آغا حسن عابدی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
آغا حسن عابدی
پیدائش14 مئی 1922(1922-05-14)ء
لکھنؤ، پاکستان
وفات5 اگست 1995(1995-08-05)ء
کراچی، پاکستان
قلمی نامآغا حسن عابدی
پیشہماہرِ اقتصادیات، بینکار، سماجی کارکن
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمایم اے، انگریزی
ایل، ایل، بی
مادر علمیلکھنؤ یونیورسٹی

آغا حسن عابدی پاکستان کے ممتاز بینکاراور سماجی خدمت گار تھے۔ انھوں نے پاکستان میں جدید بنکاری کے متعدد اقدامات کو متعارف کروایا۔

ابتدائی زندگی اور کیرئیر کا آغاز[ترمیم]

آغا حسن عابدی 14مئی 1922ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے اور پھرقانون کی ڈگری لکھنؤ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اس کے بعد بنکاری کا شعبہ اپنایا اور 1946ء میں حبیب بنک سے منسلک ہوئے۔ 1947 میں وہ پاکستان ہجرت کر آئے۔ اور حبیب بنک میں ملازمت بدستور رکھی۔ وہ اس بنک کے متعدد انتظامی عہدوں پر فائز رہے ۔

یو بی ایل کا قیام[ترمیم]

آغا حسن عابدی نے 1959ء میں انھوں نے سہگل گروپ کی معاونت سے یونائیٹڈ بنک لمیٹڈ قائم کیا جو چند ہی برس میں پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا کمرشل بنک بن گیا۔

بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس[ترمیم]

1972ء میں جب پاکستان میں بینکوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا تو آغا حسن عابدی نے متحدہ عرب امارات کے شیوخ کے مالی تعاون سے بنک آف کریڈٹ اینڈ کامرس (Bank of Credit and Commerce International۔ BCCI) کے نام سے ایک بین الاقوامی بنک قائم کیا۔ جس کی شاخیں بہت جلد دنیا کے 72 ملکوں میں پھیل گئیں۔ اور یہ دنیا کے بہتیرین بینکوں میں شمار ہونے لگا ۔[1] آغا حسن عابدی نے بی سی سی آئی کو ایک کمرشل بینک کی حیثیت سے قائم کیا تھا مگر اسے تیسری دنیا کے ممالک کے محروم پسماندہ اور کم مراعات یافتہ اقوام کی ترقی کے لیے ایک فعال ادارے میں ڈھال دیا۔ انھوں نے اپنے بنک کے زیر اہتمام متعدد خیراتی اور فلاحی ادارے اور فاؤنڈیشن قائم کیے جنھوں نے دنیا کے بہت سے ممالک خصوصاً پاکستان میں فلاحی کام سر انجام دیے۔ 1989 میں ایک سازش کے تحت اس بینک کو ایک بین الاقوامی اسکینڈل میں ملوث کیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں پریشانی کے باعث آغا حسن عابدی کی صحت گرنے لگی اور 1990 میں انھوں نے اس بینک کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔[2]

اورنگی پائلٹ پراجیکٹ میں معاونت[ترمیم]

آغا حسن عابدی سے جب اورنگی پائلٹ پراجیکٹ، کراچی کے بانی اختر حمید خان نے اس پراجیکٹ کے فلاحی و ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے لیے معاونت طلب کی تو آغا حسن عابدی نے فنڈز جاری کرنے میں دریغ سے کام نہ لیا اور بہت جلد اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کا منصوبہ 1980 میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ۔[3]

دیگر فلاحی کام[ترمیم]

آغا حسن عابدی نہ صرف ایک بہترین بنکار تھے بلکہ ان کا ھدف بینکوں کے حاصل شدہ آمدنی سے اسکول، کالج، یونیورسٹیوں اور ہسپتالوں [4] کے قیام اور ترقی کے لیے بطور سرمایہ استعمال ہوئی۔ انھوں نے کراچی اورنگی پائلٹ پروجیکٹ ،بی سی سی آئی فائونڈیشن، GIKI، FAST ،NUST اور غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جیسے بہت سے اداروں کی مالی و مشاورتی سرپرستی کی ۔[5] انھوں نے تھرڈ ورلڈ فائونڈیشن کے اہتمام میں ایک شاندار تحقیقی جریدہ سائوتھ بھی جاری کی۔

انفاق فاؤنڈیشن کا قیام[ترمیم]

انھوں نے انفاق فاؤنڈیشن کی بھی بنیاد رکھی۔ جس کے تحت سماجی خدمت کے پروگرامز پیش کرنا، طبی امداد فراہم کرنا، مظلوم طبقے کی شنوائی، مختلف تعلیم اداروں اور پروجیکٹس کو امداد فراہم کرنا، ذہین طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے مواقع پیش کرنا، صحافیوں، مصنفوں اور فنکاروں کی امداد کی گئی ۔[6] یہ فاؤنڈیشن ابھی تک بہت سے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی امداد کی جا رہی ہے ۔[7]

ایوارڈ اور اعزازات[ترمیم]

  1. غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، صوابی، خیبر پختون خواہ، پاکستان کے آدیٹوریم کا نام آغا حسن عابدی آڈیٹوریم رکھا گیا ۔
  2. نیشنل یونیورسٹی آف کمپیوٹر اینڈ انجینییرنگ سائنسز (FAST) میں آغا حسن عابدی گولڈ میڈلز کا اجرا
  3. 2015 میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے ہلالِ امتیاز عطا کیا گیا ۔

وفات[ترمیم]

آغا حسن عابدی عرصہ دراز سے دل کے عارضے میں مبتلا تھے۔ 1988 میں ان کی دل کی ٹرانسپلانٹ سرجری بھی ہوئی۔ اور 5 اگست 1995ء کو وہ طویل علالت کے بعد 74 برس کی عمر میں کراچی میں وفات پاگئے۔ پسماندگان میں ان کی بیوہ رابعہ اور بیٹی ماہا شامل تھیں،

اقتباس[ترمیم]

افسوس کہ بھٹو نے نیشنالائیزیشن کر کے ملک کو کیسے کیسے گرانقدر ہیروں سے محروم کر دیا۔ قدرت اللہ شہاب اپنی کتاب "شہاب نامہ" میں آغا حسن عابدی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"حبیب بنک میں تقریباً 12 سال گزارنے کے بعد انھوں نے یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ (یو۔ بی۔ ایل) کی بنیاد ڈالی جس نے پاکستان میں بینکاری کو ایک نئی روش اور ایک نئے معیار سے روشناس کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نیشنل بینک کے بعد ہمارے وطن کا یہ دوسرا سب سے بڑا بینک مان لیا گیا جس کی پاکستان میں 912 اور بیرون ملک میں 24 برانچیں کھل گئیں۔ اندرونی برانچوں میں 224 شاخیں مشرقی پاکستان میں قائم تھیں۔ یو بی ایل نے بین الاقوامی سطح پر اپنا خاص رنگ جمایا اور خلیج کی امارات سمیت مشرق وسطیٰ میں تیل کی حکومت میں جب یو۔ بی۔ ایل قومیا لیا گیا تو آغا صاحب نے بھی اپنی مالیاتی مہارت کا رخ مغرب کی جانب موڑ دیا۔
مغربی دنیا میں آغا حسن عابدی کی کامیابیوں اور کامرانیوں کی حقیقت ایک افسانے سے بھی زیادہ عجیب اور حیران کن ہے۔
انھوں نے بینک آف کریڈٹ اینڈ کامرس انٹرنیشنل کے نام سے ایک بین الاقوامی ادارہ قائم کیا جس کے صدر نشین وہ خود ہیں۔ یہ بینک ایک واحد اور مکمل بالذات ادارہ نہیں بلکہ اپنے ساتھ ملحق ایک وسیع اور متنوع مالیاتی فنون کے اداروں کے مجموعے کا مرکز ہے۔ تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن بھی اس مجموعے کا ایک حصہ ہے۔ بی۔ سی۔ سی۔ اینڈ آئی کی دنیا بھر کے ستر ممالک میں ساڑھے تین سو سے زیادہ شاخیں کام کر رہی ہیں۔ اس کا ہیڈ کوارٹر نمبر 100 لیڈن ہال سٹریٹ لندن میں ہے۔ اس گلی میں ذرا سے فاصلے پر وہ مقام ہے جہاں پر 31 دسمبر 1600ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد ڈالی گئی تھی، جس نے رفتہ رفتہ برطانیہ کی ایسی شہنشاہی کی داغ بیل ڈالی جس کی قلمرو پر سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا۔
اکتوبر 1981ء میں لندن میں وہاں کے ایک مشہور رسالے "نیو اسٹیٹس مین" (New Statesman) کا ایک شمارہ میری نظر سے گذرا۔ اس کے سرورق پر آغا حسن عابدی کی بڑے سائز کی رنگین تصویر تھی، جس کے نیچے یہ درج تھا: ”ہائی سٹریٹ کا بینکر جو حکومتیں خرید لیتا ہے۔" (The High-Street Banker who buys Governments) رسالے کے اندر بی۔ سی۔ سی۔ آئی کے حوالے سے آغا صاحب کے بارے میں چار صفحات کا طویل مضمون بھی درج تھا۔ مضمون کا ہر فقرہ حسد، رقابت، خوف اور نفرت کی بھٹی میں بجھا ہوا تھا جس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ صاحب مضمون کے مطابق بی۔ سی۔ سی۔ اینڈ آئی ایک ایسا بینک تھا جو خطرناک تیز رفتاری سے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل رہا تھا۔ اس مضمون کے مطابق جنوبی امریکا، لاطینی امریکا، افریقہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے اہم کاروباری مراکز میں پاؤں جمانے کے علاوہ انگلستان میں بھی اس کی پچاس سے اوپر برانچیں قائم ہو چکی تھیں۔ ترقی اور وسعت کی یہ تیز رفتاری انگلستان کے اونگھتے ہوئے سست رو، سردمہر، بے حسن اور سرخ فیتوں میں جکڑے ہوئے غیر مثالی بینکوں کے لیے ایک زبردست خطرے کا نشان بن گئی تھی۔ ایک طرح سے ایک پاکستانی اس بینک کو قائم کر کے برطانوی سامراج کی ڈیڑھ دو صدی کا قرضہ کم از کم اقتصادی شعبے میں بڑی کامیابی سے چکا رہا تھا۔
اس تنقیدی اور تنصیبی مضمون کے مطابق بی۔ سی۔ سی اینڈ آئی کی مثالی ترقی اور تعمیر کا راز اس کے پریذیڈنٹ آغا حسن عابدی کی مالیاتی اور اقتصادی مہارت میں نہیں بلکہ ان کی سیاسی شعبدہ بازی میں مضمر تھا۔ اس سیاسی مہارت سے کام لے کر وہ بہت سے ملکوں کے سربراہوں اور حکومتوں کو اپنی مٹھی میں رکھتے تھے اور ان کی سرپرستی سے فائدہ اٹھا کر اپنے بینک کو ترقی دیتے تھے۔
یہ مضمون پڑھ کر مجھے یہ کرید لگ گئی کہ میں آغا صاحب سے مل کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں کہ ان کی ترقی کا اصلی راز کیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے خلاف حسد اور بغض کے اتنے بڑے بدنام کن شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ کچھ عرصہ بعد لیڈن ہال سٹریٹ والے ہیڈ کوارٹر میں مجھے یہ موقع مل گیا۔ بینک کی ایک پانچ چھ گھنٹے کی طویل میٹنگ سے فارغ ہو کر جب وہ مجھے ملے تو ہشاش بشاش تھے۔ ہماری ملاقات تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی۔ اپنے کام کے حوالے سے انھوں نے کوئی بلند بانگ دعوی کیے بغیر اپنے طریق کار پر بڑی فصاحت اور انکسار سے جو روشنی ڈالی، میرے لیے وہ کاروباری دنیا میں ایک نئے اور اچھوتے انداز کا فلسفہ تھا۔ ان کی گفتگو سے میں نے جو تاثر لیا وہ کچھ یوں تھا۔
بینک ہو یا فیکٹری، کاروباری ادارے ہوں یا کمپنیاں ان میں سرمایہ کاری کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہوتا ہے۔ منافع کی کمی بیشی اس ادارے کی کامیابی یا ناکامی کا واحد پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ پیمانہ صحیح نہیں۔ کامیابی کا اصلی راز اس امر کے ساتھ وابستہ ہے کہ ادارے کے انتظامی اور انصرامی امور کے افراد (Management) مادی سرمایہ میں اخلاقی سرمایہ کسی تناسب سے ملاتے ہیں۔ اگر یہ تناسب صحیح ہو تو انصرام میں مادی اور اخلاقی اقدار کا امتزاج ایک سچی کامیابی کو جنم دیتا ہے۔
مینجر کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کی نفسیات میں پوری طرح گھل مل جائے یا ان کی نفسیات کو خود اپنی ذات کے ساتھ ہم آہنگ کرے۔ اس عمل سے مینجر اور اس کے رفقا الگ الگ فرد نہیں رہتے، بلکہ ہر کوئی اپنی اپنی جگہ ایک ادارہ بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے انصرامی انتظامیہ کا ہالا دست گورننگ بورڈ صرف بورڈ روم کی چار دیواری میں مقید نہیں رہتا، بلکہ سارے کا سارا بورڈ ہر سطح پر ایک فعال کارکن کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس عمل سے اختیارات کی مرکزیت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ہر سطح پر اختیارات کا خود اپنا مرکز بن جاتی ہے۔ اس بندوبست کی کامیابی کا گُر لا مرکزیت ہے۔
مینجر میں محض فہم ہی نہیں بلکہ فراست کا موجود ہونا لازمی ہے۔ اگر اس کی فراست حالیہ ماحول اور مقصدیت کے محدود دائرے سے نکل کر آگے پھیل جائے تو مستقبل کے امکانات کے علاوہ زندگی کا اعلی مقصد بھی اس پر عیاں ہونے لگتا ہے۔ اس سے محدود مقصد اور لامحدود امکانات میں حقیقت پسندانہ توازن بھی قائم ہو کر برقرار رہتا ہے۔وہ مینجر ناکام ہے جو اپنے سے بہتر اپنا جانشین تیار نہیں کرتا۔
صرف مالی منافع کمانا کافی نہیں۔ اس کے ساتھ روحانی منافع کمانا بھی ضروری ہے۔ روحانی منافع صرف اس صورت میں وجود میں آتا ہے۔ جب ہم سچائی سے یہ کہہ سکیں کہ ہم نے اپنی جانب سے دیا تو زیادہ ہے اور دوسروں سے حاصل کم کیا ہے۔ روحانی منافع عجز اور انکسار کو فروغ دیتا ہے اور دل میں دوسروں کو دینے کی امنگ ابھارتا ہے۔ دنیا ذات الٰہی کی صفت ہے۔ اس صفت کو اپنانے سے قلب، ضمیر اور روح میں ایک عجیب نور جگمگانے لگتا ہے۔
دوسروں کو دینے کا راستہ کشادہ کرنے کی ذمہ داری بی سی سی آئی فاؤنڈیشن کے دائرہ کار میں شامل ہے۔ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام انواع و اقسام کے فلاحی ادارے چل رہے ہیں۔ کہیں پر ہسپتال، کہیں محروم اور نادار بچوں کے لیے اعلیٰ اسکول، کہیں ایسی کمیٹیاں جو بیمار یا معذور یا مرحوم ادیبوں، فنکاروں اور کھیل کے میدان میں نام پیدا کرنے والے کھلاڑیوں کے خاندانوں یا پسماندگان کے لیے طرح طرح کی مالی امداد فراہم کرتی ہیں۔ جس ملک میں بینک کی برانچ جس قدر منافع کماتی ہے۔ اس کا ایک مقررہ حصہ اسی ملک کے اس طرح کے فلاحی اداروں پر ضرور صرف کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ بینک کے 1000 ملازمین کو ہر برس پورے سال کی تنخواہ کی ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد تک اضافی رقم بھی اس شرط پر ادا کی جاتی ہے کہ وہ اسے اپنی ذات پر خرچ نہیں کریں گے بلکہ دوسروں کے کام میں لائیں گے۔ کوئی ملازم اس کو کس حد تک پورا کرتا ہے، اس کے بارے میں کوئی پوچھ گچھ نہیں کی جاتی۔ یہ معاملہ شخص کے اپنے ضمیر اور اعتماد پر چھوڑ دیا جاتا ہے، تا کہ بینک کے ملازمین میں دوسروں کو دینے کی عادت ڈالنے کی ترغیب دی جائے۔"

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. https://www.youtube.com/watch?v=_wq0soDKqLoAgha Hasan Abedi | Pakistani banker | SAMAA TV | 05 اگست 2017
  2. A tribute to Agha Hasan Abedi - YouTube
  3. The Low Cost Sanitation Programme of the OPP
  4. Remembering Agha Hasan Abedi - Part 2 of 2 - YouTube
  5. Posthumous honour for BCCI founder - The Express Tribune
  6. INFAQ Foundation | CDSS–Centre for Development of Social ServicesCDSS–Centre for Development of Social Services
  7. "Contact"۔ 26 جون 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اگست 2017