شاہ عبد اللہ شطاری

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شاہ عبد اللہ شطاری ہندوستان میں سلسلہ شطاریہ کے بانی اور امام طریقت اور پیشوائے حقیقت تھے۔

سلسلہ طریقت[ترمیم]

طریقت میں آپ شیخ محمد طیفوری سے بیعت تھے وہ شیخ محمد عاشق اور وہ شیخ خدا قلی اور اپنے والد محمد خدا قلی مورالہزی اور وہ خواجہ ابو الحسن خرقانی اور وہ خواجہ ابوالمظفر مولیٰ ترک طوسی وہ خواجہ ابویزید العشقی اور وہ خواجہ محمد المغربی اور وہ خواجہ ابویزید بسطامی اور وہ امام جعفر صادق کے مرید تھے ۔

شطاری کی وجہ[ترمیم]

سلسلہ طیفوریہ میں جو شخص سب سے پہلے شطاریہ طریقت پر اٹھا۔ وہ شیخ عبد اللہ تھے۔ شطار اصطلاح میں تیز رو کو کہتے ہیں مگر صوفیا میں اس شخص کو شطار کہا جاتا ہے جو فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے رتبہ عالیہ کو حاصل کرے۔ شیخ عبد اللہ ریاضات اور مجاہدات میں کماحقہ میں کمال حاصل کرچکے۔ تو آپ کو شطاری کہا جانے لگا۔ سب سے پہلے شیخ محمد نے آپ کو شطاری کے خطاب سے مخاطب فرمایا اور خرقۂ خلافت سے نوازا۔ اور حکم دیا کہ وہ برصغیر ہندوستان (پاکستان) میں جائیں اور جس جگہ قیام کریں معرفت کا غلغلہ برپاکردیں۔ تاکہ لوگ ہدایت حاصل کرسکیں اگر کسی بزرگ سے ملاقات ہو تو اسے برملا کہہ دیں کہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ تمھیں بخش دیں۔ ورنہ میرے پاس جو کچھ بھی ہے میں دینے کو تیار ہوں آپ اپنے پیر و مرشد کے حکم پر اپنی معرفت اور ولایت کا اظہار علانیہ کرنے لگے اور بلا جھجک کہنے لگے جو بھی اللہ تعالیٰ کی تلاش میں آنا چاہتا ہے میرے پاس آئے میں اسے خدا تک پہنچاؤں گا۔

تصنیفات[ترمیم]

آپ نے رسالہ اشغال شطاریہ میں اپنے سلسلہ عالیہ کے مقامات و احوال قلمبند کیے ہیں آپ کے آباواجداد کی نسبت شیخ شہاب الدین سہروردی سے تھی آپ نے اپنے شہرہ آفاق رسالہ شطاریہ میں سلسلہ شطاریہ کے اذکار واوراد اور مراقبے لکھے ہیں اور اس رسالہ کی ابتدا میں شیخ شہاب الدین تک اپنا سلسلہ بھی درج فرمایا ہے اور شیخ نجم الدین کبریٰ تک پانچ واسطوں سے آپ کا سلسلہ ارادت پہنچتا ہے۔

طریقہ تربیت[ترمیم]

مشہور ہے کہ جب کوئی راہ حق کا متلاشی آپ کے پاس آتا تو اس کی عقل اور حواس کا امتحان لینے کے لیے ایک (خاص قسم کی) روٹی دوسری کھانے کی روٹیوں کے ساتھ بھیجتے اور ایک آدمی کو مقرر کردیتے کہ وہ یہ دیکھے کہ اس نے وہ روٹی بھی دوسری روٹیوں کے ساتھ کھالی ہے یا وہ ایک روٹی چھوڑدی ہے۔ اگر وہ آنے والا تمام روٹیاں کھالیتا تو اسے اس کی عقل مندی اور دانائی پر محمول کرتے اور اس کو باطنی ذکر و اذکار کے لیے کوئی چیز عنایت فرمادیا کرتے اور اگر وہ ایک روٹی چھوڑ دیتا تو اس کو اس کے حالات غیر صحیحیہ اور اس آدمی کی بے عقل پر محمول کرتے ہوئے اس کو ظاہری حالت کے لیے کوئی وظیفہ یا دعا بتا دیا کرتے تھے۔ آپ کا مزار قلعہ مندو میں ہے۔[1]

کرامات[ترمیم]

ایک دن سلطان ابراہیم شرقی نے آپ کو کہا میں نے سنا ہے آپ خدا رسانی کے دعویٰ دار ہیں میرے لیے نگاہ التفات کیوں نہیں فرماتے آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو کسی نہ کسی کام کے لیے پیدا فرمایا ہے تم کاروبار سلطنت میں مشغول رہو۔ مخلوق خدا کو زیادہ سے زیادہ نفع پہنچا سکتے ہو۔ سلطان ابراہیم نے کہا اچھا اس مجلس میں بہت سے لوگ موجود ہیں کسی اور پر ہی توجہ فرمائیں آپ نے فرمایا۔ جوہر قابل شرط ہوتی ہے سلطان نے کہا اس ملک میں ہزاروں لوگ ہیں کیا ایک بھی جوہر قابل نہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر شیخ پر حالت وجد طاری ہو گئی۔ آپ نے نگاہ اٹھائی دیکھا کہ ایک خوش شکل نوجوان بادشاہ کے سر پر کھڑا مکھیاں ہٹا رہا ہے آپ نے اسی پر تصرف فرمایا اُس کے ہاتھ سے رومال گرپڑا بے ہوش ہو گیا۔ بادشاہ کی غلامی چھوڑ کر فقرا میں داخل ہو گیا اور حلقہ مرید ان حضرت عبد اللہ شطاری میں داخل ہو گیا یہ دیکھ کر بادشاہ اور دوسرے اہل مجلس حیران رہ گئے لیکن اب مجلس کا رنگ دوسری طرف ہو چکا تھا۔ شیخ کو اس شہر میں رہنا پسند نہ آیا اور اس قسم کی کرامت طلبی کا انداز پسند نہ آیا۔ چنانچہ آپ نے جونپور کو الواداع کہا اور مالوہ کی طرف چلے گئے شاہ مالوہ نے بھی شیخ کو بڑے اعزاز و اکرام سے شہر مندو جو مالوہ کا دار الخلافہ تھا۔ قیام کرنے کے لیے سہولتیں دیں۔ آپ ایک عرصہ تک اس شہر میں مخلوق خدا کی خدا رسائی کرتے رہے۔

معمولات[ترمیم]

شیخ عبد اللہ کا معمول تھا۔ کہ اگر کوئی شخص مرید ہونے کے لیے حاضر ہوتا تو آپ اس کی تواضح کرتے اور کھانے کو روٹی اور شوربہ عنایٔت فرماتے اور کسی شخص کو مقرر کر دیتے کہ مہمان کو دیکھتے رہو۔ کہ آیا وہ روٹی اور سالن ایک جیسا کھاتا ہے یا روٹی اور شوربے میں کمی بیشی کرتا جاتا ہے اگر دونوں چیزیں ایک اندازے سے کھاتا تو آپ اندازہ لگا لیتے کہ یہ اعتدال پسند ہے۔ اور اس کی فراست اور دانشمندی پر معمول کرتے اور اسے کچھ نہ کچھ تربیّت باطنی دیتے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس کو بے خبر اور بے اعتدال جان کر کچھ وظائف وغیرہ بتا دیتے تاکہ اُس کی ظاہری صورت حال درست ہوجائے لطایٔف اشرفی میں لکھا ہے کہ جب میر اشرف جہانگیر﷫ مالوہ میں تشریف لے گئے عبد اللہ شطاری کو ملنے آئے دونوں بزرگوں نے ملاقات کی۔

وفات[ترمیم]

شیخ عبدا للہ شطاری کا وصال 832ھ میں ہوا تھا۔ آپ کا مزار قلعہ مندو کے اندر ہے شیخ پیر میرٹھی جو آپ کے سلسلہ شطاریہ کے معروف بزرگ ہیں جہانگیر بادشاہ کے ساتھ قلعہ مندو میں گئے تھے۔ [2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اخبار الاخیار صفحہ 372 شیخ عبد الحق محدث دہلوی اکبر بک سیلر لاہور
  2. خزینۃ الاصفیاء جلد چہارم، غلام سرور لاہوری،صفحہ 285،مکتبہ نبویہ لاہور

مزید دیکھیے[ترمیم]