جا رگ تراکل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

جا رگ تراکل (Georg Trakl)/ جرمن، اسٹریا

آمد:3،فروری 1887۔۔۔۔ رخصت: 3، نومبر 1914

سیلزبرگ/اسٹریا میں پیدا ھوئے۔ جرمن زبان میں شاعری کی۔

شاعرانہ رویے: اظہاریت، علامت نگاری (فرانسیسی علامت پسندوں سے متاثر)

انھوں نے کیتھولک اسکول مین تعلیم حاصل کی حا لانکہ ان کے والدیں کا تعلق "احتجاجی کلیسا" (پورٹسنٹ چرچ) سے تھا۔ اسکول میں لاطینی، یونانی اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ 15 سال کی عمر میں شراب نوشی اور نشہ ادویات کی لت میں گرفتار ھوئے۔ وہ " انتشار نفس"(schizophrenia)کے مریض رہے۔ جامعہ ویانا میں علم ادویات کا مطالعہ کیا۔ پھر سرکاری ملازمت اختیار کی۔ طبی اردلی رہے۔ پھر کچھ دنوں بعد دوبارہ سرکاری ملازمت میں واپس آ گئے۔ انھوں نے "گرڈک" کے میدان میں فوجیوں کے لیے خدمات انجام دیں۔ جارگ تراکل نے دو بار خودکشی کی کوشش کی۔ 1914 میں انھوں نے زیادہ کوکیں کھاکر خودکشی کی۔ ان کی شاعری میں علامتیں، تمثال، قنوطیت کا گہرا احساس ایک ایسی شعری جمالیات کو خلق کرتے ہیں۔ جہان فرد ایک اذیّت ناک غنودگی میں دم توڑ رہا ہے۔ ان کی شاعری کا خلیقہ نادر علامتوں کی تشکیلات ہیں ۔۔ ان کی شاعری میں علامتیں، تمثال، قنوطیت کا گہرا احساس ایک ایسی شعری جمالیات کو خلق کرتے ہیں۔ جہان فرد ایک اذیّت ناک غنودگی میں دم توڑ رہا ہے۔ ان کی شاعری کا خلیقہ نادر علامتوں کی تشکیلات ہیں۔ انھوں نے پختہ رویوں کی شاعری کی۔ ان کی ایک تصنیف ‘"خواب نگر" ( TRAUMLAND) عشقیہ انسانی جذبات اور موت کی دہشت پسندانہ آگاہی کو بڑے فنکارانہ شعری ہنر مندی سے پیش کیا۔ اس نظم کو پڑھ کر نواب مرزا شوق کی اردو مثنوی۔۔"زہر عشق"۔۔ کا گمان ہوتا ہے۔ اس نظم کا بیانیہ کا نفسی کیفیات جارج تراگل کے ""خواب نگر" خاصا مشابئہ بھی ہے۔ اس نظم میں تراکل نے اپنے ایک عم زاد کو منظوم قصہ بیان کیا ہے جو ایک مرتی ھوئی لڑکی کے عشق میں گرفتار ھوجاتا ہے۔ اس نظم کی جذباتی اور حساسی فضا قاری کی آنکھوں میں آنسو بھر دیتا ہے۔ تراکل نے دو (2) مختصر ڈرامے بھی لکھے۔ جارج تراکل کے چار (4) مجموعہ کلام شائع ھوئے: Gedichte (Poems), 1913 Sebastian im Traum (Sebastian in the Dream), 1915 Der Herbst des Einsamen (The Autumn of The Lonely), 1920 Gesang des Abgeschiedenen (Song of the Departed), 1933

ان کی تقریبا تمام شاعری انگریزی میں ترجمہ ھو چکی ہیں:

Decline: 12 Poems, trans. Michael Hamburger, Guido Morris / Latin Press, 1952 Twenty Poems of George Trakl, trans. James Wright & Robert Bly, The Sixties Press, 1961 Selected Poems, ed. Christopher Middleton, trans. Robert Grenier et al., Jonathan Cape, 1968[6] Georg Trakl: Poems, trans. Lucia Getsi, Mundus Artium Press, 1973 Georg Trakl: A Profile, ed. Frank Graziano, Logbridge-Rhodes, 1983 Song of the West: Selected Poems, trans. Robert Firmage, North Point Press, 1988 The Golden Goblet: Selected Poems of Georg Trakl, 1887–1914, trans. Jamshid Shirani & A. Maziar, Ibex Publishers, 1994 Autumn Sonata: Selected Poems of Georg Trakl, trans. Daniel Simko, Asphodel Press, 1998 Poems and Prose, Bilingual edition, trans. Alexander Stillmark, Libris, 2001 Re-edition: Poems and Prose. A Bilingual Edition, Northwestern University Press, 2005

To the Silenced: Selected Poems, trans. Will Stone, Arc Publications, 2006 In an Abandoned Room: Selected Poems by Georg Trakl, trans. Daniele Pantano, Erbacce Press, 2008 Song of the Departed: Selected Poems of George Trakl, trans. Robert Firmage, Copper Canyon Press, 2012 "Uncommon Poems and Versions by Georg Trakl", trans. James Reidel, Mudlark No. 53, 2014

"گروڈگ"**

دھندلکے میں خزان زدہ لکڑیاں بجتی ہیں سنہری زمین پر ہلاک زدہ ہتھیار بکھر جاتے ہیں نیلا سمندر ـــ آسمان پر سورج ہے تاریکی میں لپٹی رات گلے لگاتی ہے عالم نزع سے نبرآزما ایک وحشی الزام اس کے ھونٹوں سے جدا کردیتا ہے مگر سبک ندی کے ساتھ سنہری دھندلکا' عضیلے دیوتاؤں کے ساتھ نہیں رہ سکتا اور گرا ھوا خون 'بے سرد چاند تمام سڑکین' بدبو دار تاریکی کے پیچھے پیڑوں اور بدروحوں کے درمیان میری بہن کا سایہ ہے برف باری ایک ہیبت ناک موت ہے وہاں ژالہ باری سے جذبات خون ھوتے ہیں خزان میں لپٹی ھوئی بانسری کی مدھر دھن مغرور دکھ تم پیتل کی مقتل گاہ ھو ھماری روحوں کا شعلہ اس خشک دکھ کو محسوس کرتا ہے ہمارے اجداد ابھی پیدا نہیں ھوئے

    • "گروڈک"۔۔۔ میدان جنگ' جہاں اسٹریا کی فوج کو شکست ہوئی"۔

"ماتم" نیند اور موت اداس عقاب، تمام شب زہن میں شور مچاتا ہے وہ آدمی کا سنہری عکس ہے ابابیل کے پاس کبھی نہ ختم ھونے والی زندگی ہے ابدیت کی پرسرار چٹان قرمزی جسم پاش پاش ہوتا ہے اور سیاہ آواز ماتم کرتی ہے بہن کی گہری اداسی ـــ ستاروں میں چھوٹی کشتی ڈوب رھی ہے رات کا چہرہ خاموش ہے تحریر و ترجمہ: احمد سھیل) یہ مضمون۔ ادب لطیف" لاہور میں چھپ چکا ہے۔