تبادلۂ خیال:نیلوی

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

--Muhammad Hasan Wasti (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:35, 15 اگست 2014 (م ع و) سید محمد حسن واسطی 282جوہر کالونی سرگودھا (پنجاب ،پاکستان)

رق منشور فی احکام الموتی و القبور مولفہ شیخ الحدیث و التفسیر حضرت العلامہ السید محمد حسین النیلوی رحمۃ اللہ علیہ[ترمیم]

﷽ گھر میں موت ہو جانے کا بیان : مسئلہ نمبر1: جب آدمی مرنے لگے تو اس کو چت لٹا دو اور اس کے سر کو اونچا کر کے منہ قبلہ کی ہرف کر دیں اور اس کے پاس بیٹھ کر کلمہ پڑھیں تاکہ سن کر وہ خود بھی کلمہ پڑھنے لگے اور اس کو کلمہ پڑشنے کا حکم نہ دو کیونکہ وہ قت بڑا مشکل ہے کیا معلوم اس کے منہ سے کیا نکل جائے۔ ْ(شرح تنویر جلد 1 صفحہ نمبر 890) مسئلہ نمبر 2: جب وہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے تو چپ ہو رہو۔ یہ کوشش نہ کرو کہ برابر کلمہ جاری رہے اور پڑھتے پڑھتے دم نکلے کیونکہ مطلب تو فقط اتنا ہے کہ سب سے آخری بات جو اس کے منہ سے نکلے وہ کلمہ ہونا چاہیے اس کی ضرورت نہیں کہ دم ٹوٹنے تکل کلمہ برابر جاری رہے۔ ہاں اگر کلمہ پڑھنے کے بعد پھر دنیا کی بات چیت کرے تو پھر کلمہ پڑھنے لگے جب وہ پڑھ لے تو چپ ہو رہو (شرح تنویر) مسئلہ نمبر3: جب سانس اکھڑ جائے اور جلدی جلدی چلنے لگے اور ٹانگیں ڈھیلی پڑ جائیں کہ کھڑی نہ ہو سکیں اور ناک ٹیڑھی ہو جائے اور کن پٹییں بیٹھ جائیں تو سمجھو کہ اس کی موت آگئی اس وقت کلمہ پڑھنا شرع کرو۔ (فتاوی ہندیہ صفحہ نمبر 100 جلد اول) مسئلہ نمبر4 : اس وقت کوئی ایسی بات نہ کرو جس سے اس کا دل دنیا کی طرف مائل ہو جائے کیونکہ یہ وقت دنیا سے جدائی اور اللہ تعالی کی درگاہ میں حاضری کا وقت ہے، ایسے کام کرو ایسی باتیں کرو کہ دنیا سے دل پھر کر اللہ کی طرف مائل ہو جائے کہ مردہ کی خیر خواہی اسی میں ہے ایسے وقت میں بال بچوں کو سامنے لانا یا اور کوئی جس سے اس کو زیادہ محبت تھی اسے سامنے لانا، ایسی باتیں کرنا کہ اس کا دل اس کی طرف منوجہ ہو جائے۔ اور ان کی محبت اس کے دل میں سما جائے بڑی بری بات ہے۔


--Muhammad Hasan Wasti (تبادلۂ خیالشراکتیں) 19:41, 15 اگست 2014 (م ع و)

اسلامی مملکت اور عورت کی سر براہی از قلم شیخ الحدیث و التفسیر حضرت مولانا سید محمد حسین شاہ نیلوی رحمۃ اللہ علیہ[ترمیم]

﷽ الاستفتاء کیا فرماتے ہیں حاملانِ شرع مبین اس مسئلہ میں کہ شریعتِ محمدیہ میں اسلامی مملکت کی سربراہ (وزیر اعظم، صدر وغیرہ) عورت ہو سکتی ہے یا نہیں۔ سنا جاتا ہے کہ علمِ عقائد والے خلامت دامامت وغیرہ کے لیے ذکورۃ (مرد ہونے) کو شرط قرار دیتے ہیں نیز عوام کے لیے عورت کی سربراہی تسلیم کرنا، جائز ہے یا نہیں؟ بینوا بالبراھین توجروامن رب العلمین الجواب بعطن الملک الوھاب دلائل شرع کے چار ہیں: قرآن، حدیث، اجماع امت، قیاس مجتہد۔ قرآن مجید میں اللہ تعالی نے فرمایا و للرجال علیھن درجۃ اور اللہ تعالی کی طرف سے مردوں کو عورتوں پر درجہ، مرتبہ، فضیلت اور مزیت ہے۔ دوسری جگہ فرمایا الرجال قوامون علی النساء بما فضل اللہ بعضھم علی بعض الایۃ یعنی مرد حاکم ہیں عورتوں پر (در وجہ سے) ایک تو اس سبب سے کہ اللہ تعالی نے بعضوں کو (یعنی مردوں کو) بعضوں پر (یعنی عورتوں پر قدرتی) فضیلت دی ہے (یہ تو وہبی امر ہے) اور (دوسرے) اس سبب سے کہ مردوں نے عورتوں پر) اپنے مال (مہر میں اور نان نفقہ میں خرچ کیے ہیں (اور خرچ کرنے والوں کا ہاتھ اونچا اور بہتر ہوتا ہے اس سے کہ جس پر خرچ کیا جاوے اور یہ امر مکتسب ہے) اللہ تعالی نے ان آیات میں اسی درجہ مربہ فضیلت اور مزیت کا بیان حکیمانہ طرز کے ساتھ اس طرح بیان کیا کہ مردوں کی یہ فضیلت اور تفوق خود عورتوں کی مصلحت اور فائدہ کے لیے اور عین مقتضائے حکمت ہے اس میں عورت کی نہ کسر شان ہے نہ اس کا کوئی نقان ہے۔ قَوَّام: اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی کام یا نظام کا ذمہ دار اور چلانے والا ہو، اسی لیے اس آیت میں قوام کا ترجمہ عموما حاکم کیا گیا ہے۔ یعنی مرد عورتوں پر حاکم ہیں ۔ مرد یہ ہے کہ ہر اجتماعی نظام کے لیے عقلا اور عرفایہ ضروری ہوتا ہے کہ اس کا کوئی سر براہ یا امیر اور حاکم ہوتا ہے کہ اختلاف کے وقت اس کے فیصلہ سے کام چل سکے، جس طرح ملک و سلطنت اور ریاست کے لیے اس کی ضرورت سب کے نزدیک مسلم ہے اسی طرح قبائلی نظام میں بھی اس کئ ضرورت ہمیشہ محسوس کی گئی، اور کسی ایک شخص کو قبیلہ کا سردار اور حاکم مانا گیا ہے، اسی طرح اس عائلی نظام میں جس کو خانہ داری کہا جاتا ہے اس میں بھی ایک امیر اور سر براہ کی ضرورت ہے۔ عورتوں اور بچوں کے مقابلہ میں اس کام کے لیے حق تعالی نے مردوں کو منتخب کیا کہ ان کی علمی اورعملی قوتیں بہ نسبت عورتوں بچوں کے زیادہ ہیں اور یہ ایسا بدیہی معاملہ ہے کہ کوئی سمجھ دار عورت یا مرد اس کا انکار نہیں کر سکتا۔

حسن واسطی  (تبادلۂ خیالشراکتیں) 06:53, 17 اگست 2014 (م ع و)