محمد خان ڈهرنالی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

محمد خان ڈھرنالی،ساٹھ کی دہائی میں شہرت پانے والے تلہ گنگ کی ایک شخصیت محمد خان کو محمد خان ڈاکو بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکو کی وجہ تسمیہ[ترمیم]

محمد خان اپنے علاقے میں دہشت اور خوف کی علامت بنا ہوا تھا۔ تلہ گنگ کے گاؤں ڈھرنال کا رہائشی ہونے کی وجہ سے اسے محمد خان ڈھرنال بھی کہاجاتا تھا۔ اس کے ڈکیت بننے کی وجہ تسمیہ کوئی برادری کا جھگڑا تھاجس میں اُس کے بھائی کو قتل کر دیا گیا۔ محمد خان نے بھائی کا بدلہ لینے کے لیے مخالفین کا ایک بندہ بھی قتل کر ڈالا اور فرار ہو گیا۔ محمد خان کے فرار کے دوران اُس کے ایک اور بھائی کو مخالفین نے قتل کرڈالا۔ دوسرے بھائی کے قتل کے بعد محمد خان کے اندر جذبۂ انتقام اور بھڑک اٹھا۔ اس نے باقاعدہ ایک گروپ بنا ڈالا اور مخالفین کو ایک ایک کرکے قتل کرنا شروع دیا۔ مخالفین کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ گروپ کی مالی سرگرمیوں کو پورا کرنے کے لیے ڈاکے بھی ڈالنا شروع کردیے۔ محمد خان کی شخصیت کا رعب دبدبہ تھا کہ پورے ضلع میں پولیس کے ڈی ایس پی سے لے کر ایک سپاہی تک اس کی اجازت کے بغیر گاؤں میں قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔

اشتہاری ملزم[ترمیم]

محمد خان ایک قتل کے بعد اشتہاری ملزم بن گیا۔ اْس وقت نواب آف کالا باغ امیر محمد خان مغربی پاکستان کے گورنرتھے۔ جو ایک رعب و دبدبہ والی شخصیت تھے۔ پورے ضلع کی پولیس محمد خان کی تلاش میں جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی۔ نواب آ ف کالا باغ کو جب محمد خان کے بارے میں پتہ چلا تو پورے ضلع کی پولیس اُس کی گرفتاری کے لیے ضلع میں تعینات کردی۔ بالاخر 1967ء میں محمد خان گرفتار کر لیا' گیا۔

چار بار سزائے موت[ترمیم]

سیشن کورٹ نے محمد خان کو قتل کے جُرم میں چار مرتبہ سزائے موت سنائی۔ اس نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جو منظور کر لی گئی۔ محمد خان کو عدالت میں پیش ہونے سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔

محمد خان نے عدالت سے استدعا کی کہ اُسے تفتیش کرنے والے ڈی ایس پی پر جرح کرنے کی اجازت دی جائے۔ دو دفعہ اُس کی درخواست نامنظور کردی گئی۔ بالاخر ایک ڈویژن بنچ نے جس میں جسٹس مشتاق حسین بھی شامل تھے نے اسے ڈی ایس پی پر جرح کرنے کی اجازت دے دی کہ ایک آدمی جسے چار مرتبہ سزائے موت سنائی گئی ہو اس کی حسرت کو پورا کیا جائے۔ جبکہ اس کو مقدمہ کی سماعت کے دوران حاضر بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ محمد خان کی تفتیشی افسر پر ہونے والی جرح کو سننے اور دیکھنے کے لیے لوگوں کا مجمع عدالت میں جمع ہو گیا۔ محمد خان درمیانے قد کا مضبوط قد کاٹھ کا حامل شخص تھا۔ خوبصورت بھاری بھرکم چہرہ، سفیدی بہ مائل گھنی مونچھیں اور ذہین و مسحور کردینے والی آنکھیں رکھتا تھا۔ عدالت میں پیش ہونے کے لیے آیا تو قرآن کی حمائل گلے میں ڈالی ہوئی تھی۔ عدالت میں نہایت ادب و احترام اور خوداعتمادی سے آیا اور نہایت اطمینان سے تفتیشی ڈی ایس پی پر جرح کرنے لگا کہ تفتیشی افسر کو مجھ سے ذاتی عناد ہے اور اپنی جرح میں کچھ اور بھی الفاظ بھی کہے بہر حال محمد خان عدالت سے سلام کے بعد اجازت لینے کے بعد یہ کہتا ہوا نکلا کہ میری تقدیر میں جو لکھا ہے وہ ضرور دیکھوں گا لیکن مجھے اطمینان ہے کہ عدالت نے مجھے سنا۔

وفات[ترمیم]

اس جرح کے بعد ہائی کورٹ نے محمد خان کو دو سزائے موت کی سزا سے بر ی کر دیا جبکہ دو میں سزا برقرار رکھی۔ جو بعد ازاں عمر قید میں بدل دی گئی۔ محمد خان 22 برس کی سزا کاٹنے کے بعد بری ہوا اور 29ستمبر 1995ء کوطبعی موت سے سفر آخرت پر روانہ ہوا۔

حوالہ جات[ترمیم]