شاہ سکندر کیتھلی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
Shah Sikandar Mazar

شاہ سکندر کیتھلی یہ سلسلہ قادریہ کے رؤس الاولیاء کے لقب سے معروف ہیں۔

ولادت[ترمیم]

شاہ سکندرکی ولادت 29 رمضان 962ھ میں ہوئی۔ آپ شاہ کمال کیتھلی کے پوتے تھے۔

شاہ کمال سے فیض[ترمیم]

سلسلہ عالیہ قادریہ کے شیخ الآفاق شاہ کمال کے وصال کے بعد روس الاولیاء شاہ سکندر 1023ھ میں سجادہ نشین ہوئے اور اپنے جد محترم کی طرح روحانیت و طریقت کے میدان میں طالبان حق کی رہنمائی فرماتے رہے۔ آپ سے فیض پانے والے حضرات کی تعدد بہت زیادہ ہے۔ مگر شیخ سر ہند مجدد الف ثانی اور شیخ طاہر بندگی لاہوری دو ایسی شخصیات ہیں جنھوں نے شاہ سکندر سے اپنے آپ کو وابستہ کیا۔ ان دونوں حضرات کے روحانی او رعمرانی کارنامے اب تاریخ کا حصہ بن جکے ہیں۔

اولاد[ترمیم]

شاہ سکندر کے اولاد و احفاد میں روحانیت کے علمبردار علما فضلا، شعرا و ادبا اور خلق خدا کے رہنما ہوتے رہے ہیں۔ چنانچہ اقلیم شعر میں سید علی سید اور روحانی و سیاسی زندگی میں آفتاب ولایت سید علی احمد گیلانی کے اسمائے گرامی نمایاں ہیں۔ موخر الذکر ماضی قریب کے بلند پایہ روحانی بزرگ تھے جن کی روحانی رہنمائی میں ایک زمانے نے راہ حق پر چل کر اپنی عاقبت سنواری ۔

باطنی تاثیرات[ترمیم]

آپ ساری ساری رات عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔ آپ کی نظر میں ایسی تاثیر تھی جس کی طرف آپ دیکھتے وہ بے خود ہوکر رہ جاتا تھا۔ ایک دفعہ آپ جنگل میں آدھی رات کو مصروف عبادت تھے کہ چار راہزن اس طرف آنکلے اور آپ سے شہر کی بابت پوچھا۔ آپ نے ان کی طرف ایسی پرتاثیر نگاہ سے دیکھا کہ وہ راہزنی چھوڑ کر آپ کے حلقہ ادارت میں شامل ہو گئے۔ مجددالف ثانی جو سلسلہ قادریہ میں آپ کے خلیفہ تھے فرماتے ہیں کہ میں موسم گرما میں جب سورج نصف النہار پر ہو تو میں کھلی آنکھوں سے اسے دیکھ سکتا ہوں لیکن شاہ سکندر کیتھلی جو روس الاولیا ہیں ان کی قلب مبارک کی طرف دیکھنا چاہا تو نگاہیں خیرہ ہوگئیں اور تاب جمال نہ لا سکیں۔ ایک دفعہ مجددالف ثانی اپنی شادی کے بعد سخت بیمار ہو گئے۔ مجدد الف ثانی کے اہل خانہ مجدد الف ثانی کی زندگی سے مایوس ہو گئے۔ آپ کے والد نے ایک قاصد کے ذریعے آپ سے دعا کی درخواست کی۔ آپ نے دوگانہ ادا کرنے کے بعد فرمایا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے مجدد الف ثانی جلد صحت یاب ہوجائیں گے اور ان کے وجود سے دین مبین کو فروغ حاصل ہوگا۔ مجدد الف ثانی کی شاہ سکندر سے محبت اور عقیدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے یحیی کوکبھی اس کا نام لے کر نا پکارا کیونکہ وہ شاہ سکندر کی گود میں بیٹھا کرتاتھا۔ اس لیے ساری عمر اپنے بیٹے کو شاہ جیو کہہ کر پکارتے رہتے تھے۔ شاہ جیو ہمیشہ اس با ت پر فخر کیا کرتے تھے کہ شاہ سکندر نے بچپن میں ہی مجھے سلوک قادریہ میں مشرف فرمالیا تھا۔

خرقہ نبوی کی منتقلی[ترمیم]

سلطان المشائخ نظام الدین اولیاء سے منقول ہے کہ حضرت محمدﷺ شب معراج میں ایک خرقہ بہشت سے لائے تھے۔ حضرت محمدﷺ نے یہ خرقہ علی کرم اللہ وجہہ کو دے دیا۔ پھر یہ خرقہ امام حسین اور دیگر امامین سے ہوتا ہوا سید عبد القادر جیلانی تک پہنچا۔ پھر یہ خرقہ عبد الرزاق گیلانی سے ہوتا ہوا شاہ کمال کے پاس پہنچا اور پھر شاہ سکندر کیتھلی کے پاس پہنچا۔ آپ نے یہ خرقہ مجدد الف ثانی کو عطا فرمایا۔

وفات[ترمیم]

شاہ سکندر 9جمادی الاول 1023ھ کو آپ نے تازہ غسل فرمایا، نماز پڑھی اور اس کے بعد دیر تک سجدے میں رہے۔ اس کے بعد جو تبرکات سلسلہ بہ سلسلہ چلے آ رہے تھے اپنے دونوں صاحبزادوں کو عنایت فرمائے اور انھیں ضروری نصیحتوں کے بعد اگلے روز طلوع آفتاب کے بعد اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔ آپ کا مزار شریف کیتھل انڈیا میں ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تذکرہ حضرت شاہ سکندر کیتھلی،خورشید حسین بخاری، کاروان ادب ملتان