انجمن ترقی اردو پاکستان

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
انجمن ترقی اردو پاکستان

ملک پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P17) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
صدر دفتر کراچی   ویکی ڈیٹا پر (P159) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ تاسیس 1948  ویکی ڈیٹا پر (P571) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بانی مولوی عبدالحق   ویکی ڈیٹا پر (P112) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قسم ادبی و علمی
مقاصد اردو کی ترویج و ترقی
معتمد زاہدہ حنا
خازن سید عابد رضوی
مجلس نظما ڈاکٹر یوسف خشک
ڈاکٹر انوار احمد
ڈاکٹر نجیب جمال
آصف عزیز زبیری
علی خرم زیدی
صدر واجد جواد
کلیدی شخصیات ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی
سید علی حسن
باضابطہ ویب سائٹ

انجمن ترقیِ اردو پاکستان کا ادارہ 1948ء سے پاکستان میں اردو کی ترویج و ترقی کے لیے بہت فعال کردارادا کر رہا ہے

پسِ منظر[ترمیم]

قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک جن اہم افاروں نے اردو زبان کے ابلاغ و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ان میں انجمن قیامِ پاکستانِ کو اولین مقام حاصل ہے۔ یہ انجمن قیامِ پاکستانِ سے قبل وجود میں لائی جا چکی تھی ۔جب جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی و ادبی شعبہ ’’ انجمن ترقی اردو ‘‘ کے نام سے قائم کیا گیا۔ اس کے بانیان و قائدین میں بہت سے مشاہیر کے نام شامل ہیں ۔انجمن کے ہلے صدر معروف مستشرق پروفیسر آرنلڈ تھے۔ اور معتمد علامہ شبلی نعمانی تھے۔ ان کے علاوہ مولوی نذیر احمد، الطاف حسین حالی ،مولوی ذکاء اللہ، مولانا محمد شبلی نعمانی، نواب حبیب الرحمن خان شیروانی، نواب صدر یار جنگ، مولوی عزیز مرزا، مولوی عبدالحق شامل تھے۔ انجمن جب قائم ہوئی تو چونکہ اس زمانے میں مولوی عبد الحق اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو 1912 میں وہ اپنے ساتھ لے گئے اور حیدرآباد دکن مرکز قرار پایااور اسے اردو باغ کا نام دیا گیا۔ اس عرصے میں اردو زبان کی ترویج و ترقی کے لیےاس مرکز کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔حیدر آباد، دکن میں تقریبا چھبیس برس کی خدمات کے بعد انجمن کو 1938ء میں دلّی منتقل کیا گیا۔یہاں بھی انجمن نے مولوی عبدالحق کی سرپرستی میں بہت شاندار کدمات انجام دیں۔

انجمن ترقیِ اردو پاکستان کے ابتدائی مہ و سال[ترمیم]

1947 میں تقسیم ہند کے ہنگاموں میں انجمن کے کتب خانے کی بیشتر کتابیں ضائع ہو گئیں۔ مولوی عبد الحق کراچی آ گئے اور اکتوبر 1948ء سے انجمن کا مرکز کراچی بن گیا۔ ابتدائی دنوں میں جعاشی طور پر اور دیگر کئی امورمیں بھی سخت مشکلات درپہش تھیں تاہم مستعد نظامت کاروں نے انجمن کی ساکھ کو اس معیار پر برقرار رکھا جو قیامِ پاکستان سے قبل کی تھی۔ مشہور ادیب اور ادیب گر سر شیخ عبد القادر صدر منتخب ہوئے۔قائد اعظم محمد علی جناح کو انجمن کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ قائد اعظم نے یہ دعوت منظور کرلی اور اپریل کے بعد کسی دن کو انجمن کے افتتاح کا ارادہ تھا مگر قائدِ اعظم کی مصروفیت اور پھر وفات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔ شہید ملّت لیاقت علی خان، سردار عبد الرب نشتر اور دوسرے اکابرین وقت نے انجمن سے تعلق جاری رکھا۔ اس وقت انجمن کی شاخیں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قائم ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہ ابھی تک سرگرمِ عمل ہے۔

پاکستان میں اس انجمن کے ابتدائی ناظمین و عہدیداران[ترمیم]

پاکستان میں اس انجمن کے ابتدائی ناظمین و عہدیداران کا سال بہ سال چنائو اور انجمن کی کارکردگی یوں رہی۔ 1946 میں سر شیخ عبدالقادر، صدرِ انجمن اور مولوی عبد الحق سیکرٹری مقرر ہوئے۔ سر شیخ عبد القادر بھی جلد ہی انتقال فرما گئے۔ اب بابائے اردو انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ بابائے اردو کے بعد اختر حسین نے صدارت کی ذمے داری قبول کی اور اپنی وفات تک صدر رہے اُن کے بعد قدرت اللہ شہاب صدر منتخب ہوئے، اُن کے انتقال کے بعد جناب نورالحسن جعفری انجمن کے صدر رہے اور ان کے انتقال کے بعدجناب آفتاب احمد خان انجمن کے صدر بنے۔ آفتاب صاحب کے بعد، ذوالقرنین جمیل صاحب 2018 سے 2019تک صدر رہے۔۔ پھر2019 سے 2022 تک عبد الواجد جواد صاحب کو یہ عہدہ دیا گیا اور 2022 سے اب تک عبد الواجد جواد صدر اعزازی ہیں ، اب انجمن ترقی اردو پاکستان 2025 میں مجلس نظماء (governing body) کے الیکشن کا انعقاد کرے گی۔

پاکستان میں انجمن کے معتمدین[ترمیم]

پاکستان میں انجمن کے معتمدین میں بھی بڑے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین ڈاکٹر معین الحق جمیل الدّین عالی بابائے اردو کی حیات ہی میں رکن منتظمہ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد معتمدِ اعزازی مقرر ہوئے۔ وفات تک وہ یہ خدمت اعزازی طور پر انجام دیتے رہے۔ یہ تمام شخصیات علمی ، ادبی و تحقیقی میدان کے قہ مشاہیر تھے جن کی کاوشوں سے انجمن ترقی اُردو۔ ایک قد آور ادارہ لہ حیثہت سے قائم و دائم ہے۔

انجمن کی اہم ترین خدمات ، سال بہ سال[ترمیم]

1949ء میں انجمن نے اردو کالج قائم کیا جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ یہ کالج وفاقی اردو کالج برائے فنون۔ قانون اور سائنس کے نام سے موسوم ہے۔ سال 2002 میں وفاقی اردو یونیورسٹی کی عمارت قائم کی گئی۔[1] پاکستان میں انجمن کا پہلا دفتر گلشنِ اقبال میں ایک رہائسی مکان میں تھا جس لی پہلی منزل میں دفاتر اور بالائی منزل میں کتب خانہ تھا۔ یہ عمارت انجمن کی وسیع تر سرگرمیوں کے لیے ناکافی تھی لہذا 1987 میں نئی عمارت کے لیے گلستانَ جوہر میں صدرِ انجمن نور الحسن جعفری کی کاوشوں کی بدولت انجمن کو زمین الاٹ ہوئی اور بعد ازاں صدرؐ انجمن ڈاکٹر فاطمہ حسن کے دور میں اردو باغ کی عمارت نے بالآخر تکمیلی مراحل طے کر لیے اور س کا باقاعدہ افتتاح 20 جنوری 2018 میں ہوا۔[2] 2023 میں ایوانِ جوش کی عمارت کینیڈا میں مقیم پاکستانی ادیب اقبال حیدر کی جانب سے تعمیر کرکے انجمنِ ترقی اردو کے زیرِ انتظام اردو باغ کی انتظامیہ کو عطیہ کی ہے۔

انجمن ترقیِ اردو کے اہم ترین اہداف[ترمیم]

انجمن ترقیِ اردو کے بنیادی مقاصد میں تحقیق۔ ترجمہ اور تدریس شامل تھے۔ لہذا ابتدا ہی سے ان اہم پہلووں پع خاص توجہ دی گئی۔ 1۔ قدیم کتابوں کی اشاعت 2۔ شعرائے اردو کے تذکروں کی اشاعت 3۔ رسائل ، جرائد اور ادبی و تحقیقی کتب کی اشاعت اردو زبان کے سلسلے میں انجمن کی تن دہی سے اس کو تمام تر اہداف کے حصول میں کامیابی ہوئی۔

پاکستان میں انجمن ترقی اردو کی ہمہ جہت کارکردگی[ترمیم]

اردو کالجوں کا قیام[ترمیم]

جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن نے اردو کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے کا کامیاب تجربہ قیامِ پاکستان کے بعد نامساعد حالات کے باوجود اردو بحیثیت قومی زبان پاکستان میں عام کرنے میں معاون رہا اور یہ بھی طے ہوا کہ قومی سطح پر ایک اقامتی جامعہ اردو قائم کی جائے۔ ابتدائی مرحلے میں کراچی میں انجمن کی عمارت میں ہی اردو کالج قائم کیا گیا جس میں فنون، سائنس، تجارت اور قانون کی تعلیم اردو میں ہوتی ہے۔ اس کالج میں توسیع کے لیے بعد میں یونیورسٹی روڈ پر سرکاری گرانٹ اور بیشتر عوامی چندے سے ایک وسیع عمارت تعمیر ہوئی۔ اور اس طرح سائنس کالج وہاں منتقل کردیا گیا۔ انجمن کے اب دو کالج ہوگئے۔اور ان میں ایم۔اے، ایم ایس۔سی اور ایل ایل ایم تک تدریس اردو میں ہونے لگی تھی۔ جب تعلیم قومیائی گئی تو پھر(وفاقی) اردو فنون اور اردو سائنس کالج شاندار اداروں کی حیثیت پا گئے۔ لہذا اب یہ کالج نہ صرف وفاقی حکومت کے زیرانتظام ہیں بلکہ اردو تدریسی تجربہ کامیاب ہونے کی وجہ سے سال 2002 میں وفاقی اردو یونیورسٹی برائے فنون،سائنس اور ٹیکنالوجی کے نام سے بطور جامعہ سرگرمِ عمل ہیں ۔ یہاں حسبِ ذیل مختلف النوع شعبہ جات میں اعلیٰ درجے کی کلاسز ہو رہی ہیں۔

  1. اردو یونیورسٹی، گلشن کیمپس : پندرہ شعبے مع سائنس، کمپیوٹر سائنس ،تجارت، ماس کمیونیکیشن، کلیہ فارمیسی ، شعبہ قانون
  2. اردو یونیورسٹی، گلشن کیمپس : پندرہ شعبے مع سائنس، کمپیوٹر سائنس ،تجارت، ماس کمیونیکیشن، کلیہ فارمیسی ، شعبہ قانون
  3. اردو یونیورسٹی، عبد الحق کیمپس : اٹھارہ شعبے مع قانون، فنون، لسانیات اور ماکس کمیونیکیشن
  4. اردو یونیورسٹی، اسلام آباد کیمپس : آٹھ شعبے مع سائنس، قانون، کمپیوٹر سائنس، تجارت، بزنس اورمعیشت
  5. اردو یونیورسٹی، عبد الحق کیمپس : اٹھارہ شعبے مع قانون، فنون، لسانیات اور ماکس کمیونیکیشن
  6. اردو یونیورسٹی، اسلام آباد کیمپس : آٹھ شعبے مع سائنس، قانون، کمپیوٹر سائنس، تجارت، بزنس اورمعیشت

نجمن کی عمارت[ترمیم]

انجمن کے قیام کے وقت کراچی کی جس عمارت میں انجمن کے دفاتر نے کام شروع کیا وہ اردو کالج کے قائم ہو جانے سے رفتپ رفتہ تنگ پڑ گئیے ۔ ں ہنگاموں کی وجہ سے ۱۹۹۱ء میں انجمن کے بعض دفاتر اور کتب خانۂ خاص کو گلشنِ اقبال کی ایک عمارت میں منتقل کیا گیا۔ تاہم شعبۂ فروخت پُرانی عمارت ہی میں ہی رہا۔ بابائے اُردو کی آخری آرام گاہ بھی اسی عمارت میں ہے۔

نیا تعمیراتی منصوبہ[ترمیم]

انجمن نے اپنے وسائل سے پانچ ہزار گز کا ایک قطع زمین گلستانِ جوہر میں خریدا اور اس پر عمارت کا کام شروع ہوا۔ انجمن کے محدود وسائل کے باعث مطلوبہ وقت میں منصوبہ مکمل ہونے میں قدرے تاخیر ہوئی تاہم منصوبہ جب ھتمی شکل پا گیا تو سال 2016 کو صدر ممنون حسین نے اردو باغ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا ۔ https://hamariweb.com/articles/101286

اردو باغ کا کتب خانہ ایک نادر علمی خزینہ[ترمیم]

انجمن ترقیِ اردو پاکستان نے شروع ہی سے محقّقوں، علمی کام کرنے والوں، طلبہ اور عام قارئین کے لیے دو کتب خانے قائم کیے۔ کتب خانۂ خاص ہزاروں نادر اور کمیاب کتابوں پر مشتمل ہے اور اپنی نوعیت کا واحد کتب خانہ ہے۔ جس میں اردو، فارسی، عربی، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ اس سے استفادہ کرنے دنیا بھر سے محقّقین اردو آتے ہیں۔ انھیں ضروری سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ کتب خانہ عام۔ عام پڑھنے والوں کے لیے ہے۔ اس میں بھی ہزاروں کتب رکھی گئی ہیں نیز ٹیکنالوجی کے جدید ترین نظام کی مدد سے لائبریری کو ہر ممکن با سہولت بنا دیا گیا ہے۔ جیسا کہ قیامِ پاکستان کے بعد کے سالوں میں انجمن کی عمارت پرانی بلڈنگ میں تھی، جہاں اس کی نچلی منزل میں دفاتر اور بالائی منزل میں کتب خانے کو آراستہ کیا گیا تھا تاہم عمارت میں کتب خانے کے لیے مختص جگہ دن بدن کم پڑتی گئی۔تقعیبا اڑھائی ہزار قلمی مخطوطے نیشنل میوزیم کراچی میں انجمن کی امانت کے طور پر رکھ دیے گئے ۔ سال 2018 میں گلستانِ جوہر میں انجمن کی نئی عمارت قائم ہو جانے کے بعد ان مخطوطوں کو واپس اردو باغ کی لائبریری میں منتقل کر دیا گیا۔ انجمن کی لائبریری کے تعارف کے ساتھ ایوان جوش [3] کا تذجرہ بھی لازم ہے ۔ ایوانِ جوش کی عمارت کینیڈا میں مقیم ادیب اقبال حیدر نے انجمن کو دی ہے۔ اس کا افتتاح 6 دسمبر 2023 کو اس وقت کے نگران صوبائی وزیر محمد احمد شاہ نے کیا۔ ایوانِ جوش میں فی الحال اردو کی کتب کا ذخیرہ رکھا گیا ہے۔ اس وقت جب کہ اردو باغ کے کتاب خانے اور ایوانِ جوش میں کی بھی کتب کے ساتھ ادارے کے پاس ایک لاکھ کے لگ بھگ کتب ہیں۔ 2500 کے قریب مخطوطات و نادر و نایاب کتب ہیں۔ 1100 قدیم اردو میں، 700 فارسی ،یں اور بقایا عربی میں ہیں۔

انجمن کا کتب خانۂ خاص اور کتب خانہِ عام[ترمیم]

پاکستان میں اپنے قیام کے بعد انجمن نے محقّقوں، علمی کام کرنے والوں، طلبہ اور عام قارئین کے لیے دو کتب خانے قائم کیے۔ کتب خانۂ خاص کئی ہزار نادر اور کمیاب کتابوں پر مشتمل ہے اور اپنی نوعیت کا واحد کتب خانہ ہے۔ جس میں اردو، فارسی،عربی، انگریزی، جرمن اور فرانسیسی کتابوں کا ذخیرہ ہے۔ اس سے استفادہ کرنے دنیا بھر سے محقّقین اردو آتے ہیں۔ انھیں ضروری سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں۔ کتب خانہ عام۔ عام پڑھنے والوں کے لیے ہے۔ یہاں بھی ہزاروں کتب اور جدید ٹیکنالوجی کے کت لوازمات سے عام قارئین کو روزانہ استفادہ و مطالعہ کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔

نجمن کے مخطوطے[ترمیم]

انجمن کے پاس اردو، فارسی اور عربی کے قلمی نسخوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ان تمام نسخوں کی توضیحی فہرستیں مرتّب ہوکر شائع ہوچکی ہیں۔ مناسب نگہداشت اور حفاظت کے خیال سے ان قلمی نسخوں کو قومی عجائب خانے میں رکھا گیا تھا لیکن اردو باغ ، گلستانِ جوھر کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد اسے امانت کو واپس اردو باغ کے کتاب خانے میں پہنچا دیا گیا ہے۔

اشاعتی خدمات[ترمیم]

انجمن کے اخبار و رسائل[ترمیم]

انجمن نے 1921ء میں جنوبی ایشیا کا وقیع سہ ماہی ”اردو“، 1928ء میں رسالہ ”سائنس“ کا اجرااس مجلہ ”سائنس“ کے ذریعے سے اردو میں جدید دَور کے سائنسی افکار کی اشاعت ہوئی۔ یہ رسالہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی کافی عرصہ تک شائع ہوفا رہا۔ 1939ء میں اخبار ”ہماری زبان“ جاری کیا۔ اردو کا مقصد و منشا اردو ادب اور اعلیٰ تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ”ہماری زبان“ ”اردو زبان“ کے بارے میں تازہ ترین خبروں کا مجموعہ ہوتا تھا۔ انہی کو بعد میں ماہنامہ قومی زبان کے عنوان سے جاری کیا گیا۔ اس وقت انجمن ترقی اردو پاکستان دو جرائد باقاعدگی سے شائع کر رہی ہے، جو حسبِ ذیل ہیں ۔ انجمن دو رسالے ماہنامہ ’’قومی زبان‘‘ اور سہ، ماہی’’اردو‘‘ شائع کرتی ہے۔ ’’قومی زبان‘‘ ۱۹۴۹ء سے شائع ہورہا ہے۔ ’’اردو‘‘ اردو کا قدیم ترین علمی اور تحقیقی رسالہ ہے۔

لغات:۔ علمی اصطلاحات کی فرہنگیں[ترمیم]

انجمن نے اعلیٰ سطح کی سائنسی تعلیم کے لیے علمی اصطلاحوں کو فروغ دینے کے سلسلے میں نہ صرفتجارت اور صنعت و حرفت کے حوالے سے بینکاری کی اصطلاحوں کی ایک فرہنگ بلکہ بینکاری کی اصطلاحوں کبھی شائع کر دیا ہے۔

تراجم:۔ سرکاری اورغیرسرکاری اداروں کو مشورے اور ان کے ساتھ تعاون[ترمیم]

انجمن نے حکومت کے اداروں مثلاً ریلوے کے لیے انگریزی اصطلاحات کے اردو مترادفات تیار کیے۔ ان میں محکمہ ڈاک، عساکر پاکستان، بلدیہ عظمیٰ کراچی وغیرہ کے لیے عام مختلف دفتری اصطلاحاٹ کے ترجمے کیے گئے۔ اس ضمن میں مزید اداروں سے بھی مشاورتی اشتراک جاری ہے۔

تحقیقی کتب اور دیگر موضوعات کی علمی و ادبی کتب[ترمیم]

  1. مثنوی نظامی دکنی عرف کدم راؤ پدم راؤ کی اشاعت۔ (اردو کی پہلی کتاب)
  2. پاپولر انگریزی اردو ڈکشنری (ساتواں ایڈیشن)
  3. اسٹوڈنٹس انگریزی اردو ڈکشنری (تیرھواں ایڈیشن(
  4. اردو انگریزی ڈکشنری (پانچواں ایڈیشن(
  5. پاکٹ انگریزی اردو ڈکشنری (چوتھا ایڈیشن(
  6. مصطلاحاتِ علوم و فنون عربیہ
  7. تاریخ مسلمانان پاکستان و بھارت (دو جلدیں)
  8. قاموس الکتب (تین جلدیں)
  9. اقوال و امثال

اشاعتی پروگرام[ترمیم]

انجمن ہر سال ایک طے شدہ پروگرام کے مطابق تحقیق، تنقید، تاریخ اور ادب سے متعلق متعدد کتابیں شائع کرتی ہے۔ پاکستان میں اپنے قیام سے اس وقت تک انجمن ۶۰۰ سے زائدعلمی، ادبی اور تحقیقی کتابیں شائع کرچکی ہے۔ یہ ایک غیرتجارتی بنیادوں پر نہایت وقیع سلسلہ ہے۔

انجمن کے علمی اور ادبی منصوبے (بیرونِ پاکستان مراکز اردو سے ممکنہ تعاون کے علاوہ=[ترمیم]

  1. لغت مترادفات و متضادات
  2. اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری میں پندرہ ہزار نئے الفاظ کا اضافہ

دیگر پاکستانی زبانیں اور انجمن[ترمیم]

انجمن اردو کے تحت دیگر پاکستانی (علاقائی) زبانوں کے باہمی ربط کے لیے چاروں علاقائی زبانوں سے اردو میں ترجمے کروانے کا بھی فریضہ ادا کر رہی ہے جو کہ اردو سے ان کا مسلسل ارتباط اور باہمی تعاون انجمن کی پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔

علاقائی اور دیگر زبانوں سے تراجم[ترمیم]

  1. پاکستان کی علاقائی زبانوں کے منتخب افسانوں کا ایک ترجمہ تیاری کے مرحلے میں ہے۔
  2. برطانیہ اور دیگر ممالک میں آباد پاکستانیوں کے بارے میں لکھے جانے والے انگریزی افسانوی مجموعے ’’زبانِ واحد‘‘ کا ترجمہ اشاعت کیاجاچکا ہے۔
  3. اردو کے ممتاز برطانوی عالم پروفیسر رالف رسل کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ (انگریزی) ترجمہ کرکے شائع کیا جاچکا ہے۔
  4. فلسطینیوں پر کیے جانے والے ظلم و بربرّیت کی ایک داستان ’’سعید کی پُراسرار زندگی‘‘ شائع ہوچکی ہے اس پُراثر ناول کا ترجمہ ممتاز ادیب جناب انتظار حسین نے کیا ہے۔
  5. ممتاز سائنس داں ڈارون کی کتاب ’’آغاز انواع‘‘ کا ترجمہ ملک کے ممتاز دانشور سیّد محمد تقی نے کیا تھا۔ اشاعت کے لیے تیار کی جارہی ہے۔

علاقائی ادب کی ترویج بذریعہ اردو[ترمیم]

قومی زبان اور علاقائی زبانوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے اور ایک دوسرے کے بہتر تفہیم کے لیے انجمن نے یہ کتابیں شائع کی ہیں:

  1. موج موج مہران معاصر سندھی شعرا کے سندھی کلام کا منظوم ترجمہ
  2. پشتو شاعری پشتو شاعری کا سیرحاصل جائزہ اور ترجمہ
  3. پنجابی زبان و ادب کی تاریخ (۴) پنجابی کے پانچ قدیم شاعر
  4. مثنوی سیف الملوک میاں محمد بخش کی شہرۂ آفاق مثنوی کی تلخیص اور اردو ترجمہ

ادبی پروگرامز اور سیمینارز کا انعقاد[ترمیم]

بابائے اردو یادگاری لیکچر[ترمیم]

ہر سال ملکی و بین الاقوامی مفکرین اور علما کو بابائے اردو دگاری لیکچرز کے انعقاد میں مدعو کیے جاتے ہیں۔ یہ لیکچر کتابی شکل میں شائع بھی کیا جاتا ہے۔ اب تک درج ذیل لیکچر ہوچکے ہیں:

  1. محمد تقی میر ڈاکٹر جمیل جالبی
  2. جمالیات اور اردو ادب ڈاکٹر ریاض الحسن
  3. اردو کا علمی و فکریاتی ادب ڈاکٹر سیّد عبداللہ
  4. جدید اردو تحقیق ڈاکٹر وحید قریشی
  5. جدید اردو تنقید ڈاکٹر وزیر آغا
  6. جدید اردو شاعری عزیز حامد مدنی
  7. ادب میں علامات ڈاکٹر تنویر احمد
  8. سرسیّد کا تعلیمی منصوبہ ڈاکٹر نورالحسن نقوی

انجمن کےوظائف اور ایوارڈز کا اجرا[ترمیم]

بزرگ ادیبوں اور شاعروں کی خدمات پر’’نشانِ سپاس[ترمیم]

انجمن نے اردو اور علاقائی زبانوں کے بزرگ لکھنے والوں کی ادبی خدمات کے اعتراف میں جلسوں کا ایک سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ اب تک درج ذیل بزرگ ادیبوں اور شاعروں کے اعزاز میں جلسے ہوچکے ہیں اور انھیں ’’نشانِ سپاس‘‘ پیش کیا جاچکا ہے:

  1. جناب احمد ندیم قاسمی
  2. جناب ڈاکٹر غلام مصطفی خاں
  3. جناب اشرف صبوحی
  4. جناب میرزا ادیب
  5. جناب فارغ بخاری
  6. جناب رضا ہمدانی
  7. جناب ابوالفضل صدیقی
  8. جناب تابش دہلوی
  9. جناب پروفیسر ممتاز حسین
  10. جناب جلیل قدوائی
  11. جناب امیر حمزہ شنواری (پشتو)
  12. جناب شریف کنجاہی (پنجابی)
  13. جناب مولانا غلام مصطفی قاسمی (سندھی)
  14. جناب میر مٹھا خاں مری (بلوچی)
  15. جناب شان الحق حقّی
  16. جناب سیّد ضمیر جعفری
  17. جناب ممتاز مفتی
  18. جناب حمید نسیم
  19. حکیم محمد سعید

طلبائے جامعات کی اعلیٰ ترین تعلیمی درجات پانے پر طلائی تمغے اور نقدانے[ترمیم]

انجمن ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اردو زبان و ادب میں ایم اے کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے اوّل بدرجہ اوّل آنے والے طالب علم کو طلائی تمغہ اور نقد رقوم ادا کرتی ہے۔ یہ تمغے اور نقدانے یونیورسٹیوں کے جلسہ تقسیم اسناد میں پیش کیے جاتے ہیں۔[4]

حوالہ جات[ترمیم]