مسعر بن کدام

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مسعر بن کدام
معلومات شخصیت
پیدائشی نام مسعر بن کدام ہلالی
تاریخ وفات سنہ 722ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کنیت ابو سلمہ
عملی زندگی
نسب ہلالی
ابن حجر کی رائے ثقہ ثبت فاضل
ذہبی کی رائے اِمام ثبت

مسعر بن کدام کا شمار زمرہ تبع تابعین کے محدثین میں ہوتا ہے۔

نام و نسب[ترمیم]

نام مسعر اور کنیت ابو سلمہ ہے۔ نسب نامہ یہ ہے: مسعر بن کدام بن ظہیر بن عبید اللہ بن حارث بن عبد اللہ بن عمرو بن عبد مناف بن ہلال بن عامر بن صعصہ قرشی عامری۔

فضل و کمال[ترمیم]

مسعر علمی اور مذہبی دونوں کمالات کے اعتبار سے ممتاز تبع تابعین میں تھے۔ یعلی بن مرہ کا بیان ہے کہ مسعر کی ذات علم اور ورع دونوں کی جامع تھی۔[1] عراق میں ان کے پایہ کے علما کم تھے۔ ہشام بن عروہ کا بیان ہے کہ عراقیوں میں مسعر اور ایوب سے افضل ہمارے یہاں کوئی نہیں آیا[2] یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں کہ ان کی جلالت پر سب کا اتفاق ہے۔[3]

حدیث[ترمیم]

حدیث کے وہ اکابر حفاظ میں سے تھے۔ شمس الدین ذہبی انھیں حافظ اور علمائے اعلام میں لکھتے ہیں،[4] ان کے حافظہ میں ایک ہزار حدیثیں محفوظ تھیں۔[4]

حدیث میں انھوں نے عمرو بن سعید نخعی، ابو اسحاق سبیعی، عطاء معن، سعید بن ابراہیم، ثابت بن عبد اللہ انصاری، عبد الملک بن نمیر، بلال بن جناب، حبیب بن ابی ثابت، علقمہ بن مرثد، قتادہ، معن بن عبد الرحمٰن، مقدام بن شریح اور سلیمان بن مہران اعمش وغیرہ ایک کثیر جماعت سے استفادہ کیا تھا۔[5]

ان کی روایات کی صحت کے لیے یہ کافی ہے کہ شعبہ بن حجاج جیسے محدث نے انھیں مصحف[4] کہتے تھے ان کی ذات احادیث کی جانچ کے لیے معیار تھی میزان ان کا لقب ہو گیا تھا۔[2] کم ایسے محدثین ہوں گے جن کی مرویات پر کسی نہ کسی حیثیت سے تنقید کی گئی ہو لیکن مسعر کی ذات اس سے مستثنیٰ تھی۔[2] ائمہ حدیث شک اور اختلاف کے موقع پر ان کی طرف رجوع کرتے تھے، سفیان ثوری کا بیان ہے کہ جب لوگوں میں (حدیث کی) کسی چیز کے بارے میں اختلاف ہوتا تھا تو مسعر سے پوچھتے تھے۔[3] ابراہیم بن سعد کہتے تھے کہ جب سفیان اور شعبہ میں کسی حدیث کے بارے میں اختلاف ہوتا تو میزان یعنی مسعر کے پاس جاتے تھے۔[1]

اس محدثانہ کمال کے باوجود وہ روایت حدیث میں بڑے محتاط تھے اس ذمہ داری سے وہ اس قدر گھبراتے تھے کہ فرماتے تھے کہ ”کاش حدیثیں میرے سر پر شیشوں کا بار ہوتیں کہ گر کر چُور چُور ہو جاتیں۔“[1] ان کی احتیاط شک کے درجہ تک پہنچ گئی تھی، ابو نعیم کا بیان ہے کہ ”مسعر اپنی احادیث میں بڑے شکی تھے لیکن وہ کوئی غلطی نہ کرتے تھے۔“ سلیمان بن مہران اعمش کہا کرتے تھے کہ ”مسعر کا شیطان ان کو کمزور کر کے شک دلاتا رہتا ہے۔“[2] ان کے اس شک نے ان کی احادیث کا درجہ اتنا بلند کر دیا تھا کہ محدثین ان کے شک کو یقین کا درجہ دیتے تھے۔ سلیمان بن مہران الاعمش سے بعض لوگوں نے کہا کہ مسعر اپنی حدیثوں میں شک کرتے تھے، انھوں نے کہا ان کا شک اوروں کے یقین کے برابر ہے۔[4]

فقہ[ترمیم]

فقہ میں گو کوئی قابل ذکر شخصیت نہ تھی تاہم کوفہ کے صاحب افتا جماعت میں تھے۔[6]

حلقہ درس[ترمیم]

مسجد میں حلقہ درس تھا، عبادت کے معمولات کے بعد روزانہ مسجد میں بیٹھ جاتے تھے اور شائقینِ علم حدیث اردگرد حلقہ باندھ کر استفادہ کرتے تھے۔[7]

زہد و عبادت[ترمیم]

ان کی ماں بڑی عابدہ خاتون تھیں۔ ان کے فیض ترتیب کا مسعر پر بڑا گہرا اثر پڑا تھا، ان کی والدہ بھی مسجد میں نماز پڑھتی تھیں اکثر دونوں ماں بیٹے ایک ساتھ مسجد جاتے، مسعر نمدہ لیے ہوتے تھے۔ مسجد پہنچ کر ماں کے لیے نمدہ بچھا دیتے جس پر کھڑے ہو کر وہ نماز پڑھتیں، مسعر مسجد کے دوسرے حصہ میں نماز میں مشغول ہو جاتے، نماز تمام کرنے کے بعد ایک مقام پر بیٹھ جاتے اور شائقینِ حدیث آکر جمع ہو جاتے، مسعر انھیں حدیثیں سناتے اس درمیان میں ان کی ماں عبادت سے فارغ ہو جاتیں مسعر درس ختم کرنے کے بعد ماں کا نمدہ اٹھاتے اور ان کے ساتھ واپس گھر آتے، ان کے صرف ٹھکانے تھے گھر یا مسجد۔[8] کثرتِ عبادت سے پیشانی پر اونٹ کے گھٹے کی طرح نہایت موٹا گھٹا پڑ گیا تھا۔[9] روزانہ شب کو نصف قرآن تمام کر ڈالتے تھے۔ ان کے بیٹے محمد بن مسعر کا بیان ہے کہ والد آدھا قرآن ختم کیے بغیر نہ سوتے تھے۔[1] تلاوت قرآن ختم کرنے کے بعد چادر لپیٹ کر سو جاتے، ایک ہلکی سی جھپکی لینے کے بعد پھر اس طرح چونک پڑتے جیسے کسی کی کوئی چیز کھو گئی ہو اور وہ پریشان ہو کر اس کی تلاش کر رہا ہو، اُٹھ کر وضو اور مسواک کرتے پھر نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت ہو جاتا تھا مگر اس عبادت و زہد کو انتہائی مخفی رکھتے تھے۔[10]

وفات[ترمیم]

باختلافِ روایت 152ھ یا 155ھ میں کوفہ میں وفات پائی۔[1] مرض الموت میں سفیان ثوری جو خود صاحب زہد و اتقا تھے، ملنے گئے تو دیکھا کہ مسعر پر گھبراہٹ اور رقت طاری ہے، بولے آپ کے اوپر موت کی گھبراہٹ طاری ہے حالانکہ میں تو ہر وقت موت کے لیے تیار رہتا ہوں اور اس وقت بھی تیار ہوں۔ مسعر نے حاضرین سے کہا کہ ان کو بٹھاؤ، سفیان ثوری بیٹھ گئے اور پھر وہی بات دہرائی، مسعر بولے کہ آپ کو اپنے اعمال پر اعتماد ہے اس لیے مطمئن ہیں مگر میری کیفیت تو یہ ہے کہ میں اپنے کو ایک پہاڑ کی چوٹی پر سمجھتا ہوں اور نہیں جانتا کہ یہاں سے کس طرح اور کہاں گرایا جاؤں گا۔ یہ پر درد الفاظ سن کر سفیان ثوری کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں اور فرمایا کہ آپ مجھ سے بھی زیادہ خدا سے ڈرنے والے ہیں۔[10]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. ^ ا ب پ ت ٹ تذکرۃ الحفاظ از شمس الدین ذہبی، ج 1، ص 170
  2. ^ ا ب پ ت تہذیب التہذیب از ابن حجر عسقلانی، ج 10، ص 114
  3. ^ ا ب تہذیب الاسماء واللغات از یحییٰ بن شرف نووی، ج 1، ص 89
  4. ^ ا ب پ ت تذکرۃ الحفاظ از شمس الدین ذہبی، ج 1، ص 169
  5. تہذیب التہذیب از ابن حجر عسقلانی، ج 10، ص 113
  6. اعلام الموقعین از ابن قیم جوزیہ ص 28
  7. الطبقات از ابن سعد، ج 6، ص 1053
  8. الطبقات از ابن سعد، ج 6، ص 353
  9. الطبقات از ابن سعد، ج 6، ص 354
  10. ^ ا ب صفۃ الصفوۃ از ابو الفرج ابن جوزی، ج 3، ص 72