ضیاء الحسن ندوی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ضیاء الحسن ندوی (1944-2003ء) جدید عربی زبان و ادب کے ماہر، ناقد، ریڈیو اناؤنسر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ عربی کے استاد و صدر شعبہ عربی تھے۔ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے، دار العلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت و فضیلت کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب، بی اے، ایم اے اور دبیر کامل کیا، اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اس کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو میں بھی بحیثیت نیوز ریڈر و اناؤنسر کچھ دن کام کیا۔ عربی زبان و ادب کے ماہر، ناقد اور جدید عربی ادب خصوصا مہجری ادب پر عبور حاصل تھا۔ حکومتی وفود کے عرب ممالک کے دورے پر ان کے ساتھ بحیثیت مترجم رفیق ہوتے تھے۔

ولادت و تعلیم[ترمیم]

سید ضیاء الحسن ندوی بن سید آل حسن موضع پرشدے پور، تحصیل سلون، رائے بریلی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کی، پھر دار العلوم ندوۃ العلماء سے 1958ء میں عالمیت اور 1960ء میں فضیلت کرنے کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے فاضل ادب، بی اے، ایم اے اور دبیر کامل کیا۔ ایم اے میں امتیازی نمبرات حاصل کرنے پر طلائی تمغا بھی حاصل کیا۔[1]

تدریس[ترمیم]

  • لکھنؤ یونیورسٹی میں 1968ء تا 1971ء عارضی لکچرار رہے،
  • پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ عربی میں تدریس سے منسلک ہوئے، جہاں انھوں نے 1972ء سے 1980ء تک خدمات انجام دیں۔
  • اس کے بعد سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انگلش اینڈ فارن لینگویجز حیدرآباد میں بحیثیت ریڈر ان کا تقرر ہوا، وہاں 1980ء سے 1982ء تک رہنے کے بعد واپس جامعہ ملیہ اسلامیہ بحیثیت ریڈر واپس آ گئے۔
  • جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ عربی میں 1982ء تا 1988ء حیثیت ریڈر
  • اور 1988ء تا وفات بحیثیت پروفیسر تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔
  • 1990ء تا 1993ء اور 1996ء تا 1999ء شعبہ عربی کے صدر رہے،
  • نیز جامعہ کی فیکلٹی آف ہیومنٹیز اینڈ لینگویجز کے 2000ء تا وفات ڈین بھی رہے۔[2]

مختلف اداروں کی رکنیت[ترمیم]

ان سب کے علاوہ وہ دار العلوم ندوۃ العلماء، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، عالمی رابطہ ادب اسلامی کے رکن تھے، عالمی رابطہ ادب اسلامی کے سہ ماہی ترجمان "کاروان ادب " کی مجلس ادارت کے رکن بھی رہے۔ ہند و بیرون ہند کی دسیوں جامعات، اداروں اور علمی سوسائٹیوں کے رکن رہے، حکومت ہند کی وزارت خارجہ کے ثقافتی ادارہ I.C.C.R. کے تحت نکلنے والے عربی رسالہ "ثقافۃ الہند" کی ادارت کی ذمہ داری بھی کئی سال تک ادا کی۔[3]

ذاتی زندگی[ترمیم]

ضیاء الحسن ندوی کے تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔

تصانیف[ترمیم]

ضیاء الحسن ندوی نے کئی علمی و ادبی تصانیف یادگار چھوڑیں، جن میں سے چند اہم یہ ہیں:

  • عربی ادب دیار غیر میں (مہجری ادب کی تاریخ)، مطبوعہ حیدرآباد و کراچی
  • المقامات الہندیۃ: اکیڈمی آف فارن لینگویجز کے لیے اٹھارویں صدی کے مشہور عربی مخطوطہ کو ایڈٹ کیا، جسے بھارتیہ ودیا بھون، نئی دہلی نے شائع کیا۔[4] نیز ان کے مختلف رسائل و جرائد میں بڑی تعداد میں علمی مضامین شائع ہوئے۔

اعزاز[ترمیم]

ان کی عربی زبان و ادب کی خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومت ہند نے سنہ 1998ء میں انھیں صدر جمہوریہ ایوارڈ دیا۔[5]

وفات[ترمیم]

20/جنوری 2003ء کو دل کے مرض میں وفات پائی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئے۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. محسن عثمانی ندوی (مرتب): پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی، رابطہ ادب اسلامی، لکھنؤ، 2012ء، صفحہ 174-175
  2. محسن عثمانی ندوی (مرتب): پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی، رابطہ ادب اسلامی، لکھنؤ، 2012ء، صفحہ 174-175۔
  3. محمد رابع حسنی ندوی: یادوں کے چراغ، حصہ اول،مکتبۃ الشباب العلمیۃ، لکھنؤ،2012ء، 304-305۔
  4. محسن عثمانی ندوی (مرتب): پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی، رابطہ ادب اسلامی، لکھنؤ، 2012ء، صفحہ 177
  5. محسن عثمانی ندوی (مرتب): پروفیسر سید ضیاء الحسن ندوی، رابطہ ادب اسلامی، لکھنؤ، 2012ء، صفحہ 177۔