حکیم جوہر وارثی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
عبد الرؤف خاں حکیم جوہر ؔ
پیدائشمبارک علی
10 اکتوبر 1907ء مطابق 1 رمضان 1325ھ
محلہ بیلدارن ٹولہ شہر نانپارہ ضلع بہرائچ اتر پردیش ہندوستان
وفات1990ء
رہائشمحلہ بیلدارن ٹولہ شہر نانپارہ ضلع بہرائچ اتر پردیش ہندوستان
اسمائے دیگرعبد الرؤف خاں
تعلیمطبی اسناد
پیشہادب سے وابستگی،معالج
وجہِ شہرتشاعری
مذہباسلام

عبد الرؤف خاں حکیم جوہرؔ ضلع بہرائچ کے مشہور شاعر تھے۔ آپ کی پیدائش 10 اکتوبر1907ء بہ مطابق یکم رمضان 1325ھ کو محلہ بیلدارن ٹولہ نانپارہ ضلع بہرائچ میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام محمد نور خاں اور والدہ کا نام امیر جہاں بیگم تھا۔[1]

حالات[ترمیم]

حکیم جوہرؔ وارثی اپنے والدین کی اولادوں 10 بھائیوں اور بہنوں میں پہلی اولاد تھے[1]۔ آپ کے اجداد ڈیڑھ سو سال پہلے افغانستان سے بہرائچ آئے تھے اور یہیں سکونیت اختیار کر لی تھی۔ آپ کے خاندان کے زیادہ تر لوگ ریاست نانپارہ سے منسلک تھے اور اچھے عہدوں پر تھے۔ آپ کی تعلیم دینی مدارس میں میں ہوئی تھی۔ دسویں کے بعد منبع الطب کالج لکھنؤ میں داخلہ لیا اور وہاں سے فن طب کی سند حاصل کی۔ سند حاصل کرنے کے بعد بہرائچ میں حکمت کرنے لگے اور بعد میں ہمدرد دواخانہ دہلی کی ایجنسی حاصل کر لی۔ حکیم جوہر کے ہم عصروں میں مشہور طبیب حکیم صفدر علی صاحب وارثی (مصنف جلوائے وارث اور مشہورحکیم اور شاعر حکیم محمد اظہر وارثی کے والد اور مشہور شاعر اظہار وارثی کے دادا)،حکیم عبد القدیر اور حکیم عبد الباری تھے۔[1]

1966ئمیں آپ نے ہمدرد ایجنسی سے دست بردار ہو کر ہمدرد ایجنسی گونڈہ سے منسلک ہو گئے اور آخری وقت تک اسی سے وابستہ رہے۔گھر پر ہی مطب قائم کیا تھا اور خدمت خلق پرمامور تھے۔ جوہر صاحب حکیم ہونے کے ساتھ ہی ساتھ وطن کی آزادی کے ایک جانباز سپاہی بھی تھے۔ جن دنوں پنڈت نہرو الہ آباد نینی جیل میں قید تھے تو ان کی ہدایت کے مطابق موصوف کا بچپن کا زمانہ یوں گذرا کہ وہ ایک لنگوٹی باندھ کر خستہ حال فقیر کی شکل میں جیل سے کچھ فاصلہ پر اپنی گودڑ گٹھری لیے ہوئے سر راہ خیمہ زن رہتے اور راہ گیر چند سکے جوہر صاحب کے ہاتھ میں رکھ دیتے مگر دراصل کچھ مخصوص کانگریسی کارندے پیسوں کی جگہ دن بھر کی کارروائیوں اور حالات کی رپورٹ مڑے تڑے کاغذ کی شکل میں جوہر صاحب کو دیتے تھے ،جسے وہ رات میں مخصوص ذرائع سے پنڈت نہرو کے پاس پہنچا دیا کرتے تھے۔ آزادی کے بعد بھارت سرکار نے جوہر صاحب کی دلیرانہ خدمات کو سراہتے ہوئے ماہانہ وظیفہ مقر کیا تھا جو تا حیات ملتا رہا۔ جوہر[1] صاحب کو سیاست سے بھی گہرا تعلق تھا اور بہرائچ میونسپل بورڈ کے ارکان بھی رہے۔1988ء میں آپ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کیا تھا۔ آپ ریاست سطح کے بہترین کھلاڑی تھے۔ سرکاری اداروں اردو اکادمی،کھیل ندیشلیہ وغیرہ سے آپ کو ماہانہ امداد ملتی تھی ۔

ادبی خدمات اور ادبی شخصیات سے رابطہ[ترمیم]

حکیم جوہرؔ کے استاد شمس ؔ لکھنوی تھے جو لکھنؤ سے آکر نانپارہ میں بس گئے تھے۔ جب مولانا محمد علی جوہر[1] کا انتقال ہوا اس وقت شمس صاحب نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ جوہرؔ تخلص خالی ہوا ہے ،کون اس تخلص کو لیے گا۔ حکیم جوہر نے ہاتھ اٹھایا اور وہ جوہر ہو گئے اس سے پہلے آپ رؤفؔ ہی تخلص رکھتے تھے۔ آپ کا کوئی مجموعہ کلام شائع نہیں ،البتہ آپ کے شعری کلام 7جلدوں میں موجود ہے۔

آپ کے دوستوں میں خمار بارہ بنکوی،مجروح سلطان پوری،کیفی اعظمی،فراق گورکھپوری،شکیل بدایونی،علی سردار جعفری، فنا نظامی ،گوہر کانپوری،بیکل اتساہی تھے۔ جبکی شہربہرائچ اور نانپارہ میں آپ کے ہم عصر شاعروں میں شوق بہرائچی ،وصفی بہرائچی،ڈاکٹر نعیم اللہ خیالی،شفیع بہرائچی،محسن زیدی، حکیم اظہر وارثی، واصف القادری،ایمن چغتائی،بابا جمال ،ساغر مہدی،عبرت بہرائچی، غوث ؔ حسانی نانپاروی،فنا نانپاروی واصل بہرائچی وغیرہ تھے۔

وفات[ترمیم]

آپ کا انتقال 3 اکتوبر 1990ء میں بمطابق 13 ربیع الاول 1411ھ میں بہرائچ میں ہواتھا۔ آپ کی تدفین آ پ کے والد کے قریب ہی میں بہرائچ میں ہی ہوئی۔

نمونہ کلام[ترمیم]

بٹتی ہے وہاں رحمت آقائے مدینہ جنت جسے لینا ہو چلا آئے مدینہ

پوری ہو یو ہی کاش تمنائے مدینہ موت آئے یہاں ،روح پہنچ جائے مدینہ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ دبستان بہرائچ از شمیم اقبال خاں
  • دبستان بہرائچ از شمیم اقبال خاں