صارف:Qasir tanoli/تختہ مشق

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
بہادر بابا کھمیاں 
حالات زندگی

نام و نسب:

                  بہادر بابا کا اصل نام بہادر خان ہے جبکہ آپ بہادر بابا کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ آپ کے والد کا نام محاذ اللہ بن نماش بابا بن باغ بابا ہے۔ آپ کا تعلق قوم تنولی کے تپہ پلال کی خیل "متیال" سے ہے جو کہ سلطان امیر محمد خان تنولی کے فرزند بابا پال خان کے تیسرے بڑے بیٹے و روحانی شخصیت بابا متولی خان کی اولاد سے ہیں۔ آپ کی لڑی کے مزید آباء و اجداد تک رسائی نہ ہو سکی۔¹
پیدائش:
                آپ کی پیدائش کا یقینی سال معلوم نہ ہو سکا لیکن قرائن و مشاہدات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ انیسویں صدی کے وسط تقریبا 1850ء کی دہائی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا مقام پیدائش ریاست امب میں اپر تناول کا مشہور گاؤں کھمیاں ہے، جہاں بڑی تعداد میں متیال قوم آباد ہے۔ آپ کا خاندانی پیشہ کھیتی باڑی اور جنگلی جانوروں کا شکار وغیرہ تھا۔ 

اولاد:

         بہادر بابا کے سات بیٹے تھے۔ جن میں سپو خان، شیر زمان خان، عبد الطیف خان، جلال خان، سمندر خان، راج ولی خان اور صفدر علی خان المعروف صبدلی خان شامل ہیں۔ آپ کی اولاد در اولاد اس وقت مختلف موضعوں بالخصوص کھمیاں، شرہوٹہ، کھڈیاں، سہرہ گلی، نرگالہ اور انکے ملحقہ علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ آپ کی اولاد در اولاد کے کم و بیش 2 ہزار افراد اس وقت بھی انہی علاقوں میں باقید حیات ہیں۔ کئی خاندان اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں بھی رہائش پذیر ہیں۔

خاندان کی تفصیل:

                          آپ نہایت ہی اعلی شخصیت کے مالک تھے، آپ بہت بڑی جاگیر کے مالک تھے جو کہ کئی مربعوں پر پھیلا ہوئی تھی ۔ کھمیاں، سہرہ گلی، نرگالہ اور انکے مضافات کا ایک بہت بڑا حصہ آپ کی ملکیت میں شامل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے صاحبزادگان ان بالخصوص تینوں علاقوں میں بٹ گئے تھے۔

آپ کے صاحبزادہ سپو خان نے موضع نرگالہ کو اپنا مسکن بنایا جبکہ صفدر علی خان المعروف صبدلی بابا نے سہرہ گلی کو، شیر زمان بابا نے کھڈیاں کو اور بقیہ بیٹوں نے کھمیاں و شرہوٹہ ہی کو اپنی مسکن اور رہائش گاہ اختیار کیا۔ ان تمام بزرگوں کی اولاد در اولاد آج بھی انہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔

ریاست امب: آپ کی زندگی کے اوائل حصہ میں ریاست امب کا نواب محمد اکرم خان اور پھر 1906ء میں اسکی وفات کے بعد اس کا بیٹا نواب خانیز مان حکمران بنا تھا جبکہ 1936ء میں اس کی وفات کے بعد نواب زادہ فرید خان تنولی جو کہ اس کا بڑا بیٹا تھا وہ ریاست امب کا حکمران مقرر ہوا تھا اسی لئے آپ کی زندگی کے آخری سال میں نواب زادہ فرید خان تنولی ریاست امب کا حکمران تھا جس نے 1948ء میں ریاست امب کا ابتدائی الحاق پاکستان کے ساتھ کیا تھا اور پھر بعد میں یہ ریاست 1969ء کو پاکستان کے ساتھ بلکلیہ ملحق ہو گئی اور اس کی ریاستی حیثیت بھی ختم کر دی گئی تھی۔ آپ نواب زادہ کے بڑے قریبی دوست تھے، اور اس کے ہاں آپ کو بڑی عزت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر نواب کے ساتھ رہتے تھے، اور بارہا نواب آپ کو اپنے ساتھ شکار کےلیے لے جاتے تھے۔ 1920ء کی آپ کی ایک تصویر منظر عام پر آئی، جس میں آپ نواب دریا ڈوگہ نواب زادہ حیدر زمان تنولی کے ساتھ کسی شکار کے موقع پر موجود ہیں۔ اسی طرح آپ کے بعد آپ کے بیٹوں کا بھی نواب کے خاندان سے بڑا گہرا تعلق رہا۔

بہادری کے قصہ:

                        آپ جرات مندی میں بھی مشہور تھے۔ آپ نے کئی لشکروں میں بھی حصہ لیا، آپ کے ۔ آپ کے دور میں ہی تنولی قوم نے انگریزوں اور سکھوں کے خلاف نافرمانی کی تحریک چلائی اور انگریزوں کی ہزارہ پر حکومت کے دعوی کو مسترد کر دیا تھا، اور اپنی خود مختار ریاستوں کے قیام کا اعلان کیا تھا، جن میں ریاست پھلڑہ اور ریاست امب سرفہرست ہیں، آپ ایک واقعہ بھی بہت مشہور ہے کہ ایک مرتبہ مجاہدین کے ایک لشکر کے ساتھ آپ بھی  دشمنوں کے ساتھ جنگ کےلیے روانہ ہوئے، مدمقابل دشمنوں کی صف میں ایک پہلوان ایسا تھا کہ جو کسی سے زیر نہ ہوا اس پر لشکر کے امیر جو اس وقت کا نواب تھا، اس نے اس کے سر کی قیمت مقرر کر دی اور اعلان کردیا کہ جو اس کو قتل کرے گا وہ انعام کا حقدار ہو گا، جب گھمسان کا معرکہ ہوا تو اس میں وہ پہلوان مارا گیا، انعام کی لالچ میں کئی لوگ سامنے آ گئے کہ اس کو ہم نے قتل کیا بالآخر فیصلہ کےلیے یہ بات طے ہوئی کہ جو اس کے قتل کی نشانی پیش کرے گا، وہی اس کے قتل کا سہرہ اپنے سر سجائے گا۔ چونکہ اس کو بہادر بابا نے قتل کیا تھا اور آپ اس پر نشانی بھی لے کر آئے تھے تو اسی وقت آپ نے اپنی جیب سے اس کے کٹے ہوئے کان نکال کر دکھائے اور جب اس مقتول کو دیکھا گیا تو واقعة  اس کے کان کٹے ہوئے تھے، اس بہادری پر آپ کو انعام بھی دیا گیا تھا۔

وفات:

           بہادر بابا قیام پاکستان سے 11سال قبل 1936ء میں اس جہاں فانی سے رخصت ہوئے، ایک اندازے کے مطابق آپ کی عمر تقریبا 90 سال ہوئی۔ آپ اپنے آبائی گاؤں کھمیاں میں متھا کے قبرستان میں مدفون ہیں۔