ کی غفلت پالی، اُس غفلت (یا بقرہ وحشیہ) کو پہنچ گئے۔ اموات کے تیر خطاء نہیں ہوتے (موت کا تیر خطاء نہیں کھاتا بلکہ ٹھیک نشانہ پر بیٹھتا ہے)۔
  40. (بچہ کے ہلاک ہوجانے کے بعد) بقرہ وحشیہ نے اِس حال میں رات گزار دی کہ جم کر برابر برسنے والی بارش بہہ رہی تھی جن کا دائمی بہاو نرم سبزہ زار کو سیراب کر رہا تھا۔
  41. اُس بقرہ وحشیہ کے خطِ پشت پر متواتر بارش ایسی رات میں پڑتی رہی جس کے اَبر نے ستاروں کو چھپا رکھا تھا۔
  42. بقرہ وحشیہ ایسے درخت کی دراز جڑ (کھوکل) میں داخل ہوئی جو ریت کے ٹیلوں کے آخر میں تنہا کھڑا تھا جن کا ریت بہہ رہا تھا۔
  43. (شب کی) ابتدائی تاریکی میں (وہ بقرہ وحشیہ) روشن اور چمکدار تھی اُس دریائی موتی کی طرح جس کا دھاگا کھینچ لیا گیا ہو (اور وہ گول ہونے کی وجہ سے لڑھکتا پھر رہا ہو)۔
  44. حتیٰ کہ جب (شب کی) تاریکی کھل گئی اور وہ صبح کی روشنی میں داخل ہوئی تو اِس حال میں صبح سویرے چلی کہ نمناک ریت سے اُس کے پیر پھسل رہے تھے۔

اشعار نمبر45 تا 66[ترمیم]

  1. علھت تردد فی نھاء صعائدسبعا تواما کاملا ایامھا۔
  2. حتیٰ اذا یئست واسحق حالقلم یبلہ ارضاعھا وفطامھا۔
  3. و توجست رزالانیس فراعھاعن ظھر غیب والانیس سقامھا۔
  4. فغدت کلا الفرجین تحسب انہ مولیٰ المخافۃ خلفھا وامامھا۔
  5. حتیا ذایئس الرمدۃ و ارسلوا عضفا دواجن قافلا اعصامھا۔
  6. فلحقن واعتکرت لھا مدریۃکالسمھریۃ حدھا وتمامھا۔
  7. لتذودھن و ایقنت ان لم تذدان قد احم الحتوف جمامھا۔

حوالہ جات[ترمیم]