میاں جمیل احمد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
میاں شیر محمد شرقپوری
معلومات شخصیت
رہائش شرقپور شریف، برطانوی ہند،
(موجودہ ضلع شیخوپورہ، پنجاب، پاکستان)
مذہب اہل سنت
عملی زندگی
دور 1933ء2013ء
وجۂ شہرت سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ

میاں جمیل احمد شرقپوری سلسلہ نقشبندیہ کی ترویج میں منہمک اہم ہستی کا نام ہے

ولادت[ترمیم]

صاحبزاہ میاں جمیل احمدشرقپوری 23 فروری 1933ء بمطابق 27 شوال 1351ھ بروز جمعرات پیدا ہوئے۔ اس وقت ثانی لا ثانی نماز فجر کی ادائیگی کے لیے مسجد تشریف فرماتھے۔ نماز سے فراغت کے بعد جب آپ گھر تشریف لائے تو مائی گاماں (دائی غلام فاطمہ زوجہ رحیم بخش ماچھی) نے بچے کی پیدائش کی خوش خبری سنائی۔ اس موقع پر کسی عورت نے حضرت ثانی سے عرض کیا یہ بچہ تو جمیل (خوب صورت) ہے۔ آپ نے فرمایا جمیل تو بس احمد مصطفی ﷺ کی ذات ہے۔ چنانچہ جمیل احمد کے امتزاج سے اس شہزادے کا نام جمیل احمد رکھا گیا۔

خاندان[ترمیم]

آپ میاں غلام اللہ المعروف ثانی لا ثانی کے برادر حقیقی میاں شیر محمد شیرربانی کے دوسرے فرزند تھے۔

تعلیم و تربیت[ترمیم]

تعلیم کا آغاز قرآن مجید ناظرہ پڑھنے سے کیا۔ مولانا محمد علی سے آپ نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک پڑھ لیا۔ اس کے بعد آپ اپنے والد محترم حضرت میاں غلام اللہ ثانی لا ثانی سے علوم اسلامیہ کی تعلیم کا آغاز کیا۔ گلستان وبوستان سبقا پڑھیں۔ پھر آپ نے پرائمری اسکول شرقپور سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا۔ پرائمری کی جماعتیں پاس کرنے کے بعد 1944 میں گورنمنٹ ہائی اسکول شرقپور میں پانچویں جماعت میں داخلہ لیا۔ اور 1951 میں میٹرک کا متخان پاس کیا۔ ازاں بعد آپ طبیہ کالج میں طب کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ حضرت قبلہ ثانی صاحب کے دست حق پرست پر بیعت کی اور دورودوظائف میں مشغول رہنے لگے۔

خدمت سلوک[ترمیم]

صاحبزادہ میاں جمیل احمدشرقپوری مدظلہ مشائخ پاکستان میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے اور آپ اہل سنت کے قدر دان بزرگ ہیں۔ میاں جمیل احمد صاحب نے سلسلہ نقشبندیہ میں سخت محنت سے کام لے کر ملک بھر کا دورہ کیا اور عقیدت مندوں کو روحانی سلسلہ سے مربوط کیا۔ علما و مشائخ سے رابطہ کر کے نقشبندی سلوک کو عام کرنے میں جدوجہد کی۔ آپ کو اشاعت علم سے خاصا لگاو تھا۔ اور تصنیف و تالیف کی لگن اور شوق بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ آپ نے مسائل نماز، عربی گرائمر، تذکرہ امام ابو حنیفہ اور ارشادات مجدد الف ثانی اور مسلک مجدد الف ثانی پر کتب لکھ کر شائع کیں۔ آپ نے رسالہ ماہنامہ نور اسلام شیرربانی نمبر اور مجدد الف ثانی تین جلدوں میں شائع کیے

فخر المشائخ[ترمیم]

صاحبزادہ میاں جمیل احمد شرقپوری مشائخ کی دنیا میں فخر المشائخ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں اور پہچانے جاتے ہیں۔ صاحبزادہ فیض الحسن شاہ نے مولانا منصب علی مرحوم صدر مدرس جامعہ دارلمبلیغین کی موجودگی میں صاحبزادہ میاں سعید احمدسے فرمایا کہ نقشبندیت اور مجددیت کی متعارف کرانے میں جتنا کام میاں جمیل احمد شرقپوری نے کیا ہے اتنا کسی بھی سجادہ نشین کے حصے میں نہیں آیا۔ اس اعتبار سے آپ بجا طور پر قابل فخر ہستی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک طرف فخر ملت تھے تو دوسری طرف فخر المشائخ بھی تھے۔ ان کے فخر المشائخ ہونے میں ان کے دینی اور تبلیغی کاموں کی فہرست بڑی طویل ہے۔

دینی خدمات[ترمیم]

مذہبی اور دینی خدمات کے لیے بھی آپ نے 1960 میں جامعہ دارالمبلغین حضرت میاں کا قیام فرمایا۔ جو پورے انہماک کے ساتھ تدریس قرآن اور درس نظامی کی تکمیل کر رہا ہے۔ ہر سال یہاں سے فارغ ہونے والے حفاظ اور علما ملک کے گوشے گوشے میں تبلیغ دین کے لیے جاتے ہیں۔ آپ نے مجدد الف ثانی کو متعارف کرانے کے لیے جو کام کیا وہ بہت اہم ہے آپ نے یوم مجدد پاک منانے کی ایک تحریک شروع کی۔

سلسلہ اعراس[ترمیم]

حضرت شیرربانی کی تعلیمات کو عام کرنے لیے لیے عرس شیرربانی اور یوم شیرربانی اور ختم مبارک حضرت قبلہ میاں غلام اللہ ثانی لا ثانی بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے۔ ملک کے کونے کونے سے لوگ بڑی محبت اور عقیدت کے ساتھ آتے اور فیوض وبرکات سے جھولیاں بھر کے لیے جاتے

مساجد کی تعمیر[ترمیم]

مساجد کی تعمیر میں آپ نے خصوصی ذوق و شوق کا مظاہرہ کیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شیرربانی کے نام سے بننے والی تقریبا 62 مسجدیں آپ کی کوششوں کا نتیجہ تھیں۔ یہ مساجد پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرون ممالک خصوصا لندن، ترکی اور مدینہ طیبہ میں بھی ہیں۔ ان مساجد کے ساتھ مدارس شیرربانی اور تدریس علوم دین کا کام بھی کرتے رہے۔ اسلام آباد میں بننے والی مسجد شیرربانی میں آپ نے خصوصی دلچسپی کا اظہار کیا۔ آپ نے اس کام کے لیے رقوم اکھٹی کیں اور مہینوں تک اس کام کی خود نگرانی فرماتے رہے۔ آپ نے تیس سے زیادہ حج فرمائے۔ آپ اپنے مریدوں سے فرماتے کہ تم مسلمان ہو کر اپنے سچے نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جھجک محسوس کرتے ہو مگر سکھوں کو دیکھو وہ تو اپنے گرو کی پیروی کرتے ہوئے کسی قسم کی جھجک اور شرم کو خاطر میں نہیں لاتے۔ آپ اپنے ہر ملنے والے کو سنت کے مطابق داڑھی رکھنے اور سادہ لباس پہننے کی تلقین فرماتے۔

وصال[ترمیم]

آپ نے 11 ستمبر 2013ء 1351ھ کو بوقت نماز عصر اس جہاں فانی سے پردہ فرمایا اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ و تذکرہ خانقاہ نقشبندیہ مجددیہ شرقپور شریف، محمد نذیر رانجھا،پورب اکادمی اسلام آباد