مندرجات کا رخ کریں

صارف:مظہرفریدی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

اردو/اولیول/غالب/مظہرفریدی


غالب کاغم(فلسفۂ غم) آگرہ میں 27دسمبر1797ء(1212ھ )میں پیداہوئے۔اسداللہ نام رکھاگیا۔سلجوقی ترک تھے۔ ماوراءلنہر سے دادا ہندوستان آئے۔والدکانام عبداللہ تھا۔بچپن میں والدکاانتقال ہوگیا۔ چچانے پرورش کی۔آٹھ برس کی عمرمیں وہ بھی خالقِ حقیقی سے جاملے۔۷رجب ۱۲۲۵ھ کوشادی ہوئی۔

                                               اب میں ہوں اورماتمِ یک شہرِآرزو
                                               توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا

’مرزاغالب اردوشاعروں میں علم کی وسعت اورتجربے کی گہرائی کاحسین اورکم یاب امتزاج ہیں‘۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی زبان، تہذیب اورثقافت کے سرچشموں سے گہری آشنائی رکھتے ہیں۔ فارسی زبان وادب سے دلی مناسبت اورلگاؤ تھا۔سات بار اولا کی نعمت ملی، ان میں سے زیادہ تر15 ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہے۔

۱۸۶۹ءمیں راہیٔ ملکِ عدم ہوئے۔مالکِ حقیقی کے ہاں غالب کی آہ وفغاں ایک نئے اندازسے ہے۔

                                               نقش فریادی ہے کس کی شوخیٔ تحریرکا
                                               کاغذی ہے پیرہن ہرپیکرِتصویرکا

نامساعدگھریلو حالات،پرآشوب دور،سیاسی بدحالی،سماجی ابتری اورمسلم قوم کازوال ،ان سب باتون نے مل کرحالات اس قدرمشکل کردیے تھے کہ مسلمان اپنی پہچان چھپاتے پھررہے تھے۔بقولِ غالب"ہرچندقاعدۂ عام یہ ہے کہ عالمِ آب وگل کے مجرم عالمِ ارواح میں جاکرسزا پاتے ہیں۔لیکن یوں بھی ہواکہ عالمِ ارواح کے گہنہ گارکودنیامیں بھیج کر سزا دیتے ہیں"۔چچالاولدفوت ہوئے۔نواب الٰہی بخش نے بھائی یوسف،ایک بہن اورغالب کی پرورش کاذمہ لے کر جائے داد لے لی۔جائے دادگئی ،پینشن بند،رشتہ داروں نے آنکھیں پیرلیں۔دربدری اور حالات ناسازگار،قرض بڑھتا گیا، زندگی اجیرن ہوگئی۔

                               قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
                                               رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

یوں غالب سراپاغم میں گھرگئے۔

                               کیوں گردشِ مدام سے گبھرانہ جائے دل
                                               انسان ہوں پیالہ وساغرنہیں ہوں میں

اردو شاعری جذباتِ محبت کی ترجمان ہے۔اس سلسلہ میں غمِ عشق اور دردِ محبت کی خوب خوب تصویریں پیش کی جاتی ہیں۔اردو شاعری کو اس وجود

سے آگے لے جانے والاشاعربھی غالب ہے۔غالب غم کی تہہ میں غوطہ لگاکراس کے پوشیدہ جوہرسامنے لاتے ہیں۔جہاں غم مایوسی میں مبتلاکرتاہے۔وہاں داغِ دل چراغ بن کرتاریکی کودورکرتاہے۔

                                               غمِ ہستی کااسدکس سے ہوجزمرگ علاج
                                               شمع ہررنگ میں جلتی ہے سحرہونے تک
                                                               ٭٭٭٭٭٭٭
                                               عشق پرزورنہیں یہ وہ آتش غالب
                                               کہ لگائے نہ لگے اوربجھائے نہ بنے

شاعرکاکلام اس کے جذبات اس کی زندگی اوراس کے ماحول کاآئینہ ہوتاہے۔غالب کوحادثات زمانہ نے شاعرِغم والم کی حیثیت میں نمایاں کیا۔غا لب کی زندگی خوش حال زندگی نہ تھی۔

                                               کیوں گردشِ مدام سے گھبرانہ جائے دل
                                               انسان ہوں پیالہ وساغرنہیں ہوں میں

محبوب کاظلم وستم ہمیشہ عاشق کے لیے لطف وکرم کاسبب بنتاہے۔

                               کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِنیمِ کش کو
                                               یہ خلش کہاں سے ہوتی جوجگرکے پارہوتا

غالب نے اپنی شاعری سے ایسی تجریدی مصوری کی ہے۔کہ بعض اوقات دردوغم،ظلم وستم چلتی پھرتی تصویردکھائی دیتے ہیں۔

                               رگوں میں دوڑتے پرنے کے ہم نہیں قائل
                               جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکاتوپھرلہوکیاہے

سوزوگداز،رنج والم،بے کسی اوربے بسی کس طرح شکلیں بدلتی ہے اورغالب ان کو ندرتِ بیاں سے کیاسے کیابنادیتے ہیں۔

               ان آبلوں سے پاؤں کے گھبراگیاتھامیں
                               جی خوش ہواہے راہ کرپُرخواردیکھ کر
                               ٭٭٭٭٭٭٭
               عشرتِ پارۂ ل زخمِ تمنا کھانا
                               لذتِ نیشِ جگرغرقِ نمک داں ہونا
                               ٭٭٭٭٭٭٭
               ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
                               ایک مرگِ ناگہانی اورہے
                               ٭٭٭٭٭٭٭
               زندگی اپنی جب اس رنگ سے گزری غالب
                               ہم بھی کیایادکریں گے کہ خدارکھتے تھے
                               ٭٭٭٭٭٭٭
               قیدِحیات وبندِغم اصل میں دونوں ایک ہیں
                               موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں
                               ٭٭٭٭٭٭٭
               رنج سے خوگرہواانسان تومٹ جاتاہے رنج
                               مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں
                               غزل نمبر۱
               یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وِصالِ یارہوتا
                               اگراورجیتے رہتے یہی انتظارہوتا
               تِرے وعدے پرجیے ہم،تویہ جان،جھوٹ جانا
                               کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگراعتبارہوتا؟
               تری نازُکی سے جاناکہ بندھاتھاعہدبودا
                               کبھی تُونہ توڑسکتا،اگراُستوارہوتا
               کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِنیمِ کش کو
                               یہ خلش کہاں سے ہوتی جوجگرکے پارہوتا
               یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
                               کوئی چارہ سازہوتا،کوئی غم گسارہوتا
               رگِ سنگ سے ٹپکتاوہ لہوکہ پھرنہ تھمتا
                               جسے غم سمجھ رہے ہو،یہ اگرشرارہوتا
               غم اگرچہ جاں گسل ہے،پہ بچیں کہاں کہ دل ہے!
                               غمِ عشق اگرنہ ہوتا،غمِ روزگارہوتا
               کہوں کس سے میں کہ کیا ہے ،شبِ غم بری بلاہے
                               مجھے کیابراتھامرنا،اگرایک بارہوتا
               ہوئے مرکے ہم جورسوا،ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
                               نہ کبھی جنازہ اٹھتانہ کہیں مزارہوتا
               اسے کون دیکھ سکتاکہ یگانہ ہے وہ یکتا
                               جودوئی کی بوبھی ہوتی توکہیں دوچارہوتا
               یہ مسائلِ تصوف ،یہ ترابیان غالب
                               تجھے ہم ولی سمجھتے جونہ بادہ خوارہوتا
                                               غزل نمبر۲
                                               ہرایک بات پہ کہتے ہوتم کہ توکیاہے
                                                               تمھی کہوکہ یہ اندازگفت گوکیاہے؟
                                               نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
                                                               کوئی بتاؤکہ وہ شوخ ِتندخوکیاہے
                                               یہ رشک ہے کہ وہ ہوتاہے ہم سخن تم سے
                                                               وگرنہ خوفِ بدآموزی ٔ عدوکیاہے
                                               چپک رہاہے بدن پر لہوسے پیراہن
                                                               ہماری جیب کواب حاجتِ رفوکیاہے
                                               جلا ہے جسم جہاں ،دل بھی جل گیاہوگا
                                                               کریدتے ہوجواب راکھ جستجوکیاہے
                                               رگوں میں دوڑتے پرنے کے ہم نہیں قائل
                                                               جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکاتوپھرلہوکیاہے
                                               وہ چیزجس کے لئے ہم کوہوبہشت عزیز
                                                               سوائے بادۂ گل فامِ مشک بوکیاہے
                                               پیوں شراب اگرخُم بھی دیکھ لوں دوچار
                                                               یہ شیشہ وقدح وکوزہ وسبوکیاہے
                                               رہی نہ طاقتِ گفتاراوراگرہوبھی
                                                               توکس امیدپہ کہیے کہ آرزوکیاہے
                                               ہواہے شہ کامصاحب ،پھرے ہے اتراتا
                                               وگرنہ شہرمیں غالب کی آبروکیاہے

٭وصال۔وصل کی جمع،ملاقات٭بودا۔کم زور٭استوار۔مضبوط٭تیرِ نیم کش۔ آدھاکھچا ہواتیر ٭خلش۔چبھن(مسلسل بے چینی)،کسک٭رگِ سنگ۔پتھر میں لکیریں(رگیں) ٭جاں گسل۔جان کوگھلانے والا٭شبِ غم۔رات کاغم(جدائی کاغم)٭غرق۔ڈوبنا ٭یگانہ۔واحد٭یکتا۔واحد٭دوئی کی بو۔دو ہونے کاشک ہونا٭دوچارہونا۔دکھائی دینا، ملاقات ہونا ۱۔ہماری قسمت میں نہ تھاکہ دوست سے ملاقات ہوتی اگر موت نہ بھی آتی تو بھی ہمیں ملاقات کے لیے مزید انتظار کرنا پڑتا۔چوں کہ انتظارکی تکلیف موت سے زیادہ سخت ہے۔اس لیے ہم انتظارکی تکلیف سے بچ گئے۔اوراگر زندہ بھی رہتے تویہی انتظار کا غم برداشت کرناپڑتا۔ ۲۔شاعر(عاشق)اپنے محبوب سے کہتاہے کہ اگرہم تیرے وعدے کے باوجودزندہ ہیں تواس سے صاف طاہرہے کہ ہم تیرے وعدے کوسچانہیں سمجھتے۔کیوں کہ تیری ملاقات ہمارے لیے انتہائی خوشی کی وجہ ہے اوراگرہم تیرے وعدے کوسچ سمجھتے توہماری موت(شایٔ مرگ)واقع ہوجاتی۔ اگرہم زندہ ہیں تواس سے ی ظاہرہے کہ ہم تیرے وعدے کو سچانہیں سمجھتے۔

                                               کیاکروں دل کویقیں نہیں آتا
                                               تم توسچے ہوبات جھوٹی ہے

۳۔شاعراس میں کہتاہے کہ ترے حسن کی نزاکت سے ہم نے یہ اندازہ کرلیاتھاکہ تیرے وعدے بھی نازک(کم زور) ہیں۔اس لیے وہ جلدٹوٹ بھی گئے ۔اگرتیرے وعدے مضبوط ہوتے توتجھ سے بھی نہ ٹوٹتے۔شاعرنے بہت خوب صورتی کے ساتھ وعدے کوحسن کی نزاکت سے تشبیہہ دی ہے۔اور اپنے محبوب کووعدہ تورنے کے الزام سے بچالیاہے۔ ۴۔شاورکہتاہے کہ میرے محبوب نے آدھ کچھے تیرسے میرے جگرپروارکیاہے۔جس سے تیرجگرمیں آ(لگ)کراٹک گیاہے۔یعنی میرے محبوب نے مجھے محبت بھری نیم اداترچھی نظرسے دیکھاہے۔اس کے دیکھتے ہی میرادل اس کی محبت میں تڑپنے لگاہے۔اوراسے کسی پل چین نہیں ملتا۔اورمیں ہروقت یاد محبوب میں کھویاریتاہوں ۔مجھے اس تڑپنے میں جولطف حاصل ہوتاہے۔وہ بیان سے باہرہے۔اس شعرمیں تیرکے جگرمیں اٹکنے کومحبت کی خلش کہاگیاہے۔جواصل مقصد بھی ہے۔اورشاعرکی تمنابھی ہے۔ ۵۔شاوراس شعرمیں کہتاہے کہ یہ کیسی دوستی ہے کہ میرے دوست میرے غم کاعلاج کرنے کے بجائے مجھے یہ نصیحتیں کررہے ہیں کہ میں اپنے دوست سے تعلق ختم کرلوں ۔یہ کوئی علاج تونہ ہوا۔ حالاں کہ دوستی کاحق تویہ تھاکہ میرے دوست میراغم کم کرنے کے لیے کوصورت پیداکرتے اور میرے دوست سے میری ملاقات کراتے۔اوراسے سمجھاتے کہ ایک بیارِ محبت کاعلاج یہی ہے کہ اس کی تیمار داری ہویہی اس کاعلاج ہے۔کیوں کہ اسی بہانے ملاقات بھی ہوجاتی۔ غرضیکہ شاعر کہتاہے میرے دوستوں نے حقِ دوستی ادانہیں کیا۔ ۶۔شاعر اس شعرمیں کہتاہے کہ جوغم ہم برداشت کررہے ہیں اگر اس غم کو پتھرمیں (چنگاری کی بجائے)رکھ دیا جاتا ۔ (پتھرکی بھی رگیں ہوتی ہیں)۔توپتھرسے آگ کی بجائے اس قدرلہوبہتاکہ رکنے کانام ہی نہ لیتا۔'پتھرپانی ہوجاتے' ۔ کیوں کہ جوغم ہم برداشت کررہے ہیں یہ کوئی معمولی غم نہیں ہے۔اوراس میں وہ حوالہ بھی آجاتاہے جب رب نے فرمایاتھاکہ ’اگرہم اپنی امانت کو پتھروں کے سپرد کرتے تووہ ریزہ ریزہ ہوجاتے۔دنیاکاغم انسان ہی برداشت کرسکتاہے۔ ۷۔شاعراس شعرمیں کہتاہے کہ دل کی غم سے ازلی دوسری ہے۔اس لیے کوئی انسان غم سے بچ نہیں سکتا۔اگرمحبت کا غم نہ ہوتاتویقیناًدنیاکے غم اس کی جگہ ہوتے جوزیادہ سخت اوربرے ہیں اس لیے غمِ عشق ہی غنیمت ہے۔یعنی شاعر غمِ عشق کو غمِ دیناپر فوقیت دے رہاہے۔بقول فیض

                                               دنیانے تیری یادسے بے گانہ کردیا
                                               تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگارکے

۸۔شاعراس شعرمیں کہتاہے کہ میں شبِ غم کےعذاب کوبیان نہیں کرسکتا،کیوں کہ انسان آس ویاس کی حالت میں ،کش مکش اور گومگوکی کیفیت میں ہرلمحہ موت سے دوچارہوتاہے۔ایک لمحہ اسے مایوسی کی پستیوں کی طرف لے جاتاہے، دوسرالمحہ اسے سبزباغ دیکھاتاہے۔یوں کئی بار وہ مرتاجیتاہے ۔ ’الانتظار اشد من الموت‘انتظارموت سے زیادہ شدید ہے۔ یوں امیدوبیم میں ماہی بے بسملِ آب کی طرح تمام عمرتڑپتارہتاہے۔اوراگرایک ہی بار مرناہوتاتویہ کون سی بات تھی۔ لیکن لمحہ لمحہ موت سے گزرناناقابلِ برداشت غم ہے۔ سمے کٹ رہاہے کہ ہم کٹ رہے ہیں مگریہ مسلسل باہم کٹ رہے ہیں یہ تکمیلِ ہستی ہے شایدفریدی کہ سانسوں میں سوئے عدم کٹ رہے ہیں ۹۔شاعراس شعرمیں کہتاہے کہ زندی میں توعشق کی وجہ سے ہم بدنام تھے۔موت کے بعد بھی بدنامی کم نہ ہوئی کیوں کہ نہ کوئی کفن دفن کاانتظام کرنے والا،نہ کوئی جنازہ اٹھانے ولااورنہ ہی کسی کے دل میں یہ خیال آیاکہ اس شہیدِ عشق ہے اس کامزاربنایاجاتا۔یعنی ہماری رسوائی کوایک عالَم نے دیکھااس سے توبہترتھاکہ ہم غرقِ دریاہوجاتے ،نہ ہماری نعش ملتی،نہ کفن دفن کی فکرہوتی،نہ جنازہ اٹھتا۔اورکسی کوکانوں کان خبربھی نہ ہوتی۔ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ اگرمزاربن گیاتووہ بھی رسوائی کی علامت بن جائے گا۔کہ یہ فلاں عاشق کامزارہے وغیرہ وغیرہ۔ ۰۱۔شاعراس شعرمیں کہتاہے کہ خدا واحد ہے ۔اسے کوئی دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا۔اگرخداایک سے زیادہ (نعوذبااللہ)ہوتے توکبھی نہ کبھی ،کہیں نہ کہیں کسی سے ضرور ملتے یادکھائی دیتے ۔لیکن ایسانہیں ہے۔کیوں کہ دیکھا صرف انھی چیزوں کوجاسکتاہے جوانسانی محسوسات میں آسکتی ہیں۔

                               خداایسے احساس کانام ہے

کہ ہوسامنے اوردیکھائی نہ دے ۱۱۔شاعراس شعرمیں اپنے بارے میںکہتاہے کہ اے غالب تونے تصوف کے مسائل اتنی آسانی اورعام فہم اندازمیں سمجھادیے ہیں کہ اگرتوشراب نوش نہ ہوتاتولوگ تجھے ’ولی‘سمجھتے۔دراصل یہ شعرنرگیسیت کی اعلیٰ مثال ہے۔اس میں شاعرتعلی سے کام لے کراپنی تعریف خودکرتے ہیں۔

                                                               ہے ولی پوشیدہ اورکافرکھلا
                                                               غزل نمبر:۲

نثر:(اے محبوب!)تم(جو)ہرایل بات پہ (یہ)کہتے ہوکہ”توکیاہے“؟(تو)تمھیں کہوکہ یہ کیا اندازِگفت گوہے؟ ۱۔ شاعراس شعرمیں محبوب کاگلہ کرتے ہوئے کہتاہے کہ تم میری ہربات کی کاٹ کرتے ہواورکہتے ہوکہ تمہاری کیاحقیقت ہے۔یعنی انتہائی توہین آمیزرویے سے بات کرتے ہو۔ تم(محبوب)خود انصاف کرواورکہویہ شرفاء کااندازِگفت گوہے۔یعنی تم جس حقارت بھرے لہجے میں مجھ سے بات چیت کرتے ہو،وہ غیرمناسب ہے اوراسے بدلو۔

                                                               آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذراغورکریں
                                                               ہم اگرعرض کریں گے توشکایت ہوگی

مرزاغالب اپنے محبوب کو یہ جتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کااندازِ گفت گوتہذیب اورشائستگی کے خلاف ہے۔ محبوب چوں کہاپنے حسن پرمغرورہے اس لیے غرورِحسن نے اس کے مزاج اور اندازمیں نخوت اورکبر پیداکر دیا ہے۔اس لیے جواب میں ”توکیاہے“کہنااس کی عادت بن گئی ہے۔شاعرکہتاہے کہ ہمیں توہین بھی گواراہے لیکن تہذیب اورشائستگی بھی کوئی چیزہے۔گفت گوکے بھی کچھ آداب ،سلیقہ اورڈھنگ ہوتاہے۔تم خودہی اس پرغور کرو۔ ۲۔نثر:شاعراس شعرمیں محبوب کاگلہ کرتے ہوئے کہتاہے کہ اگرمیں محبوب کوشعلہ کہوں تو شعلے میں وہ کرشمہ نہیں ہے جومیرے سخت مزاج محبوب میں ہے۔اوراگراسے بجلی سے تشبہیہ دوں توبجلی میں وہ نازوادانہیں ہے کہ جومیرے محبوب میں ہے۔خداراکوئی مجھے بتائے کہ میں اپنے محبوب کوکیا کہوں؟کیوں کہ کوئی بھی چیزسختی اورتیزطبیعت کی مثال نہیں بن سکتی۔ ۳۔نثر:(اے محبوب ہمیں تو!)یہ رشک ہے کہ وہ تم سے ہم سخن ہوتاہے۔وگرنہ(ہمیں)خوفِ بدآموزیٔ عدوکیاہے؟ شاعررقیب (دشمن)سے مخاطب ہے اورکہتاہے کہ مجھے اس بات کاڈرنہیں ہے کہ تم میرے محبوب کومیرے خلاف بھڑکا دوگے۔نہیں، نہیں،بات صرف اتنی سی ہے کہ تم میرے محبوب سے باتیں کررہے ہویہ مجھے پسندنہیں۔مجھے تواس بات پررشک آتاہے کہ تم میرے محبوب سے گفت گوکر رہے ہو۔میں یہ چاہتاہوں کہ میرامحبوب صرف مجھ سے گفت گوکرے۔اس میں ایک لطیف بات یہ بھی ہے کہ رقیب تم سے بات کرنے کابہانہ ڈھونڈتارہتاہے اس لیے لگائی بجھائی کرتاہے۔ حالاں کہ وہ تمھیں ہمارے خلاف نہیں بھڑکاسکتا۔لیکن اسی بہانے سے وہ تم سے گفت گوکرلیتا ہے۔جوہم نہیں چاہتے ہیں۔ ۴۔نثر:(ہمارا)پیراہن لہو(بہنے کی وجہ )سے(ہمارے)بدن پرچپک رہاہے۔(ایسے میں) ہماری جیب کواب حاجتِ رفوکیاہے؟ تشریح۔شاعراس شعرمیں کہتاہے کہ خون بہنے سے میرالباس میرے جسم سے چپک گیاہے۔ اوراب اسے علاج کی ضرورت بھی نہیں رہی۔دراصل محبوب کے ظلم وستم یاگریباں چاک کرنے سے جوخون بہااس سے لباس جسم سے چپک گیا اب اگراسے الگ کیاجائے گاتوایک بارپھرلہوبہے گا۔اس لیے شاعراسے فضول کام سمجھتاہے۔دوسراشاعر کے نزدیک ،وہ ظلم وستم کا اتناعادی ہوگیا ہے کہ اب اسے علاج کی حاجت نہیں رہی۔ رنج سے خوگرہواانسان تومٹ جاتاہے رنج مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پہ کہ آساں ہوگئیں ۵۔نثر:(اے محبوب!)جہاں ہماراجسم جلاہے(وہیں)دل بھی جل گیاہوگا۔اب جو(تم) راکھ کریدتے ہوتو (تمھیں) کیاجستجوہے؟ تشریح۔شاعر اس شعرمیں اپنے محبوب سے مخاطب ہے کہ میرادل سوزعشق سے جل گیاہے اورشہیدِعشق کے مرتبہ فائزہوچکاہے۔کیاتم یہ تسلی کرناچاہتے ہوکہ دل کہیں جلنے سے بچ تونہیں گیا۔یاتم راکھ کواس لیے کریدتے ہوکہ تمھیں میرادل عزیزتھاکیوں کہ اس میں تم بستے تھے۔ اوراب اسے ڈھونڈرہے ہو،ہاں اگردل تلاش کررہے ہوتوجہان سارا گھرجل کرخاکسترہوگیاوہاں دل کہاں بچاہوگا۔یقیناًدل بھی جل چکاہوگا اس لیے راکھ کوکریدنے کااب کوئی فائدہ نہیں ہے۔ شایداسے(محبوب کو) اپنے ظلم پرپشیمانی ہوئی ہے لیکن اب پچھتانے کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔کیوں کہ عاشق توموت کی وادی میں اترچکاہے۔

                                                               حدسے زیادہ جوروستم خش نمانہیں
                                                               ایساسلوک کرجوتدارک پذیرہو

۶۔نثر:(ہم خون کے)رگوں میں دوڑنے پھنے کاقائل نہیں( ہیں)۔جب(وہ)آنکھ ہی سے نہ ٹپکاتوپھر(وہ)کیالہوہے؟ ہم اس لہوکولہونہیں مانتے جورگوں میں دوڑتاپھے۔ہم اس لہوکولہومانتے ہیں جوآنکھ سے ٹپکے۔ سوزِ گدازِ عشق کی انتہائی حالت کابیان ہے۔محبت کی یہ معراج ہے کہ شدتِ غم کی وجہ سے دل کاسارالہوآنسوبن کر آنکھوں کے راستے سے بہہ نکلے۔زندگی اس کانام نہیں کہ خون رگوں میں گردش کررہاہو۔اس لہوکی ہمارے سامنے کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔اورآنکھوں سے صرف اس وقت ٹپکتاہے جب دل محبت کی انتہائی کیفیت سے دوچارہوتاہے۔

                                                               اشک آنکھوں میں کب نہیں آتا
                                                               لوہوآتاہے جب نہیں آتا

۷۔وہ چیزکیاہے؟ جس کی وجہ سے ہمیں بہشت عزیز(پسند)ہوسکتی ہے۔وہ صرف مشک کی خوش بورکھنے والی گل رنگ شراب ہے جوبہشت میں بکثرت ملے گی۔ ۸۔ہم اس قدر زیادی شراب پینے والے ہیں کہ شیشہ وکوزہ وسبو کوکچھ نہیں سمجھتے۔ہاں اگردوچارزخم ہمارے سامنے ہوں توہم شراب پیتے ہیں۔ ۹۔شاعر نےشدیدمایوسی کااظہارکیاہے کہ اول تومجھ میں طاقتِ گفتارہی باقی نہیں رہی اوراگرہوبھی توکس امیدپرکہوں کہ میری آرزوکیا ہے۔کیوں کہ اس سے توآرزوپوری ہونے کی توقع بل کل نہیں رہی۔اوردردوفراق سہتے سہتے اتناکم زور ہوگیاہوں کہ بولنے کی طاقت نہیں رہی۔اوریہ ناامیدی اس کے گزشتہ سلوک کانتیجہ ہے کیوں کہ اس نے کبھی آرزو پوری نہیں کی۔ساری زندگی نہ ہماری آرزوپوری ہوئی نہ ہی کوئی امید پوری ہونے کی صورت پیداہوئی۔اگراب ہم پورے بدن کی توانائیوں کواکھٹاکرکے اپنی بات کوزباں پرلانے کے قابل ہوبھی جائیں کو کس امیدپراپنے دل کی بات کہیں؟ ۰۱۔نثر: (جب سے وہ)شہ کامصاحب بناہے،اتراتاپھرے(پھرتا )ہے۔وگرنہ شہرمیں غالب کی کیاآبرو(عزت)ہے؟ قلعہ معلیٰ سے تعلق ہوجانے کے بعد وہ شاہی دربارجاتے تھے اوریقیناًان کاشمار معززینِ شہرمیں زیادہ اہم بھی ہوگیا تھا۔ اس لیے غالب کہتے ہیں کہ تجھے شہرمیں کون جانتاہے؟ یہ سارے ٹھاٹ تودربارِ شاہی سے وابستہ ہونے سے ہیں۔ایک روایت کے مطابق غالب نے اس شعرمیں محمدابراہیم ذوق پرطنزکیاہے۔کہ اہلیت نہیں ،لیکن جب سے دربارِ شاہی سے تعلق پیداہواہے۔وہ اتراتاپھرتاہے۔ذوق ایک سپاہی کے بیٹے تھے جب کہ غالب کاتعلق بیگ خاندان سے تھااس لیے وہ اپنے آپ کواس منصب کا زیادہ اہل سمجھتے تھے۔اس لیے ذوق پرطنزکیا۔ اردو/اولیول/اگرمذہب گیا/اکبرالہ آبادی/مظہرفریدی

اکبرحسین اکبرالہ آبادی

                                               اگرمذہب گیا
                                       ہم نشیں کہتاہے کچھ پروانہیں مذہب گیا
                                               میں یہ کہتاہوں کہ بھائی یہ گیاتو سب گیا
                                       ہے عقیدوں کااثراخلاقِ انساں پرضرور
                                               اس جگہ کیاچیزہوگی وہ اثرجب دب گیا
                               پیٹ میں کھانازباں پر کچھ مسائل ناتمام
                                               قوم کے معنی گئے اورروح کامطب گیا
                               اتحادِ معنوی ان میں برائے نام ہے
                                               دیکھتے ہواک گروہ اک راہ ہوکرکب گیا
                               نوکری کے باب میں وہ پالیسی قائم نہیں
                                               ہوش میں آؤوہ رنگِ روزورنگِ شب گیا
                               ہم یہی کہتے ہیں صاحب سوچ لوانجامِ کار
                                               دوسراپھرکیاٹھکاناہے اگرمذہب گیا

اکبرحسین اکبر الہ آبادی

اکبرحسین اکبر الہ آبادی بارہ(الہ آباد)میں ۱۸۴۵ء میں پیداہوئے۔۱۸۵۷ء کی جنگِ آزاددی کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ذاتی محنت اوراہلیت سے تعلیمی استعداد میں اضافہ کیا۔ایسٹ انڈیا ریلوے پندرہ روپے ماہانہ سے نوکری شروع کی۔مسلسل محنت سے سیشن جج اورڈپٹی کلیکٹرکے عہدے تک ترقی کی۔ · ۲۱مئی ۱۹۹۸ء میں کان بہادر کاخطاب ملا۔ · ۲۱اکتوبر۱۹۱۰ء میں بیوی کاانتقال ہوگیا۔ابھی صدمے میں تھے کہ · ۵ جون ۱۹۱۳ میں جوان بیٹا ہاشم ۱۳ سال کی عمرمیں اللہ کوپیاراہوگیا۔ · آخریہ چراغ ۹ ستمبر۱۹۲۱ء کوہمیشہ کے لیے بجھ گیا۔(ان کے فکرکی روشنی ابھی تک تابندہ ہے)۔ · زبانِ خلق نےانھیں "لسانُ العصر " کانام دیا۔ علامہ محمد اقبالؒ بھی ان کابےحداحترام کیاکرتے تھے، علامہ اقبالؒ نے انھیں ایک خط میں لکھاکہ"میں آپ کو اپنا پیرومرشد مانتا ہوں"۔

اکبرحسین اکبر الہ آبادی نے ہر رنگ کی شاعری کی۔غزل بھی کہی۔رنگ دیکھیے!

ہنگامہ ہے کیوں برپا،تھوڑ ی سی جوپی لی ہے ڈاکا تونہیں ڈالا،چوری تونہیں کی ہے سورج کولگے دھبہ قدرت کے کرشمے ہیں بت ہم کوکہیں کافراللہ کی مرضی ہے لیکن ان کی شہرت طنزیہ اورظریفانہ شاعری کی وجہ سے ہے۔اکبر مغربیت کے کھوکھے پن کوجانتے تھے۔ان کی بیمار تہذیب ان کے سامنے تھیں۔اس لیے مغربی تہذیب وتمدن کے مخالف تھے۔ پرانی اور نئی تہذیب میں بس فرق اتناہے اسے کشتی نہیں ملتی،اسے ساحل نہیں ملتا انگریز برِ عظیم میں تاجر بن کرآئے تھے اورمکرفریب سے تاج وربن بیٹھے۔ان کے اپنے مقاصد ،اپنا کلچر،اپنانظامِ تعلیم اوراپناحکومت کرنے کانداز تھا۔انھوں نے برعظیم پرحکومت کرنے کے لیے ایک تحقیقتی کمیشن مقرر کیا۔لاڈ میکاؤلے نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا کہ : · کوئی گداگرنہیں(غربت نہیں)۔ · سوفی صد لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ (ان پرحکومت کرنا مشکل ہے) لہٰذا انگریز سامراج نے یہ انتہائی اقدام اٹھائے۔ان دونوں چیزوں کوتباہ کرنے کے لیے: · برعظیم کی زبان عربی اورفارسی(سرکاری)، بدل کرسرکاری زبان انگریزی مقررکی۔انگریزی نظامِ تعلیم جاری کردیا۔(مسلمانوں کانظامِ تعلیم تباہ ہوگیا)۔ · جاگیرداروں اورصاحبِ حیثیت لوگوں کو بے عزت کرنے کے لیے جاگیریں چھین لیں۔ اہم لوگ قتل کوادیے یاجنگِ آزادی کے (بغاوت)کے الزام میں پھانی پرلٹکادیا،یا قید وبندمیں ڈال دیا۔زندگی کے لالے پڑ گئے۔ قوم کم زورہوگئی۔مرکزیت نہ رہی،لوگ بکنے لگے۔"مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی" شیخ مرحوم کاقول اب مجھے یاد آتاہے دل بدل جائیں گے،تعلیم بدل جانے سے انگریزتعلیم کے ساتھ ،لوگ انگریزکلچر سے متأثرہونے لگے۔ذہنی غلامی سے قوم سیلِ مغرب میں بہہ گئی۔نادان لوگ قدیم نظامِ تعلیم (عربی،فاسی)کوفرسودہسمجھنے لگے۔اوراپنے آباؤُ اجداد کے خلاف باتیں بنانے لگے۔انگریزتعلیم کاشہرہ ہواکیوں کہ اس سے انھیں روزگارملنے لگاتھا۔ ہم ایسی کل کتابیں کابلِ ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن پڑھ کے لڑکے باپ کوخبطی سمجھتے ہیں انگریزنظامِ تعلیم کامقصد لائق اور ہنرمندلوگ پیداکرنانہیں تھا بل کہ کلرک پیداکرناتھا۔لہٰذا آرٹس کی تعلیم عام ہوئی اور سائنسی تعلیم کی ہواتک نہ لگنے دی گئی۔اکبر اس نظامِ تعلیم اور انگریز کے مقاصد کوخوب سمجھتے تھے۔ چاردن کی زندگی ہے، کوفت سے کیافائدہ کھاڈبل روٹی، کلرکی کر،خوشی سے پھول جا مغربی تعلیم نے مسلم اقدار پربھی حملہ کیا۔مسلم اقداراخلاس وتقویٰ کی امین تھیں۔اللہ اوررسولﷺ کی محبت،اخوت وبھائی چارہ،ہمدردی وایثار سے مالامال تھیں۔ جب کہ مغربی طوگان خودغرضی وظاہرداری کادل دادہ،مادہ پرستی کا پرچار کنے والا تھا۔دولت ہی سب سے بڑی قدرتھی۔بقولِ اکبر: نہیں کچھ اس کی پرشش الفتِ اللہ کتنی ہے سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے اکبرنے عروج وزوال دیکھا،سیاسی ومذہبی تحریکیں دیکھیں،قوم کانفاق سامنے تھا۔اکبر قدیم روایات سے محبت کرنے والے تھے۔اورماضی سے مستقبل سنوارناچاہتے ھتے۔وہ جدیدعہد کی تباہ کاریوں سے بھی آگاہ تھے۔مسلم معاشرے کے زوال کاشدیدغم بھی تھا۔ اسلام کی رونق کاکیاحال کہیں تم سے کونسل میں بہت سید،مسجدمیں فقط جمن حالات کی مجبوری ،مسلمانوں کے رویے،اورقوم کے درد نے اکبرکوظریفانہ پیرایہ استعمال کرنے پرمجبور کردیا،نیزانگریز کی ملازمت اورپابندی سے بچنے کابھی یہی طریقہ تھا۔ مغربی رنگ وروش پرکیوں نہ آئیں قلوب قوم ان کے ہاتھ میں ،تعلیم ان کے ہاتھ میں اگر مذہب گیا(مکالماتی نظم) اس نظم میں اکبر نے مکالماتی انداز میں ایک (فرضی) دوست(بقول شخصے سرسیداحمد خاں)سے گفت گو کی ہے۔ دراصل مغرب میں ایک تحریک چلی تھی کہ "اب مذہب کی ضرورت نہیں رہی"وجوہات جو بھی تھیں، اس سے وہ تمام اساطیر (Myth) متأثر ہوئے جن کی بنیاد مذہب پر تھی۔پھر کچھ عرصہ بعد یہ بات پھیلادی گئی کہ دنیا میں کوئی مذہب نہیں رہا۔اس کااگلاقدم تھا کہ خداموجود نہیں ہے(دنیامیں)۔اوراس کاآخری حملہ تھاکہ خدامرچکاہے۔(یہ انگریز تہذیب کاخلاصہ تھا)۔ · ہم نشیں:کہتاہے،کچھ پروانہیں،مذہب گیا۔(اگر مذہب نہ رہے تواس سے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا)۔ · شاعر:شاعر نے جواب دیا کہ اگرمذہب نہ رہاتوسب کچھ ختم ہوجائے گا۔اورمذہب کی جگہ کیاچیز ہوگی یعنی وہ کسن ساقانون ،یااصول ہوں گے جو کسی ملک وقوم کوچلانے کے لیے استعمال ہوں گے۔ کیوں کہ شاعرکاخیال تھا کہ عقیدہ انسان کے اخلاق وکردارپراثراندازہوتاہے۔جو لوگ کم علمی کے باوجوداسلام پرگفت گوکرتے ہیں۔دنیاپرستی(مادہ پرستی) میں کھوکردین سے بے گانہ ہوجاتے ہیں۔تصنع اوردکھاواکرتے ہیں۔گرہوں میں تقسیم ہیں(مذہبی گرہ بندی،سیاسی گروہ بندی،لسانی گروہ بندی، علاقائی گروہ بندی،ذات پات کانظام وغیرہ)ملک ،قوم اوردین کی بدنامی کاسبب بنا۔ مسلمان انگریزسامراج اورہندوبنیے کےہاتھوں کٹ پیلی بنے ہوئےتھے۔قرآنِ عظیم میں ہے۔جس کامفہوم ہے: "یہودو نصاریٰ کبھی تم سے راضی نہیں ہوسکتے،یہاں تک کہ تم ان کی ملت میں شامل ہوجاؤ۔" اکبرانگریزی تعلیم کے خلاف نہیں تھے ۔لیکن مغربی کلچر کے شتر بے مہاری کے خلاف ضرورتھے۔وہ ناداں مسلمان جوانگریزوں سے متأثرہوکرمغربی کلچر کواپنی روایات پر فوقیت دے رہے تھے ان پرتنقید کرتے ہیں۔اکبرمسلم تہذیب وتمدن کودنیاکابہترین معاشرتی نظام سمجھتے تھے۔ اس لیے انجام سے خبردارکررہے ہیں کہ اگرتم نے مذہب کی پاس داری نہیں کی توکچھ بھی نہیں بچے گا۔ اردو/اولیول/انارکلی/امتیازعلی تاج/مظہرفریدی

ڈرامہ انارکلی اردوادب کالازوال ڈرامہ۔۔۔واقعات کوایساحقیقی رنگ دیا گیا کہ اسی حقیقت مان لیاگیا۔بقول امتیاز علی تاج"جہاں تک میں تحقیق کرسکاہوں تاریخی اعتبارسے یہ قصہ بے بنیادہے"۔ لیکن اس ڈرامے کے اندازواسلوب نے ایساجادوکیاکہ اکبرِ اعظم،کولوگ ایک ظالم وجابر بادشاہ کے کردار میں بدل گیا۔ یہ ڈرامہ شیکسپیئر کی المیہ (Tragedies)کہانیوں سے کسی طرح کم نہیں.اردو ادب ،اکبر اعظم جلالالدین،اورڈرامہ کی روایت پر ڈرامہ "انارکلی" کے ان مٹ نقوش ثبت ہیں۔ ع محبت معزہ ہے اورمعجزے عام نہیں ہوتے 'دم لیاتھانہ قیامت نے ہنوز'یعنی ابھی نادرہ کوانارکلی کامفہوم ہی سمجھ میں نہیں آیاتھاکہ اولے پڑناشروع ہوگئے۔شیخو(شہزادہ سلیم)نے محبت کاجال ڈالا۔جوسنہراسانپ بن کرانارکلی کولپٹ گیا۔'نہ جائے ماندن،نہ پائے رفتن'آخروہ سونے کاپنجرہ موت کی دیوارمیں تبدیل ہوگیا۔ ابھی توحسن شوخ بھہ نہ ہواتھا کہ عشقِ مدہوش نے ہم آغوش کرلیا۔یوں سادہ اورمعصوم 'انارکلی'شش محل میں محوِ رقص ،رقصِ اجل کے سپردہوئی۔ اکبرکایہ کہنا!موت۔ داروغہ۔(آہستہ سے)کس کی۔ اکبر(بڑھتے ہوئے جوش سے)جس کے رقص نے ہندوستان کے تخت کولرزادیا۔جس کے نغمے نے ایوانِ شاہی میں شعلے بڑھکادیے۔جس کے حسن نے جگرگوشۂ مغلیہ کے حواس طھین لیے۔جس کی نظروں نے ہندوستان کے شہنشاہ ۔خود شیخوکے باپ کولوٹ لیا۔جس کی ترغیب نے خون میں کوں کے خلاف زہرملایا۔جس کی سرگوشیوں نے قوانین فطرت کوتوڑناچاہا۔لٹاہواباپ،تھکاہواشہنشاہ،ہاراہوافاتح اسے فناکردے گا۔۔۔۔۔۔!؟ اور "۔۔۔۔۔لے جاؤ اس حسین فتنے کو،اس دل فریب قیامت کو،گاڑدو،زندہ گاڑ دو،دیوارمیں زندہ گاڑدو۔" ہیجانی کیفیت ہے۔اورشکست خوردہ ذہن کی نمائندگی کرتی ہے۔یہ ہیجانی،ضذباتی اورکسی حدتکاحمقانہ(ظالمانہ)بلندآہنگ تقریرکاایک ایک لفظ قاری کے دل میں انارکلی کے لیے رحم اوراکبرکے خلاف نفرت پیداکرتاہے۔جب انارکلی کوگھسیٹ کرزنداں میں لے جایاجاتاہے۔تواس کے منہ سے صرف لفظ'سلیم'اداہوتاہے۔ مگر سلیم کہاں؟حکم تکمیل ہوتاہے۔سلیم کے ہوش میں آنے کے بعد جب اصل حالات وواقعات شہنشاہ کومعلوم ہوتے ہیں تووہ نادم ہوتاہے۔پر"اب پچھتائے کیاہوت،جب چڑیاں چگ گئیں کھیت"دل آرام فی النار اورسلیم دیوانوں جیسی حرکات کرتاہے۔ثریا شیخوکوبرابھلاکہتی ہے۔انارکلی کے بعد تجھے بھی جینے کاکوئی حق حاصل نہیں۔ یہاں آکرعملِ موت خود پشیماں ہے۔اکبرکانامراد قدموں سے لوٹنا،سلیم کاسے پہچاننے سے انکارکردینا،قاری کوایک طرح کی آسودگی دیتاہے۔یہ امتیازعلی تاج کاکمالِ فن ہے کہ قاری وہی سوچتاہے۔جوتاج چاہتاہے۔وہے دیکھتاہے۔ جو اسے تاج دکھاناچاہتے ہیں۔یوں سوال درسوال لامتناہی سلسلہ شروع ہوتا۔ڈرامہ میں کردار،مکالماتکویک جاکرنے والی چیز نفسیاتی کش مکش ہے۔جوکش مکش کرداروں اورمکالمات سے جنم لے کرایک منطقی نتیجہ کی طرف سفرکرتی ہے۔ انسانی فکرکوبے دست وپاکردیتی ہے۔اسی پرتمام ڈرامے کاانحصار ہے۔اوراسی پر مصنف کاکمالِ فن منحصر ہوتا ہے۔اس فن میں امتیازعلی تاج بے تاج بادشاہ ہیں۔

انارکلی اورفن ڈرامی نویسی

(جلال الدین کی خواب گاہ کامنظر) ڈرامہ: اہلِ یونان میں اورقدیم ہندوستان میں بھی اہمیت کاحامل ہے۔ڈرامہ کے معنی ہیں کرکے دکھانا۔کردار،مکالمات اوران مین ربط کے لیے پلاٹ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔بقولِ ارسطو(بوطیقا)"ڈرامہ کی دواقسام ہیں۔ (۱)۔المیہ(Tragedy) (۲)طربیہ(Comedy) ڈرامے کے عناصرِ ترکیبی:

(۱)۔پلاٹ(Plot):کہانی ۔واقعات کومنظم ومنضبط کرنا۔ابتداء واقعات کا تسلسل۔اورنقطۂ عروج(Climax) (۲)۔کردار(Character):ڈرامے کی جان کردار ہوتے ہیں۔                              

(۳).مکالمات(Dialogue):گفت گو جس قدر جان دار ہوگی۔اثر اتناہی دونا ہوگا۔جدید ذرائع ابلاغ میں مکالمہ کے ساتھ ساتھ صوتی اثرات،پسِ پردہ موسیقی،منظر،کرداروں کا لباس وانداز،اشارے اوربعض اوقات خاموشی بھی۔ انارکلی ۔تاریخی پس منظر۔سلطنتِ مغلیہ اوراکبراعظم کادور۔شہزادہ سلیم (اکلوتاجانشیں)۔کنیز رقاصہ نادرہ(انارکلی)۔رقیبِ روسیاہ(دل آرام)باقی تمام معاون کرداروں نے ایسا پس منظر عطاکیاکہ یہ ڈرامہ یونانی المیہ ڈراموں کی فہرست میں شامل ہوجاتاہے۔اس پرامیازعلی تاج کااسلوب،کردار،مکالمات اسے اردوادب میں ادبِ عالیہ کاان مٹ نقش بنادیتی ہیں۔یوں انارکلی ارسطوکے مقرر کردہ معیارپرپورا اترتاہے۔اورکیتھارسس()کے ساتھ ساتھ سوالات کانا ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوتاہے۔ شامل نصاب حصہ، ڈرامہ "انارکلی" بارہ دری کامنظرہے۔چہل پہل اوررونق عروج پر ہے۔ڈرامے کامرکزی کردار 'دل آرام'جشن کے حواکے سے پوچھ رہی ہے۔چھوٹی بہن کی بیماری کی وجہ سے کچھ دن نہیں تھی۔ عنبراورمرواریداسے بتاتی ہیں کہ اکبراعظم نے نادرہ کو۔۔۔بہترین رقص پیش کرنے پر "انارکلی کالقب دیاہے۔ اپنا موتیوں کاہارانعام کیاہے۔اورتمام کنیزوں میں مرکزی حیثیت عطاکی ہے۔ دل آرام ۔۔۔اس سے پہلے اہم ترین کنیزاورتمام محل کی نگاہوں کامرکزتھی۔یہ صورتِ ھال معلوم کرکے 'انارکلی' سے بدظن ہوجاتی ہے۔اوررقبت کاجذبہ سراتھاتے ہی طوفان کاروپ دھارلیتاہے۔ شہزادہ سلیم کی انارکلی میں دل چسپی۔۔۔دل آرام کاانارکلی کواکبراعظم کی نگاہوں سے گرانے کا منصوبہ ۔۔۔اوراندرہی اندر۔۔۔ جوجذبہ سلیم سے اظہار نہ کرسکاتھا(وجہ ،بزدلی)حسداورنفرت سے بدل جاتاہے۔اب دل آرام مریضِ محبت سے مریض بغض وعنادبن جاتی ہے۔ (یہیں سے کہانی نیاموڑ لیتی ہے) کہانی کے المیہ کامرکزی کردار بھی یہی ہے۔کہانی کی دل چسپی کامرکزبھی یہی ہے۔یوں دل آرام ایک لافانی (منفی کردار۔۔۔رقیب)کرداربن کے ابھرتی ہے۔وہ پورے ڈرامے 'انارکلی' پر ایک آسیب کی طرح مسلط ہے۔ دل آرام انارکلی کونیچادکھانے اوراپناکھویاہوامقام پانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھاتی ہے۔اوراس بات پرعمل کرتی ہےکہ:"محبت اورجنگ میں ہر چیزجائزہوتی ہے" محاذ قائم ہوتے ہین۔دل آرام،کنیزوں کالشکر،خواجہ سرا،داروغہ،تمام ہماشما اس کے دست وبازو ہیں۔ دوسر طرف محبت کی ماری "انارکلی" اورپروانۂ محبت شیخو(شہزادہ سلیم)ہے۔انارکلی کی چھوٹی بہن ثریا(انارکلی اورشیخو کی محبت کی امین اورپیام بر ہے) اوربختیار(شیخو کارازدارہے)۔پائیں باغ میں شیخواورانارکلی کی ملاقات ہوتی ہے۔دل آرام ، ٹوہ میں تھی دیکھ لیتی ہے۔انارکلی کودھمکاتی ہے۔راز کو طشت ازبام کرنے کااشارہ بھی کرتی ہے۔ انارکلی۔خوف زدہ آہو(ہرنی) کی طرح ثریاکوبتاتی ہے کہ انھیں دل آرام نے دیکھ لیاہے۔ظلِ الہٰی کاعتاب۔۔۔بیگمات کا غصہ اورآخر ذلت ورسوائی کی دردناک موت!؟ انارکلی خودکشی کاارادہ کرتی ہے۔ثریاگھبراجاتی ہے۔شیخو(شہزادہ سلیم)انارکلی کوتسلی دیتاہے۔اوروعدہ کرتاہے اگرشیخو بادشاہ بناتا اس کی ملکہ انارکلی ہوگی۔دل آرام یہ گفت گوسن لیتی ہے۔انارکلی کو طنزآمیز(جوزہرآلود ہوتاہے)مباک باد پیش کرتی ہے۔انارکلی شدتِ غم سے بے ہوش ہوجاتی ہے۔ شہزادہ سلیم اپنے رازدار بختیارسے مشورہ اورمددطلب کرتاہے۔بختیارشیخوکوانارکلی سے دست بردارہونے کامشورہ دیتاہے۔شہزادہ سلیم دل آرام کوبلاکر رازچھپانے کاحکم دیتاہے۔اوراسے یہ کہتاہے کہ جب ظلِ الہٰی کویہ معلوم ہوگاکہ دل آرام خود شہزادہ سلیم کی خاموش محبت میں گرفتار ہے توکیاہوگا؟دل آرام گواہ کی بات کرتی ہے۔بختیار سامنے آجاتاہے اورگواہ بن جاتاہے۔ دل آرام ۔۔۔کمالِ عیاری سے شہزادہ سلیم کے قدموں میں گرجاتی ہے۔ انارکلی خوف کی وجہ سے اپنے کمرے تک محدودہوجاتی ہے۔دل آرام انارکلی سے معافی مانگتی ہے لیکن انارکلی مطمٔن نہیں ہوتی۔اوراسے دل آرام کی چال سمجھتی ہے۔انارکلی کی ماں ،انارکلی کی ناسازیٔ طبیعت کابہانہ بناکردوسرے شہر جانے کی اجازت طلب کرتی ہے۔ اکبرِ اعظم ،شہزادہ سلیم کی لاابالی فطرت اوت جذباتِ جوانے سے زیادہ خوش نہیں ہے۔اکبرپریشان ہے۔ انارکلی کے رقص کی فرمائش کرتاہے۔انارکلی کی بیماری کاسن کراکبراسے دوسرے شہر جانے کی اجازت دے دیتاہے۔رانی جشنِ نوروز کا ذکر کرتی ہے۔اکبرانارکلی کو صرف رقص کے لیے مخصوص کرکے انتظام کسی اور کے سپردکرنے کاحکم دیتا ہے۔رانی انتظام دل آرام کے سپردکرتی ہے۔دل آرام کی پانچوں گھی میں(یہی رانی کی بہت بڑی غلطی کی)۔ دل آرام سازش کاجال بچھاتی ہے۔جشنِ نوروزکاہرمنظر،ہرعکس،ہرزاویہ ظلِ الہۃی کے سامنے ہوگا۔شہزادہ سلیم کا تخت،انارکلی کی رقص گاہ،حرکات وسکنات یہاں تک کہ آنکھوں کے اشارے ظلِ الہۃی کی نگاہوں سے چھپ نہ پائیں گے۔دل آرام اپنے مقصدمیں کام یاب ہوجاتی ہیں۔ انارکلی پراکبرِ اعظم کاعتاب قہربن جاتاہے۔انارکلی زنداں میں۔شیخو(شہزادہ سلیم) ایوان تک محدود۔اکبر اعظم سے ملنے کی کوشش پر ناکام۔رانی اکبرتک رسائی حاصل کرپاتی ہے۔لیکن اس وقت اکبر!جلال الدین اکبر!ظلِ الہٰی ہے۔اورباپ کہیں دور بہت دورہے۔رانی کی درخواست ٹھکرادی جاتی ہے۔ آخرثریا شہزادہ سلیم کوبڑھکاتی ہے۔سلیم شاہی جلال میں آجاتاہے۔بختیارکی کوشش سے شہزادہ سلیم کو،اناکلی سے ملنے کاموقع ملتاہے(یہ بھی چال کاحصہ ہے لیکن اس سے بختیار ناواقف ہے)۔ شہزادہ سلیم انارکلی کوبزورِبازولے جانے کی کوشش کرتاہے۔لیکن داروغہ کمالِ ہوشیاری سے جلال الدین کے آنے کا شوشہ چھوڑتاہے۔اورژیکوکوایک کمرے میں محبوس کردیاجاتاہے۔اورنیندآورمشروب پلادیا جاتا ہے۔ اکبربے چین ہے اوردل آرام کوطلب کرتاہے۔دل آرام کمال مکاری سے،مظلوم کابہروپ بدل کر،خوف ناٹک کرکے۔اپنے سارے تیر جلال الدین اکبر(ایک جذباتی شہنشاہ)کے سینے میں پیوست کردیتی ہے۔اس پر طرہ یہ کہ داروغۂ زنداں اسی وقت آکرگواہی دیتاہے(جودل آرام کے ساتھ پہلے سے طے تھا)۔ ظلِ الہٰی کی مایوسی،غصہ اورجلال۔آگ کوروپ دھارلیتاہے۔اورجلال الدین اکبر،انارکلی کودیوارمیں چنوادینے کا حکم(ظالمانہ فیصلہ)صادرکرتاہے۔ شہزادہ سلیم کی آنکھ کھلتی ہے۔ انارکلی کی آنکھیں بندہوگئیں ہیں۔ شہزادہ سلیم کومعلوم ہوتاہے بہت دیرہوچکی ہوتی ہے۔ وہ بختیارکے خنجرسے خودکشی کی کوشش کرتاہے۔ثریاشہزادہ سلیم کواکساتی ہے اوربرابھلاکہتی ہے۔اوریہ بھی کہہ دیتی ہےکہ:"تمھیں اب جینے کاکوئی حق نہیں"۔بختیارثریاکوجھڑکتاہے۔ سلیم غصے سے نکلنے کی کوشش کرتاہے۔پردے کے پیچھے اسے دل آرام دکھائی دیتی ہے۔شیکواسے ماردیتاہے۔ بختیار گھبرا کے اکبرکواطلاع دینے جاتاہے۔اکبرسلیم کے پاس آتاہے۔لیکن سلیم اسے پہچاننے سے انکارکردیتاہے۔ اور خودکشی کے لیے خنجرطلب کرتاہے۔شکستہ خوردہ باپ،اسے "ابا" کہنے کی درخواست کرتاہے۔لیکن سلیم اسے پہچانتانہیں۔ یوں جذباتی مکالموں پرڈرامہ اختتام پذیرہوتاہے۔اوراکبرشکستہ دل ،نامراد،مایوس،آسوبہاتا،لڑکھڑاتا سیڑھیاں چڑھنے لگتاہے"۔ سوالات:

   سوال:ڈرامہ انارکلی کے مکالمات ادبِ عالیہ کاخوب صورت امتزاج اورادب کی جان ہیں۔ہرلفظ ،خیال واحساس کومہمیز لگاتاہے۔ثابت کریں۔
   سوال:دل آرام۔ڈرامہ نارکلی کازندۂ جاوید ،مرکزی کردارہے۔جس سے ڈرامہ ایک عظیم المیہ بن گیا ہے ۔ اگر'دل آرام'کاکردارنہ ہوتاتوشایدیہ ڈرامہ اردوادب کاشاہ کار نہ بن پاتا۔کیاآپ اس سے متفق ہیں؟ ثابت کریں کیسے؟
   انار کلی۔ایک کچی کلی ہے۔محبت۔کوف۔حیا۔سادگی سے مات کھاجاتی ہے۔محبت کرنے والوں کواس قدر سادہ بھی نہیں ہوناچاہیے۔آپ کاکیاخیال ہے؟
   شہزادہ سلیم(نورالدین) جہاں گیر،جلال الدین اکبرکی نگاہوں کانور،سلطنتِ مغلیہ کاروحِ رواں،لیکن اس قدر 'بودا'محبت انسان کواگر بے کار کرتی ہے تومحبت نہیں۔افسوس شیخو زعمِ شہزادگی میں مات کھاگیا۔ "وگرنہ۔۔۔علاجِ تنگیٔ داماں بھی تھا!"وضاحت کریں۔
   جلال الدین اکبر۔ظلِ الہٰی۔ہندوستان کامطلق العنان بادشاہ،لیکن ایک معمولی سے مہرے'دل آرام'کے ہاتھوں کٹ پتلی بن گیا۔کیاایساہوا؟اگرآپ اس سے متفق ہیں یانہیں تووضاحت کریں۔
    انارکلی اوردل آرام

یہ ایک ریڈیائی ڈرامہ ہے۔چوں کہ یہ سٹیج یاٹی وی یافلم کے لیے نہیں لکھاگیااس لیے مکالمات اورصوتی اثرات اس قدر پرزور(بلند آہنگ) ہیں کہ منظرکوبتانے یاسمجھانے کی ضرورت نہیں پرتی۔ بقول تاج"اس کی موجودہ شکل میں تھیٹروں نے اسے قبول نہ کیا،جومشورے ترمیم کے لیے انھوں نے پیش کیے انھیں قبول کرنا مجھے گوارانہ ہوا"۔

   تاج وقت کانباض
   سطحی رقابت

عشق کی حرماں نصیبی۔۔۔فردکی بے بسی(اکبرکاخواب ،،،خواہش،،،اکبر اس میں زندہ رہنے کاخواہاں ہے۔ شہزادہ سلیم ڈرامے کامرکزی کردار۔۔۔لیکن اس قدر بے بس ہے!،انارکلی۔۔۔المیہ کااصل شکار۔۔۔'وہ' ہے۔جس کی اک نگاہِ عنایت نے اسے مرکزی ھیثیت دے دی۔اورشیخو خودبھی توانارکلی کی نگاہوں کامرکز ہے۔توکیاشہزادہ سلیم مرکزی کردارہے۔نہیں وہ جلال الدین اکبرکافرزند ہے۔اورمغلیہ سلطنت کاولی عہدہے۔اس لیے مرکزِ نگاہ ہے۔توکیاجلال الدین اکبر۔۔۔اس پورے ڈرامے کامرکز ہے۔بظاہرہر حرکت،ہر بات وہیں تک پہنچنے کی تک ودو میں ہے۔اکبرکی اک ہاں اس سارے معاملے کوختم کرسکتی تھی۔لیکن اس 'ہاں'کوکس نے روکے رکھا۔وہ تھی 'دل آرام'۔۔۔دل آرام کے ارادے، مقاصد،رقابت اوربدلے کی آگ۔۔۔دل آرام کی بچھائی ہوئی بساط نے جلال الدین اکبر،شہزادہ سلیم (نورالدین)،نادرہ بیگم(انارکلی۔۔۔کوکٹ پتلی بنائے رکھا۔یہ سب سوچ سمجھ ہی نہیں سکے۔کہ اصل میں ان کے ساتھ کیاہورہاہے؟لہٰذا دل آرام نے جوچاہا،وہ ہوا۔اوروہ تھی"انارکلی" کی موت۔۔۔شہزادہ سلیم کادیوانی پن اورجلال الدین اکبر کی حرماں نصیبی،نامرادی اور شکست۔۔۔یہ ڈرامہ 'جلال الدیناکبر کاالمیہ ہے'۔ وہ شخص جویہ دعویٰ کرتاہے کہ "کتنے لوگوں کو نورتنوں نے جلال الدین اکبر بنادیا۔۔۔یہ میرے خواب ہیں ۔۔۔ اورکیاخواب حقیقت ہوتے ہیں!؟

   اگر ڈرامے میں رقابت کو سطحی مطالعہ بناکر پیش کریں تودل آرام کایہ ردِ عمل کیاکہلائے گا۔

"اب مجھے کیاخبر۔ذراسی چھٹی میں رنگ ہی بدل جائے گا(تأمل کے بعد)مجھے معلوم ہوتا توبیماربہن ایڑیاں رگڑ رگڑکردم بھی توڑ دیتی میں پاس نہ پھٹکتی"۔

   اورابھی تک ہندوستان۔۔۔اک مسکین کتے کی طرح میرے تلوے چاٹ رہاہے۔مگرابھی تک میری زندگی کاسب سے براخواب ان دیکھاپڑاہے۔اورمیں اسے جنم دینے کاعزم اپنے میں نہیں پاتا۔
   اکبر(گرم ہوکر)اس کامجھے یقیں ہوجاتاتومیں اپنے ذہن کاآخری ذرہ تک خواب میں تبدیل کردیتا۔
   اکبر(سامنے مڑکرہاتھ پیشانی پررکھ لیتاہے)آہ میرے خواب !وہ ایک عورت کے عشووں سے بھی ارزاں تھے۔فاتح ہند کی قسمت میں ایک کنیز سے شکست کھانالکھاتھا۔

اکبرنے کسی سے مشورہ کرنا،اپنی توہین سمجھا۔نتیجہ یہ نکلاکہ اس کی اس کم زوری سے دل آرام نے فائدہ اٹھایا۔اپنی رقابت کی آگ کوپوراکرنے کے لیے اکبر کے خواب(کم زوری) اس کی ڈھال بن گئے۔اورپھر تمام کردار اس کے اشاروں پر ناچنے لگے۔اسے خود بھی علم تھا کہ اس کاانجام کچھ اچھانہیں ہو گا۔لیکن اس نے تو انارکلی کومتانا تھا،شہزادہ سلیم کودکھانا تھا،اوراکبر کو بے وقوف بنانا تھا۔اور اس نے ہر کام اس چالاکی اورہوشیاری سے کیا کہ کسی کو بھنک بھی نہ پڑی، یہاں تک کہ اس نے اپنی مطب براری کے لیے 'داروغہ'کوبھی پھانس لیا( یقیناً اس سے اظہارِ محبت کیاہوگا)۔لیکن اسے معلوم تھا 'وہ رہے گی توشادی ہوگی'۔لہٰذا اس نے اکبر کے تمام خواب چکناچورکردیے۔ اکبر تمھارایہ مشورہ ہے کہ میں اپنی تمام زندگی کے خواب چکناچور کرڈالوں ۔وہ خواب جومیرے دنوں کاپسینہ ،میری راتوں کی نیند،میری رگوں کالہو،میری ہڈیوں کامغز ہیں۔تمھارامشورہ ہے کہ میں ان سب کوچکناچورکرڈالوں۔

   رانی(سراٹھاکر)کیوں امیدرکھیں؟ہم ہی تھے جواولادکی آرزومیں سائے کی طرح پھرتے تھے۔ہم ہی توتھے جواولادپاکر دونوں جہاں حاصل کربیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔پھراس سےتوقع کیسی؟
   اکبر:تم ماں ہوصرف ماں!
   رانی: (جَل کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ ضبط کی کوشش کرتی ہے مگر نہیں رہا جاتا۔ پھٹ پڑتی ہے)۔ مَیں خُوش ہوں کہ مَیں صرف ماں ہُوں اور مُجھ کو رنج ہے کہ آپ شہنشاہ ہیں صرف شہنشاہ

اردو/اولیول/انارکلی/امتیازعلی تاج

سید امتیاز علی تاج امتیاز علی تاج پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے معروف مصنف اور ڈرامہ نگار تھے۔ ۱۳ ۱کتوبر ۱۹۰۰ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید ممتاز علی دیوبند ضلع سہارنپور کے رہنے والے تھے جو خود بھی ایک بلند پایہ مصنف تھے۔ تاج کی والدہ بھی مضمون نگار تھیں۔ تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ سنٹرل ماڈل سکول سےمیٹرک پاس کیا اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔ اے کی سند حاصل کی۔ انہیں بچپن ہی سے علم و ادب اور ڈرامہ سے دلچسپی تھی درصل یہ ان کا خاندانی روثہ تھا۔ ابھی تعلیم مکمل بھی نہیں کر پائے تھے کہ ایک ادبی رسالہ "کہکشاں"نکالنا شروع کردیا۔ ڈرامہ نگاری کا شوق کالج میں پیدا ہوا۔ گورنمنٹ کالج کی ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن تھے۔ ڈرامہ کے فن میں اتنی ترقی کی کہ بائیس برس کی عمر میں ڈرامہ"انار کلی" لکھا جو اردو ڈرامہ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اس کے بعد بچوں کے لیے کئی کتابیں لکھیں۔ کئی ڈرامے سٹیج، فلم اور ریڈیو کے لیے تحریر کیے۔ انہوں نے بہت سے انگریزی اور فرانسیسی زبان کے ڈراموں کا ترجمہ کیا اور یہاں کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ "قرطبہ کا قاضی" انگریز ڈرامہ نویس لارنس ہاؤس مین کے ڈرامے کا ترجمہ ہے اور (خوشی) پیٹرویبر فرانسیسی ڈرامہ نگار سے لیاگیا ہے۔ (چچا چھکن) ان کی مزاح نگاری کی عمدہ کتاب ہے۔ وہ بھی اردو مزاح نگاری میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے ریڈیو ڈرامے، اور ڈراموں پر تنقیدی مضامین بھی لکھے۔اس کے علاوہ محاصرہ غرناطہ (ناول) اور ہیبت ناک افسانے بھی مشہور ہوئے۔ تاج کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز اور ڈرامے کے صدارتی اعزاز سے نوازا۔ امتیاز علی تاج آخری عمر میں مجلس ترقی ادب لاہور سے وابستہ رہے۔ آپ کی زیر نگرانی مجلس نے بیسیوں کتابیں نہایت خوب صورت انداز میں شائع کیں۔ آپ نے متعدد اردو ڈراموں کو بھی ترتیب دیا۔ 19 اپریل 1970ء میں رات کے وقت دو سنگدل نقاب پوشوں نے قتل کر دیا۔ تاج کی ڈرامہ نگاری پر تبصرہ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، تاج کو انارکلی نے اردو ڈرامہ نگاری میں بلند مقام عطا کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سے پہلے اردو میں تھیٹریکل کمپنیاں ڈراموں میں مشکل عبارات اور پر تکلف الفاظ والے قدیم طرز کے مکالمے لکھواتی تھیں، جن میں اشعار کی بھرمار بھی ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے کردار بھی قدیم داستانوں کی طرح نرے کٹھ پتلیاں ہوتے تھے، جن میں صحیح انسانی کردار مفقود ہوتے تھے۔ وہ یا تو بدی کے نمائندےہوتے یا سراپا نیکی۔ ادبی معیار پر اس طرح کے ڈرامے پورے نہیں اترتے، البتہ عام تماشائیوں میں یہ ڈرامے بہت مقبول تھے۔ انارکلی ان سے بالکل مختلف، مغربی ڈرامے کے معیار پر پورا اترنے والا ڈرامہ ہے۔ اس کی زبان بھی بڑی حد تک روزمرہ کے مطابق ہے اور کردار بھی فطری ہیں۔ اس کا پلاٹ ڈرامائی اوصاف کے عین مطابق کش مکش اور عروج و زوال کی منازل طے کرتا ہے، اور بالآخر ایک دردناک المیہ(Tragic) انجام پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انارکلی کو پیشہ ور تھیٹر کمپنیوں نے اسٹیج نہیں کیا، لیکن شوقیہ انجمنوں اور کالجوں اور سوسائٹیوں نے اسے بڑے شوق سے کھیلا۔ بلکہ ملک میں سینما رائج ہونے کے بعد جب پیشہ ورانہ تھیٹروں پر زوال آیا، اور ساری کمپنیاں ختم ہوگئیں یا فلم سازی کرنے لگیں تب بھی انارکلی کی مقبولیت بدستور قائم رہی۔ تاج کی مزاح نگاری پر تبصرہ ویسے تو تاج نے ڈراموں اور بعض افسانوں میں بھی بے تکلف شگفتہ مزاح کا رنگ بھرا ہے مگر چچا چھکن اس بات میں ان کا شاہکار ہے۔ اس میں انھوں نے ایک سادہ لوح مگر خود کو ہمہ دان سمجھنے والے کردار کی حماقتوں سے مزاح پیدا کیا ہے۔ مضحکہ خیز کردار اردو میں داستان گوئی کے زمانے میں بھی پسند کیا جاتا تھا، مگر وہ فوق الفطری باتوں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس کے بعد سرشار نے خوجی نام کا مزاحیہ کردار پیدا کیا، لیکن وہ بھی صحیح انسانی تصویر کم اور کارٹون زیادہ ہے۔ کم و بیش یہی صورت سجاد حسین کے حاجی بغلول کی ہے۔ مگر تاج کا چچا چھکن بالکل ہمارے معاشرے کا کوئی غیر معمولی انسان نظر آتا ہے۔ چند واقعات کو چھوڑ کر، جہاں تاج نے کسی قدر مبالغے سے کام لیا ہے، چچا چھکن کی حماقتیں، بدحواسیاں اور جھلاہٹیں، جن سے پڑھنے والے کو ہنسی آتی ہے، بالکل فطری معلوم ہوتی ہیں۔ اس طرح کے بعض مضحک کردار تاج کے ہم عصر ادیبوں نے بھی تخلیق کیے، مگر یا تو ان میں اتنی جان اور واقعیت نہیں ہے، یا وہ محض کسی افسانے کی مختصر سا عکس بن کر رہ گئے ہیں۔ البتہ شفیق الرحمن کا کردار شیطان اردو ادب میں خاصے کی چیز ہے، مگر اس کی نمایاں خصوصیت حماقت نہیں، مکاری اور ذہانت ہے، اور اس طرح وہ چچا چھکن سے بازی لے گیاہے، مگر اتنا ہی غیر فطری اور اوپری سا بھی ہوگیا ہے۔ چونکہ تاج نے نہ صرف علمی و ادبی شہرت کے مالک والد اور والدہ سے تربیت پائی تھی بلکہ خود بھی ادب کا خصوصاً انگریزی ادب کا غائر مطالعہ کیا تھا اس لئے ان کی ابدی نگارشات بھی اہلِ علم و ادب میں مقبول ہوئیں۔ ڈرامہ 'انارکلی' کی خصوصیات پر تبصرہ ڈرامہ انارکلی جو ان کی شاہکار تصنیف مانا جاتا ہے، غالباً آج تک اردو میں لاثانی کہلاتا ہے۔ اس کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں: تاریخی نوعیت چونکہ انارکلی کی بنیاد ایک تاریخی روایت پر ہے، اور اس کا تعلق اس دور سے ہے جو برصغیر پاکستان و ہند میں ہر اعتبار سے نہایت شاندار اور مثالی ہے، یعنی مغل حکومت کے عروج کا زمانہ اس لئے اس کے پڑھنے والے کا اس میں پوری طرح دلچسپی لینا فطری بات ہے۔ موضوع کی دلچسپی دوسری خصوصیت انارکلی کا موضوع ہے۔ اس میں ظاہر کیا گیا ہے کہ محبت ایسا قوی جذبہ ہے جو کسی مخالفت یا رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتا، اور محبت کرنے والا شخص نہ تو ذات، رتبہ اور حیثیت کی پرواہ کرتا ہے اور نہ مخالفوں کی سختیوں سے ڈرتا ہے، یہاں تک کہ موت سے بھی ہم کنار ہو جاتا ہے۔ کرداروں کی ندرت تیسری خصوصیت اس کے زندہ اور دلآویز کردار ہیں، جن کے بغیر کوئی ڈرامہ پسند کیا جانا تو درکنار، سلیقے سے تصنیف بھی نہیں کیا جاسکتا۔ انارکلی کا ہر کردار اپنی جگہ نہایت فطری اور جاندار ہے، خصوصاً اس کے دو کردار شہنشاہ اکبر اور دلِ آرام ڈرامہ پڑھنے والے پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ اگر بیک وقت ایک مطلق العنان اور دوراندیش حکمراں بھی ہے اور محبت کرنے والا باپ بھی بیٹے کی محبت اس کو مجبور کرتی ہے کہ وہ سلیم کی خواہش پوری ہونے دے، مگر شاہی حکومت کی ذمہ داریاں، اس جذباتیت میں مانع آتی ہیں، کیوں کہ آج کا کھلنڈرا اور لاابالی نوجوان (سلیم) آگے چل کر حکمرانی کے فرائض انجام دینے والا ہے، اور اس معاملے میں ذاتی جذبات پر قابو پانے کی تربیت اس کے لئے ضروری ہے۔ عقل اورجذبات کی اس کش مکش میں اکبر جس طرح مبتلا ہوتا ہے اس کی بری اچھی تصویر کشی ڈرامے میں کی گئی ہے۔ بالآخر عقل جذبات پر غالب آجاتی ہے، اور وہ باپ بن کر نہیں، شہنشاہ بن کر اس کا وہ فیصلہ کرتا ہے جو سلیم کے لئے موزوں بلکہ ضروری تھا۔ رہی دلِ آرام، تو وہ انارکلی کی رقیب ہے، کیونکہ وہ سلیم سے محبت کرتی ہے، اور کسی زمانے میں سلیم بھی اس کی طرف مائل تھا۔ مگر انارکلی کے آجانے پر سلیم نے دلِ آرام کو چھوڑ کر انارکلی میں دلچسپی لینی شروع کردی۔ یہ فعل سلیم کے لئے تو معمولی سی بات تھا لیکن دلِ آرام کے لئے یہ محبت کی کسی اور کی طرف منتقلی عذاب بن گئی، اور اس نے اپنے ساتھ کی اس کنیز انارکلی کو درمیان سے بالکل ہٹا دینے کا فیصلہ کرلیا۔ چنانچہ یہ ای کی ایک سازش کا نتیجہ تھا کہ انارکلی سے سلیم کی دلچسپی اکبر کے علم میں آگئی، اور اس نے انارکلی کو دیوار میں چنوادیا۔ اس طرح دلِ آرام کی یہ خواہش تو پوری ہوگئی کہ انارکلی کا پتہ ہمیشہ کے لئے کٹ گیا، مگر اس کا انجام خود دلِ آرام کے لئے وہ نہ ہوا جس کی اسے خواہش تھی۔ سلیم کو جب اس سازش کا علم ہوا تو اس نے دلِ آرام کو بھی قتل کردیا۔ اور اس طرح یہ ڈرامہ ایک ٹریجڈی (المیہ) بن گیا۔ مکالمے جس دور میں انارکلی لکھا گیا وہ ڈراموں کو تھیٹروں کے ذریعے دکھانے کا دور تھا۔ فلم خصوصاً ٹاکی فلم، نہیں چلی تھی، اور نہ لاوڈ اسپیکر رائج ہوسکا تھا۔ لوگ اسٹیج پر ڈرامہ دیکھتے اور اداکاروں کے مکالمے سنتے تھے۔ قدرتی بات تھی کہ ڈرامہ نگار اپنے کرداروں کے لئے مکالمے بھی ایسے لکھتا تھا جو چیخ کر اور بلند آواز سے ادا کئے جائیں، تاکہ تماشا دیکھنے والوں کی آخری قطار بھی انھیں سن سکے۔ خود تاج نے ایک مضمون میں ایک مثال کے ذریعے سمجھایا ہے کہ تھیٹر کے اسٹیج پر جو اداکار جس بات کو اس طرح ادا کرے: آج تم قہقہوں اور ٹھٹوں میں میری بات کو اڑادو، لیکن کل آہوں اور آنسوؤں کے ساتھ مجھے یاد کرو گے۔

اسی بات کو ایک فلمی ایکٹر صرف اس طرح کہہ دے گا تم جانو کیوں کہ فلم میں یہ آواز آسانی سے آخر تک سنی جاسکتی ہے۔ چناں چہ اسٹیج کی اسی ضرورت کے لئے ڈرامے کے مکالمے سنتے تھے۔ انارکلی میں بھی اس بات کا خیال رکھا گیا ہے، مگر اس کے باوجود، تاج نے کوشش کی ہے کہ اس میں روز مرہ کی بول چال سے زیادہ دور نہ جائیں، پھر بھی، اگر کہیں مکالموں میں خطیبانہ انداز پید ہوگیا ہے تو یہ اسٹیج کی وہی مجبوری ہے۔

البتہ چونکہ انارکلی کی کہانی مغلیہ عہد سے تعلق رکھتی ہے، اور بادشاہ اکبر، شہزادہ سلیم اور شاہی محل کی کنیزیں سب اسی پر تکلف بول چال کی عادی ہیں جو مغل دربار کی خصوصیات میں سے تھی، اس لئے انارکلی جیسے ڈرامے اتنے اوپری اور غیر فطری بھی نہیں لگتے جتنے کسی آج کل کے مشرتی ڈراموں میں بعض ڈرامہ نگاروں نے استعمال کیے ہیں۔قصہ مختصر یہ کہ انارکلی کے مکالمے خاصے جاندار اور اپںی مفہوم و مدعا کو پوری طرح ادا کرنے والے ہیں، نہ کہ وہ ڈرامے کی خامی سمجھے جائیں۔ انار کلی(امتیاز علی تاج) ڈرامہ انار کلی کی کہانی کا بنیادی خیال ، محبت اور سلطنت کے درمیان تصادم اور کشمکش پر مبنی ہے ۔ اس طرح اس ڈرامے میں رومانیت ، رعب داب ، جلال و جمال اور بے پناہ قوت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن درحقیقت محبت بذات خود ایک بڑی طاقت ہے۔ صرف نام کا ہیر پھیر ہے۔چنانچہ قوت اقتدار اور قوت جذبات کا ٹکرائو جب ہوتا ہے تو ہر طرف اداسی ہی اداسی اور سوگ ہی سوگ چھا جاتا ہے۔ مگر جہاں تک انار کلی کے پلاٹ کی تاریخی سند کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے یہ قصہ بے بنیادنظرآتا ہے ۔ وہ اس لئے کہ امتیاز علی تاج خود کہتے ہیں کہ : " میرے ڈرامے کا تعلق محض روایات سے ہے بچپن سے نار کلی کی فرضی کہانی کے سنتے رہنے سے حسن و عشق، ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کے شان و شوکت میں دیکھا اس کا اظہار ہے۔“ بہر حال اگر اس ڈرامے کی تاریخی اہمیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انار کلی فنی عروج اور دلفریب ادبیت کاخوبصورت امتزاج ہے۔ خوبی زبان ، بندش الفاظ ، چست مکالمات اور برجستگی جیسے ڈرامائی لوازمات نے ا س تخلیق میں ایک شان او ر وقار اور سربلندی پیدا کی ہے۔آئیے ڈرامے کی فنی فکری خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں، کردار نگاری:۔ انار کلی کے کرداروں میں ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جو اپنی خصوصیات کی بناءپر فن کے پیمانے پر بدرجہ اتم پورے اترتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکبر ، سلیم اور انار کلی اس ڈرامے کے کلیدی کردار ہیں۔ دل آرام کا کردار بھی اہم ہے۔ علاوہ ازیں ثریا مہارانی ، بختیار، داروغہ زندان سیات، مروارید اور انار کلی کی بوڑھی ماں ایسے ضمنی کردار ہیں جو تذبذب ، تجسّس اور کشمکش کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مصنف کا کمال ہے کہ اس نے ان ضمنی اور چھوٹے کرداروں کو بھی اپنے زور قلم کے بل بوتے پر ڈرامہ انارکلی کے شاندار کردار بنا کر پیش کیا ہے۔تاج نے اپنے کرداروں کی سیرت اور صورت کی تصویر کشی کرتے وقت ایسا زور قلم اور ادبی شکوہ دکھایا ہے کہ اسٹیج پر ایسے کرداروں کا دکھانا ناممکن اور محال ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈارمے کے نمایاں کردار انار کلی کا تعارف وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ "چمپئی رنگ میں اگر سرخی کی خفیف سی جھلک نہ ہو تو شائد بیمار سمجھی جائے خدوخال شعراءکے معیار حسن سے بہت مختلف ، اس کا چہرہ دیکھ کر ہر تخیل پسند کو پھولوں کا خیال ضرور آتا ہے۔“ کردار نگاری کے اعتبار سے ڈرامہ نگار نے ایسے ادبی اور فنی لوازمات کاخیال رکھا ہے کہ کسی کردار کے قول و دفعل میں تضاد کا کھٹکا بھی محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی میں کردار نگاری اوج ثریا کو چھو رہی ہے۔ اکبر اعظم:۔ اکبر کے سینے میں باپ کا دل ہے لیکن وہ اپنے ولی عہد سلیم کو پختہ عمل کا مالک اور شاہانہ جاہ و جلال کا پیکر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ سلیم کو شیخو کی حیثیت سے بلاشبہ ٹوٹ کر پیار کرتا ہے لیکن ولی عہد کی حیثیت سے وہ اسے ملگ گیری اور جہاں بانی کے جوہر سے متصف دیکھنے کا آرزو مند ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ ولی عہد اپنی ایک ادنی کنیز کے سر پر محبت کا آنچل ڈالے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکبر سلیم کی شادی کسی ایسی جگہ کرانا چاہتا ہے جہاں سلیم کے سےاسی ہاتھ مضبوط ہو سکیں۔ سلیم کا کردار:۔ سلیم انار کلی کا شیدائی تو ہے لیکن دل و جاں سے نہیں ایسا لگتا ہے کہ اس کے جسم میں گداز ہے لیکن دل اس دولت سے یکسر خالی ہے۔ بیشک وہ باتوں کے بے شمار گھوڑے دوڑاتا ہے مثال کے طور پر:ا”للہ پھر یہ سہمی ہوئی محبت کب تک راز رہے گی۔ مہجور دل یونہی چپ چاپ دیکھا کرے گا۔“ سلیم کے آخری جملے نہ صرف سلیم کے مستقبل کے متعلق ممکنہ اندیشوں کا اظہار ہے بلکہ اس سے اس کی قلبی کیفیت اور فطرت کی جانب بھی ایک واضح اشارہ ملتا ہے کہ اسے محبت کے مقابلے میں شہنشاہی کی کوئی اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔ آگے چل کر سلیم کی یہ گفتگو اس کے کردار کی وضاحت کرتی ہے۔ انار کلی:۔ جہاں تک انار کلی کا تعلق ہے وہ درحقیقت عشق و وفا اور فکر و فن کا ایک حسین و جمیل شاہکار ہے۔ وہ نہ تو زندگی سے خوف کھاتی ہے اور نہ ہی موت سے آنکھیں چراتی ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا بھی ڈر نہیں ۔لیکن شہزادے کی رسوائی کے بارے میں فکر مندرہتی ہے اور اکبر اعظم کے رعب میں آخر سلیم کی بے وفائی کے شکوک و شبہات کا بھی شکار نظر آتی ہے۔ اس کے جذبہ عشق کے آگے جب موت بھی سر جھکادیتی ہے ۔ تو اکبر اسے دیوار میں چنوا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ لافانی کردار تاریخ عالم میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ اور بعد کے لوگ انار کلی کے نام کو بطور ایک استعارہ محبت لیتے رہتے ہیں۔ اور ان کی وفا کی مثالیں بھی زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔ دل آرام :۔ دلارام شہزادہ سلیم کی پہلی منظور نظر اور محل سرا کی خاص کنیز ہے۔ لیکن سلیم سے انار کلی کے تعلقات قائم ہونے کے بعد آتش رقابت سے بری طرح جل رہی ہے۔ وہ شہزادے پرآنچ نہیں آنے دینا چاہتی۔ مگر انار کلی کو بہر صورت تباہ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ اس کے کردار اور جذبہ رقابت کو ظاہر کرنے کے لئے تاج نے صرف ایک جملے سے کام لیا ہے۔ اس وقت دل آرام جشن نوروز کے لئے زبردست تیاری کر رہی ہے۔ اور سازشوں کے جال پھیلانے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ کہ ایک واقف حال کنیز اس سے پوچھتی ہے۔ "پھر آخر کےا کرو گی؟دلا آرم جواب دیتی ہے "ناگن کی دم پر کوئی ؤں رکھ لے تو وہ کیا کرتی ہے"۔ مکالمہ نگاری:۔ جہاں تک انار کلی کے مکالموں کا تعلق ہے تو یہ بھی بڑے جاندار اور پر وقار ہیں ۔ اس ڈرامے کا ہر کردار موقع و محل کے مطابق گفتگو کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی کے مکالمے کسی موقع پر بھی نہ تو ڈھیلے اور سست پڑتے ہیں اور نہ اپنی اہمیت و حیثیت سے محروم ہوتے ہیں۔ بلکہ ڈرامائی کیفیت سے ہلچل اور تجسّس پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض ناقدین اس ڈرامے کی زبان پر اعتراض کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ ایسے اعتراضات معمولی معمولی خامیوں کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئے۔ جبکہ ان خامیوں کے مقابلے میں انار کلی کی خوبیاں نقطہ عروج تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں چستی مکالمات ، نزاکت الفاظ اور حسن و بیان اپنی مثال آپ ہے چنانچہ پروفیسر محمد سعید انار کلی کے مکالموں کے بارے میں کہتے ہیں کہ " الفاظ میں شاعری ہے مگر تک بندی نہیں حرکات میں زندگی ہے مگر حقیقت نہیں، غرض جو لفظ ہے دلنشین اور جو حرکت ہے دلکش ہے۔“ مکالمہ نگاری کے سلسلے میں مصنف نے کرداروں کی نفسیات اور ان کی ذہنی سطح کا بطور خاص خیال رکھا ہے۔ لیکن اس ادیبانہ و فنکارانہ تدبیر گری کے باوجود وقتاً فوقتاً انارکلی اعتراضات کی زد میں آتی رہی۔ مثلاً پروفیسر عبدالسلام کہتے ہیں کہ :" اس ڈرامے کی ایک اہم کمی اور خامی خود کلامی کا افراط ہے“ پروفیسر عبدالسلام نے ڈرامہ انار کلی میں خود کلامی پر اعتراض کیا ہے جبکہ ایک دوسرے نقاد ڈاکٹر حنیف فوق اس خود کلامی کے سلسلے میں یوں فرماتے ہیں۔ "تاج نے خود کلامی کو خلاقانہ طور پر استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے جیتے جاگتے پیکر تراشے ہیں۔“ انار کلی میں خود کلامی کوئی فالتو چیز محسوس نہیں ہوتی۔ ڈرامہ نگار نے اسے موقع و محل کے مطابق پیش کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس ڈرامے میں خود کلامی خامی کے بجائے خوبی اور حسن معلوم ہوتی ہے۔ ایک کامیاب مکالمہ نگار کی حیثیت سے سید تاج اپنے کرداروں کے عادات و اطوار ، ان کے مزاج اور سوچ سے گہری وقفیت رکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے مکالموں میں ہر کردار اپنی انفرادیت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس کی مخصوص حالت آخر دم تک برقرار رہتی ہے۔ منظر نگاری:۔ تاج ہر منظر کی ایسی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انار کلی کی عبارت فن اور خیال کا ایک بے مثال مرقع بن گئی ہے۔ وہ جس منظر کو پیش کرتے ہیں اس کی ہوبہو تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ مثلاً سلیم کے محل کا منظر اس طرح پیش کرتے ہیں۔ "گھنے پیڑ وں کے طویل سلسلے میں کھجوروں کے کم بلند اور ساکت درخت کالے کالے نظرآرہے تھے راوی ان دور کی رنگینیوں کو اپنے دامن میں قلعے کی دیوار تک لانے کی کوشش کر رہا ہے۔“ منظر کشی کے لحاظ سے مندرجہ بالا منظر بے شک لاجواب ہے لیکن درحقیقت فن ڈرامہ نگاری کے حوالے سے یہی منظر اسٹیج ڈرامے کا نقص بن جاتا ہے۔ اسٹیج پر نہ تو گھنے درختوں کے طویل سلسلے اگائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی دریائے راوی کو اسٹیج پر سے گزارنا ممکن ہے۔ لیکن اس طرح کے حسین و جمیل اور جیتے جاگتے مناظر نے انارکلی کی ادبی چاشنی کو دوبالا کر تے ہوئے اس کے حسن کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ اسلوب بلاشبہ انار کلی میں زبان و بیان کا کہیں کہیں جھول ملتا ہے۔ مثلاً انار کلی کی قید کے بعد اکبر کا دلآرام کو طلب کرے پوچھنا کہ ”لڑکی تجھے شیخو اور انار کلی کے کیا تعلقات معلوم ہیں“ حالانکہ شیخو اور انارکلی کے آپس میں تعلقات کے متعلق سوال پوچھ رہے تھے۔ لیکن الفاظ سے معنوں کاخاص پتہ نہیں چلتا ۔ عین ممکن ہے تاج نے اکبر کے ذہن و قلب میں پائی جانے والی زبردست ہلچل دکھانے کے لئے جان بوجھ کر کیا ہو ۔ بہر حال ایسے مواقع بہت کم ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان کے مکالموں میں چستی ، برجستگی ، لطافت بیان اور حسن کلام کی خو ش کن مثالیں بکثرت نظرآتی ہیں ۔ بقول پروفیسر مرزا محمد سعید:”انار کلی کے مصنف نے مناظر کو اپنے موضوع کا ہم پلہ بنانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔اور ہر ایک منظر میں اشخاص ڈرامہ کی حرکات و سکنات ،بات چیت ، تراش خراش اور منظر کی عمومی کیفیت کے عین مطابق ہے۔“ فکری تجزیہ اس ڈرامے میں ڈرامہ نگار نے شہزادے اور کنیز کے خیالات اور جذبات کو محبت کو ایک ہی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اکبر اگر شہزادے اور کنیز کی محبت کا مخالف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غربت اور بے بسی کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ سماج میں غریب انسان کی پر خلوص اور لازوال محبت کو بھی نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر کے خیالات مادہ پرستی پر مبنی ہیں۔ چنانچہ و ہ انار کلی کی عظیم محبت کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے ادنیٰ کنیز سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔

لہٰذا ڈاکٹر حنیف فوق کی رائے بجا ہے کہ:” امتیاز علی تاج کی بہت بڑی جیت یہی ہے کہ انہوں نے انسانی جذبات کو ان کے سماج اور ماحول سے منقطع کرکے پیش نہیں کیا۔ اس طور پر انار کلی حقیقت نگاری کا اپنا ایک نیا معیار قائم کرتی ہے۔ جواب تک اردو ڈراموں میں نہیں ملتا۔“

اس میں شک نہیں کہ تاج ایک خاص حوالے سے گزرے ہوئے زمانے کی ترجمانی کر جاتے ہیں لیکن ذرا غور کیا جائے تو جذباتی ، نفسیاتی اور معاشرتی حوالوں سے زندگی آج بھی اس ڈگر پر چل رہی ہے جس پر کئی صدیاں پہلے تھی۔ اس لئے کہ آج بھی وہی مادہ پرستی ، شان و شوکت کی پاسداری اور طبقاتی اونچ نیچ کی گرم بازاری ہے۔ اس اعتبار سے امتیاز علی تاج کے قلم کو بلاشبہ عصر حاضر کا ترجمان کہہ سکتے ہیں۔ انار کلی کس کا المیہ ہے؟ یہ ڈرامہ کسی ایک فرد کا المیہ نہیں بلکہ اکبر اعظم ،سلیم ، دلآرام او رانار کلی سبھی کا المیہ ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کردار کے حسب حال ہم اسے کم یا زیادہ المیہ قراردے سکتے ہیں۔ اکبر اعظم کا المیہ:۔ ایک مشہور نقاد احتشام حسین نے کہا تھا کہ انار کلی کا ڈرامہ اکبراعظم کا المیہ ہے۔ لیکن یہ کلی سچائی نہیں ہے۔ اکبر کے حق میں تو یہ ڈارمہ باقی کرداروں کے مقابلے میں کم المیہ ٹھہرتا ہے۔ اکبر جاہ و جلال کا متوالا اور سیاہ سفید کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ ادنیٰ کنیز شہزادے کے ساتھ شادی کرے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور اس کے ایک اشارے پر انارکلی کو دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں احتشام حسین نے نجانے ڈرامے کو صرف اور صرف اکبر کا المیہ کےسے قرار دیا ۔ جبکہ اس کی سلطنت بھی قائم ہے۔ ہاں اکبر اور سلیم کے درمیان جو چپقلش اور ناچاقی پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ہم اسے اکبر کا معمولی سا المیہ کہہ سکتے ہیں۔ دل آرام کا المیہ:۔ جناب پروفیسر ڈاکٹر فقیرا خان فقری اسے سب سے زیادہ دل آرام کا المیہ قرار دیتے ہیں۔دل آرام ایک ایسا بد قسمت کردار ہے جس کی ٹریجڈی کی طرف کسی نقاد کا خیال نہیں گیا۔دل آرام کے احساسات و جذبات کا کسی کو پاس نہیں۔ نقادوں نے اس ڈرامے کو فرداً فرداً اکبر ، سلیم یا انارکلی کا المیہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دل آرام کو چالبازاور انتقامی جذبات کی مالک قرار دیا ہے لیکن کسی نے دل آرام کے دل میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی دل آرام تو انار کلی سےپہلے سلیم کو چاہتی ہے۔ انار کلی تو بعد میں آن ٹپکی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں جذبات میں کیا دل آرام کو رقابت کا حق بھی نہیں پہنچتا؟اگر ہم اسے یہ حق بھی نہیں دیتے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ہم انتہائی ظالم ، جانبدار اور انسانی احساسات و نفسیات کے منکر ہیں۔ دل آرام کو انار کلی کے مقابلے میں زیادہ بے یارو مددگار ہے۔ دل آرام کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ جسے چاہتی ہے ٹوٹ کر پیار کرتی ہے۔ وہی شہزادہ سلیم انار کلی کا بدلہ لینے کے لئے دل آرام کی نازک اور صراحی جیسی گردن پر ہاتھ رکھ کر اسے موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ دل آرا م غریب سے نہ تو کوئی محبت کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کا انتقام لینے والا ۔ اور نہ سوگ منانے والا۔ چنانچہ یہ ڈارمہ بڑی حد تک دل آرام کا المیہ ہے۔ انار کلی کا المیہ:۔ ڈارمہ انار کلی کو انار کلی کا المیہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ وہ ایک نازک اندام اور معصوم کلی کی طرح محبت کے دائو پیچ سے ناواقف کم سن لڑکی تھی۔ پہلے شہزادہ سلیم نے اسے اپنے جال محبت میں گرفتار کر لیا۔ اور بعد میں جب وہ اپنی محبت کی خاطر سب کچھ سہنے پر رضا مند ہو گئی تو اسے زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا۔ حالانکہ اس میں وہ اکیلی قصور وار نہیں تھی۔ لیکن چونکہ وہ صرف ایک کنیز تھی اس لئے اسے قربانی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس کی محبت کی کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی ۔ اور اسے محبت کرنے اور کنیز ہونے کی اتنی بڑی سزا دی گئی۔ لیکن اس نے اپنے تمنائے دل کے لئے جان دی ۔ لہٰذا آج بھی ان کا نام زندہ و تابندہ ہے سلیم کا المیہ:۔ میرے خیا ل میں ڈارمہ انار کلی سب سے زیادہ شہزادہ سلیم کا المیہ ہے۔ جس کے کئی وجوہات ہیں۔ پہلی سب سے بڑی وجہ ےہ ہے کہ ٹریجڈی زندہ لوگوں کی ہوتی ہے۔ نہ کہ مردہ لوگوں کی ۔ لہٰذا ہم اسے سلیم کا الہٰذا ہم اسے سلیم کا المیہ قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ انارکلی تو مر گئی لیکن ایک با وفا عاشق کی طرح ساری زندگی شہزادہ سلیم ان کی موت کے خیال سے نبرد آزما رہا ہوگا۔ وہ ساری زندگی اپنی محبت اور انار کلی کی اس طرح جدائی میں تڑپاتا رہا ہوگا۔ اس کی فرقت میں اس نے نجانے کتنی راتیں رو رو کر اپنا دامن اشکوں سے بھر ا رہا ہوگا۔ زندگی کے ہرموڑ پر انار کلی کی باتیں، اس کی دلآویزمسکراہٹ بار بار سلیم کو یاد آتی ہوگی۔ اور وہ زندگی بھر اس کی یادوں کے دریا میں غوطہ زن رہا ہوگا۔ سلیم کے المیہ کی دوسری وجہ یہ ہے۔ کہ انارکلی کی موت کے انتقام میں وہ دلآرام کا گلہ گھونٹ دیتا ہے۔ اس کا ضمیر ساری زندگی اسے اپنے اس فعل پر ملامت کرتا رہے گا۔ کیونکہ قتل ہر حال میں قتل ہوتا ہے۔ خواہ ایک کنیز کا ہو یا بادشاہ کا۔ ایک ہوش مند انسا ن بعد میں اپنی حرکت پر دل ہی دل میں پشیما ن ہوتا ہے۔ اور اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ لہٰذااگر ہم سلیم کے کردار کا نفسیاتی جائزہ لیں تو وہ تمام زندگی دلآرام کے ساتھ زیادتی پر یقینا پچھتا رہا ہوگا۔ اور یہی پچھتاوا اس کی زندگی کا بڑا المیہ ہے ۔ یعنی اس کا احساس جرم اسے ہر وقت بے چین رکھتا ہوگا۔ تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ سلیم جیسا شہزادہ جس کے باپ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس قدر بے بس اور لاچار ہے کہ اپنی محبت کو حاصل نہیں کر سکا ۔ دنیا جہاں کی دولت ، طاقت اس کے ادنیٰ غلام ہیں۔ لیکن اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔ کہ و ہ تمام چیزوں کے باوجود اپنے عشق کو تکمیل ذات تک پہنچانے میں قطعی ناکام رہا۔ اور اپنی محبوبہ کی زندگی کے چراغ کو گل ہونے سے نہ بچا سکا۔ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ اتنی بڑی سلطنت کا والی وارث ہونے کے باوجود وہ تہی داماں ہے۔ اور اپنی محبت کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ جس پر وہ ساری زندگی آنسو بہاتا ہوگا۔ تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا اب یہ قاری کاکام ہے کہ وہ خود نتیجہ اخذ کرے کہ انارکلی کس کاالمیہ ہے۔ انارکلی کے بارے میں چند نقادوں اور ادیبوں کی رائے: انار کلی کے بارے میں ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا ہے۔ "انار کلی کی زبان میں روانی اور انداز بیان میں دل فریبی ہے اور زبا ن شستہ و برجستہ ہے۔" پریم چند: ” مجھے جتنی کشش انار کلی میں نظرآئی ، کسی اور ڈرامے میں نہیں“ پطرس بخاری: ”انار کلی اور اردو ڈرامہ کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی۔“ عباد ت بریلوی: ” انار کلی کی اشاعت ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔“ حفیظ جالندھری: ” یہ تصنیف ڈرامہ کی تاریخ میں نہ صرف ایک اہم کردار کے طور پر زندہ رہے گی بلکہ ڈرامہ نویسوں کے لئے مشعل راہ کا م دے گی۔ "جب یہ ڈرامہ لکھا گیا،وہ دور دراصل ریڈیائی ڈرامے کادورتھا۔کہانی،مکالمات،پلاٹ اوراثر انگیزی تمام لوازمات کاخیال اس حوالے سے اہم تھا کہ تمام ترتأثر اورلوگوں کی توجہ آوازکی مرہونِ منت رھی۔لہذا آواز میں ایسااثر ہوکہ ہر سننے والا دم بخود رہ جائے۔اس لیے کردار سازی،کے علاوہ مکالمات،اورادائیگی کو پراثر بنانے کے لیے ایسی تکنیک استعمال کی گئی کہ فلم(منظر) کی کمی محسوس نہ ہو۔اس حوالے سے یہ ڈرامہ اپنانقش ثانی نہیں رکھتا۔جدید ابلاغ کے دورمیں بھی فلم،ٹی وی،یاتھیٹر میں بھی اسے اسی تکنیک کے تحت برتنا بہت آسان تھا۔اس ڈرامے میں اتنی لچک موجود ہے کہ فلمانا کچھ مشکل نہیں تھا۔لیکن فلم،تھٹر یا ٹی وی کے ملکان یاہدایت کار اپنا ہاتھ اوپررکھنے کے لیے ایسے اعتراضات کرنا اپناحق سمجھتے تھے۔


عشق کی علامت، وفا کی دیوی اور محبت کی تصویر ۔ ۔ ۔ انارکلی انارکلی عشق کی علامت ، وفاکی دیوی، اور محبت کی تصویر ہے اور مقبرہ انارکلی کو اس کا نقش قرار دیا جاتا ہے۔ برصغیر میں عشقیہ و رزمیہ داستانوں میں انارکلی ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔ سلطنت اور محبت کی جنگ انارکلی کا فسانہ ہے۔ دوسری جانب اس امر کا تعین کرنا خاصا تحقیق طلب کام ہے کہ یہ واقعہ حقیقت تھا یا محض افسانوی حیثیت رکھتا ہے۔ایک روایت کے مطابق ایران کا ایک سوداگر اپنے خاندان کے ہمراہ ہندوستان آیا۔ راستے میں ڈاکوؤں نے اس پر حملہ کر دیا۔ ڈاکوؤں نے سوداگر کو قتل کر دیا اور اس کی خوبرو بیٹی راجہ مان سنگھ حاکم کابل کے پاس فروخت کر دی گئی۔ راجہ مان سنگھ نے اسے شہنشاہ اکبر کے حضور تحفتاً پیش کیا۔ اکبر نے اسکے حسن سے متاثر ہر کر اسے انار کلی کا نا م دیا۔ اور اسے دربار میں رقاصہ خاص کا درجہ دیا گیا۔ سلیم اور انارکلی یہ بھی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ انار کلی کا کوئی وجود بھی تھا یا نہیں یا یہ محض ایک فرضی داستان ہے۔ یہ سب باتیں متنازعہ ہیں اور مختلف آراء ہیں۔ مولوی نور احمد چشتی اپنی تصنیف ’تحقیقات چشتی‘ میں لکھتے ہیں کہ انار کلی اور شہزادہ سلیم کی محبت کی داستان میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، ان کے خیال کے مطابق شہنشاہ اکبر نے نادرہ بیگم یا شریف النساءکو اسکے حسن کی وجہ سے انار کلی کا خطاب دیا تھا۔ اپنے مسحور کن حسن کی وجہ سے وہ دوسری بیگمات کے حسد کا شکار ہوئی اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ایک اور روایت کے مطابق جب اکبر دکن کی مہم پر تھا تو یہ حسین عورت کسی بیماری میں چل بسی۔ سید محمد لطیف اپنی کتاب ’تاریخ لاہور اور اس کے آثار قدیمہ‘ میں لکھتے ہیں کہ کسی موقع پر شہنشاہ اکبر نے اسے اور شہزادہ سلیم کی مسکراہٹوں کو آئینے میں دیکھا اور اس بنا پر اسے دیوار میں زندہ چنوا دیا۔

انار کلی کے بارے میں سب سے پہلا تذکرہ ایک انگریز ولیم فنچ کا ہے جو کاروبار کے سلسلے میں 1611ءمیں لاہور آیا تھا۔

فقیر سید اعجاز الدین نے ولیم فنچ کا ذکر اپنی کتاب’لاہور‘ میں کیا ہے کہ فنچ نے لاہو رمیں ایک مقبرہ دیکھا جس کے بارے میں اسے بتایا گیا یہ ایک خاتون نادرہ کا مقبرہ ہے جسے اکبر کے حکم سے دیوار میں زندہ چنوا دیا گیا تھا۔ اس بات کو دیگر محققین تسلیم نہیں کر رہے تھے کیوں کہ اکبر کے دور میں شیش محل تعمیر نہیں ہو ا تھا بلکہ اس کو شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا لیکن بعد ازاں ایک اور انگریز مو’رخ نے 1935ءمیں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے ایک رسالے میں مضمون لکھا جس میں انہوں واضح کیا کہ جن آئینوں سے اکبر نے سلیم اور ایک کنیز کو دیکھا تھا وہ دو فٹ چوڑے اور تین فٹ لمبے آئینوں کی ایک قطار تھی جو اس دور میں قلعہ لاہور کے رہائشی حصے میں نصب تھی۔ ایک مورخ ٹیری نے اپنے رسالہ ٹیری جرنل میں 1655ءمیں لکھا کہ شہنشاہ اکبر نے شہزادہ سلیم کو تخت سے الگ کرنے کی دھمکی دی تھی، اور اس کی وجہ اکبر کی منظور نظر کنیز انار کلی تھی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ داستان کا مرکزی کردار شہزادہ سلیم(شیخو،نورالدین جہاں گیر) اس معاملہ میں بالکل خاموش ہے اس نے اپنی خود نوشت تزک ِجہانگیری میں اپنے بے شمار دوسرے مشاغل اور دل چسپیوں کو بیان کیا ہے۔ لیکن انار کلی کے واقعہ کا کہیں ذکرنہیں کیا۔ کنہیا لال ہندہ اس حوالے سے ’تاریخ لاہور‘ میں لکھتے ہیں کہ ”انارکلی ایک کنیز نہایت خوبصورت اکبر بادشاہ کے محل کی تھی جس کا اصلی نام نادرہ بیگم تھا۔ بادشاہ نے باسبب اس کے کہ حسن و جمال میں لاثانی تھی اور رنگ سرخ تھا، انارکلی کے خطاب سے اس کو مخاطب کیا ہوا تھا ۔ جن دنوں بادشاہ دکن و خاں دیس کی مہموں میں مصروف تھا ، یہ لاہور میں بیمار ہو کر مر گئی۔ بعض کا قول ہے کہ مسموم ہوئی۔

بادشاہ کے حکم سے یہ عالی شان مقبرہ تعمیر ہوا اور باغ تیار ہوا جس کے وسط میں یہ مقبرہ تھا۔ سکھ سلطنت کے وقت باغیچہ اجڑ گیا، چار دیواری کی اینٹیں خشت فروش اس کو گرا کر لے گئے، مقبرہ باقی رہ گیا۔ اس میں جو سنگ مرمر کا چبوترہ تھا اس کا پتھر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اتروالیا۔ قبر کا تعویذ ناکارہ سمجھ کر پھینک دیا گیا“۔                                         

اس تمام تاریخوں حوالوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اکثرمور ٔخین کی رائے ہے کہ انار کلی کی داستان محض ایک افسانہ ہے جسے امتیاز علی تاج کے ڈرامے انار کلی نے لازوال شہرت بخش دی ہے اور امر بنا دیا۔ امتیاز علی تاج نے یہ ڈرامہ 1922ءمیں لکھا تھا اور انہوں نے بھی اس ڈرامے کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ ان کی اس کہانی کے پس منظر میں محض وہی تاریخی حقیقت ہے جس کا ولیم فنچ نے ذکر کیا ہے باقی سب محض کہانی ہے۔ کچھ مورٔخین کا خیال ہے کہ وہ جگہ جسے انار کلی کا مقبرہ کہا جاتا ہے (موجودہ سول سیکریٹریٹ، لوئر مال روڈ، لاہور) دراصل جہانگیر کی ایک ملکہ صاحب جمال کا مقبرہ ہے اس جگہ کے اطراف میں انار کلی باغ تھا۔ اسی مناسبت سے اس مقبرے کو انار کلی کا مقبرہ قرار دیا جاتا ہے۔ انار کلی کے نام کے حوالے سے لاہور میں قائم ہونے والے انار کلی بازار کی شہرت بھی دوامی ہے۔ انارکلی کا مقبرہ مغل طرز تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ کنہیا لال ہندی اس مقبرے کی عمارت کا نقشہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ اس مقبرے کی عمارت ہشت پہلو ہے اور ہر پہلو میں ایک ایک دروازہ ہے۔ اندر سے مقبرہ دو منزلہ ہے اور وسط میں عالی شان گنبد ہے۔ دوسری منزل میں چھوٹی بڑی نو کھڑکیاں ، چھوٹے گنبد ہیں۔ پہلے اس کے آٹھ دروازے نیچے اور آٹھ اوپر کی منزل میں تھے اب زیریں منزل کے آٹھ دروازے بدستور ہیں اور اوپر کے دروازوں میں تغیر و تبدل ہو گیا ہے۔ گزشتہ برس پنجاب کے محکمہ آثار قدیمہ نے ایک منصوبے کے ذریعے لاہور کے سول سیکرٹریٹ میں واقع انار کلی کے مقبرے کو اس کی اصلی شکل میں بحال کرنے اور اس کی حدود کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کر کے ایک تاریخی عمارت کے طور پر عام لوگوں کے لیے کھولنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے اور مقبرے کے عقب میں واقع 24سرکاری کوارٹرز ملازمین سے خالی کروا کے منہدم کر دیے گئے ہیں۔ مقبرے کو سول سیکرٹریٹ سے الگ کرنے کے لیے عقب میں اس کا اپنا ایک دروازہ تعمیر کیا جائے گا جس کے بعد سول سیکرٹریٹ کے اندر اس کے گرد دیوار بنا کے اس کو ایک علیحدہ تاریخی عمارت میں تبدیل کیا جائے گا۔ محکمہ آثار قدیمہ نے کھدائی کا کام جاری ہے جو کہ مقبرہ اور اس کے ارد گرد کے تاریخی اہمیت کے حامل آثار اور تاریخی حقائق فراہم کرنے میں مدد دے گی۔ مقبرہ انار کلی مغلیہ دور میں تو ایک مقبرہ ہی رہا ۔ محکمہ آثار قدیمہ کے عہدے دار سلیم الحق کے مطابق صدیوں سے رنگ وروغن کی مختلف تہیں جو اس مقبرے پر جما دی گئی ہیں ان کو بھی سائنسی انداز میں ہٹایا جائے گا تاکہ اس عمارت کی اصل شکل و صورت سامنے آئے اور پھر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کی وہی شکل بحال کرنے کی کوشش کی جائے جو تعمیر کے وقت تھی۔ ان کے مطابق سکھوں کے دور حکومت میں اس مقبرے کو کھڑک سنگھ کی رہائش گاہ بنا دیا گیا تھا اور مقبرے چوں کہ چاروں طرف سے کھلے ہوتے ہیں لہذا رہائش گا ہ میں تبدیل کرتے وقت اس کی باہر کی طرف واقع محرابوں کو دیواریں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا تھا۔ مقبرے کی یہ تجاوزات بھی ایک طرح سے سکھ دور کے طرز تعمیر کی نمائندہ ہیں لہذا یہ کوشش کی جارہی ہے کہ جن تجاوزات کو ہٹانا ضروری نہیں ہے ان کو سکھ دور کی علامت کے طور پر قائم رکھا جائے اور باقی تجاوزات کو ختم کر کے مقبرے کو اصلی شکل میں بحال کیا جائے۔ تاریخی طور پر اس امر کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے کہ قبر انارکلی کی ہے ۔ قبر کے پتھر پر بھی کچھ اشعار اور سن وفات 1599ءدرج ہے مگر کوئی نام درج نہیں ہے۔ قبر پر مجنوں سلیم اکبر کا نام کندہ ہے ۔اس دور میں جہانگیر کا نا م نورالدین سلیم لکھا جاتا تھا جبکہ بعد ازاں وہ بادشاہ بنا تو اس کا نام نورالدین جہاں گیر ہو گیا تھا لہذا مجنوں سلیم اکبر کا نام بھی تحقیق طلب معاملہ ہے۔ البتہ بعض تاریخ دانوں نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ یہ مقبرہ جہاں گیر کی ایک بیوی صاحب جمال کا تھا جو جہاں گیر کی عدم موجود گی میں لاہور میں وفات پاگئیں اور یہیں دفن ہو گئیں۔ لیکن مغل بادشاہ اپنی بیگمات کے مقبروں پر لازمی طور ان کے نام کندہ کرواتے تھے مگر یہاں کوئی نام کندہ نہیں ہے۔ مختلف محققین کے مطابق اس تاریخی حقیقت کے باوجود کہ 1599ءمیں اس صاحب مزار کا سن وفات ہے اکبر اور ان کا بیٹا سلیم دونوں لاہور سے باہر تھے ، عام لوگ اس کو انار کلی کا مقبرہ ہی کہتے ہیں ۔ انارکلی کے کردار کو امر کرنے کا سہرا ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج کے سر جاتا ہے۔ انھوں نے ’انارکلی‘لکھ کر اس کردار کو عشق و محبت کی داستانوں میں ان مٹ تاریخ رقم کر دی ہے۔ ڈرامہ انار کلی کی کہانی کا بنیادی خیال ، محبت اور سلطنت کے درمیان کش مکش پر مبنی ہے ۔ اس طرح اس ڈرامے میں رومانیت ، جلال و جمال اور بے پناہ منظر نگاری کی گئی ہے۔ ڈرامہ نگار نے اس ڈرامہ میں محبت کو ایک آفاقی اورلازوال طاقت ثابت کیا گیاہے ۔ انار کلی کے پلاٹ کی تاریخی سند کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے یہ قصہ بے بنیادنظرآتا ہے ۔ امتیاز علی تاج خود کہتے ہیں”میرے ڈرامے کا تعلق محض روایات سے ہے ۔ بچپن سے انارکلی کی فرضی کہانی کے سنتے رہنے سے حسن و عشق، ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کے شان و شوکت میں دیکھا اس کا اظہار ہے۔“ ادبی اعبتار سے یہ ڈرامہ اردوزبان کی شان ہے۔بقول رشید احمد صدیقی "مغل عہد کی تین باتیں یاد گار ہیں۔ اردوزباں،تاج محل اور غالب"۔اسے اب یوں ہونا چاہیے : چیزیں ہیں چار ،تحفۂ عہدِ مغلیہ ،آج کل اردو زباں،انارکلی،غالب اورتاج محل انار کلی کی کہانی،ڈرامہ کا پلاٹ،مکالمات،اسلوب اوراندازِ بیان(طلسماتی وجادوئی اثر)،روزمرہ،محاورات، تراکیب، استعارات، تشبیہات،بندش الفاظ، برمحل، ظلِ الہیٰ جلال الدین اکبر کاجلال،شیخو(سلیم)کی بے نیازی اورجاں نشیں ہونے کے باوجود کسی ایسی طوقت کے استعمال سے گریز جس کاتعلق سلطنت،قوتیا عنانِ حکومت سے ملتاہو۔محبے کے نشے میں چور دلِ رنجور اور بے نیاز،انار کلی سادہ ومعصوم،ملول ومحزون،اوچھے ہتھ کنڈوں سے دور محبت کاسرور،نہ لالچ نہ فتور،یوں یہ لافانی کردار تاریخ کاحصہ بن گیاہے،دل آرام انتقام کانام،چال باز وچال ساز،اوراس قول کی حامی کہ "محبت اورجنگ میں ہرچیز جائز ہوتی ہے۔لیکن تمام تر ہوشیاری اور چالاکی کے باوجود ناکامی مقدر ہوچکی ہے۔اوربد نامی نام کا حصہ بن چکی ہے۔ انارکلی ایک زندہ کردار ہے۔ وہ عشق و وفا اور فکر و فن کا حسین و جمیل پیکر ہے۔ وہ نہ زندگی سے ڈرتی ہے اور نہ ہی موت سے کتراتی ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا ڈر نہیں ۔لیکن شہزادے کی رسوائی قبول نہیں۔ اس کے جذبۂ عشق کے آگے موت بھی سر جھکادیتی ہے ۔ تو اکبر اسے دیوار میں چنوا دیتا ہے ۔ اس طرح یہ لافانی کردار تاریخ عالم میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ آج لوگوں میں انار کلی محبت کاستعارہ ہے۔ اور اس کی داستاں زبان زد عام ہو ہے۔ حیقیقت کچھ بھی ہو۔ انارکلی اور شیخو کا عشق فرضی داستان تھا یا نہیں۔ مقبرہ انارکلی میں ،انارکلی ہے یا نہیں۔ اس بات سے قطع نظر ادب و ثقافت پر اس کردار نے گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ صدیوں سے مقبرہ انارکلی عشق اور محبت کی علامت ہے اور عشق کی علامت، وفا کی دیوی اور محبت کی تصویر انار کلی ہے!؟۔ اردو/اولیول/ابن انشا/مظہرفریدی

ابنِ انشا،شیرمحمدخاں نام:شیرمحمد خاں تخلص:مایوس صحرائی۔"اور"قیصر قلمی نام:ابنِ انشا ولادت:۱۵جون/۱۹۲۷ء،تھلہ /تحصیل پھلور/ضلع لدھیانہ وفات:۱۱جنوری ۱۹۷۸ء ،لندن دور جدید کے عظیم مزاح نگار ”مشتاق احمد یوسفی “ ابن انشاءکے بارے میں لکھتے ہیں بچھو کا کاٹا روتا ہے اور سانپ کا کاٹا سوتا ہے انشاءجی کا کاٹا سوتے میں مسکراتا بھی ہے۔ لٹے پٹے تقیسم ِ ہند کے داغ تمغوں کی طرح سینے پہ سجائے ،جو لوگ پاکستان آئے ان میں سے ایک ابن انشا بھی ہیں۔ خاک وخون کی ہولی سے کشرے تھے،انھیں ارضِ مقدس کی اہمیت کااندازہ تھا۔تمام عمر لوگوں کویہ بتانے اورسمجھانے میں گزر گئی"یہ وطن ہماراہے،ہم ہیں پاسباں اس کے"۔صحافت کے پیشے سے ابلاغ کی دنیامیں داخل ہوئے۔منفرد شاعر،البیلا اورچلبلا نثر نگار،ظنزومزاح کاہتھیارلیے 'نگری نگری پھرامسافر'۔کبھی 'ابن بطوطہ کے تعقب میں'نکل گیا،کبھی چین کو 'چلتے ہوتوچین کوچلیے' شاید چین کی بانسری کاسراغ ملے۔آخر جاپان سے واپسی پرکہابھائی'دنیاگول ہے' ،لیکن پاکستان کے حالات نہ بدلے۔کبھی 'چاند نگر'۔کبھی 'اُس بستی کے اک کوچے میں" سیر کی،آخر تھاکر دنیاسے کوچ کرگیا۔ شاعری (چاند نگر 1955ء اس بستی کے اک کوچے میں 1976 ء اور دلِ وحشی 1985 ء) طنز و مزاح (اردو کی آخری کتاب 1971، خمارِ گندم 1980ء ) سفر نامے (چلتے ہو تو چین کو چلئے 1967، دنیا گول ہے 1972، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں 1974 ء اور نگری نگری پھرا مسافر 1989) تراجم (اندھا کنواں اور دیگر پر اسرار کہانیاں (ریڈ گرایلن پو کی کہانیاں) مجبور (چیخوف کے ناول کا ترجمہ) ۔ لاکھوں کا شہر (اوہنری کے افسانوں کا مجموعہ)۔ شہر پناہ (جان سٹین بک کا ناول THIS MOON IS DOWN ) چینی نظمیں ایڈ گرایلن پو کے افسانوں کے ترجمے، سانس کی پھانس، وہ بیضوی تصویر، چہ دلاور است دزدے، عطر فروش دوشیزہ کے قتل کا معمہ، ولہلم بش کے جرمن قصے کا ترجمہ (قصہ ایک کنوارے کا) بیرنن منش ہاوٴزن جرمن گپ باز کے کارناموں کا ترجمہ (کارنامے نواب تیس مار خان کے ) بچوں کا ادب (تارو اور تارو کے دوست۔ بچوں کی جاپانی کہانی کا اردو ترجمہ از کیکو مورایا۔ (شلجم کیسے اکھڑا بچوں کیلئے ایک پرانی روسی کہانی کا ترجمہ) طویل نظم، یہ بچہ کس کا بچہ ہے ؟ قصہ دْم کٹے چوہے کا بچوں کیلئے منظوم کہانی، میں دوڑتا ہی دوڑتا LOOK AT THIS CHILD (یہ بچہ کس کا بچہ ہے کا انگریزی ترجمہ، 1965ء کی جنگ سے متعلق مضامین کا مجموعہ، برف کی پوٹلی "اختر کی یاد میں" معروف صحافی محمد اختر کی وفات پر لکھے جانے والے مضامین اور تعزیت ناموں کا مجموعہ اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کی سندھی شاعری کا اردو ترجمہ بھی آپ نے کیا۔ اردو کی آخری کتاب“محمد حسین آزاد کی” اردو کی پہلی کتاب “کی دلچسپ پیروڈی ہے ۔ پیروڈی یونانی لفظ پیروڈیا سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہے ”جوابی نغمہ“ کے ہیں۔ اردو ادب میں طنز و مزاح کے اس حربے کو براہ راست انگریزی ادب سے لایا گیا ہے ۔ جس میں لفظی نقالی یا الفاظ کے ردو بدل سے کسی کلام یا تصنیف کی تضحیک کی جاتی ہے۔ یہ کتاب اردو ادب میں ایک کامیاب پیروڈی سمجھی جاتی ہے۔ کیونکہ ابن انشاءنے پیروڈی کے فن کو سمجھ کر برتا ہے۔ آزاد کی اس کتاب پر ”پطرس بخاری“ چندچیزیں پہلے لکھ چکے تھے۔لیکن دونوں مزاح نگاروں کے نقطہ نظر میں واضح فرق ہے۔ پطرس کا نقطہ نظر محض تفریحی ہے جبکہ ابن انشاءمعاشرتی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کو نشانہ بناتے ہیں اور اُ ن کا مقصد اصلا ح ہے۔پوری کتاب نجمی کے ١٠١ کارٹونوں کے ساتھ نئی بہار دکھاتی ہے ۔ ان کارٹونوں کی وجہ سے کتاب کی دلچسپی اور دلکشی میں اضافہ ہوا ہے۔اس لئے خالد احمد یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:"اردو کی آخری کتاب کے مصنف دو ہیں ایک ابن انشاءاور دوسرے نجمی"۔

بقول مشتا ق احمد یوسفی"بے شمار خوبصورت لیکن متروک اور بھولے بسرے الفاظ کوان کی رواں دواں نثر نے ایک نئی زندگی اور توانائی بخشی ہے اردو مزاح میں اُن کا اسلوب اور آہنگ نیا ہی نہیں ناقابل تقلید بھی ہے"۔

بقول خالد اختر"ابن انشاءایک قدرتی مزاح نگار ہے جتنا زیادہ وہ لکھتا ہے اس کا اسلوب نکھرتا جاتا ہے"۔ سحر انصاری صاحب کا کہنا ہے کہ"ابن انشاءکا مزاح لفظوں کا ہیر پھیر ، لطیفہ گوئی یا مضحک کرداروں کا رہین منت نہیں ہے بلکہ ان کا مزاح تخیل کی تخلیق ہے" ۔ ابن انشا عدم عدل وانصاف اورسماجی ناہمواریوں پر خسک آنسو بہاتے ہیں۔اپنی تحیریروں میں کڑھتے ہیں۔وہ وطن عزیز کو اس طرح مسائل میں گھرادیکھ کرخون روتے ہیں۔لیکن ایک عام شاعر یاصحافی کی بات کون سنتاہے؟

   چڑھتے سورج کی پوجا کرنا اس مذہب کا بنیادی اصول تھا ۔ مرید اکبر کے گرد جمع ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ اے ظل الٰہی تو ایسا دانا فرزانہ ہے کہ تجھ کو تا حیات سربراہ مملکت یعنی بادشاہ وغیر ہ رہنا چاہیے۔ اور تو ایسا بہادر ہے کہ تجھے ہلال جرات ملنا چاہیے ۔ بلکہ خود لے لینا چاہیے۔ پرستش کی ایسی قسمیں آج بھی رائج ہیں لیکن اُن کو دین الٰہی نہیں کہتے۔
   کولمبس نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی یعنی امریکہ دریافت کیا ۔ بہرحال اگر یہ غلطی بھی تھی تو بہت سنگین غلطی تھی کولمبس تو مرگیا اس کا خمیازہ ہم لوگ بھگت رہے ہیں۔
   ہمیں قائدعظم کا ممنون ہونا چاہیے کہ خود ہی مرگئے سفارتی نمائندوں کے پھول چڑھانے کے لئے ایک جگہ پیدا کردی ورنہ ہمیں بھی گاندھی جی کی طرح ان کو مارنا پڑتا۔
   جب عین لڑائی میں وقت نماز آتا محمود و آیاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ۔ باقی فوج لڑتی رہتی تھی۔

اردو شعر و ادب میں بے پناہ شہرت پانے والے ابنِ اِنشاء کا اصل نام شیر محمد تھا۔ آپ 15 جون 1927 ء کو ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کی تحصیل پھلور کے گاوٴں تھلہ کے ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام منشی خان تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاوٴں کے سکول میں حاصل کی۔ گاوٴں سے کچھ فاصلے پر واقع اپرہ قصبہ کے مڈل سکول سے مڈل اور 1941ء میں گورنمنٹ ہائی سکول لدھیانہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اول پوزیشن حاصل کی۔ اسلامیہ کالج لاہور میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لے لیا مگر تین مہینے کے مختصر قیام کے بعد وہ بوجوہ تعلیم ادھوری چھوڑ کر لدھیانہ چلے گئے ۔ بعد از اں لدھیانہ سے انبالہ آ گئے اور ملٹری اکاوٴنٹس کے دفتر میں ملازمت اختیار کرلی لیکن جلد ہی یہ ملازمت بھی چھوڑ دی اور دلی چلے گئے ۔ اس دوران میں آپ نے ادیب فاضل اور منشی فاضل کے امتحانات پاس کرنے کے بعد پرائیویٹ طور پر بی اے کا امتحان پاس کرلیا۔ ابنِ انشاء کا نام ان خوش نصیبوں میں شامل ہے جنھوں نے اپنے پہلے مجموعے ہی سے لازوال شہرت حاصل کی۔ انسانی جذبات کی نزاکتوں اور دل کے معاملات کی عکاسی میں ابنِ انشاء غزل میں ممتاز مقام پر دکھائی دیتے ہیں۔ کل چودھویں کی رات تھی شب بھررہاچرچاترا کچھ نے کہ ایہ چاند ہے کچھ نے کہاچہرہ ترا انشا جی اٹھواب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگاناکیا وحشی کو سکوں سے کیامطلب ،جوگی کانگرمیں ٹھکانہ کیا غزل کے علاوہ ان کی نظموں میں بھی وہ چاشنی اور جاذبیت ہے کہ پڑھنے یا سننے والا عش عش کر اْٹھتا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی مشہور زمانہ نظمیں اس بستی کے اِک کوچے میں، فروگزاشت، سب مایا ہے ، یہ باتیں جھوٹی باتیں ہیں، سائے سے، جب عمر کی نقدی ختم ہوئی، اردو ادب میں ان کا نام زندہ رکھنے کیلئے بہت کافی ہیں۔ ہم آج بھی ذات پات کے اسی گھٹیانظام میں گرفتارہیں۔کبھی مذہبی گرہ بندی،کبھی علاقائی عداوت،کبھی لسانی بغض،کبھی برادی نظام اورکبھی سیاسی منافرت نہ جانے کب تک یہ بت ہماری آستینوں میں سانپ بن کر ہمیں ڈستے رہیں گے۔ابن انشا کہتے ہیں"ایران میں ایرانی قوم رہتی ہے“ انگلستان میں کون رہتا ہی؟ ”انگلستان میں انگریز قوم رہتی ہے“ فرانس میں کون رہتا ہی؟ ”فرانس میں فرانسیسی قوم رہتی ہے“ یہ کونسا ملک ہی؟ ”یہ پاکستان ہے“ اس میں پاکستانی قوم رہتی ہوگی؟ ”نہیں اس میں پاکستانی قوم نہیں رہتی....“ ”اس میں سندھی قوم رہتی ہے“، ”اس میں پنجابی قوم رہتی ہے“، ”اس میں بنگالی قوم رہتی ہے“، ”اس میں یہ قوم رہتی ہے“، ”اس میں وہ قوم رہتی ہے“، ”لیکن پنجابی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں“، ”سندھی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں“،”بنگالی تو ہندوستان میں بھی رہتے ہیں“، ”پھر یہ الگ ملک کیوں بنایا تھا“۔ ”غلطی ہوئی معاف کردیجیے آئندہ نہیں بنائیں گے"۔ "کچھ قصہ دال چپاتی کا "بھی ہمارے معاشرتی رویوں پرطنزہے۔ استاد امانت علی خان کی پرسوز آواز نے ساری دنیا تک پہنچایا۔

انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا

وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانہ کیا

جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسیرا کریں دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانا کیا۔ اس کے جواب میں قتیل شفائی(اورنگ زیب خاں) نے کہاتھا: یہ کس نے کہاتم کوچ کرو،باتیں نہ بناؤ انشاجی یہ شہر تمھارااپناہے،اسے چھوڑ نہ جاؤ انشاجی احمد شاہ پطرس بخاری،اولیول،فرسٹ لینگویج اردو،مظہرفریدی

احمد شاہ پطرس بخاری سیّد احمد شاہ بخاری خالص مزاح نگار ہیں۔مزاح نگاری ادب کی مشکل ترین صنفِ سخن ہے۔ بقول یوسفی"وار ذرا اوچھا پڑے، یا بس ایک روایتی آنچ کی کسر رہ جائے تو لوگ اسے بالعموم طنز سے تعبیر کرتے ہیں، ورنہ مزاح ہاتھ آئے تو بت، نہ آئے تو خدا ہے۔" لیکن پطرس بخاری نے صرف پچپن صفحے کی کتاب لکھ کر دینائے ادب میں ایسانام پایا کہ "خامہ انگشت بدنداں"ہے۔کل نو مضامیں ہیں اور پظرس صفِ اول کے ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ پطرس کی تحریروں میں واقفیت، حسنِ تعمیر، علمی ظرافت، زیرِ لب تبسم، شوخی، طنز (کاٹ)اور مزاح کا بھرپور عکس نظر آتا ہے۔ بقول آل احمد سرور:پطرس نے بہت تھوڑے مضامین لکھے، مگر پھر بھی ہماری چوٹی کے مزاح نگاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اتنا تھوڑا سرمایہ لے کر بقائے دوام کے دربار میں بہت کم لوگ داخل ہوئے ہیں۔ طرزِ تحریر کی خصوصیات اسلوب کی شگفتگی پطرس بخاری کااندازِ بیاں سادہ،زباں آساں،الفاظ سے کھیلنے(برتنے)کافن جانتے ہیں۔تحریرکے مطالعے سے معلوم ہوتاہے جیسے کسی بے تکلف دوست سے گفت گو کررہے ہوں۔ ۔ وہ اپنی کتاب مضامینِ پطرس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں: اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت میں بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے۔ اگر آپ نے کہیں سے چُرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہ ہے کہ اس کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔ مزاح وظرافت پطرس خالصتاً مزاح ہے۔ اس میں طنز، تمسخر اور عامیانہ پن جیسی اصناف سے زبردستی ہنسانے کی کوشش نہیں کی گئی۔ تحریر میں مزاح وشوخی کی آفاقی خوبی ہے جو ہر موڑ پر نظر آتی ہے۔ آپ نے شرارت کے سلیقے کو برقرار رکھتے ہوئے ظرافت کے میدان کو وسیع تراور غیرمحدود کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر وہ ہاسٹل میں پڑھنا میں لکھتے ہیں: "اب قاعدے کی رو سے ہمیں بی۔اے کا سرٹیفکیٹ مل جانا چاہیے تھا۔ لیکن یونیورسٹی کی اس طِفلانہ ضد کا کیا علاج کہ تینوں مضمونوں میں بیک وقت پاس ہونا ضروری ہے۔" واقعہ نگاری واقعہ نگاری پطرس کے نگارش کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ لفظوں کے انتخاب اور فقروں کی ترتیب کا حسن استعمال کرتے ہوئے مضحکہ خیز واقعات کی تصویرکشی ایسی مہارت اور خوبصورتی سے کرتے ہیں کہ چشم تصور اُن کو ہو بہو اپنے سامنے محسوس کرتی ہے۔ تمام بوجھ دونوں ہاتھوں پر تھا جو ہینڈل پر رکھے تھے اور برابر جھٹکے کھا رہے تھے۔ اب میری حالت تصور میں لائیں تو معلوم ہوگا جیسے کوئی عورت آٹاگوندھ رہی ہے۔ عکاسِ زندگی مصنف نے معاشرے اور روزمرّہ زندگی کا بھرپورتجزیہ کیا ہے اور اِس جائزے سے انسانی زندگی کے نازک ، لطیف اور نرم و ملائم پہلوؤں پر قلم اُٹھایا ہے۔ آپ کی تحریروں میں پیش کئے گئے کرداروںاور واقعات کا تعلق کسی خاص معاشرے سے نہیں ، بلکہ آپ نے تمام تہذیبوں میں پائی جانے والی یکساں صفات کی عکاسی کی ہے۔ اسی لئے پطرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ: پطرس نے اپنی ظرافت کا مواد زندوں سے لیا ہے۔ ہاسٹل میں پڑھنا دنیا کے تمام طالب علموں کی عمومیت اور ہمہ گیری کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔ تحریف نگاری (Parody) احمد شاہ پطرس بخاری نے اپنی تحریروں میں تحریف نگاری کو نہایت مہارت سے پروکر ایک انوکھی خوبصورتی پیدا کر دی ہے۔ آپ نے اس مشکل فن سے شوخ اور ظریف رنگ پیدا کیا اور قارئین کے لئے ہنسنے کے دلکش مواقع پیدا کئے ہیں۔ مثال کے طور ایک مصنف نے لکھا ہے: بچہ انگوٹھا چوس رہا ہے اور باپ اُسے دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہا ہے۔ پطرس اس کو یوں بیان کرتے ہیں: باپ انگوٹھا چوس رہا ہے، بچہ حسبِ معمول آنکھیں کھولے پڑا ہے۔ بعض مواقع پر آپ نے یہ کمال اشعار سے بھی ظاہر کیا ہے۔ وہ غالب کے شعر کی تحریف کچھ اس طرح کرتے ہیں : کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہو اصل شعر کچھ اس طرح سے ہے کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شبِ غم بری بلا ہے مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا مغربی ثقافت کا رنگ احمد شاہ بخاری چونکہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے ہیں اس لئے اُن کا مغربی ادب کا بھرپور مطالعہ تھا۔ انہوں نے مغربی مزاح نگاری کا گہرا تجزیہ کیا اور اُس کی تمام تر خوبصورتی اور لطافتوںکو سمیٹ کر مشرقی رنگ میں ڈھالا۔ آپ کے مضامین میں جو ثقافتِ مغرب کا رنگ نظر آتا ہے وہ قاری کو ذرا بھی گراں نہیں گزرتا اور نہ کسی تحریر کا ترجمہ معلوم ہوتا ہے۔ بقول پروفیسر تمکین:"پطرس نے انگریزی ادب کی روح کو ہندوستانی وجود دے کر اپنی نگارش میں ایک خاص لطف و نکھار اور رکھ رکھاؤ پیدا کر دیا ہے جو اپنی وضع کی ایک ہی چیز ہے۔" کردار نگاری پطرس کے طرزِ تحریر میں ایک اور خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ کرداروں کے ذریعے ایک لطف اندوز ماحول پیدا کرتے ہیں۔ انسانی فکرونفسیات کے تمام پہلوؤں پر مکمل گرفت رکھتے ہوئے ،مضمون کو جملہ بہ جملہ تخلیق کرتے ہیں کہ قاری مزاح کے لطف میں گم ہوجاتاہے۔ "مرید پور کا پیر" میں پیر کا کردار،" ہاسٹل میں پڑنا "میں طالب علم کا کردار ،" مرحوم کی یاد میں "میں مرزا کاکردار، یہاں تک کہ "کتّے" میں کتوں کا کردار اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اختصاروجامعیت پطرس کے مختلف مضامین ایک کامل اور ماہر ادیب کے فن کی عکاسی کرتے ہیں۔اپنی بات کہنے پرمکمل عبور رکھتے ہیں او ر بڑے سے بڑے موضوع کو نہایت مختصر ،جامع ور دل نشین انداز میں رقم کر دیتے ہیں۔حسنِ انتخاب ہی کی وجہ ہے ، سرمایہ ادب لافانی بن گیا۔مثال کے طور پر ”ہاسٹل میں پڑھنا“: ہم پہ تو جو ظلم ہوا سو ہوا، یونیورسٹی والوں کی حماقت ملاحظہ فرمائیے، کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ ناقدین کی آراء مختلف نقاد پطرس کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور اپنے اپنے انداز میں پطرس کی تعریف بیان کرتے نظر آتے ہیں۔حکیم یوسف حسن پطرس کے بارے میں کہتے ہیں:اگر میں یہ کہہ دوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ہند وپاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔ غلام مصطفی تبسم لکھتے ہیں:بخاری کی نظر بڑی وسیع اور گہری ہے اور پھر اُسے بیان پر قدرت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُس کا مزاح پڑھنے والوں کی دل میں شگفتگی پیدا کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر خورشید السلام کا بیان ہے کہ:اُن کے اندازِ فکر اور طرزِ بیان میں انگریزی ادب کا اثر موجود ہے اور اندازِبیان میں تخیّل کا عمل فرحت اللہ بیگ سے زیادہ قریب ہے۔ حاصلِ تحریر گلشنِ مزاح میں پطرس نے جو پھول کھلائے ، اُن کی خوشبو ،علم دوست لوگوں کے اذہان کو معطر کررہی ہے۔ چند مضامین میں مزاح نگاری کے جوجوہر دکھائے وہ باعثِ پہچان بنے ، اورمعراجِ شہرت تک لے گئے۔ آپ کا ہر مضمون قابلِ قدر ہے اور مزاح نگاری کی نئی نئی جہتوں سے روشناس کراتاہے۔ پطرس بخاری مزاح نگاری میں ہمیشہ ممتاز رہیں گے ۔ تو لایا تبسم کے روشن سویرے اے پطرس! بہت خوب ہیں کام تیرے طنزومزاح معاشرتی ناہمواریوں کا شائستہ(ادبی)ردِ عمل طنزومزاح کہلاتاہے۔ معاشرتی ناانصافیوں اورظلم وجبرکے خلاف عمومی ردَ عمل غصہ،جھنجھلاہٹ یامنفی جذبوں کاآئینہ دارہوتاہے۔اگراس میں اقداروروایات اورتہذیب وتمدن کی پاس داری روارکھی گئی ہوتوادب بن جاتاہے۔ادبی رویوں کوجنم دیتاہے۔ خاموش مبلغ ہوتاہے۔تہذیب نفس کرتاہے۔تربیتِ فرد کرتاہے۔لیکن ،کب اورکیسے 'یا'کیوں ہوتاہے؟یہ کائنات اورانسان کے درمیان ایک ردِ عمل ہے۔یہ واقعات اورمحسوسات کے درمیان جذبات کے اظہار کانام ہے۔'ایک خاص فکر کاعکاس اورزاویہ نگاہ کی نمائندگی کرتاہے۔اس لیے صنف اورہیت کی پابندی اس کے لیے سمِ قاتل ہے۔یہ آزادخیال اور آزادروہے'۔ سوال :سائیکل خریدنے سے پہلے اورسائیکل خریدنے کےبعد 'مرزاصاحب'کے متعلق مصنف کے کیا خیالات تھے؟ 'جب دوستی پرانی ہوجائے توگفت گوکی ضرورت نہیں رہتی،خاموشی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔' ظاہرہے کچھ زیادہ پسندیدہ بات نہیں تھی۔اورجب گفت گوہوئی آپ سے تم ،تم سے تو ہوئی۔مصنف اورمرزاصاحب کے درمیان جملوں کاتبسدلہ ہواتو'غالب'بے طرح یادآئے۔"ہراک بات پہ کہتے ہوتم کہ توکیاہے؟" اورآکر جب موٹر کار خریدنے کاذکر کیاتومرزاصاحب بولے'روپے کابندوبست کیسے کروگے'۔یہ نکتہ مجھے سوجھانہ تھا۔ آخر گفت وشنیدکے بعدمرزانے مشورہ دیا"ایک بائیسکل لے لو"۔جواباً کہا،وہ روپے کامسئلہ توجوں کاتوں رہا۔ 'کہنے لگے مفت' میں نے حیران ہوکر پوچھا۔۔۔وہ کیسے؟ کہنے لگے،مفت ہی سمجھو۔۔۔آخر دوست سے قیمت لینابھی کہاں کی شرافت ہے۔البتہ تم احسان قبول کرناگوارانہ کروتواوربات ہے۔ یقین مانیے مجھ پرگھڑوں پانی پڑ گیا۔شرم کے مارے پسینہ پسینہ ہوگیا۔چودھویں صدی میں ایسی بے غرضی اورایثاربھلاکہاں دیکھنے میں آتاہے۔۔۔اپنی ندامت اورممنونیت کااظہارکن الفاظ میں کروں۔ "۔۔۔۔۔۔میں اس گستاخی اوردرشتی اوربے ادبی کی معافی مانگتاہوں۔۔۔جوگفت گومیں روارکھی۔۔۔میں اعتراف کرتاہوں۔۔۔میں ہمیشہ تم کوازحدکمینہ،مسکین،خودغرض اورعیارانسان سمجھتارہاہوں۔۔۔تم نے اپنی شرافت اوردوست پروری کاثبوت دے دیاہے۔۔۔مجھے معاف کردو۔" مرزاصاحب نے کمالِ فن کاری سے ہراک بات ٹھنڈے دل ودماغ سے سنی،اوردیکھاتیرنشانے پربیٹھ گیاہے۔اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اوربے وقوف بنایا۔جیسے:

   جیسے میں سوارہوا،ویسے تم سوارہوئے۔
   تم حساس اتنے ہوکہ کسی کااحسان لیناگوارانہیں کرتے۔
   میں تم سے قیمت تھوڑامانگتاہوں۔۔۔۔اول توقیمت لینانہیں چاہتا۔لیکن۔۔!
   قیمت ویمت جانے دو۔لیکن میں جانتاہوں تم نہیں مانوگے۔
   اورجب سائیکل دیکھی۔۔۔ توعجیب وغریب مشین پرنظر پڑی۔

پہلے تویقین نہیں آیا۔۔۔چارہ نہیں تھا،آخرسوارہوا۔یوں لگا کہ جیسے کوئی مردی ہڈیاں چٹخاکر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہورہا ہے۔اوربائیسکل کے حصوں سے مختلف سروں کانکلنا۔جیسے وہ بائیسکل کم اورموسیقی کااسکول زیادہ تھا۔ اورجہاں سے وہ گزر جاتا اس کااحوال بھی جانیے۔

   "۔۔۔سڑک پرجوبھی نشان بن جاتاتھا اسکودیکھ کرایسامعلوم ہوتاتھاجیسے کوئی مخمورسانپ لہراکرنکل گیا ہے۔"

اب مخمورسانپ اورمتزاصاحب کی فطرت کاموازنہ آپ خودکرلیجیے۔آخر آخر ۔جب بائیسکل کے اسرارورموزظاہر ہوتے گئے۔حیرت انگیزخوشی۔تحیراورتجسس میں تبدیل ہوتاگیا۔پہلے ایک مستری پھردوسرامستری۔۔۔۔۔

   بھئی صدیاں گزرگئیں لیکن اس بائیسکل کی خطانعاف ہونے میں نہیں آتی۔
   مگرکوئی اس کولے کرکرے گاکیا؟

جب مصنف کومعلوم ہوگیا کہ کمالِ خوب صورتی کےان کے ساتھ ایکحسین دھوکاہوچکاہے۔توسائیکل کاسوچ سوچ کرکیاہوتاتھا۔ "ورنہ میں پاگل ہو جاتا اور جُنون کی حالت میں پہلی حرکت مُجھ سے یہ سَرزد ہوتی کہ مِرزا کے مکان کے سامنے، بازار میں ایک جلسہ منعقد کرتا۔ جِس میں مِرزا کی مکاّری، بے ایمانی اور دغابازی پر ایک طویل تقریر کرتا۔ کُل بنی نوع انسان اور آئندہ آنے والی نسلوں کو مِرزا کی ناپاک فطرت سے آگاہ کر دیتا اور اِس کے بعد ایک چِتا جلا کر اِس میں زندہ جل کر مر جاتا۔" غرض انتہائی ہلکے پھلکے اورمزاح کے اندازمین پطرس نے معاشرے میں پائی جانے والی دورنگی،اورمطلب براری کے لیے برسوں کی دوستی کو قربان کردینا۔ان سب باتوں کو ہم تک پہنچایاہے۔ مِرزا کے گھر گیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ مِرزا بولے، ’’اندر آجاؤ۔‘‘ مَیں نے کہا ’’آپ ذرا باہر تشریف لائیے۔ میں آپ جیسے خُدا رسیدہ بزُرگ کے گھر میں وضُو کیے بغیر کیسے داخل ہو سکتا ہوں؟‘‘ مِرزا باہر تشریف لائے تو مَیں نے وُہ اوزار اُن کی خدمت میں پیش کیا جو اُنہوں نے بائیسکل کے ساتھ مُفت ہی مُجھ کو عنایت فرمایا تھا اور کہا۔ ’’مِرزا صاحب! آپ ہی اِس اوزار سے شوق فرمایا کیجیے۔ میں اب اِس سے بے نیاز ہو چُکا ہُوں۔‘‘ گھر پُہنچ کر مَیں نے پھر علمِ کیمیا کی اُس کتاب کا مطالعہ شُروع کیا جو مَیں نے ایف۔ اے میں پڑھی تھی۔ مرزافرحت اللہ بیگ،اولیول،فرسٹ لینگویج اردو

مرزا فرحت اللہ بیگ مرزا فرحت اللہ بیگ نے آنکھ کھولی تو پرانی تہذیب دم توڑرہی تھی۔ سرسید کی تحریک زوروں پر تھی۔ ایسے میں مرزا صاحب نے محسوس کیا کہ پرانی تہذیب اعلی قدروں کی امین ہے۔ اوراس کے بغیر اپنی پہچان مشکل ہو گی۔ فرحت اللہ بیگ اپنی تحریر کے مقاصد خود بھی بیان کرتے ہیں: "مضامین لکھنے میں میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ پرانے مضمون جو بزرگوں کی زبانی ہم تک پہنچے ہیں تحریر کی صورت میں آجائیں تاکہ فراموش نہ کئے جاسکیں اور خوش مزاقی کے ساتھ ساتھ اصلاحِ معاشرت کا پرچار کیا جائے"۔ مرزا فرحت اللہ بیگ کااندازِ بیان ظریفانہ ہے۔بقول محمود نظامی:ان کی زبان میں ایک مخصوص چٹخارہ، ایک مخصوص چاشنی ہے۔ ان کی بے ارادہ ظرافت کی آمیزش بھی ایک نمایاں خوبی ہے جو اس طرز میں خودبخود پیدا ہوجاتی ہے۔ طرزِ تحریر کی نمایاں خصوصیات دہلی کی ٹکسالی زبان دہلوی ہونے کے ناطے ان کی زبان میں ٹکسالی زبان کاچٹخارہ آگیا ہے۔ تمام نقاد اس بات پرمتفق ہیں کہ مزاح نگاری میں فرحت کی کامیابی کی ضامن ان کی دلکش زبان ہے۔ فرحت کی زبان نرم و نازک تھی جیسے ریشم، لطیف تھی جیسے شبنم، سبک تھی جیسے جیسے پھول کی کلی، شیریں تھی جیسے مصری کی ڈلی۔ (عبدالماجد دریاآبادی) مختصر جملے، موزوں الفاظ، خوش آہنگ لب و لہجہ، محاورات کا برمحل استعمال، نامانوس الفاظ سے گریز یہ وہ عناصر ہیں جنہوں نے فرحت کی تحریر کا تانا بانا بنا ہے۔ محاورات کا برمحل استعمال فرحت کا کوئی مضمون محاورہ بندی سے خالی نہیں۔ اردو کے ساتھ ساتھ فارسی کے محاورے بھی استعمال کرجاتے ہیں۔ لیکن سلیقے سے۔ نثر میں محاورات کا استعمال عیب نہیں۔ یہ زبان کی دلکشی اور چاشنی کا باعث ہوتے ہیں اور تہذیب کی علامت ہیں۔ جزئیات نگاری مرزا صاحب جزئیات کے نباض ہیں۔ وہ جس موضوع کوبیان کرتے ہیں۔ اس کی چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی قاری کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ اس سے مضمون دلچسپ اور مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ " دلی کا ایک یادگار مشاعرہ " میں انہوں نے مختلف اشخاص، ان کا لباس، ماحول، حلیہ، چال ڈھال غرض پوری تہذیب کا نقشہ کھینچا ہے۔"مردہ بدست زندہ میں انسانی نفسیات کانقشہ کھینچ کر رکھ دیاہے۔ لطیف ظرافت مرزا صاحب طبع ظریف تھی ۔ قہقہے کا موقع کم ہی ملتا ہے البتہ زیرِ لب تبسم کی کیفیت ضرور ملتی ہے۔ فرحت واقعہ، کردار اور موازنہ وغیرہ سے تبسم کوتحریک دیتے ہیں۔ الفاظ و جملوں کو ایسی شگفتگی و دلکشی سے پیش کرتے ہیں کہ دل ودماغ ایک کیف میں ڈوب جاتا ہے اور ہونٹوں پر تبسم خود ہی پھیلتا چلا جاتا ہے۔ اعلی مزاح نگاری کا اصل کمال یہی ہے۔ طنز کا عنصر بہت کم ہے۔ وہ خوش مزاقی اور ہلکی و لطیف ظرافت کے قائل تھے۔ ان کے مضامین میں سنجیدگی اور ظرافت کا فنکارانہ امتزاج پایا جاتا ہے البتہ ان کے مضمون نئی اور پرانی تہذیب کی ٹکر میں طنز کا پیرایہ صاف نظر آتا ہے لیکن اس میں زہر ناکی نہیں ۔ ان کی ظرافت تصنع اور بناوٹ سے پاک ہوتی ہے۔ مقصدیت ہرتحریک کاایک مقصد ہوتاہے۔مرزاصاحب کی ظرافت نگاری بھی ایک مقصدکے تابع ہے۔وہ گزرے ہوئے واقعات کا ذکرکرتے ہوئے ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے نادر نمونے ہمیشہ کے لئے محفوظ کرلینا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر اس میں احتیاط سے کام نہ لیا جائے تو ادبی مضامین محض تأثرات ہوکر رہ جائیں گے لیکن ان کی ظرافت اور شگفتہ بیانی ان میں بھی دلکش رنگ بھر دیتی ہے۔ وہ واقعات پہ گہری نظر ڈالتے ہوئے اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کی ثقالت ختم ہوجاتی ہے اور ایک زندگی کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔ ڈپٹی نزیر احمد کی کہانی کچھ میری کچھ انکی زبانی میں لکھتے ہیں: "کہتے بھی جاتے تھے بھٔی· کیا مزے کا خربوزہ ہے۔ میاں کیا مزے کا آم ہے مگر بندۂ خدا کبھی یہ نہ کہا کہ بیٹا ذرا چکھ کر دیکھو یہ کیسا ہے۔ میں نے تو تہیہ کرلیا تھا کہ مولوی صاحب نے اگر جھوٹوں بھی کھانے کو پوچھا تو میں سچ مچ شریک ہوجاوں گا۔" کہانی کا عنصر مرزا صاحب کےااکثر مضامین کہانی کا رنگ لئے ہوئے ہیں۔ اندازِ بیان افسانوی ہے جسکی وجہ سے قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔ انہیں داستان سرائی کا بھی بہت شوق تھا۔ بعض مضامین تو ایسے ہیں جو ایک کہانی کے تقاضوں کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں۔ ان کے کچھ ایسے مضامین درج ذیل ہیں: نذیر احمد کی کہانی،مردہ بدست زندہ،دلی کا یادگار مشاعرہ ،دہلوی معاشرت کی عکاسی۔ فرحت کو عہدِ مغلیہ کے اخری دور کی معاشرت اور تمدن کا صحیح اور دلکش اور بہترین عکاس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ وہ مزاجاً مشرقی تھے۔ انہوں نے دلی میں آنکھ کھولی اور وہیں پرورش پائی۔ چنانچہ دلی والوں کے لباس، طورطریقوں اور تہواروں کے سلسلے میں ان کا قلم خوب گل کاریاں کرتا ہے۔ انہوں نے ماضی کی عظمت کے قصے، تقاریب کا احوال لکھا اور قارئین سے خوب داد وصول کی۔ خاکہ نگاری فرحت اللہ بیگ کے یہاں خاکہ نگاری یا شخصیت نگاری اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔ ان کے تحریر کردہ خاکے نظیر احمد کی کہانی کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اسی طرح ایک وصیت کی تکمیل میں اور دلی کا یادگار مشاعرہ بھی مختلف شخصیات کا جامع تصور پیش کرتے ہیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نہ مدلل مداحی کرتے ہیں اور نہ ہی ممدوح کے بجائے خود کو نمایاں کرتے ہیں۔ وہ جس کا نقشہ کھینچتے ہیں اس کی خوبیوں، خامیوں، عادات و اطوار، لباس، ناک نقشہ غرض ہر چیز چلتی پھرتی تصویر کی طرح آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ہے۔ مضامینِ فرحت کے مصنف عظمت اللہ خان لکھتے ہیں: "ہنسی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ ایک نفسی انبساط ہے۔ اگر دل و دماغ پر ایک انبساط کی کیفیت چھا جائے اور کبھی کبھی لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کھل جائے۔ ایک آدھ بار قارئین پھول کی طرح کھل کر ہنس پڑیں تو ایسا مضمون خوش مذاقی کا بہترین نمونہ ہوگا"۔ آراء مرزا صاحب کے قلم سے سلاست اور فصاحت کا دامن بہت کم ہی چھوٹنے پاتا ہے۔ (عبدالقادر سروری( مرزا فرحت اللہ بیگ کا بیان بہت سادہ و دل آویز ہے جس میں تصنع نام کو نہیں۔ (مولوی عبدالحق( فرحت کی زبان شگفتہ فارسی آمیز ہے اور بعض اوقات تمسخر کچھ اس طرح ملا ہوتا ہے کہ جس میں پھول اور کانٹے نظر آئیں۔ (ڈاکٹر سید عبداللہ( خوش مذاقی کی سڑک کے داغ بیل مجھ جیسے گمنام شخص کے ہاتھوں ڈلوائی گئی۔ (مرزا فرحت اللہ بیگ( حرفِ آخر فرحت اللہ بیگ کا تحریریں ایک مٹتی ہوئی تہذیب کے نوادرات کو محفوظ کرنے کی پرخلوص کاوشیں ہیں اور یہی ان کا نئی نسل پر احسان ِعظیم ہے۔ نیاقانون،منٹو،اولیول اردو،فرسٹ لینگویج اردو،مظہرفریدی

نیا قانُون

منگو کوچوان اپنے اڈّے میں بہت عقل مند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اُس کی تعلیمی حیثیّت صفر کے برابر تھی اور اُس نے کبھی اسکول کا مُنہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اِس کے باوجود اُسے دنیا بھرکی چیزوں کا علم تھا۔ اڈّے کے وُہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دُنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے، اُستاد منگو کی وسیع معلُومات سے اچھّی طرح واقف تھے۔ پچھلے دنوں جب اُستاد منگو نے اپنی ایک سواری سے اسپین میں جنگ چِھڑ جانے کی افوّاہ سُنی تھی تو اُس نے گاما چوہدری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبّرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی۔ ’’دیکھ لینا چوہدری! تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘ اور جب گاما چوہدری نے اُس سے یہ پُوچھا تھا کہ اسپین کہاں واقع ہے تو اُستاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا‘‘ولایت میں اور کہاں‘‘؟ اسپین میں جنگ چھڑی اور ہر شخص کو اُس کا پتہ چل گیا تو اسٹیشن کے اڈّے پر جتنے کوچوان حلقہ بنائے حقّہ پی رہے تھے، دِل ہی دِل میں اُستادمنگو کی بڑائی کااعتراف کر رہے تھے اور اُستاد منگو اُس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگہ چلا تے ہُوئے اپنی سواری سے تازہ ہندو مسلم فساد پر تبادلۂ خیال کر رہا تھا۔ اُسی روز شام کے قریب جب وُہ اڈّے میں آیا تو اُس کا چہرہ غیر معمولی طورپر تمتمایا ہُوا تھا۔ حقّے کادور چلتے چلتے جب ہندو مسلم فساد کی بات چِھڑی تو اُستاد منگو نے سر پر سے خاکی پگڑی اُتاری اور بغل میں داب کر بڑے مفکّرانہ لہجے میں کہا۔ ’’یہ کسی پیر کی بددُعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقُو چُھریاں چلتے رہتے ہیں اور مَیں نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دُکھایا تھا اور اُس درویش نے جل کر یہ بددُعا دی تھی، جا تیرے ہندوستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔ اور دیکھ لو جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہُوا ہے ہندوستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے ٹھنڈی سانس بھری اور پھر حقّے کا دم لگا کر اپنی بات شُروع کی۔ ’’یہ کانگرسی ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ مَیں کہتا ہوں یہ لوگ ہزار سال بھی سرپٹکتے رہیں تو کچھ نہ ہوگا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہوگی کہ انگریز چلا جائے اور کوئی اٹلی والا آجائے گایا وُہ روس والا جِس کی بابت مَیں نے سُنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے‘ لیکن ہندوستان سدا غلام رہے گا۔ یہاں یہ کہنا بُھول ہی گیا کہ پیر نے یہ بددُعا بھی دی تھی کہ ہندوستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘ اُستاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی اور اِس نفرت کا ایک سبب تو وُہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وُہ اُس کے ہندوستان پراپنا سِکّہ چلاتے ہیں اور طرح طرح کے ظُلم ڈھاتے ہیں مگر اُس کے تنفّر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اُسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وُہ اُس کے ساتھ ایسا سلُوک کرتے تھے گویاوہ ایک ذلیل کُتّا ہے۔ اِس کے علاوہ اُسے اُن کارنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وُہ گورے کے سُرخ و سپید چہرے کودیکھتا تو اُسے متلی سی آجاتی۔ نہ معلوم کیوں؟ وہ کہا کرتا تھا کہ اِن کے لال جھرّیوں بھرے چہرے دیکھ کرمجھے وُہ لاش یاد آجاتی ہے جِس کے جسم پر سے اُوپر کی جِھلّی گَل گَل کر جھڑ رہی ہو! جب کسی شرابی گورے سے اُس کا جھگڑا ہو جاتا تو سارا دن اُس کی طبیعت مکدر رہتی اور شام کواڈّے میں آکر ماربل مارکہ سگریٹ پیتے یا حقّے کے کش لگاتے ہُوئے اُس گورے کو جی بھر کر سُنایا کرتا۔ ۔۔۔۔۔۔ یہ موٹی سی گالی دینے کے بعد وُہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہا کرتا تھا۔ ’’آگ لینے آئے تھے، اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں۔ ناک میں دم کر رکھا ہے اِن بندروں کی اولاد نے۔ رعب گانٹھتے ہیں گویا ہم اِن کے باوا کے نوکر ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ اِس پر بھی اُس کا غُصّہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اُس کا کوئی ساتھی اُس کے پاس بیٹھا رہتا وُہ اپنے سینے کی آگ اُگلتا رہتا۔ ’’شکل دیکھتے ہونا تُم اِس کی۔۔۔جیسے کوڑھ ہو رہا ہے۔۔۔ بالکل مُردہ، ایک دھپّے کی مار اور گٹ پٹ گٹ پٹ یوں بَک رہا تھا جیسے مار ہی ڈالے گا۔تیری جان کی قسم! پہلے پہل جی میں آئی کہ ملعُون کی کھوپڑی کے پرزے اُڑادوں۔ لیکن اِس خیال سے ٹل گیاکہ اِس مردُود کو مارنا اپنی ہتک ہے۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوجاتا اور ناک کو خاکی قمیص کی آستین سے صاف کرنے کے بعد پھر بُڑبُڑانے لگ جاتا۔ ’’قسم ہے بھگوان کی، اِن لاٹ صاحبوں کے ناز اُٹھاتے اُٹھاتے تنگ آگیا ہوں۔ جب کبھی اِن کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں رگوں میں خُون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانُون وانون بنے تو اِن لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم! جان میں جان آجائے۔‘‘ اورجب ایک روز اُستاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں اور اُن کی گُفتگُو سے پتا چلا کہ ہندوستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اُس کی خُوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ وُہ مارواڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میںآئے تھے، گھر جاتے ہُوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ ’’سُناہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانُون چلے گا۔۔۔ کیا ہر چیز بدل جائے گی؟‘‘ ’’ہر چیز تو نہیں بدلے گی مگر کہتے ہیں کہ بہت کُچھ بدل جائے گا اور ہندوستانیوں کو آزادی مِل جائے گی۔‘‘ کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانُون پاس ہوگا؟‘‘ یہ پُوچھنے کی بات ہے۔کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔‘‘ ان مارواڑیوں کی بات چیت اُستادمنگو کے دل میں ناقابلِ بیان خُوشی پیدا کر رہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا اورچابک سے بہت بُری طرح پیٹا کرتا تھا مگر اُس روز بار بار پیچھے مُڑ کر مارواڑیوں کی طرف دیکھتااور اپنی بڑھتی ہُوئی مُونچھوں کے بال ایک اُنگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اُونچے کر کے گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کرتے ہُوئے بڑے پیار سے کہتا۔ چل بیٹا۔ چل بیٹا۔۔۔۔۔۔ ذرا ہوا سے باتیں کر کے دکھادے۔‘‘ مارواڑیوں کو اُن کے ٹھکانے پُہنچا کر اُس نے انار کلی میں دینو حلوائی کی دکان پرآدھ سیر دہی کی لسّی پی کر ایک ڈکار لی اور مُونچھوں کو مُنہ میں دبا کر اُن کو چُوستے ہُوئے ایسے ہی بلند آواز میں کہا۔ ‘‘ہت تیری ایسی کی تیسی‘‘۔ شام کو جب وُہ اڈّے کو لوٹا توخلافِ معمُول اُسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اُس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہوگیا۔ آج وُہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سُنانے والا تھا۔ بہت بڑی خبر اور اِس خبر کو اپنے اندر سے باہر نکالنے کے لیے وہ سخت مجبُور ہو رہا تھا۔ لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔ آدھ گھنٹے تک وُہ چابک بغل میں دبائے اسٹیشن کے اڈّے کی آہنی چھت کے نیچے بے قراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اُس کے دماغ میں بڑے اچھّے خیالات آرہے تھے۔ نئے قانُون کے نفاذ کی خبر نے اُس کو ایک نئی دُنیا میں لاکھڑا کر دیا تھا۔وہ اِس نئے قانُون کے متعلق جو پہلی اپریل کو ہندوستان میں نافذ ہونے والا تھا اپنے دماغ کی تمام بتّیاں روشن کر کے غور و فکر کر رہا تھا۔ اُس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ ’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانُون پاس ہوگا؟‘‘ باربار گُونج رہاتھا اور اُس کے تمام جسم میں مسّرت کی ایک لہردوڑ رہی تھی۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اُس نے اُن مارواڑیوں کو گالی دی ۔۔۔۔۔۔ ’’غریبوں کی کُٹھیا میں گُھسے ہوئے کھٹمل۔ نیا قانُون اُن کے لیے کھولتا ہُوا پانی ہوگا۔‘‘ وہ بے حد مسرور تھا۔ خاص کر اُس وقت اُس کے دل کو بہت ٹھنڈک پُہنچی جب وُہ خیال کرتا کہ گوروں، سفید چوہوں (وہ اُن کواِسی نام سے یاد کیا کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانُون کے آتے ہی ہمیشہ کے لیے بِلوں میں غائب ہو جائیں گی۔ جب نتّھو گنجا پگڑی بغل میں دبائے اڈّے میں داخل ہُوا تو اُستاد منگو بڑھ کر اُس سے مِلا اور اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا۔ لاہاتھ اِدھر۔۔۔ایسی خبر سُناؤں کہ جی خُوش ہوجائے۔ تیری اِس گنج کھوپڑی پر بال اُگ آئیں۔‘‘ یہ کہہ کر منگو نے بڑے۔۔۔ مزے لے لے کر نئے قانُون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کر دیں۔دورانِ گُفتگُو اُس نے کئی مرتبہ گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مار کر کہا۔ ’’تُو دیکھتا رہ کیا بنتا ہے۔ یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضُرور کر کے رہے گا۔‘‘ اُستادمنگو موجودہ سویت نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سُن چکا تھا اور اُسے وہاں کے نئے قانُون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اِسی لیے اُس نے ’’روس والے بادشاہ‘‘ کو ’’انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملا دیا اور پہلی اپریل کو پُرانے نظام میں جو نئی تبدیلیاں ہونے والی تھیں وہ اُنہیں ’’روس والے بادشاہ‘‘ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔ کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سُرخ پوشوں کی تحریک جاری تھی۔اُستاد منگو نے اِس تحریک کو اپنے دماغ میں ’’روس والے بادشاہ‘‘ اور پھر نئے قانُون کے سات خلط ملط کر دیا تھا۔ اِس کے علاوہ جب کبھی وُہ کسی سے سُنتا کہ فلاں شہر میں اتنے بم ساز پکڑے گئے ہیں یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے تو اِن تمام واقعات کو نئے قانُون کا پیش خیمہ سمجھتا اور دِل ہی دِل میں بہت خُوش ہوتا تھا۔ ایک روز اُس کے تانگے میں دوبیر سٹر نئے آئین پر بڑے زور سے تنقید کر رہے تھے اور وُہ خاموشی سے اُن کی باتیں سُن رہا تھا۔ اُن میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہاتھا۔ ’’جدید آئین کا دوسرا حصّہ فیڈریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آیا۔ ایسی فیڈریشن دُنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سُنی نہ دیکھی گئی ہے۔ سیاسی نظریے کے اعتبار سے بھی فیڈریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں!‘‘ اُن بیرسٹروں کے درمیان جو گُفتگُو ہوئی، چونکہ اُس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے اِس لیے اُستاد منگو صرف اُوپر کے جُملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اُس نے خیال کیا یہ لوگ ہندستان میں نئے قانُون کی آمد کو بُرا سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ اُن کا وطن آزاد ہو۔ چنانچہ اِس خیال کے زیرِ اثر اُس نے کئی مرتبہ اُن دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر دل ہی دل میں کہا۔ ’’ٹوڈی بچّے!‘‘ جب کبھی وُہ کسی کو دبی زبان میں ’’ٹوڈی بچّہ‘‘ کہتا تو دل میں یہ محسوس کرکے بڑا خُوش ہوتا تھا کہ اُس نے اُس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وُہ شریف آدمی اور ’’ٹوڈی بچّے‘‘ میں تمیز کرنے کی اہلیّت رکھتا ہے۔ اس واقعے کے تیسرے روز وُہ گورنمنٹ کالج کے تین طلباء کو اپنے تانگے میں بٹھا کر مزنگ جارہا تھا کہ اُس نے اُن تین لڑکوں کو آپس میں باتیں کرتے سُنا۔ ’’نئے آئین نے میری اُمید بڑھا دی ہے اگر۔۔۔۔۔۔ صاحب اسمبلی کے ممبر ہوگئے تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضُرور مل جائے گی۔ ویسے بھی بہت سی جگہیں اور نکلیں گی۔شاید اِسی گڑ بڑ میں ہمارے ہاتھ میں بھی کچھ آجائے۔‘‘ ’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں۔‘‘ ’’وہ بیکار گریجویٹ جو مارے مارے پِھر رہے ہیں اُن میں کچھ تو کمی ہوگئی۔‘‘ اِس گُفتگُو نے اُستاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیّت اور بھی بڑھا دی۔ اور وُہ اُس کو ایسی ’’چیز‘‘ سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو۔ ’’نیا قانُون۔۔۔!‘‘ وہ دن میں کئی بار سوچتا۔ ’’یعنی کوئی نئی چیز!‘‘ اور ہر بار اُس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وُہ نیا ساز آجاتا جو اُس نے دو برس ہُوئے چوہدری بخش سے بڑی اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اِس ساز پر جب وُہ نیا تھا،جگہ جگہ لوہے کی نِکّل چڑھی ہُوئی کیلیں چمکتی تھیں۔ اور جہاں جہاں پیتل کا کام تھا، وُہ تو سونے کی طرح دھمکتا تھا۔ اِس لحاظ سے بھی ’’نئے قانُون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضُروری تھا۔ پہلی اپریل تک اُستاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اُس کے حق میں بہت کچھ سُنا۔مگر اس کے متعلق جو تصوّر وہ اپنے ذہن میں قائم کر چُکا تھا، بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانُون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا اور اُس کو یقین تھا کہ اُس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی، اُن سے اُس کی آنکھوں کو ضُرور ٹھنڈک پہنچے گی۔ آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہوگئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے۔ موسم خلافِ معمول سرد تھا اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے اُستاد منگو اُٹھااور اصطبل میں جاکر تانگے میں گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اُس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر مسُرور تھی۔ وُہ نئے قانُون کو دیکھنے والا تھا۔ ُس نے صبح کے سرد دُھندلکے میں کئی تنگ اور کُھلے بازاروں کا چکّر لگایا مگر اُسے ہر چیز پُرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پُرانی۔ اُس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں مگر سوائے اُس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پردوں سے بنی تھی اور اُس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہُوئی تھی اور سب چیزیں پُرانی نظر آتی تھیں۔ یہ نئی کلغی اُس نے نئے قانُون کی خوشی میں اکتّیس مارچ کو خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنے میں خریدی تھی۔ گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز، کالی سٹرک اور اُس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہُوئے بجلی کے کھمبے، دُکانوں کے بورڈ، اُس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہُوئے گُھنگھروں کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی۔۔۔ اُن میں سے کون سی چیز نئی تھی؟ظاہر ہے کوئی بھی نہیں، لیکن اُستاد منگو مایو س نہیں تھا۔ ’’ابھی بہت سویرا ہے۔ دُکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں۔‘‘ اِس خیال سے اُسے تسکین تھی۔ اُس کے علاوہ وُہ یہ بھی سوچتا تھا۔ ’’ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد یہ کام شروع ہوتا ہے۔ اب اِس سے پہلے نئے قانُون کا کیا نظر آئے گا؟‘‘ جب اُس کا تانگہ گورنمنٹ کالج کے دروازے کے قریب پہنچا تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے۔ جو طلباء کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے خُوش پوش تھے۔ مگر اُستاد منگو کونہ جانے اُن کے کپڑے میلے میلے سے کیوں نظر آئے۔ شاید اِس کی وجہ یہ تھی کہ اُس کی نگاہیں آج کسی خیرہ کُن جلوے کا نظّارہ کرنے والی تھیں۔ تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وُہ تھوڑی دیر کے بعد انار کلی میں تھا۔ بازار کی آدھی دُکانیں کُھل چکی تھیں اور اب لوگوں کی آمد و رفت بھی بڑھ گئی تھی۔ حلوائی کی دُکانوں پر گاہکوں کی خُوب بِھیڑ تھی۔ میناری والوں کی نمائشی چیزیں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوتِ نظارے دے رہی تھیں اور بجلی کے تاروں پر کئی کبُوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ مگر اُستاد منگو کے لیے اِن تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔۔۔ وہ نئے قانُون کو دیکھنا چاہتا تھا ٹھیک اِسی طرح جس طرح وُہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔ جب اُستاد منگو کے گھر میں بچّہ ہونے والا تھا تو اُس نے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری میں گُزارے تھے۔ اُس کو یقین تھا کہ بچّہ کسی نہ کسی دن ضُرور پیدا ہوگا۔ مگر وہ انتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا۔ وُہ چاہتا تھا کہ اپنے بچّے کو صرف ایک نظر دیکھ لے۔ اُس کے بعد وُہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اِسی غیر مغلوب خواہش کے زیرِ اثر اُس نے کئی مرتبہ اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اُس کے اُوپر کان رکھ رکھ کر اپنے بچّے کے متعلق کچھ جاننا چاہا تھا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اِس قدر تنگ آگیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس بھی پڑا تھا۔ ’’تُو ہر وقت مُردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اُٹھ ذرا چل پِھر ، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہو سکے گا۔ تُو سمجھتی ہے کہ اِس طرح لیٹے لیٹے بچّہ جن دے گی؟‘‘ اُستاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہُوا تھا۔ وُہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا نہ صرف خواہش مند تھا بلکہ متجسّس تھا۔ اُس کی بیوی کی گنگا دائی اُس کی اِس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طورپر یہ کہا کرتی تھی۔ ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا تُم پیاس سے بے حال ہو رہے ہو۔‘‘ کچھ بھی ہو مگر اُستاد منگو نئے قانُون کے انتظار میں اتنا بے قرار نہیں تھا جتنا اُسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ آج نئے قانُون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا ٹھیک اسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلتا تھا۔ لیڈروں کی عظمت کا اندازہ اُستاد منگو ہمیشہ اُن کے جلوس کے ہنگاموں اور اُن کے گلے میں ڈالے ہُوئے پُھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا۔ اگر کوئی لیڈر گیندے کے پُھولوں سے لدا ہُوا ہوتا، اُستاد منگو کے نزدیک وُہ بڑا آدمی تھا اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بِھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں تو اُس کی نگاہوں میں وُہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانُون کو وُہ اپنے ذہن کے اِسی ترازُو میں تولنا چاہتا تھا۔ انار کلی سے نکل کر وُہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دُکان کے پاس اُسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اُس نے اپنے گھوڑے کو چابک دکھایا اور دِل میں یہ خیال کیا۔ ’’چلو یہ بھی اچھّا ہُوا۔۔۔شاید چھاؤنی ہی میں سے نئے قانُون کا کچھ پتہ چل جائے۔‘‘ چھاؤنی پُہنچ کر اُستاد منگو نے سواری کو اُس کی منزلِ مقصود پر اُتار دیا اور جیب سے سگریٹ نکال کر بائیں ہاتھ کی آخری دو اُنگلیوں میں دبا کر سُلگایا اور اگلی نشست کے گدّے پر بیٹھ گیا۔ جب اُستاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی یا اُسے کسی بیتے ہُوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا تو وُہ عام طور پر انگلی نشست چھوڑ پچھلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اُس کا گھوڑا ہنہنانے کے بعد بڑی دھیمی چال چلنا شروع کر دیتا تھا۔ گویا اُسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چُھٹّی مل گئی ہے۔ گھوڑے کی چال اور اُستاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سُست تھی۔ جِس طرح گھوڑا آہستہ آہستہ قدم اُٹھا رہا تھا اُسی طرح اُستاد منگو کے ذہن میں نئے قانُون کے متعلق نئے قیاسیات داخل ہو رہے تھے۔ وُہ نئے قانُون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر مِلنے کے طریقے پر غور کر رہا تھا اوراس قابلِ غور بات کو آئینِ جدیدکی روشنی میں دیکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ اِس سوچ بچار میں غرق تھا۔ اُسے یوں معلُوم ہُوا جیسے کسی سواری نے اُسے بُلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اُسے سڑک کے اُس طرف دُور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک ’’گورا‘‘کھڑا نظر آیا جو اُسے ہاتھ سے بُلا رہا تھا۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے اُستاد منگو کو گو روں سے بے حد نفرت تھی۔ جب اُس نے اپنے تازہ گاہک کو گورے کی شکل میں دیکھا تو اُس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہوگئے۔ پہلے تو اُس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اُس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اُس کو خیال آیا ’’اِن کے پیسے چھوڑنا بھی بیوقوفی ہے۔ کلغی پر جو مُفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ کر دئیے ہیں، اِس کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہئیں۔ چلو چلتے ہیں۔‘‘ خالی سڑک پر بڑی صفائی سے تانگہ موڑ کر اُس نے گھوڑے کو چابک دِکھایا اور آنکھ جھپکتے میں وُہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اُس نے تانگہ ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پُوچھا۔ ’’صاحب بہادر کہاں جانا مانگتا ہے؟‘‘ اِس سوال میں بَلا کا طنزیہ انداز تھا۔ صاحب بہادر کہتے وقت اُس کا اُوپر کا مُونچھوں بھرا ہونٹ نیچے کی طرف کِھچ گیا اورپاس ہی گال کے اُس طرف جو مدھم سی لکیر ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصّے تک چلی آرہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہوگئی، گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی ہے۔ اُس کا سارا چہرہ ہنس رہا تھااور اپنے اندر اُس نے اِس ’’گورے‘‘ کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔ جب ’’گورے‘‘ نے جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہَوا کا رُخ بچا کر سگریٹ سلگا رہا تھا، مُڑ کر تانگے کے پائیدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک اُستاد منگو کی اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اُوپر کو اُڑ گئیں۔ اُستاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اُترنے والا تھا، اپنے سامنے کھڑے ’’گورے‘‘ کو یوں دیکھ رہا تھا، گویا وہ اُس کے وجود کے ذرّے ذرّے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیزیں جھاڑ رہا تھا، گویا وُہ اُستاد منگو کے اِس حملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گورے نے سگریٹ کا دُھواں نگلتے ہُوئے کہا۔ ’’جانا مانگٹا یا پھر گڑ بڑ کرے گا؟‘‘ ’’وہی ہے۔‘‘ یہ لفظ اُستاد منگو کے ذہن میں پیدا ہُوئے اور اُس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔ ’’وہی ہے‘‘ اُس نے یہ لفظ اپنے مُنہ کے اندر ہی اندر دہرائے اور ساتھ ہی اُسے پُورا یقین ہوگیا کہ وُہ گورا جو اُس کے سامنے کھڑا تھا، وہی ہے جس سے پچھلے برس اُس کی جھڑپ ہُوئی تھی اور اُس خواہ مخواہ کے جھگڑے میں جِس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی شراب تھی، اسے طوعاً کرہاً بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔ اُستاد منگو نے گورے کا دماغ دُرست کر دیا ہوتا بلکہ اُس کے پرزے اُڑا دئیے ہوتے۔ مگر وُہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہوگیا۔ اُس کو معلوم تھا کہ اِس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور پر کوچوانوں ہی پر گِرتا ہے۔ اُستاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانُون پر غور کرتے ہُوئے گورے سے کہا۔ ’’کہاں جانا مانگتا ہے؟‘‘ اُستاد منگو کے لہجے میں چابک جیسی تیزی تھی۔ گورے نے جواب دیا ’’ہیرا منڈی‘‘ ’’کرایہ پانچ روپے ہوگا۔‘‘ اُستاد منگو کی مُونچھیں تھرتھرائیں۔ یہ سُن کر گوراحیران رہ گیا۔ وُہ چلّایا ’’پانچ روپے۔ کیا تُم۔۔۔‘‘ ’’ہاں، ہاں پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہُوئے اُستاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنچ کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔ ’’کیوں جاتے ہو یا بیکار باتیں بناؤ گے؟‘‘ اُستاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہوگیا۔ گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیشِ نظر رکھ کراُستاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کر چُکا تھا۔ وُہ خیال کر رہا تھا کہ اُس کی کھوپڑی پھرکھجلا رہی ہے۔ اِس حوصلہ افزا خیال کے زیرِ اثر وُہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے اُستاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اُترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہُوئی پتلی چھڑی اُستاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چُھوئی۔ اُس نے کھڑے کھڑے اُوپر سے پست قد گورے کو دیکھا۔ گویا وُہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اُسے پیس ڈالناچاہتا ہے۔ پھر اُس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح اُوپر کو اُٹھا اورچشمِ زدن میں گورے کی ٹھوڑی کے نیچے جم گیا۔ دھکّا دے کر اُس نے گورے کو پرے ہٹایا اور نیچے اُتر کر اُسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔ ششدرو متحیّر گورے نے اِدھر اُدھر سمٹ کر اُستاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اُس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے اور اُس کی آنکھوں سے شرارے برس ر ہے ہیں تو اُس نے زور زور سے چلّانا شروع کیا۔ اُس کی چیخ و پُکار نے اُستاد منگو کی باہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا۔ وُہ گورے کو جی بھر کے پِیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا۔ ’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔۔۔۔۔ پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔۔۔ اب ہمارا راج ہے بچّہ؟‘‘ لوگ جمع ہوگئے اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مُشکل سے گورے کو اُستاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ اُستاد منگو اُن دوسپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا۔ اُس کی چوڑی چھاتی پُھولی ہُوئی سانس کی وجہ سے اُوپر نیچے ہو رہی تھی۔ مُنہ سے جھاگ بہہ رہاتھا اور اپنی مسکراتی ہُوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وُہ ہانپتی ہوئی آواز سے کہہ رہا تھا۔ ’’وہ دن گُزر گئے جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ اب نیا قانُون ہے میاں۔ نیا قانُون!‘‘ وہ بیچارہ گورا اپنے بِگڑے ہُوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کے مانند کبھی اُستاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجُوم کی طرف۔ اُستاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانُون، نیا قانُون‘‘ چِلّاتارہا مگر کسی نے ایک نہ سُنی۔’’نیا قانُون، نیا قانُون، کیا بَک رہے ہو۔ قانُون وہی ہے پُرانا!‘‘ اور اُس کو حوالات میں بندکر دیا گیا!

خلاصہ: کوچوان منگو افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ وہ ایک محب وطن شہری ہے جو اپنے مرتبے کے لوگوں میں بہت دانشور سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سیاسی شعور بیدار ہے اور یہ احساس کہ وہ ایک غلام قوم کا فرد ہے اس کے دل میں نفرت کا سمندر بن چکا ہے کیوں ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریں اکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں منگو کوچوان اپنی سواریوں کی گفت گو بڑے غور سے سنتا تھا اور اس سے جو کچھ اخذ کرتا وہ بطور خبر اپنے ساتھیوں کو سنادیا کرتا تھا۔ اسے انگریزوں سے شدید نفرت تھی۔ ایک دن ٹانگے کی سواریوں کی گفتگو سے اسے کسی نئے قانون یعنی انڈیا ایکٹ کے نفاذ کا علم ہوتا ہے اور اسے یہ سن کر بے انتہا خوشی محسوس ہوتی ہے کہ پہلی اپریل کو اس قانون کے نفاذ کے نتیجے میں وہ اور اس کا ملک آزاد ہوجائیں گے۔ اس خبر کے ساتھ اس کے ذہن میں ایک خوشگوار انقلاب کا تصور انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔ آخر یکم اپریل کا سورج اس کے تصورکے مطابق حریت کے متوالوں کے لئے نویدِ سحر لے کر طلوع ہوتا ہے۔ وہ اپنے حسین تصورات میں گم اپنے ٹانگے پر شہر والوں کی بدلی کیفیات دیکھنے کے لئے نکلتا ہے مگر اسے کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ گھومتے گھومتے وہ ایک جگہ سواری کی تلاش میں رک جاتا ہے۔ ایک انگریز سواری اسے آواز دیتی ہے۔ قریب پہنچ کر وہ اسے پہنچان لیتا ہے کہ ایک بار پہلے بھی اس کی تکرار اس سے ہوچکی تھی۔ وہ اس سے بہت حقارت بھرے لہجے میں پوچھتا ہے کہ اسے کہاں جانا ہے۔ انگریز میں منگو کو پہنچان لیتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ پچھلی مرتبہ کی طرح کرائے پر اعتراض تو نہیں کرے گا۔ انگریز کا فرعون صفت رویہ اس کے دل میں آگ لگا دیتا ہے۔ انگریز منگو کے اس رویے کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکا۔ اور اس نے منگو کو چھڑی کے اشارے سے تانگے سے نیچے اترنے کے لئے کہا۔ جواباً اس نے انگریز کو تانگے سے اتر کر بے تحاشا پیٹنا شروع کردیا۔ متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور جب دیکھا کہ اس پر دیوانوں کی سی حالت طاری ہے تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ اسی چیخ و پکار نے منگو کا کام اور تیز کردیا جو گورے کو جی بھر کر پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جارہا تھا: پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں اب ہمارا را ج ہے بچہ۔ لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ قانون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس بات کا احساس اسے تب ہوا جب اسے ایک گورے کو پیٹنے کے جرم میں حوالات میں بندکر دیا گیا۔ راستے اور تھانے کے اندر وہ نیا قانون پکارتا رہا مگر کسی ایک نہ سنی۔

منٹو متنازع فن کار(افسانہ نگار)۔اردو کابہترین نثار۔منتو ۔جوزندگی بھرزندگی کوآئینہ دیکھاتارہا۔زندگی کے وہ پہلو۔ جو ہمارے اردگردسڑانددیتے رہتے ہیں۔اس کی بھبھک سے فضااورماحول دونوں پراگندگی کاشکارہوتے ہیں۔اورہم اندر کے خوف سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہبدبوکامرکزکہاں ہے؟کیاہے؟کیوں ہے؟جیسے ہمارے دل مین چورہوتوآئینے کے سامنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں آئینہ اس چورکونہ دیکھ لے۔یاپھرآئینے کوڈھک دیتے ہیں۔منٹونے آئینے کاغلاف اٹھایا ہے۔ گرد جھاڑی ہے۔اب جوکچھ ہے۔آئینے میں ہے۔ جوآئینہ منٹوکے پاس ہے وہ محدب بھی ہے اورمقعربھی۔منٹومعمولی سے معمولی چیزکوجیسادکھاناچاہتاہے آئینہ ویسا دکھاتاہے۔یہ منٹوکاآئینہ ہے۔منٹوکاافسانہ ہے۔ بقول منٹو"اگرآپ ان افسانوں کوبرداشت نہیں کرسکتے تواس کامطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابلِ برداشت ہے۔میری تحریرمیں کوئی نقص نہیں۔۔۔موجودہ نظام کانقص ہے۔" 'نیاقانون 'کی طرح "ٹوبہ ٹیگ سنگھ" بھی تقسیم ہندپرایک افسانہ ہے۔ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کاتبادلہ۔ان میں ایک پاگل بشن سنگھ بھی تھا۔ٹوبہ ٹیگ سنگھ اس کے لاشعورمیں جم گیا۔جب تبادلہ شروع ہوا۔درمیان کی ایک جگہ بھاگ کرجاکھڑاہوا۔آخراس کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔۔۔تاروں کے پیچھے بھارت تھا۔۔۔ادھرویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔۔۔درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پرجس کاکوئی نام نہیں تھا۔ٹوبہ ٹیگ سنگھ پڑاتھا۔ منٹواپنے آپ پر: ü میں تحریروتصنیف کے تمام آداب سے واقف ہوں۔میرے قلم سےٍبے ادبی شاذونادر ہی ہوسکتی ہے۔میں فحش نگارنہیں افسانہ نگارہوں۔ ü میں تختۂ سیاہ پرکالی چاک سے نہین لکھتا۔سفیدچاک استعمال کرتاہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اوربھی زیادہ نمایاں ہوجائے۔ ü مجھے نام نہاد نقادوں سے کوئی دل چسپی نہین۔(ان کی)نکتہ چینیاں صرف پتیاں نوچ کربکھیرسکتی ہیں۔انھیں جمع کرکے ایک سالم پھول نہیں بناسکتیں۔ منٹواورمغرب(مغربی استعماریت) پیدائش 11 مئی 1912ء (سمبرالہ۔لدھیانہ) وفات: 18جنوری 1955 ء "افسانہ مجھے لکھتا ہے ۔" منٹو نے یہ بہت بڑی بات کہی تھی۔ منٹو کی زندگی بذات خود ناداری انسانی جدوجہد بیماری اور ناقدری کی ایک المیہ کہانی تھی جسے اردو افسانے نے لکھا ۔ منٹو نے نہ صرف اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کو پیچھے چھوڑ دیا بلکہ اس کے بعد آنے والی نسل بھی اس کی کہانی کا جواب پیدا نہیں کر سکی۔ شاید اسی لیے منٹو نے لکھا تھا ۔ "سعادت حسن مر جائے گا مگر منٹو زندہ رہے گا۔ " ایک نمائندہ افسانہ نیا قانون ہے۔ جس کو صرف ہندوستان کے حالات تک محدود کرنا بہت بڑی زیادتی ہوگی۔ منگو کوچوان دراصل غلامی میں پسنے والی ہر قوم کا ترجمان ہے۔ جو کہ آزادی کی آزاد فضاء میں سانس لینے کا خواہش مند ہے۔ جس کے اپنے کچھ خواب ہیں۔ انسانیت کے خواب ، آزادی کے خواب ، امن کے خواب ، محبت کے خواب لیکن انگریز کی صورت میں موجود مغربی استعمار اس کے ان خوابوں کو کچل کر جینے کے بنیادی حق سے بھی محروم کر رہا ہے۔ سعادت حسن منٹو اردو کا وہ پہلا ادیب ہے جس نے اپنی تحریروں کے ذریعے استعمار کی اس نئے روپ کی نشاندہی کی۔منٹو کے انکل سام کے نام لکھے گئے خطوط میں دراصل ’’انکل سام‘‘ اسی نئی استحصالی قوت کی علامت ہے۔ جس کے بہروپ نے آج تک دنیا کو اپنے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔ انکل سام کے نام تیسرا خط دیکھیے: "آپ نے خیر کئی نیک کام کیے ہیں اور بدستور کیے جارہے ہیں آپ نے ہیروشیما کو صفحہ ہستی سے نابود کیا ناگاساکی کو دھوئیں اور گردوغبار میں تبدیل کر دیا اس کے ساتھ ساتھ آپ نے جاپان میں لاکھوں امریکی بچے پیدا کیے"۔ چچا سام کے نام پانچواں خط : "اگر آپ نے دنیا میں امن قائم کردیا تو دنیا کتنی چھوٹی ہو جائے گی۔ میرا مطلب ہے کتنے ملک صفحہ ہستی سے نابود ہوں گے ۔۔۔۔۔ میری بھتیجی سکول میں پڑھتی ہے کل مجھ سے دنیا کا نقشہ بنانے کو کہہ رہی تھی میں نے اس سے کہا ۔ ابھی نہیں پہلے مجھے چچا جان سے بات کر لینے دو ۔ ان سے پوچھ لوں کون سا ملک رہے گا کون سا نہیں رہے گا۔ پھر بنا دوں گا"۔ آج دنیا میں موجود تمام باہمی جھگڑوں اور جنگوں کے پس پردہ انہی قوتوں کا ہاتھ کارفرما نظر آتا ہے ۔ افریقہ اور ایشیاء کے کتنے ہی علاقائی مسائل کو ہوا دے کر انھوں نے اپنی اسلحے کی فروخت کو یقینی بنایا ۔ یعنی بنیادی انسانی حقوق کی علم بردار قوتوں نے خود انسانوں میں کس طرح سے موت تقسیم کی۔ اس کے بارے میں سعادت حسن منٹو انکل سام کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں۔ "آپ پاکستان اور ہندوستان میں جنگ شروع کرا دیجیے ۔ کوریا کی جنگ کے فائدے اس جنگ کے فائدوں کے سامنے ماند پڑ گئے تو میں آپ کا بھتیجا نہیں ۔ قبلہ ذرا سوچیے ، یہ جنگ کتنی منفعت بخش ہوگی آپ کے تمام اسلحہ ساز کارخانے ڈبل شفت میں کام کرنے لگیں گے۔ بھارت بھی آپ سے ہتھیار خریدے گا اور پاکستان بھی۔ آپ کی پانچوں گھی میں ہوں گی اور سر کڑاہے میں۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ منٹو ایک بہت بڑا فنکار تھا ۔ وہ نہ صرف انسانی نفسیات کا نباض تھا بلکہ اعلیٰ سیاسی شعور بھی رکھتا تھاجس کی نظر صرف اپنے دور پر محیط نہیں تھی بلکہ وہ مستقبل میں بھی جھانک سکتا تھا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے یہ الفاظ آج کے دور میں لکھے گئے کسی باشعور فرد کی تحریر ہیں۔ "ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے اس پر قائم رہیے گا۔ ادھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجیے دونوں کو پرانے ہتھیار پھیجیے کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دئیے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کئے تھے۔ آپ کا فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بیکار نہیں رہے گے۔" افسانہ نیاقانون(تجزیہ) "دنیا کی ہر چیز کی طرح منٹو نہ” محض“ اچھا ہے اور نہ ” محض“ برا۔ اس کے افسانے نہ خالصتاً حسن و جمال کے مظاہرہیں اور نہ محض برائیوں کے حامل۔ اس کی حقیقت نگاری، اس کی نفسیاتی موشگافی، اس کی دور درس اور دور بین نظر، اس کی جرات آمیز حق گوئی، اس کی تلخ مصلحانہ طنز اور اس کی شگفتہ فقرہ بازی کے اچھے اور برے دونوں پہلو ہیں: کبھی بہت برے، کبھی بہت اچھے"۔ افسا نہ کی تمہید افسانوی فن کی بڑی اہم دشوار اور افسانہ نگاری کے نقطہ نظر سے بڑے کام کی منزل ہے۔ نیا قانون اس طرح شروع ہوتا ہے :۔ ”منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقل مند آدمی سمجھا جاتا تھا گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ا س کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔“ لیکن ان گوناگوں کاموں کے علاوہ جو کام منٹو کے افسانہ کی ہر تمہید نے اپنے ذمہ لیا ہے یہ ہے کہ وہ قاری کے ذہن کو بے دار کرکے ، اس کے دل میں گدگدی پیدا کرکے یا اس کے ذہن میں آگے بڑھنے کی خواہش پیدا کرکے افسانہ پڑھ لینے پر آمادہ کر دے۔ منٹو نے اپنے افسانوی فن کی ان نزاکتوں کو پوری طرح محسوس کرکے عموماً اپنا فن منصب پورا کرنے کی طرف توجہ دی ہے۔ اس نے اس ”انجام“ سے قاری کے ذہن کو متأثر کرنے کی خدمت بھی انجام دی ہے اور افسانے کو افسانے کی حیثیت سے مکمل کرنے کا کام بھی لیا ہے۔ منٹو کے بعض افسانوں کے انجا م دیکھ کر اس کے فن کی خصوصیت کا اندازہ لگائیے۔ ان کاافسانہ ”نیا قانون“ ا س طرح ختم ہوتا ہے :۔ ”استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر وہ نیاقانون ، نیا قانون چلاتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی۔“ ”نیا قانون“ نیا قانون کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا۔“ اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا۔ نیاقانون“ کے خاتمہ میں استاد منگو خاں کی اس جذباتی شدت کا ایسا متضاد ردعمل ہے جس سے پڑھنے والے کے دل میں درد کی ایک ٹیس اٹھتی ہے۔ نیا قانون“ کے استاد منگو خاں کے جذبات کی پہلی منزل تو وہ ہے جب وہ ہندوستان میں نافذ ہونے والے جدید آئین کی خبر سن کر خوشی سے پھولا نہیں سماتا اور اس کا انجام یہ ہے کہ نیا قانون نافذ ہو جانے کے بعد بھی اس ایک گورے سے لڑنے کے جرم میں حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اس آغاز اور انجام کے درمیانی حصوں کو اس طرح پُر کرنا افسانے کا انجام پڑھنے والے کے لیے حددرجہ کرب انگیز بن جائے۔ منٹو کے فنی احساس کی پیدا کی ہوئی ترتیب اورتنظیم کا مظہر ہے۔ منٹو کے پاس معمولی سے معمولی بات کے اظہار کے لیے ایک غیر معمولی انداز موجود ہے۔ مثال ”نیا قانون“ کی ہے۔ استاد منگو نئے قانون کی خبر سن کر آیا ہے اور یہ خبر کسی دوسرے تک پہنچانے کے لیے بے قرار ہے۔ اتنے میں نتھو گنجا اڈے پرآتا ہے۔ منگو بلند آواز میں اس سے کہتا ہے: ”ہاتھ لاادھر، ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے۔ تیری اس گنجی کھوپڑی پر بال اگ آئیں۔“ منگو نے جب یہ بات کہی کہ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے تو یہ معمولی سی بات تھی لیکن یہ بظاہر معمولی ہونے والی بات منگو کے نزدیک بہت اہم تھی۔ منٹو نے منگو کے مزاج، اس کی ذہنی سطح او ر گنجے نتھو کی مختلف خصوصیتوں کو جمع کرکے ایک ایسا جملہ لکھا جو منگو کی ذہنی کیفیت کی پوری ترجمانی کرتا ہے۔ منگو کی جذباتی شدت کے اظہار کے لیے منٹو نے جو جملہ واضح کیا ہے، وہ منٹو کا منفرد رنگ ہے۔ ایک چلتے ہوئے غیر سنجیدہ فقرے کو ایک بے حد اہم اور گہرے مفہوم کا حامل اور ترجمان بنانا منٹو کے جدت پسند اسلوب کی ایک خصوصیت ہے۔ منٹو نے اپنے افسانوں میں سیدھے سادھے روزمرہ کی بول چال کے جملوں سے ایسی مثالوں اور تشبیہوں سے جو دوسروں کی نظر میں بالکل حقیر اور بے حقیقت تھیں اورایسے چلتے ہوئے فقروں میں سے جن میں سنجیدگی و متانت کا شائبہ تک نہیں ہوتا، گہری سے گہری، سنجیدہ سے سنجیدہ اور موثر سے موثر بات کہنے کا کام لیا ہے اور ہر جگہ اس سادگی اور عمومیت کو تصور آفرین، فکر انگیز اور خیال افروز بنایا ہے۔ پھر بھی بہت کم مقامات ایسے ہیں جنھیں پڑھ کر قاری کے دل میں یہ بات آتی ہو کہ دوسروں کے فکر اور تخیل کی شمع جلانے والے منٹو نے یہ باتیں کہنے کے لیے اپنے ذہن پر زور دیا ہے ۔ منٹو نے جو کچھ کہا ہے اس میں آورد نام کو نہیں ایک ایسی آمد ہے جو شخصیت کے زوراور اس کے بے لوث خلوص کی مظہر ہے۔ منٹو کے پورے اسلوب پریہی بے تکلفی اور بے ساختگی چھائی ہوئی ہے۔ اس کا پرتو ہمیں منٹو کی ان تشبیہوں میں بھی نظر آتا ہے جو اس کے ترکش فن کے بڑے جیدافگن تیر ہیں۔ ایسے تیروں کی منٹو کے ترکش میں کوئی کمی نہیں۔ بے شمار تشبیہوں میں سے چند پر نظر ڈال کر اندازہ لگائیے کہ منٹو کا ہمہ رنگ اور ہمہ صفت فن ان تشبیہوں میں سے کب کب اور کس کس طرح کام لیتا ہے۔ استاد منگو نے فوجی گوروں کے چہرے کا جو تصور پیش کیا ہے وہ کس قدر مکروہ اور گھناؤنا ہے:۔ ”ان کے لا ل جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آ جاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلی گل گل کر جھڑ رہی ہو۔“ (نیا قانون) منٹو کے دل میں (یا منٹو کے کسی کردار کے دل میں) کسی چیز ، کسی واقعہ یا شخص کا جو تصور ہے اسے دوسرے کے ذہن تک جوں کا توں پوری طرح منتقل کرنے کے لیے منٹو کے پاس الفاظ فقروں اور جملوں کی کمی نہیں۔ اسی طرح ان کا ذہن تازہ مشکل سے مشکل ذہنی اور جذباتی تجربہ کو اس کی مکمل نزاکتوں اور لطافتوں کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کے لیے ایسی تشبیہیں وضع کرلینے پر قادر ہے جن کی طرف کسی اور کا ذہن منتقل بھی نہیں ہوتا۔ یہی خصوصیت اوپر کی مثال میں ہے۔ منٹو جس طرح الفاظ اور جملوں کے ذریعہ محبت، نفرت ، حقارت، رشک، حسد ، خلوص، صداقت اور رحم و کرم کے احساسات میں قاری کو پوری طرح اپنا ہم نوا بنا سکتے ہیں اسی طرح تشبیہوں کی مدد سے اور اکثر بالکل معمولی معمولی تشبیہوں سے وہ ہر طرح کے احسا س اور جذبہ کو اس طرح جیتا جاگتا بناکر پڑھنے والے کے ذہن میں اتار دیتے تھے کہ وہ جذباتی طور پر اپنے آپ کو افسانہ نگار کے سپرد کر دیتا ہے۔ استاد منگو کی زبان سے ماروا ڑیوں کو غریبوں کی کٹیا میں گھسے ہوئے کھٹمل کہلوانے اور اس بات کو اس طرح مکمل کرنے میں کہ "نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا" منٹو کے فن کی یہ خصوصیت نمایاں ہے۔ "جب استاد منگو کی نگاہیں گورے کی آنکھوں سے چار ہوئیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں کی گولیاں خارج ہو ئیں اور آپس میں ٹکراکر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑگئیں۔" بندوقوں سے نکلی ہوئی گولیوں کی تشبیہہ میں کوئی نئی بات نہیں لیکن اس کے برمحل صرف نے ایک شدید احساس کو ایک واضح اور مڑی ہوئی شکل دے دی ہے۔ ایسی تشبیہیں جن میں یوں بظاہر کوئی نیا پن نہ ہو، دوسروں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتیں لیکن منٹو کا دور رس تصور ہمیشہ دو چیزوں میں موزوں ترین مشابہت تلاش کرکے اسے بڑی برجستگی سے صرف کرتا ہے اور ایک معمولی اور بظاہر بے حقیقت سی تشبیہہ ایک مکمل مفہوم کی حامل اور ایک گہرے تجربہ کی عکاس بن جاتی ہے۔ بندوقوں سے نکلی ہوئی گولیوں جیسی اور بہت سی سیدھی سادھی لیکن اپنے تاثر کے لحاظ سے اہم تشبیہیں منٹو کے ہر افسانہ میں قدم قدم پر ملتی ہیں۔ جمالِ فن اور منٹو جمال کیاہے؟'یا'حسن وجمال کیاہے؟کیاظاہری خوب صورت جمال 'یا'حس وجمال کانام ہے۔اگرنہیں تووہ کیا چیزیا"خوبی" ہے جسے ہم حس وجمال سے تعبیرکرسکتے ہیں۔لاشعورکی مددسے روح میں اتر کر انسانی "کرب 'اور'اذیت"کے اصل مرکز ومحورتک رسائی حاصل کرنا اوراسے اپنے جسم کی بھٹی میں کندن کرکے ایک "خوں کی بوند"میں تبدیل کردینا جوسرخ لال(موتی) بن کرچمکنے لگے۔جمال فن ہے۔اوریہی فن کی جمالیاتی دریافت کاعمل بھی ہے۔ بقول شکیل الرحمٰن" ٹریجیڈی منٹو کی تخلیقات کی روح ہے لہٰذا ٹریجیڈی کی جمالیات ہی کے ذریعہ منٹو کی بہتر دریافت ہو سکتی ہے۔”۔۔۔۔۔" ذاتی تجربہ ذاتی نہیں رہ جاتا اجتماعی شعور اور اجتماعی زندگی کی بھی نمائندگی کر نے لگتا ہے۔" حیات کش مکشِ ممات میں ہے۔اورحیات ہے ایک خوب صورت نوجوان عورت کی اورلیڈی ڈاکٹر کی سہولت میسر نہیں! وقت نہیں!(ہم ٹھہرے وضح دار! ادھر زیست کی ناؤ ہے!اُدھرامیدکاکنارہ ہے!کیا کیاجائے؟آپ کاسادہ ساجواب ہوگا،ڈاکٹر ،ڈاکٹر ہوتاہے اوورمڑیض،صرف مریض ہوتاہے۔تو جناب والا!ادب ،ادب ہوتاہے اورادیب ادیب ہوتاہے۔اب جب سرجن نے نشتر لگایا تو اندر سے کیسامواد نکلا'یا'نکلے یہ کون جاناتاہے؟ ایک اور مثال دیکھیے ایک معصوم کلی کونوچ لیاگیا۔ہزارکوشش کے باوجود 'شگوفہ'پھوٹ پڑا۔اب کیاکیجیے گا؟کیااس شگوفے کو مسل دیا جائے۔ یاکچرے کے ڈبے میں ڈال کر،ہم ایک اورکچرابابا تخلیق کرناچاہیں گے۔ (غلام عباس کاحوالہ دیناہے؟) توصاحب !منٹو ،صرف اتناقصور وار ہے۔کہ اس نے سب سے پہلے وہ شگوفہ دیکھا اوراس کااظہار(اعلان) کردیا۔اس کچرے کے ڈبے پرسب سے پہلے کرشن چندرکی نگاپڑی اور"کچرابابا"تخلیق ہوگیا۔کس کس کو الزام دیجیے گا۔بہتریہ ہے کہ اپنی تمام تر خامیوں اورکج رویوں کے ساتھ، ہم اپنے آپ کو قبول کریں۔تب کہیں جا کر "خاک کے پردے سے انسان نکلنے "کی امید کی جا سکتی ہے۔ منٹو کا ایک شہ کار افسانہ ہے"ٹوبہ ٹیک سنگھ"۔

               ’’بٹوارے  کے  تین سال بعد پاکستان  اور  ہندوستان کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں  کی طرح پاگلوں  کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے، یعنی جو مسلمان پاگل ہندوستان کے  پاگل خانوں  میں  ہیں  انھیں  پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو  اور  سکھ پاکستان کے  پاگل خانوں  میں  ہیں  انھیں  ہندوستان کے  حوالے  کر دیا جائے۔‘‘
               ’’ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے  ہر روز باقاعدگی کے  ساتھ ’زمیندار‘ پڑھتا تھا اس سے  جب اس کے  ایک دوست نے  پوچھا ’مولی ساب یہ پاکستان کیا ہوتا ہے ‘ تو اس نے  بڑے  غور و فکر کے  بعد جواب دیا۔‘‘
               ’’ہندوستان میں  ایک ایسی جگہ ہے  جہاں  استرے  بنتے  ہیں۔‘‘
               ’’ایک دن نہاتے  ہوئے  ایک مسلمان پاگل نے  ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ اس زور سے  بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا  اور  بے  ہوش ہو گیا۔‘‘
               ’’ایک پاگل تو پاکستان  اور  ہندوستان کے  چکر میں  کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ  اور  زیادہ پاگل ہو گیا، جھاڑو دیتے  دیتے  ایک دن درخت پر چڑھ گیا  اور  ٹہنی پر بیٹھ کر دو گھنٹے  مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان  اور  ہندوستان کے  نازک مسئلے  پر تھی، سپاہیوں  نے  اسے  نیچے  اُتر نے  کو کہا تو وہ  اور  اوپر چڑھ گیا، ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے  کہا۔
               ’’میں  ہندوستان میں  رہنا چاہتا ہوں  نہ پاکستان میں  میں  اسی درخت پر ہی رہوں  گا۔‘‘
               اسی پاگل خانے  میں  بشن سنگھ تھا جو پندرہ برس سے  یہیں  مقیم تھا سب اسے  ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کہتے  تھے، ہر وقت کھڑا رہتا، پاؤں  سوج گئے  تھے، پنڈلیاں  بھی پھول گئی تھیں  یہ سکھ پاگل ہر وقت بڑبڑاتا رہتا ’اوپڑی دی گڑگڑ دی، انیکس دی، بے  دھیانادی، منگ دی وال آف لالٹین ’کبھی‘ آف دی لالٹین کی جگہ آف دی پاکستان گورنمنٹ ہو جاتا  اور  بعد میں  آف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ ہو گیا۔
               وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہنے  والا تھا، پاکستان ہندوستان قضیہ شروع ہوا تو اس نے  دوسرے  پاگلوں  سے  پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہے  کہاں ؟
               تبادلے  کی تیاریاں  مکمل ہو چکی تھیں  اِدھر سے  اُدھر  اور  اُدھر سے  اِدھر آنے  والے  پاگل خانے  سے  ہندو سکھ پاگلوں  سے  بھری ہوئی لاریاں  پولیس کے  محافظ دستے  کے  ساتھ روانہ ہوئیں  واہگہ کے  باڈر پر طرفین کے  سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے  سے  ملے اور ابتدائی کار روائی ختم ہونے  کے  بعد تبادلہ شروع ہو گیا جو رات بھر جاری رہا، جب بشن سنگھ کی باری آئی  اور  واہگہ کے  اس پار افسر اس کا نام رجسٹر میں  درج کر نے  لگا تو اس نے  پوچھا ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کہاں  ہے ؟ پاکستان میں  یا ہندوستان میں ؟ افسر نے  کہا ’پاکستان میں۔‘‘
               یہ سن کر بشن سنگھ اُچھل کر ایک طرف ہٹا  اور  دوڑ کر اپنے  باقی ماندہ ساتھیوں  کے  پاس پہنچ گیا، اسے  بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان چلا گیا  اگر  نہیں  گیا تو اسے  فوراً وہاں  بھیج دیا جائے  گا، مگر وہ نہ مانا اس کو زبردستی دوسری طرف لے  جانے  کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں  ایک جگہ اس انداز میں  اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں  پر کھڑا ہو گیا جیسے  اب اسے  کوئی طاقت وہاں  سے  نہیں  ہلا سکے  گی۔ چونکہ بشن بے  ضر ر تھا اس لیے  مزید زبردستی نہ کی گئی اس کو وہیں  کھڑا رہنے  دیا گیا  اور  تبادلے  کا باقی کام ہوتا رہا۔
               سورج نکلنے  سے  پہلے  ساکت بشن سنگھ کے  حلق سے  ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ اِدھر اُدھر سے  کئی افسر دوڑے  آئے  دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں  پر کھڑا رہا تھا اوندھا منہ لیٹا ہے، اُدھر خاردار تاروں  کے  پیچھے  ہندوستان تھا۔۔۔ ادھر ویسے  ہی تاروں  کے  پیچھے  پاکستان۔۔۔ درمیان میں  زمین کے  اس ٹکڑے  پر جس کا کوئی نام نہیں  تھا ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا!

یہ افسانہ ایسانقش ہے جو موت کی چیخ کے ساتھ سینۂ کائنات پر ثبت ہو گیاہے۔نہ صرف حقیقت کی سطح پر بلکہ خیال(تجرید) کی سطح پر بھی ایساان مول ،ان مٹ اورامرنقش "خامہ انگش بدنداں ہے ،اسے کیاکہیے"۔منٹو ایسا جادوگرہے جو نہ صرف الفاظ کو نیامفہوم اورمعانی عطاکرتا ہے۔بلکہ خیالات کو ایساجمالیاتی مظہر عطاکرتا ہے۔کہ عقل محوِ حیرت،سوچ گنگ ہوجاتی ہے۔فن کارکاکمال یہ ہے کہ معاشرے میں بکھرے حقائق کواس طرح پیش کرے کی وہ تخیل اورتصور سے زیادہ حسیں بن جائیں اورحقیقت کادامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹے۔بلکہ وہ"افسانہ،کہانی،یا تخلیق "حقیقت کامعیار بن جائے۔ جوتحریرایساسحر رکھتی ہے۔شعور کودائرہ دردائرہ ایک گنبدمیں محبوس کر کے اپنے مطابق سوچنے پرمجبورکردیتی ہے۔ ادب کہلاتی ہےیاادب عالیہ کے نام یایادکی جاتی ہے یاآفاقی ادب کے نام سے موسوم ہوتی ہے۔ منٹونےوقت کی بھٹی میں خود کوکندن کرکے ایسا'چراغ'تخلیق کیاہے۔جس سے 'تخلیق'کاجن برآمدہواہے۔اب منٹومیں ایساتخلیقی اپج ہے۔جواپنے باطن میں ایسے زاویے اورزائچے رکھتاہے جوابھی تک قاری اورنقادپرظاہرنہیں ہوئے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کے تمام کردار انتہائی کرب واذیت کاشکار ہونے کے باوجود ایسے مزاح کی تخلیق کرتے ہیں۔جیسے شاید اب تک کوئی نام نہیں دیاجاسکا۔زیادہ سے زیادہ زہرناک یاطنزِ ملیح کہاجاسکتاہے۔لیکن یہ طنز روح کی چولیں ہلادیتاہے۔ہلکے پھلکے انداز میں کرداروں کاہر کام،ہرجملہ معمول کی کاروائی محسوس ہوتاہے۔ لیکن جوں ہی فیصلے کااطلاق ہوتاہے۔اور"ٹوبہ ٹیک سنگھ کولے جایاجاتاہے۔منظر خوناب ہوجاتاہے۔ایک 'پاگل'(جسے افسانے میں پاگل کہاگیاہے)،ایک دیوانہ اس تقسیم کوماننے پر تیارنہیں ہے۔اورزمیں کے ایک ایسے ٹکڑے پر بھاگ کھڑاہوتاہے۔جو نہ ہندوستان ہے،نہ پاکستان ہے۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئ نام نہیں تھا _ " اہم سوال یہ کہ اس پاگل کو یہ معلوم کیسے ہوا؟" "حیرت ،تجسس،کرب کاایسا باکمال مالاپ واظہار منٹو کے اس فن پارے کو آفاقیت عطاکرتاہے۔" خارجی حقائق ،کلیشے اور ہیولے بن کرادراکِ شعورپراترنے لگتے ہیں۔تخلیقی فن کار اپنے پارس قلم سے انھیں ان مول لال وجواہر میں بدل دیتاہے۔یہ لال وجواہردراصل وہ خون کی بوندیں ہیں جو احساس پر جم جاتی ہیں۔یوں غیرمعمومی تخلیق کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا۔ہردورمیں اس کی نئی تعبیروتفہیم کی جاتی ہے۔ اورمنٹوکی تفہیم کا سلسلہ بھی ناختم ہونے والاہے۔ فن کار(منٹو)نے اس سے ایسے رنگ نکالے ہیں جوصد رنگ ہیں۔اک غیر محسوس سی اطمینان کی لہر کے ساتھ ساتھ روح ایک ایسے کرب میں بھی مبتلارہتی ہے۔جواچانک کسی عظیم المیہ کوجنم دیتاہے۔خواب اورخوف کی اس لازوال کسک کے ساتھ افسانہ اتتام پذیرہوتاہے۔ 'ہم نے تودل جلاکے سرِعام رکھ دیا'۔