تبادلۂ خیال زمرہ:مصنوعی ذہانت

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مصنوعی ذہانت۔ ۔ ۔ ؟ ڈاکٹر اشفاق رحمانی

٭۔ ۔ ۔ مائیکرو کمپیوٹر کی ایجاد سے انسانی زندگی میں انقلاب آ گیا اور اس کا استعمال زندگی کے ہر شعبے میں ہونے لگا۔ ۔ ۔ فوجی مقاصد کیلئے تیار کی جانیوالی یہ برقی مشین کرہ ارض کی اہم ترین ایجاد بن گئی۔ کمپیوٹر میں سب سے اہم چیز اس کا مائیکرو پروسیسر ہوتا ہے ماہرین کی کوشش ہے کہ ایسے پروسیسر تیار کئے جائیں جن میں خود سے فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی موجود ہو اور ان کی مدد سے ایسے روبوٹ تیار کئے جائیں جو ہر وہ کام کر سکیں جو حضرت انسان انجام دے سکتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن اس کیلئے نہایت جدید قسم کی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جس پر کام ہو رہا ہے۔ ایسا آپ نے ہالی وڈ کی فلموں میں تو دیکھا ہی ہو گا کہ مشینی انسان کس طرح سے انسانوں کی طرح کام کر سکتے ہیں۔ درحقیقت ماہرین کی کوشش ہے کہ مائیکرو پروسیسر کو بالکل انسانی دماغ کی طرح سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے لیس کر دیا جائے۔ اس مقصد کیلئے ایک ایسی نئی ٹیکنالوجی پر بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے جس کو ’’مصنوعی ذہانت‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ماہرین اس کام میں تیزی سے کامیابی حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ اس قسم کے روبوٹس کو ’’ہیو منائیڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جاپان میں ایسے روبوٹ عام ہوتے جا رہے ہیں تاہم ابھی ’’ہیو منائیڈ‘‘ صرف مخصوص انداز میں ہی کام کرنے کے قابل ہیں۔ یعنی یہ ایک وقت میں ایک ہی کام کر سکتے ہیں۔لیکن اب تو ایسے روبوٹ تیار ہو رہے ہیں جو دیکھنے میں بالکل انسان کی طرح ہی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کا جسم مخصوص سلیکان سے تیار کیا جا رہا ہے جس کو دیکھنے میں انسانی کھال کا گمان ہوتا ہے لیکن ماہرین کی منزل ابھی دور ہے اور وہ سٹار ٹریک کے انسان نما روبوٹ ’’ڈیٹا‘‘ کو حقیقت کا روپ دینا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے روبوٹ کو ’’اینڈ رائیڈ‘‘ کا نام بھی دیدیا گیا ہے اور اس کی تیاری اور تحقیق پر تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ اینڈ رائڈ‘‘ کی تیاری میں سب سے اہم چیز مصنوعی ذہانت کا استعمال ہے۔آرٹیفیشل مصنوعی ذہانت یا جسے ماہرین مختصراً A1 بھی کہتے ہیں علم کا وہ میدان ہے جس کے ذریعے ہم مائیکرو پروسیسر کو استعمال کرتے ہوئے مختلف برقی اشیاء کو اس قابل بنا دیں کہ ان میں انسانی دماغ جیسی ذہانت سوچنے، سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیتیں پیدا ہو جائیں۔ سائنسدان ’’اے آئی‘‘ کی آسان زبان میں یوں تعریف بیان کرتے ہیں کہ آرٹیفیشل مصنوعی ذہانت اس علم کا نام ہے جس کے ذریعے مائیکروپرسیسر کو اس قابل بنا دیں کہ وہ ماہر انسانی دماغ کی طرح کام کرنے لگیں۔ہم سائنس فکشن فلموں میں اکثر ایسے کمپیوٹرز کا ذکر سنتے یا دیکھتے ہیں جو انسانی سوچ رکھتے ہوں اس کی بات سی مثالیں ہیں جیسے ’’الیکٹرک ڈریمز‘‘، ’’سٹار وارز‘‘، ’’ریذیڈنٹ ایول‘ٔ‘ وغیرہ۔ درحقیقت ابھی ایسا ممکن نہیں ہوا ہے۔ تاہم حقیقی زندگی میں بھی ماہرین اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کوئی ایسی راہ تلاش کریں جس کے ذریعے کمپیوٹر خودکار طریقے سے الجھے ہوئے مسائل حل کر سکیں۔ ایسے مسائل جان کو انسان مختلف ذرائع اور تجربوں سے حل کرتا ہے۔ اس مقصد میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے اور اب کمپیوٹر کسی حد تک اس قابل ہو گئے ہیں کہ ان کا مقابلہ انسانی دماغ سے کیا جا سکتا ہے اور یہی چیز ’’آرٹیفیشل مصنوعی ذہانت‘‘ کہلاتی ہے۔ لفظ آرٹیفیشل مصنوعی ذہانت سے عام آدمی سب سے پہلے 1956ء میں متعارف ہوا جب اس کا پہلی بار Dartmouth کالج کی کانفرنس میں عملی مظاہرہ کیا گیا۔ تب سے ریسرچر لینگوسٹک اور کمپیوٹر سائنس کے قواعد کے تصورات استعمال کرتے ہوئے کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ایسا کوئی پروگرام یا سسٹم بنایا جائے جو ایسے کام کر سکے جن کو اس سے پٹہلے کسی مشین نے نہ کیا ہو۔ مثال کے طور پر کئی سال قبل ایسا پروگرام تیار کیا گیا کہ کمپیوٹر بھی شطرنج جیسا مشکل دماغی کھیل کھیلنے کے قابل ہو گئے۔ اس کے پروگراموں میں بہت سی ترامیم کی گئیں۔ یہاں تک کہ کمپیوٹر اس قابل ہو گیا کہ اپنے ہی پروگرامر کو ہرا دیا۔آرٹیفیشل مصنوعی ذہانت کی ایک مثال ایکسپرٹ سسٹم کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جس میں کمپیوٹر ایک ماہر انسان کی طرح علم اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اگرچہ ماضی میں بہت ہی کم ایکسپرٹ سسٹم مارکیٹ میں موجود تھے لیکن اب ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک ایکسپرٹ سسٹم جس کا نام Guru تھا، مائیکروڈیٹا بیس سسٹم نے بنایا تھا جس میں کم و بیش تین ہزار اصول فیڈ کئے گئے تھے۔ یہ سسٹم ایک کلرک کی جگہ کام کر سکتا تھا۔ اس کو تجرباتی طور پر ایک انشورنس کمپنی میں استعمال کیا گیا۔ اس کی تقلید کرتے ہوئے بہت سی دوسری کمپنیوں نے بھی اسی طرح کے ایکسپرٹ سسٹم تیار کروائے۔ ایکسپرٹ سسٹم کو استعمال میں لاتے ہوئے کمپیوٹرائزڈ ڈاکٹروں کا تصور پیش کیا گیا۔ اس سسٹم کیلئے پروگرامروں نے بیماریوں کے نام، ان کی علامات، ان سے بچاؤ کی تدابیر موثر دواؤں کے نام اور بہت سی دیگر موثر چیزیں جو ایک ڈاکٹر اپنے مریض سے پوچھتا ہے ایکسپرٹ سسٹم میں فیڈ کر دیں۔ اس طرح کمپیوٹرائزر ڈاکٹر بھی وجود میں آ گیا اور اب تو اسی سسٹم کو استعمال کرتے ہوئے روبوٹس کی مدد سے سرجری جیسا پیچیدہ کام بھی لیا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ کام ابھی تجرباتی بنیادوں پر ہو رہا ہے لیکن اس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں روبوٹ سرجن عام ہو جائیں گے اور یہ تب ہی ممکن ہو گا جب آرٹیفیشل مصنوعی ذہانت ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر قابل استعمال بنا لیا جائے گا۔ ١٩٨٠ء کے ابتدائی دنوں میں تجارتی سطح کے ایکسپرٹ سسٹم بننے شروع ہو گئے تھے ۔امریکہ میں ایک صابن بنانے والی کمپنی میں کام کرنیوالے ماہر Aldo Camino کے نام پر ایکسپرٹ سسٹم Aldo بنایا گیا۔ ایلڈو کیمینو کا کام کمپنی میں جتنی بھی مشینیں لگی ہوئی تھیں ان کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ جیسے ہی کوئی مشین گرم ہو جاتی یا خطرے کا سگنل دینے لگتی تو وہ اسے بند کر کے دوسری مشین چلانا شروع کر دیتا۔ ایک ہوائی جہاز ساز کمپنی میں بھی ایکسپرٹ سسٹم کا استعمال عام ہے۔ شروع شروع میں ان کمپنیوں میں جو ملازمین کام کرتے تھے انہیں جہاز کے الیکٹریکل کنیکٹر بنانے کیلئے2 ہزار صفحوں کا جائزہ لینا پڑتا تھا اور اس کام میں تقریباً 45 منٹ لگتے تھے مگر ایکسپرٹ سسٹم کی مدد سے یہ کام صرف پانچ منٹ میں انجام پا جاتا ہے۔ جاپان کی ایک کھلونوں کی نمائش میں ایسے روبوٹ پیش کئے گئے جو انسانی آوازوں پر رسپانس دیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے جانوروں کی شکل کے تھے جن کو عام طور سے گھروں میں پالا جاتا ہے۔ ان کی حرکات و سکنات بھی جانوروں کی طرح ہی تھیں اور یہ سب آرٹیفیشل مصنوعی ذہانت کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے ۔درحقیقت آرٹیفیشل مصنوعی ذہانت کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایسے روبوٹ تیار کر لئے جائیں جو دیکھنے میں بالکل عام انسان کی طرح نظر آئیں اور ہر وہ کام کر سکیں جو کوئی بھی نارمل انسان انجام دے سکتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ گزشتہ سال جاپان میں ہونیوالی الیکٹرونک نمائش میں بہت سے ’’ہیومنائڈ‘‘ نمائش کیلئے پیش کئے گئے۔ یہاں تک کہ نمائش کے استقبالیہ پر بھی ایک خاتون کی شکل کا ’’ہیو منائڈ‘‘ نمائش میں آنیوالوں کو خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ ماہرین آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے انسانی دماغ کی نقل تیار کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں لیکن قدرت نے انسانی دماغ کو اتنا پیچیدہ بنایا ہے کہ مستقل کوششوں کے باوجود ٹیکنالوجی کے ماہرین اپنی کوششوں میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کا اصل مقصد یہ ہے کہ ایسے ’’اینڈ رائڈ‘‘ تیار کئے جائیں جو انسانوں کی جگہ بہت سے اہم کام انجام سکیں اور اگر ترقی کی یہ رفتار برقرار رہی تو اس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ جب آپ بینکوں، ایئر پورٹوں وغیرہ پر جائیں گے تو وہاں آپ کا استقبال انسانوں کے بجائے یہی ’’اینڈرائڈ‘‘ کرینگے۔ امریکا میں اسی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے فوجی سپاہی تیار کرنے کا منصوبہ بھی پروان چڑھ رہا ہے جس کو ہالی وڈ کی اصطلاح میں یونیورسل سولجر کا نام دیا گیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس پروجیکٹ میں ٹیکنالوجی کے ساتھ جینیٹک انجینئرنگ بھی شامل ہ



٢٠٢٩ ء تک مشینیں انسانی سطح کی جیسی مصنوعی ذہانت کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گی ۔امریکی موجد کی پیش گوئی

انسانیت ترقی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے لوگوں کی ذہانت کو مزید بہتر بنانے کے لیے ان کے دماغ میں چھوٹے روبوٹس لگانا ممکن ہو جائے گا ۔

واشنگٹن ۔ ایک اہم امریکی موجد نے پیشین گوئی کی ہے کہ 2029 تک مشینیں انسانی سطح کی جیسی مصنوعی ذہانت کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گی۔امریکی موجد رے کروزِول کا کہنا ہے کہ انسانیت ترقی کے ایک ایسے دہانے پر پہنچ چکی ہے جہاں لوگوں کی ذہانت کو مزید بہتر بنانے کے لیے ان کے دماغ میں چھوٹے روبوٹس لگانا ممکن ہو جائے گا۔ امریکی انجینئر کا کہنا ہے کہ انسانی جسموں میں ذہانت اور صحت کو بہتر بنانے کے لیے آلات لگائے جائیں گے جس کی وجہ سے مشینیں اور انسان بتدریج مدغم ہوجائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ درحقیقت ہماری تہذیب کا حصہ ہے تاہم یہ ان چالاک مشینوں کی ہم انسانوں کی جگہ لینے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں ہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ مشینیں پہلے ہی انسانوں کی طرح کی چابکدستی سی مختلف مقامات پر سینکڑوں کام سرانجام دے رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میرے تحقیقی کام کی بنیاد اس پر ہے کہ ہم ہارڈ ویئر اور سوفٹ ویئر دونوں کی مدد سے 2029 تک بشمول انسانی جذبات پر مبنی ذہانت کے، انسانی سطح کی جیسی مصنوعی ذہانت کے حصول میں کامیاب ہو جائیں گے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پہلے ہی ایک مشینی تہذیب کا روپ دھار چکے ہیں۔ ہم ٹیکنالوجی اپنی جسمانی اور ذہنی حدود کو وسعت دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور یہ اس میں ایک طرح کا مزید اضافہ ہوگا‘۔ امریکی موجد رے کروزِول نے پیشین گوئی کی کہ انسان اور مشینیں آلات کی مدد سے بتدریج ایک دوسرے میں مدغم ہو جائیں گے، جو صحت اور ذہانت میں بہتری لانے کے لییانسانی جسموں میں لگائے جائیں گے۔ انہوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’انٹیلیجنٹ نینوبوٹس انسانی دماغ کی باریک شریانوں کی مدد سے دماغ میں داخل ہو کر دماغ کے قدرتی نیورونز کے ساتھ مل کرً کام شروع کردیں گے۔ نینوبوٹس انسانی جسم کو مزید چست بنانے کے ساتھ مختلف چیزوں کو یاد رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے‘۔ امریکی موجد رے کروزِول ان اٹھارہ بااثر مفکرین میں سے ایک ہیں جنہیں انسانیت کو درپیش گریٹ ٹیکنالوجیکل چیلیجنز کی نشاندہی کے لیے یوایس نیشنل اکیڈیمی آف انجینئرنگ نے چنا ہے۔امریکن سوسائٹی فار دی ایڈوانسمنٹ آف سائنس کے بوسٹن میں ہونے والے سالانہ اجلاس کے دوران چودہ چیلنجنز کا اعلان کیا گیا۔ اجلاس میں شرکت کرنے والے ماہرین میں گوگل کے بانی لیری پیچ اور جینوم کے ڈاکٹر کریگ وینٹر شامل ہیں۔ اجلاس پیر تک جاری رہے گا۔