تبادلۂ خیال:فاطمہ بنت موسی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اس مواد کو مناسب کانٹ چھانٹ کے بعد مضمون میں ڈالا جا سکتا ہے۔[ترمیم]

فاطمہ معصومہؑ
حرم حضرت معصومہ
نام فاطمہ بنت موسی بن جعفر
وجہ شہرت شیعہ امام زادی، امام رضاؑ کی بہن
لقب معصومہ، کریمہ اہل بیت، طاہرہ، حمیدہ، بِرّہ، رشیدہ، تقیہ، نقیہ، رضیہ، مرضیہ، سیدہ، اخت الرضا۔
تاریخ پیدائش 1 ذی القعدہ، 173ھ
جائے پیدائش مدینہ
وفات 10 ربیع الثانی، 201 ھ
مدفن قم
سکونت مدینہ
والد امام موسی کاظمؑ
والدہ نجمہ خاتون
شریک حیات غیر شادی شدہ
عمر 28 سال
مشہور امام زادے
حضرت عباس، حضرت زینب، حضرت معصومہ، علی اکبر، علی اصغر، عبد العظیم حسنی، احمد بن موسی، سید محمد، سیدہ نفیسہ

فاطمہ بنت موسی الکاظم، حضرت معصومہؑ کے نام سے مشہور، امام موسی کاظم علیہ السلام کی بیٹی اور امام علی رضا علیہ السلام کی بہن ہیں۔ آپ نے امام رضاؑ سے ملاقات کے لئے ایران کا سفر کیا؛ لیکن راستے میں بیماری کی وجہ سے قم میں آپ کی وفات ہوگئی اور وہیں پر دفن ہیں۔ تاریخی مآخذ میں آپ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب منجملہ آپ کی تاریخ پیدائش و وفات درج نہیں ہیں۔

اہل تشیع کے یہاں آپ اور آپ کی زیارت خاص اہمیت کی حامل ہیں یہاں تک کہ ائمہ سے منقول احادیث کے مطابق قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے شیعہ جنت میں جائیں گے اور آپ کی زیارت کرنے والوں کیلئے بہشت واجب قرار دی گئی ہے۔ اسی طرح کہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زہراؑ کے بعد صرف آپ ہی کے لئے ائمہؑ کی طرف سے زیارت نامہ نقل ہوا ہے۔

حرم حضرت معصومہ قم میں واقع ہے۔

فہرست[ترمیم]

[چھپائیں]

  • 1حضرت معصومہ کے بارے میں اطلاعات کی کمی
  • 2حسب و نسب
  • 3تاریخ ولادت و وفات
  • 4القاب
  • 5شادی
  • 6ایران کا سفر، قم میں ورود اور وفات
  • 7شیعوں کے یہاں مقام و منزلت
  • 8زیارت نامہ
    • 8.1حرم حضرت معصومہ
  • 9حضرت معصومہ کی یاد میں کانفرنس
  • 10متعلقہ مضامین
  • 11حوالہ جات
  • 12مآخذ

حضرت معصومہ کے بارے میں اطلاعات کی کمی[ترمیم]

ذبیح‌ اللہ محلاتی اپنی کتاب ریاحین الشریعہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت معصومہ کی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات ہماری دسترس میں نہیں ہیں؛ جیسے آپ کی تاریخ ولادت، تاریخ وفات، آپ کی عمر، کب مدینہ سے روانہ ہوئیں، کیا امام رضاؑ کی شہادت سے پہلے وفات پائی یا بعد میں۔ اس حوالے سے تاریخ میں کچھ درج نہیں ہے۔

حسب و نسب[ترمیم]

فاطمہ معصومہ امام کاظمؑ کی بیٹی اور امام رضاؑ کی بہن ہیں۔ شیخ مفید اپنی کتاب الارشاد میں امام موسی کاظمؑ کی دو بیٹیاں فاطمہ کبرا اور فاطمہ صغرا کا نام ذکر کرتے ہیں لیکن یہ نہیں ذکر ہے کہ ان میں سے کون سی بیٹی حضرت معصومہ ہیں۔ ساتویں صدی کے اہل سنت عالم ابن‌ جوزی نے بھی لکھا ہے کہ امام کاظمؑ کی چار بیٹیوں کے نام فاطمہ تھے؛ لیکن انہوں نے بھی نہیں بتایا ہے کہ حضرت معصومہ کون سی بیٹی تھیں۔ محمد بن جریر طبری صغیر، اپنی کتاب دلائل‌ الامامہ میں لکھتے ہیں کہ آپ کی مادر گرامی کا نام نجمہ خاتون ہے جو امام رضاؑ کی والدہ بھی ہیں۔

امام موسی کاظم
پیامبر اکرمؐ
حضرت فاطمہ‌ؑ امام علیؑ
امام حسینؑ
امام سجادؑ
امام محمد باقرؑ
امام جعفر صادقؑ
امام موسی کاظمؑ
بیٹے بیٹیاں
امام رضاؑ ابراہیم احمد اسحاق حسین حمزہ زید
عبداللہ قاسم محمد اسماعیل ہارون عباس
جعفر عبیداللہ حسن فضل سلیمان
حضرت معصومہ فاطمہ صغری حکیمہ رقیہ ام‌أبیہا رقیہ صغری کلثوم
ام‌ جعفر لبابہ زینب خدیجہ علیہ آمنہ حسنہ
بریہہ عایشہ ام سلمہ میمونہ ام‌کلثوم

تاریخ ولادت و وفات[ترمیم]

قدیمی کتابوں میں حضرت معصومہؑ کی ولادت اور وفات کا ذکر نہیں ہوا ہے لیکن آیت اللہ استادی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے جس کتاب میں ان تاریخوں ذکر کیا ہے وہ جواد شاہ عبد العظیمی کی کتاب "نور الآفاق" ہے جو سنہ 1344 ہجری میں نشر ہوئی ہے۔ اس کتاب میں آپ کی تاریخ ولادت پہلی ذیقعدہ سنہ 173 ہجری اور تاریخ وفات 10 ربیع الثانی سنہ 201 ہجری ذکر ہوئی ہے وہاں سے پھر دوسری کتابوں میں منتقل ہوئی ہے۔ اسی کی بنیاد پر جمہوری اسلامی ایران کے سرکاری کلینڈر میں 1 ذی القعدہ کو روز دختر کا عنوان دیا گیا ہے۔

بعض علماء نے شاہ عبد العظیمی کے اس نظریئے کی مخالفت کی ہے اور ان کی کتاب میں مذکورہ ان تاریخوں کو جعلی قرار دیا ہے؛ منجملہ آیت‌ اللہ شہاب‌ الدین مرعشی، آیت اللہ موسی شبیری زنجانی، رضا استادی و ذبیح‌ اللہ محلاتی قابل ذکر ہیں۔

القاب[ترمیم]

معصومہ اور کریمہ اہل بیت حضرت فاطمہ معصومہ کے مشہور القاب ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ معصومہ امام رضاؑ سے منسوب ایک روایت سے اخذ کیا گیا ہے۔ محمد باقر مجلسی کی کتاب زاد المعاد کی روایت میں یوں بیان ہوا ہے کہ امام رضاؑ نے انہیں معصومہ کا نام دیا ہے۔

آج کل انہیں کریمہ اہل بیت بھی کہا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لقب آیت‌اللہ مرعشی نجفی کے والد سید محمود مرعشی نجفی کے دیکھے ہوئے اس خواب سے مستند ہے جس میں ائمہؑ میں سے کسی ایک نے حضرت معصومہ کو کریمہ اہل بیتؑ سے تعبیر کیا ہے۔

شادی[ترمیم]

ریاحین الشریعہ نامی کتاب کے مطابق یہ معلوم نہیں ہے کہ حضرت معصومہؑ نے شادی کی ہے یا نہیں، اور اولاد ہے یا نہیں؛ اس کے باوجود یہ مشہور ہے کہ حضرت معصومہؑ نے شادی نہیں کی ہے اور شادی نہ کرنے کے بارے میں بعض دلائل بھی ذکر ہوئے ہیں؛ جیسے کہا کیا ہے کہ آپ نے کفو نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں کی۔ اسی طرح یعقوبی لکھتا ہے کہ امام موسی کاظم نے اپنی بیٹیوں کو شادی نہ کرنے کی وصیت کی تھی؛ لیکن اس بات پر اعتراض کیا ہے کہ اس طرح کی کوئی بات امام کاظمؑ کی کتاب الکافی میں مذکور وصیت نامے میں ذکر نہیں ہوئی ہے۔

ایران کا سفر، قم میں ورود اور وفات[ترمیم]

تفصیلی مضمون: بیت النور

تاریخ قم نامی کتاب کے مطابق حضرت معصومہ نے سنہ 200 ہجری میں اپنے بھائی امام رضاؑ سے ملاقات کے لئے مدینہ سے ایران کا سفر کیا۔ اس وقت امام رضا کا مامون عباسی کی ولی عہدی کا دور تھا اور امامؑ خراسان میں تھے؛ لیکن آپ راستے میں بیماری کی وجہ سے وفات پاگئیں۔ سید جعفر مرتضی عاملی کا کہنا ہے کہ حضرت معصومہؑ کو ساوہ میں مسموم اور شہید کیا گیا ہے۔

حضرت معصومہ کے قم جانے کے بارے میں دو قول ہیں: ایک قول کے مطابق جب آپ ساوہ میں بیمار ہوگئیں تو آپ نے اپنے ہمراہ افراد سے قم چلنے کے لئے کہا۔ دوسرے قول جسے تاریخ قم کے مصنف زیادہ صحیح سمجھتے ہیں اس کے مطابق خود قم کے لوگوں نے آپ سے قم آنے کی درخواست کی۔

قم میں حضرت فاطمہ معصومہ نے موسی بن خزرج اشعری کے گھر پر قیام کیا اور 17 دن کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کا جنازہ موجودہ حرم کی جگہ، بابلان قبرستان میں دفن کیا گیا۔

شیعوں کے یہاں مقام و منزلت[ترمیم]

حرم حضرت معصومہ سے متعلق کاشی‌ کاری معرق

امام رضاؑ فرماتے ہیں: جس نے آپؑ (حضرت معصومہ) کی معرفت کے ساتھ زیارت کی اس کے لیے بہشت ہے۔

شیعہ علماء آپ کے لئے بہت عظیم مقام کے قائل ہیں اور وہ آپ کی منزلت و زیارت کی اہمیت کے بارے میں روایات نقل کرتے ہے: علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں امام صادقؑ سے روایت کی ہے کہ شیعہ ان کی شفاعت کی بنا پر بہشت میں داخل ہو نگے۔ ان کے زیارت نامے میں ان سے شفاعت کی درخواست کی گئی ہے۔

شوشتری قاموس الرجال میں لکھتے ہیں کہ موسی بن جعفر ؑ کی اولاد میں امام رضاؑ کے بعد کوئی بھی حضرت معصومہؑ کا ہم رتبہ نہیں ہے۔ شیخ عباس قمی کہتے ہیں: آپؑ امام موسی کاظمؑ کی بیٹیوں میں سب سے افضل ہیں۔

امام صادقؑ، امام کاظمؑ اور امام محمد تقیؑ سے منقول روایات کے مطابق حضرت معصومہ کی زیارت کا ثواب بہشت قرار دی گئی ہے۔ البتہ بعض روایات میں بہشت ان لوگوں کی پاداش قرار دی گئی ہے جو معرفت اور شناخت کے ساتھ آپ کی زیارت کریں۔

زیارت نامہ[ترمیم]

تفصیلی مضمون: زیارت نامہ حضرت معصومہؑ

علامہ مجلسی نے کتاب زاد المعاد، بحار الانوار اور تحفۃ الزائر میں جناب فاطمہ معصومہؑ کے لئے امام علی رضا علیہ السلام سے منقول ایک زیارت نامہ ذکر کیا ہے۔ البتہ انہوں نے کتاب تحفۃ الزائر میں زیارت نامہ نقل کرنے کے بعد احتمال دیا ہے کہ ممکن ہے کہ اس روایت میں زیارت نامے کا متن امام کے کلام کا حصہ نہ ہو بلکہ اسے علماء نے اضافہ کیا ہو۔ نقل ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ و حضرت فاطمہ معصومہ تنہا وہ خواتین ہیں جن کے سلسلہ میں ماثور زیارت نامہ (وہ زیارت نامہ جس کی سند معصومین علیہم السلام تک منتہی ہو) ذکر ہوا ہے۔

حرم حضرت معصومہ[ترمیم]

معصومہ کے حرم کی قدیمی تصویر

تفصیلی مضمون: آستانہ حضرت معصومہ (ع)

حضرت فاطمہ معصومہ کی قبر پر شروع میں ایک سائبان اور پھر ایک قبہ بنایا گیا۔ آپ کے مدفن میں آئے روز وسعت آتی گئی اور آج ایران میں حرم امام رضاؑ کے بعد سب بڑی بارگاہ ہے۔ حضرت معصومہ کا آستانہ، حرم، دیگر عمارتیں، موقوفات اور اداری دفاتر پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر قم شہر میں ہی ہیں۔

حضرت معصومہ کی یاد میں کانفرنس[ترمیم]

سنہ 2005 ء میں حضرت فاطمہ معصومہ کی شخصیت اور قم کی ثقافتی منزلت کے بارے میں ایک کانفرنس آستانہ حضرت معصومہ کے متولی علی اکبر خمینی مسعودی کے حکم سے منعقد ہوئی یہ کانفرنس حرم حضرت معصومہ میں منعقد ہوئی جس میں آیت اللہ مکارم شیرازی اور آیت اللہ جوادی آملی جیسے مراجع تقلید نے خطاب کیا۔

اس کانفرنس کے سیکریٹری احمد عابدی کا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کے ذریعہ حضرت معصومہ، حرم حضرت معصومہ، حوزہ علمیہ قم، قم اور اسلامی انقلاب کے موضوعات پر 54 کتابیں لکھی گئیں۔

متعلقہ مضامین[ترمیم]

  • حرم حضرت معصومہ
  • سیدہ نفیسہ

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اوپر جائیں↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۱۔
  2. اوپر جائیں↑ ملاحظہ کریں: مفید، الارشاد، ۱۴۰۳ھ، ج۲، ص۲۴۴۔
  3. اوپر جائیں↑ ملاحظہ کریں: ابن‌ جوزی، تذکرة الخواص، ص۳۱۵۔
  4. اوپر جائیں↑ ملاحظہ کریں: طبری، دلائل‌ الامامہ، ص۳۰۹۔
  5. اوپر جائیں↑ استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱۔
  6. اوپر جائیں↑ استادی، «آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او»، ص۲۹۷۔
  7. اوپر جائیں↑ استادی، آشنایی با حضرت عبد العظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱۔
  8. اوپر جائیں↑ شورای مرکز تقویم مؤسسہ ژئوفیزیک دانشگاه تهران، تقویم رسمی کشور سال ۱۳۹۸ هجری شمسی، ص۹۔
  9. اوپر جائیں↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۲۔
  10. اوپر جائیں↑ شبیری زنجانی، جرعہ‌ای از دریا، ۱۳۹۴ ہجری شمسی، ج۲، ص۵۱۹۔
  11. اوپر جائیں↑ استادی، آشنایی با حضرت عبدالعظیم و مصادر شرح‌ حال او، ص۳۰۱۔
  12. اوپر جائیں↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ ہجری شمسی، ج۵، ص۳۱و۳۲۔
  13. اوپر جائیں↑ مہدی ‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ ہجری شمسی، ص۲۳و۴۱؛ نیز ملاحظہ کریں: اصغری‌ نژاد، «نظرى بر اسامى و القاب حضرت فاطمہ معصومہؑ»۔
  14. اوپر جائیں↑ مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ ہجری شمسی، ص۲۹۔
  15. اوپر جائیں↑ مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ھ، ص۵۴۷۔
  16. اوپر جائیں↑ ملاحظہ کریں: مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۴۱و۴۲۔
  17. اوپر جائیں↑ مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۴۱و۴۲۔
  18. اوپر جائیں↑ محلاتی، ریاحین الشریعہ، ۱۳۷۳ش، ج۵، ص۳۱۔
  19. اوپر جائیں↑ ملاحظہ کریں: مہدی‌ پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۰۔
  20. اوپر جائیں↑ مہدی ‌پور، کریمہ اہل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۱۵۱۔
  21. اوپر جائیں↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۳۶۱۔
  22. اوپر جائیں↑ ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۱، ص۳۱۷۔
  23. اوپر جائیں↑ قرشی، حیاةالامام موسی بن جعفر، ۱۴۱۳ھ، ج۲، ص۴۹۷۔
  24. اوپر جائیں↑ قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  25. اوپر جائیں↑ عاملی، حیاة السیاسی للامام رضا(ع)، ج۱، ص۴۲۸۔
  26. اوپر جائیں↑ قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  27. اوپر جائیں↑ قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  28. اوپر جائیں↑ قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  29. اوپر جائیں↑ قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳۔
  30. اوپر جائیں↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۹، ص۲۶۷۔
  31. اوپر جائیں↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۹، ص۲۶۷؛ مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ھ، ص۵۴۸-۵۴۷۔
  32. اوپر جائیں↑ تواریخ النبی و الآل، ص۶۵۔
  33. اوپر جائیں↑ منتہی الآمال، ج۲، ص۳۷۸۔
  34. اوپر جائیں↑ ملاحظہ کریں: ابن ‌قولویہ، کامل‌ الزیارات، ۱۳۵۶ ہجری شمسی، ص۵۳۶؛ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۹، ص۲۶۵-۲۶۸۔
  35. اوپر جائیں↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۹۹، ص۲۶۶۔
  36. اوپر جائیں↑ نگاه کریں مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ق، ص۵۴۸-۵۴۷؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۹۹، ۱۴۰۳ق، ص۲۶۶-۲۶۷؛ مجلسی،‌ تحفة الزائر،‌۱۳۸۶ش، ص۴۔
  37. اوپر جائیں↑ مجلسی،‌ تحفة الزائر،‌۱۳۸۶ش، ص۶۶۶۔
  38. اوپر جائیں↑ مهدی ‌پور، کریمہ اهل بیتؑ، ۱۳۸۰ش، ص۱۲۶۔
  39. اوپر جائیں↑ قمی، تاریخ قم، توس، ص۲۱۳؛ سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، ص۳۵۹۔
  40. اوپر جائیں↑ سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، ص۳۵۸۔
  41. اوپر جائیں↑ سجادی، «آستانہ حضرت معصومہ»، ص۳۵۸۔
  42. اوپر جائیں↑ کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہ، مجموعہ مقالات، ۱۳۸۴ش، ج۱، ص۲۔
  43. اوپر جائیں↑ شرافت، «کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہؑ و مکانت فرہنگی قم»، ص۱۳۹و۱۴۵۔
  44. اوپر جائیں↑ شرافت، «کنگرہ بزرگداشت حضرت فاطمہ معصومہؑ و مکانت فرہنگی قم»، ص۱۴۲۔