مفتی محمد ہاشم سندھی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مفتی محمد ہاشم بن عبد المجید!  نواب شاہ کے متوسط گھرانے میں 17 جولائی 1983ء میں پید ا ہوئے ، آپ کے آباء و اجداد  راجستھان (انڈیا)سے ہجرت کرکے1947ءمیں پاکستان آئے ، تعلیمی سفر کی ابتدائی منازل آبائی شہر(نواب شاہ) میں ہی طے کیں، فطری طور پر ہی دینداری کی طرف مائل تھے اسی لیے میٹرک تک دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حیدرآبادکی ایک مشہور و معروف دینی وروحانی درسگاہ(رکن الاسلام) ([1]سے منسلک ہو گئے جہاں دینی وروحانی علوم کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی میسرتھی شب وروز کی انتھک محنت، مقتدرومحترم اساتذہ کی تربیت وشفقت ایک دن رنگ لائی کہ جب انھوں نے انٹر میڈیٹ ، بی اے کی اسناد جامعہ رکن الاسلام سے حاصل کیں۔

مگر’’ہنوز دلی دور است‘‘ والی بات قائم تھی طلب علم کی شمع ابھی فروزاں تھی  (هل من مزيد)كی سوزش دامن گیرتھی جس کی تشفی کے لیے والدین سے مزیدکچھ عرصہ دوررہناپڑایہاں تک کہ 2007ء میں اسی جامعہ سے ایم اے عربی اور اسلامیات کی اسناد بھی حاصل کیں، علوم وفنون کے گوہرسمیٹتے ہوئے ملک کے معروف شہر عروس البلاد کراچی میں وارد ہوئے اور یہاں علوم اسلامیہ کی عظیم درسگاہ دار العلوم نعیمیہ کے مستند  و جیدعلماءکرام کی خدمت میں زانوتلمذتہہ کیے اور ان کے فیوض وبرکات سے مستفیض ومستفیدہوتے ہوئے2008 میں’’الشہادۃ العالمیہ‘‘ (درس ِنظامی)کی سند حاصل کی، اسی کے ساتھ کراچی بورڈ سے علوم شرقیہ کے امتحانات امتیازی حیثیت سے پاس کیے۔

مشفق ومکرم اساتذہ کرام کی ہدایات کے مطابق ملک کے دار الحکومت اسلام آبادکا سفرکیا اور 2008ء میںInternational Islamic Universityمیں دوسال زیرتعلیم رہنے کے بعد عربک ایڈوانس (عربی ادب)کی سند حاصل کرتے ہوئے واپسی کے لیے رختِ سفرباندھااورکراچی آگئے۔والدین کی زیارت ومزاج پُرسی کے بعد ایک بارپھرکراچی تشریف لائے، یہاں آکر آپ اکابرین اہل سنت کے اکتساب علم  سے بہرمندہوئے ان اکابرین میں چند مشہورشخصیات یہ ہیں:

٭۔ مفتی  محمداطہر نعیمی ﷾             ٭۔علامہ غلام رسول سعیدی﷫           ٭۔ علامہ جمیل احمد نعیمی  ﷾ٍ         

٭۔مفتی منیب الرحمٰن  ﷾                  ٭۔مفتی محمدابوبکر صدیق الشاذلی  ﷾           ٭۔ مفتی احمد علی سعیدی  ﷾

عملی زندگی کا آغاز المقصود انسٹی ٹیوٹ فار اسلامک اینڈ ماڈرن سائنسزمیں بطور لیکچرار کی تقرری سے کیا۔ دوبرس تک القائم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن (راولپنڈی) میں بطور ریسرچ اسکالر خدمات سر انجام دیں۔

بعد ازاں اپنا تحقیقی ادارہ ’’دی اسلامک ریسرچ سینٹر‘‘قائم کیا جس میں اسلامی موضوعات پر مبنی کتب کی پروف خوانی ، تحقیق وتخریج کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف  کے کام  کا آغاز کیا۔ اس دوران شہر کراچی میں سیرت النبی ﷺ کے عظیم الشان موضوع پر(  100 )سو جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا کے عظیم کام پر قائم کیے گئے ادارے DBF’’سیرت  ریسرچ سینٹر، کراچی‘‘ میں ہیڈ آف ریسرچ  کی ذمہ داری تفویض کی گئی ، جسے آپ نے اپنی تمام تر صلاحتیں بروئے کار لاکر بحسنِ وخوبی اعلیٰ معیار کے ساتھ بروقت ادا کیا۔ مختصر مدت میں 1000 صفحات پر مشتمل پہلی جلد  بنام ’’کتبِ مقدسہ میں نبی کریم ﷺ کی بشارات“ منظر عام پر لے آئے ، مزید 2 جلدوں کا تحقیقی کام مکمل کرکے اس ادارے کو خیرآباد کہا۔

اس کے ساتھ ساتھ روزنامہ ’’امت‘‘اور روزنامہ ’’ایمان‘‘ (کراچی)،ماہ نامہ ’’مراۃ العارفین‘‘  (لاہور)، ماہ نامہ ’’رکن الاسلام‘‘ (حیدرآباد) کے لیے آپ کے کالم اورمضامین لکھنے کا سلسلہ جاری ہے، اس کے علاوہ  آپ کئی کتب کے تراجم (مع تحقیق وتخریج)کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آپ کے مطبوعہ وغیر مطبوعہ کام کی تفصیل درجِ ذیل ہے:

ترجمہ و تحقیق وتخریج:

موسوعة الامام المهدي  (امام مہد ی انسائیکلوپیڈیا):

” دی اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی “کے ریسرچ پینل نے تصورِ امام مہدی   پر ایک تحقیقی منصوبہ بنام” موسوعة الامام المهدي “کے تحت امام مہدی پر پچاس  (50)جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا شائع کرنے کا پروجیکٹ تشکیل دیاہے۔جس کی  اجمالی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ کم وبیش (1200)بارہ سوسال میں جوتصور مہدی  پر احادیثِ نبوی ﷺ پر مبنی علمائے اسلام بالخصوص اہل سنت والجماعت کے علمائے کرام کی جو کتب اصل قدیم مخطوطات (قلمی نسخے)دستیاب ہیں انھیں اردو ،انگریزی،عربی اور دنیا کی دیگر اہم زبانوں میں شائع کیے جائیں۔

بحمدہ تعالیٰ اسی سال 2018ء میں اس پروجیکٹ”موسوعة الامام المهدي “ (امام مہد ی انسائیکلوپیڈیا) کی دو جلدیں بنام ”معرفت امام مہدی “ اور ”فکر امام مہدی “منظر عام پر آچکی ہیں اور قارئینِ تحقیق سے بھر پور پزائی حاصل کرچکی ہیں ۔ اب اس پروجیکٹ کی  تیسری جلد بنام ”بشارات امام مہدی“  اور چوتھی جلد بنام ”ذکر امام مہدی  “آچکی ہیں ۔

جو ” دی اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی “کے چیئر مین سید عامر حسین اور پروجیکٹ”موسوعة الامام المهدي “ (امام مہد ی انسائیکلوپیڈیا) کے ڈائرکٹر قبلہ مفتی محمد ہاشم کی خداد صلاحیتوں کی بین دلیل ہے کہ ایک سال کے مختصر سے عرصہ میں انسائیکلوپیڈیا کی چار(4)جلدیں منظر عام پر قارئین کے ہاتھوں تک پہنچانا۔ اللہ پاک مزید اضافہ فرمائے۔

1۔       معرفت امام مہد ی﷤(مطبوعہ)

آمدامام مہدی ﷤علامات قیامت میں سے ایک ہے جس طرح نزول عیسی﷤ اس علامت بابرکت کی معرفت بھی باعث برکت وراحت ہے۔آپ﷤کے متعلق جواحادیث وارد ہوئیں مفتی محمد ہاشم ﷿نے ان کی روشنی میں آپ﷤کی پہچان واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آپ ﷤کی آمدکے متعلق مدلل کلام کیاہے جو خوداپنی مثال آپ ہے۔

2۔       العرف الوردی (فکر امام مہدی ) امام سیوطی﷫(مطبوعہ)

روئے زمین پرکوئی ایساصحیح العقیدہ مسلمان نہیں ملے گاجومحمدبن عبد اللہ المعروف امام مہدی﷤کی آمدپرایمان نہ رکھتاہو۔امام مہدی ﷤کی شخصیت وظہور پرہرعہد میں کئی علماءکرام نے قلم آزمائی کی ہے،جن میں محدث ومفسر امام جلال الدین السیوطی ﷫ بھی ایک ہیں۔آپ نے امام مہدی کے موضوع پر ایک معرکہ آرا کتاب بنام ’’العرف الوردی فی اخبار المہدی‘‘ تصنیف فرمائی، جو اس موضوع پر مآخذ ومرجع کا درجہ رکھتی ہے، امام زمانہ کی آمدبرحق کا انتظارکرنا بھی باعث برکت ہے کیونکہ کہ رحمت وبرکت کامنتظر رہنے کامطلب ہوتاہے بندہ اللہ سبحانہ وتعالی کی رحمت سے مایوس نہیں بلکہ متیقّن ہے کہ اس کی رحمت اب آئی ہی چاہتی ہے۔یہی وہ فک رہے جس کی ترغیب امام سیوطی ﷫ دلاتے ہوئے نظرآتے ہیں اوراس کی صداقت میں کئی حدیثیں بطوردلیل کے جمع کرتے ہیں۔اس کارخیر میں محترم مفتی محمدہاشم﷿نے بھی اس تصنیف لطیف کا ترجمہ کرکے اپناحصہ شامل کر دیا۔اللہ سبحانہ وتعالی ان کی سعی وکوشرف قبولیّت عطافرمائے۔

3۔       بشارات امام مہدی:

موسوعة الامام المهدي  (امام مہد ی انسائیکلوپیڈیا) کی یہ تیسری جلد ہے ، جس میں اکابرین اسلام بالخصوص اہل سنت مکتب فکر کے سلف وصالحین کی کتب مہدویہ موجودہے ۔ اور یہ ترتیب زمانی کے مطابق دوسری ہجری کے اکابرین امت کی  کتب  و اجزاء کتب حدیث کو شامل کیا گیا ہے ،جو کہاس موضوع پر ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔

4۔       ذکرامام مہدی:

موسوعة الامام المهدي (امام مہد ی انسائیکلوپیڈیا) کی یہ چوتھی جلد ہے ، جس میں اکابرین اسلام بالخصوص اہل سنت مکتب فکر کے سلف وصالحین کی کتب مہدویہ موجودہے ۔ اور یہ ترتیب زمانی کے مطابق  تیسری ہجری کے اکابرین امت کی کتب  و اجزاء کتب حدیث کو شامل کیا گیا ہے ،جو اس موضوع پر ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔

5۔       السیرۃ النبویہ  (سیرت رسول) امام ابن کثیر﷫ (غیر مطبوعہ)

حضورنبی اکرمﷺ کی سیرت مطہرہ پرلکھی گئی یہ کتاب امام ابن کثیر کی تألیفات میں سے ایک عظیم شاہکا رہے۔اس کی اہمیت وعظمت کا اندازہ یوں لگایاجاسکتاہے کہ کوئی بھی صاحب ذوق جب سیرتِ مطہرہ کے مطالعہ کاارادہ کرتاہے تودیگرکتب کے ہونے کے باوجوداس کتاب کونظراندازنہیں کرپاتا،برصغیرپاک وہندکے عام لوگ چونکہ عربی زبان سے مکمل آگہی نہیں رکھتے چنانچہ وہ دانستہ طورپراس کے ترجمہ تک رسائی کا سوچتے ہیں۔کتب بیں حضرات کی آسانی اورسیرت نبویﷺ کے فروغ واشاعت کے ارادے سے مفتی محمد ہاشم﷾نے اس مبارک کتاب کواردوزبان کے قالب میں ڈھال کرسیرت رسول اکرمﷺ کانورعام کردیاہے۔نہایت سلیس اورعام فہم ترجمہ نے اسے نہ صرف اہل علم بلکہ سطحی علم رکھنے والے عام لوگوں کے لیے بھی آسانی پیداکردی ہے۔

6۔       محک الفقر  (درویشوں کی پہچان) سلطان باہو﷫ (مطبوعہ)

نیکی وبدی کی جنگ توازل سے چلی آرہی ہے اورہرزمانہ میں اللہ تعالی کے برگزیدہ بندوں نے نیکی وبدی کافرق واضح کرکے خلق خداکی حمایت وہدایت کاسامان مہیا کیاہے۔سلطان العارفین سلطان باہو﷫ نے بھی اپنے زمانہ میں عطیہ ربانی علم لدنی کی بدولت عربی وفارسی زبان میں یہ کتاب (سچ وجھوٹ، اچھے وبرے میں فرق کرنے والی)محک الفقرکے نام سے تحریرفرمائی۔چونکہ یہ گئے وقتوں کی بات ہے جب زبانِ عربی وفارسی سے کسی حدتک قارئین کتب مانوس ہواکرتے تھے مگرآج کے قاری تواردوزبان سے بھی نابلد ہوتے جا رہے ہیں(جو بلاشبہ کسی قومی المیہ سے کم نہیں)۔سچوں اورسچ کاراستہ دکھانے والی،جھوٹوں اوربدی کی پہچان کرانے والی اس دُرِنایاب کتاب کواگرمحفوظ نہ کیا گیا توخلقِ خداایک دولت علمی سے محروم ہوجائیگی۔ہرزمانے کی طرح اس زمانہ میں بھی کئی قسم کے جھوٹے اورجھوٹ نمودارہو رہے ہیں، دھوکے باز، مکار،فریبی اورطرح طرح کے لوگ مختلف  دجالی لبادوں میں خلقِ خداکی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاکرمعاشرے کوپراگندہ کیے جا رہے ہیں۔ایسے میں ان پریشان حالوں کے درد والم کا مداویٰ کیسے ممکن ہو؟ان کی پیاسی روحوں کوآبِ شفاکی نعمت کیسے نصیب ہو؟جو برگزیدہ بندوں کی دعاؤں سے برساکرتاہے۔خلق خدا کی بے بسی اورحالتِ زارکے پیش نظرمفتی محمدہاشم﷾ نے اس کتاب کاانتخاب کیا جویقیناًان بے کسوں کے لیے آبِ شفاسے کم نہیں۔انھوں نے اس کتاب کاترجمہ کرنے  کے ساتھ ساتھ اس میں مذکورہ احادیث مبارکہ پر بھی سیرحاصل گفتگوفرمائی ہے۔اس کتاب کا مطالعہ ہرشخص کو اس قابل بنادے گاکہ وہ ازخودنیکی وبدی کی پہچان کرسکے اورڈھونگ رچانے والے فریبیوں  دجالیوں سے محفوظ رہ سکے۔کیونکہ اس کے پڑھنے کے بعداسے ایک میزان اورکسوٹی مل جائے گی جس سے وہ خوداپنے نفس کی بھی خبرلے سکتاہے۔

7۔       افکار مدار(سترھویں شریف) بابا حیدر شاہ ارغونی﷫(مطبوعہ)

600برس کے قریب زندہ رہنے والے سراپائے کرامت اللہ تبارک وتعالی کے ولی کی حیات طیبہ،مواعظ حسنہ،ارشادات روحانیہ پرمشتمل یہ کتاب جو فارسی وعربی زبان میں لکھی گئی تھی گذشتہ کئی سالوں سے نہیں بلکہ کئی صدیوں سے اس عظیم برگزیدہ ہستی کی رعنائیوں کوسمیٹے گوشہ گمنامی کاشکارہوگئی تھی جس کی بہت سی وجوہات میں سے اس کا اردوزبان کے علاوہ میں ہونا ہے جبکہ اس کا مقام برصغیر کی اس برگزیدہ ہستی کے پیروکاروں کے درمیان مصدرومرجع کاہے مگر وقت وحالات کی ستم ظریفی کہ اس مبارک ہستی کے پردہ شہودسے چھپ جانے پرمخالفین کی طعن آمیزفضامیں یہ سلسلہ ماضی کے گرداب میں ڈوب گیا،کسی نے اس کو سوختہ کہا تو کسی نے سرے سے انکارکالبادہ اوڑھ لیا،اس کی بنیادی وجہ وہ کرامات تھیں جو اس کے ادنی فقیروں سے ظاہرہوتی تھیں، یہ فقراء اکثرعالم نہ ہوتے بلکہ سینہ بہ سینہ حاصل کیے ہوئے علم کے محافظ ہوتے تھے۔الغرض قبلہ مفتی محمدہاشم صاحب نے اس کتاب کاترجمہ فرماکرصدیوں پرانے سلسلہ طریقت اورصاحب سلسلہ کی سوانح حیات میں نئی روح پھونک دی ہے۔ساتھ ہی اس سلسلہ کے شکستہ دل فقیروں کی دلجوئی کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔

8۔       افضل الصلاۃ (درودوں کی سوغات ) امام محمد اسحاق﷫(مطبوعہ)

عاشقان مصطفیﷺ کے لیے انمول تحفۂدرود۔امام محمد اسحاق﷫کی قلمی عرق ریزی اوربارگاہ رسالت مآبﷺ میں دلی کیفیات وجذبات کی عکاسی کے اس حسین مظہرکو قبلہ مفتی محمد ہاشم﷾نے ترجمہ کرکے عشّاق کے لیے معشوق سے قربت کا راستہ مختصر کردیااللہ تبارک وتعالی قبلہ مفتی صاحب کو شفیع محشر،سرورکونین ﷺ کے لواء حمدکاسایہ نصیب فرمائے۔  

9۔       تلبیسِ ابلیس(شیطانی دھوکے)امام ابن جوزی﷫(مطبوعہ)

تخلیقِ آدم ﷤سے لے کرعصر حاضرتک ابلیسِ مطرود(شیطان)کی فریب کاریاں جاری ہیں۔کوئی لمحہ،کوئی مقام اورکوئی نفس(انسان)ایسانہیں جس میں شیطان کی مکاریاں دخل اندازانہ ہوتی ہوں سوائے رمضان المبارک کے بابرکت مہینے کے۔چونکہ باری تعالی نے اسے مؤمنین کے لیے عدومبین(کھلادشمن) قراردیاہے اس لیے مؤمنین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس کے حیلے بہانوں کوپہچان کر اس سے اجتناب کریں اورجوہر انسان (عقل) کوبروئے کار لاتے ہوئے ان کے انسدادوتدارک کی کاوش کریں۔امام ابن جوزی﷫ کے مزارپُرانوارپراللہ رب العزت کی کروڑوں رحمتوں کا   نزول ہوکہ انھوں نے ملّت اسلامیہ کی حفاظت کی غرض سے ابلیس خبیث کی چالبازیوں کاپردہ چاک کرتے ہوئے تلبیس ابلیس تحریرفرمائی۔جس کا ترجمہ مفتی محمدہاشم﷾ نے اسی نیت سے کیا کہ عربی زبان سے ناآشناملّت اسلامیہ کے لوگ بھی شیطان کی مکاریوں  وفریب کاریوں سے محفوظ ومامون رہیں۔ 

10۔     گلدستہ احادیث      (مختصر مجموعہ احادیث)(مطبوعہ)

حضورنبی کریمﷺکی جملہ احادیث تو امت اسلامیہ میں سے کوئی بھی نہ جمع کرسکاالبتہ ہراک نے اپنے تئیں کوشش کی ہے۔معاشرتی حالات کوپیش نظر رکھتے ہوئے جناب مفتی محمد ہاشم﷾نے گلستان نبوی میں سے چالیس حدیثیں حروف تہجی کی ترتیب سے اس علمی گلدستہ میں جمع کی ہیں۔جن کوپڑھ اگرایک شخص بھی راہ راست پرآگیاتوان کی محنت کا دنیاوی ثمروصول ہوجائے گاآخرت توہے ہی اللہ کریم کے کرم پر۔اللہ کریم ان کوفی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنہ سے حظِّ وافرنصیب فرمائے۔

11۔     اربعین فاروقی (مختصر مجموعہ احادیث)(مطبوعہ)

جناب مفتی صاحب نے امیر المومنین حضرت عمرفاروق  ﷜کے نام کی نسبت سے یہ مختصرا احادیث کا مجموعہ تیار کیا ہے تاکہ قارئین حدیث اس کا مطالعہ کرسکیں۔

12۔     حقیقت ِ نماز (نماز کا طریقہ اور مسائل)(مطبوعہ)

نماز دین کا ستون ہے ، اس لیے اس کے بنیادی مسائل کو سوالاً وجواباً کی صورت میں نصابی طور پر ایک بہتر ین مختصرا تالیف ہے ۔ جو طلبہ وطالبات کے لیے یکساں مفیدہے۔

13۔     صدقات (مطبوعہ)

صدقات سے متعلق احادیث میں کئی فضائل وارد ہوئے ہیں ، مفتی محمد ہاشم صاحب نے اس تالیف میں صدقات وخیرات سے متعلق آیات ، احادیث ، مسائل شرعیہ اور فی الزمانہ صدقات کے مستحقین اور معاشرتی مسائل سے متعلق ایک عمدہ تالیف ہے ۔

14۔     فضائل ومسائل بسم اللہ(مطبوعہ)

احادیث کریمہ میں تسمیہ یعنی بسم اللہ سے متعلق کئی فضائل مروی ہیں ، اس تالیف میں تسمیہ سے متعلق فضائل ومسائل شرعیہ دونوں میں بیان کیے گئے ہیں اور اس موضوع پر ایک مختصر مع جامع تالیف ہے ۔

15۔     تذکرہ سید بدیع الدین قطب المدار﷫(مطبوعہ)

کتب سیر وصوفیاء میں سید بدیع الدین قطب المدار کا ایک اعلیٰ میں مقام ہے ۔ قبلہ مفتی صاحب نے اس کتاب میں قطب المدار کے تفصیلی حالات زندگی ، خلفاء وتعلیمات کو عمدہ انداز میں مرتب کیا ہے۔

16۔     جامع الاحادیث صوفیا(غیر مطبوعہ)

احادیث صوفیہ ان احادیث کاذخیرہ ہے جن کو امت کے متفق علیہ ولی صفات شخصیات نے بیان کیاہے۔اس کتاب میں مفتی محمد ہاشم﷾نے شیخ عبد القادرجیلانی ،محی الدین ابن عربی،شیخ عمر شہاب الدین سہروردی،امام قشیری اورسلطان العارفین سلطان باہو﷭جیسی عظیم شخصیات کی بیان کردہ احادیث،ان کی تفصیلات میں سیرحاصل گفتگواوران کی تخریج،توضیح وتشریح بھی خوبصورت انداز میں بیان کیاہے۔روایتی تالیفات کی بہ نسبت نہایت عمدہ اورنفیس تصنیف ہے۔

17۔     فہم دین کورس (غیر مطبوعہ)

مفتی محمد ہاشم صاحب نے اس کتاب میں چھ ابواب کو بطور سبجیکٹ کی صورت میں ترتیب دیا ہے تاکہ کاروباری ودیگر شعبہ زندگی سے وابستہ احباب اپنے فارغ اوقات میں سے وقت نکال یہ کورس کر لیں تو ضروریات دینیہ اور بنیادی اسلامی معلومات وآگاہی میسر آجائے گی ۔

18۔     صوفی اسلام(غیر مطبوعہ)

موجودہ عالمی حالات کے تناظرم یں کتاب ہذا میں مفتی صاحب نے تعلیمات صوفیا کے مطابق دین اسلام کی صوفیا تعبیر وتشریح کو بیان کیا ہے ۔ جس کا ہرگز یہ مطب بھی نہیں کہ شریعت اسلامیہ کا تعلیمات صوفیا سے کو جداگانہ نظریہ ہو، بلکہ اس کتاب میں شرعی مسائل کے ساتھ ساتھ صوفیانہ تعبیرات کے ساتھ مسائل شرعیہ پر بحث کی ہے۔

19۔     فکری مقالات(غیر مطبوعہ)

مفتی محمد ہاشم﷾چونکہ اچھے قلم کار ہیں اس لیے مختلف جرائدورسائل میں ان کے اصلاحی،تعارفی اورجدیدفقہی مسائل پرمبنی مقالات طبع ہوتے رہتے ہیں۔جوروزنامہ وماہنامہ رسال وجرائد امت، ایمان، سبب، رفتار (کراچی) اورمرأۃ العارفین (لاہور) وغیرہ میں شائع ہو چکے ہیں۔مزیدمقالات زیرتکمیل ہیں جومراحلِ تحقیق وتدوین میں ہیں۔

اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں ایک عالمی حکومت کے قیام کا تصور کوئی نیا نہیں ہے بلکہ صدیوں سے اِ س کرہ ارض کے تمام الہامی و  غیر الہامی مذاہب کے پیروکار وں میں”دنیا کو عدل وانصاف اور امن وآتشی سے بھر دینے والے ایک ”عالمی رہنما“ا ور”روحانی نجات دہندہ “ کا انتظار ہمیشہ سے رہاہے  “اور وہی نجات دہندہ  اس بنی نوع انسان کو بلاتفریق رنگ و نسل وزبان و مذہب اور ہر طرح  کی سیاسی ،سماجی ،ثقافتی اور جغرافیائی سرحدوں سے بالا تر کرکے ”وحد ت انسانی “کے روحانی تصور کے تحت تسبیح کے دانوں کی طرح ایک ہی لڑی میں پرونے کے لیے خالق کائنات کے حکم سے ظہور فرمائے گا یا پیداہوگا اور دجالی ،طاغوتی اور استعماری حکومتوں کے خلاف قیام کرتے ہوئے فتح یابی کی بعد دنیا سے ہر طرح کے  ظلم وجور اور طبقاتی استحصال کا خاتمہ کرکے  ایک” لا طبقاتی “ یعنی ”توحیدی معاشرے “  کا قیام عمل میں لائے گا نیز دنیا کو ”الہٰی عدل وانصاف  “سے اُسی طرح بھر دے گا جس طرح یہ ظلم وجور اور استحصال سے بھری ہوگی ۔

اُس نجات دہندہ کے لیے امتِ مسلمہ کے اکابرین (متقدمین ومتاخرین)نے عقیدہ امام مہدی یا تصور مہدی پر مشتمل احادیث رسول کریم ﷺ پر مبنی کم بیش 200 ہجری سے لے کر 1400 ہجری تک مستقلاً ہر دور میں سینکڑوں کتب بزبان عربی وفارسی  لکھیں جو تصورِ امام مہدی ﷤ پر بنیادی مآخذ ،مصادر اور مراجع کی حیثیت رکھتی ہیں۔

ایسے حالات میں جبکہ اُس روحانی نجات دہندہ وعالمی رہنماکے ظہور سے قبل مذاہب عالم کی کتب ہائے مقدسہ بالخصوص احادیث مبارکہ کی بیشتر علامات ونشانیاں پوری ہو چکی ہیں اور ہر گھر ،ہرگلی، ہر بستی اور شہر، ہر ملک وقوم اور ہر فرد وملت کے ساتھ درپیش  واقعات چیخ چیخ کر  اس بات کی گواہی دے رہے ہیں  کہ اب انتظار کی گھڑیاں زیادہ دور نہیں اور ظہور آخرالزماں، امام مہدی ﷤کسی  بھی وقت ہو سکتا ہے۔اس لیے ضروری سمجھا گیا ہے کہ تصورمہدی ﷤سے متعلق وہ تمام  بنیادی معلومات  از سرِنو ضبطِ تحریر میں لے آئی جائیں تاکہ دنیا بھر کے مسلمان اُن کی معرفت حاصل کرکے ظہور کے موقع پر ان کے لشکر میں شامل ہوتے ہوئے دجال کے باطل لشکر کے ساتھ فیصلہ کن جہاد کرتے ہوئے دنیا کو عدل وانصاف سے بھر نے اور طاغوت غیر توحید یعنی مشرک معاشرے کے استعماری استحصال وظلم کے خلاف اپنا مبنی برحق کردار ادا کرسکیں۔

اس لیے  دی اسلامک ریسرچ سینٹر،کراچی کے ریسرچ پینل نے تصورِ  امام مہدی   پر ایک تحقیقی منصوبہ بنامموسوعة الامام المهدي کے تحت امام مہدیپر پچاس  جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا شائع کرنے کا پروجیکٹ تشکیل دیاہے ۔

جس کی  اجمالی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ کم وبیش (1200)بارہ سوسال میں  جوتصور مہدی  پر  احادیثِ نبوی ﷺ پر مبنی علمائے اسلام بالخصوص اہل سنت والجماعت کے علمائے کرام کی جو کتب اصل قدیم مخطوطات (قلمی نسخے)دستیاب ہیں انھیں اردو ،انگریزی، عربی اور دنیا کی دیگر اہم زبانوں میں شائع کیے جائیں، اس پروجیکٹ‘‘موسوعة الامام المهدي’’ (امام مہد ی انسائیکلوپیڈیا) کی گذشتہ دو جلدیں بنام ”معرفت امام مہدی “ اور ”فکر امام مہدی “منظر عام پر آچکی ہیں اور قارئینِ تحقیق سے بھر پور پزائی حاصل کرچکی ہیں ۔ اب اس پروجیکٹ کی تیسری کڑی ”بشارات امام مہدی “ہے ۔

اس جلد مذکور میں دوسری ہجری کے اکابرین امت کی  تین (26)کتب و اجزاء کتب حدیث کو شامل کیا گیا ہے ،جو کہاس موضوع پر ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں،جس کی مختصراً تفصیل کچھ یوں ہے ۔

باب 1:  الجامع  ۔[2]

باب 2: مسند الحميدي  ۔([3])

باب 3:كتاب الفتن ۔([4])

باب 4: الكتاب المصنف في الأحاديث والآثار  ۔([5])

باب 5: مسند الإمام أحمد بن حنبل  ۔([6])

باب 6: صحيح البخاري  ۔([7])

باب 7:التاريخ الكبير  ۔([8])

باب 8: المسند الصحيح  ۔([9])

باب 9: سنن ابن ماجه  ۔([10])

باب 10: سنن أبي داود  ۔([11])

باب 11: الجامع الكبير(سنن الترمذي)  ۔([12])

باب 12:جمع الأحاديث الواردة في المهدي(التاريخ الكبير المعروف بتاريخ ابن أبي خيثمة) ۔([13])

باب 13:بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث  ۔([14])

باب 14: مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار  ۔([15])

باب 15: المجتبى من السنن = السنن الصغرى ۔([16])

باب 16:مسند الروياني  ۔([17])

باب 17: مسند أبي يعلى  ۔([18])

باب 18: تهذيب الآثار (الجزء المفقود)  ۔([19])

باب 19:صحيحُ ابن خُزَيمة  ۔([20])

باب 20: المسنَد الصَّحيح المُخَرّج عَلى صَحِيح مُسلم  ۔([21])

باب 21: كتاب الملاحم   ۔([22])

باب 22: المعجم الكبير  ۔([23])

باب 23: الإحسان في تقريب صحيح ابن حبان  ۔([24])

باب 24: البدء والتاریخ  ۔([25])

باب 25: المعجم لابن المقرئ ۔([26])

باب 26: الثاني من الأفراد للدارقطني  ۔([27])

نظریہ امام مہدی ایک تحقیقی جائزہ:

اس تحریر کا مقصد امام مہدی﷤ کے متعلق مسلمانوں اور دیگر مذاہب میں بیداری پیدا کرنا ہے تاکہ جب امام مہدی﷤ ظہور فرمائیں تو ہم انھیں پہچان کر اُن کا شایانِ شان استقبال کرسکیں اور ان کا ساتھ دے سکیں۔ اس کا ایک مقصد تویہ ہے کہ لوگ اپنے اپنے مذاہب یا عقائد کے مطابق معلومات جمع کریں اس کے علاوہ منجانب اللہ بے شمار آسمانی نشانیاں جو اس عظیم الشان ہستی کی آمد پر ظاہر ہوں گی،ان کی طرف بھی لوگوں کی توجہ دلانا مقصود ہے۔ چونکہ ایسی ہستی نہ اس سے پہلے کبھی دنیا میں آئی اور نہ اُن کے بعد آئے گی لہٰذا ان کی آمد پر ظاہر ہونے والی اللہ کی نشانیاں بھی ایسی ہوں گی جو اس سے پہلے کبھی کسی کے لیے ظاہر نہ ہوئی ہوں گی۔ اس عالی شان اور عظیم المرتبت ہستی کے ظہور سے قبل کی علامات اور اشارات کا تذکرہ ہر مذہب نے کیا ہے اور وہ تمام علامات قریب قریب پوری ہو چکی ہیں۔ ہر گھر اور گلی، ہر بستی اور شہر، ہر ملک وقوم اور ہر فرد ِملت کے ساتھ آنے والے واقعات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مقبولﷺ کی بتائی ہوئی تمام علامات پوری ہو چکی ہیں۔ اب انتظار کی گھڑیاں زیادہ دور نہیں اور ظہورِ مسیح آخرالزماں، امام عالی مقام امام مہدی﷤کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔

نظریہ اہل سنت احادیث کی روشنی میں:

         حضرت مہدی﷤ کا تصور اسلام میں احادیث کی بنیادوں پر امت مسلمہ اور تمام دنیا کے نجات دہندہ کی حیثیت سے پایا جاتا ہے اور سنیوں میں ان کے آخرت یا قرب قیامت کے نزدیک ظہور کرنے کے بارے میں ایک سے زیادہ روایات پائی جاتی ہیں جبکہ شعیوں کے نزدیک امام مہدی ، امام حسن عسکری کے فرزند اور اہلِ تشیع کے آخری امام ہیں۔ حضرت امام مہدی﷤ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں حضرت محمد کے ارشادات تمام مستند کتب حدیث مثلاً صحیح بخاری، صحیح مسلم وغیرہ میں ملتے ہیں۔

         حدیث کے مطابق ان کا ظہور قیامت کے نزدیک ہوگا۔ ان کے وجود کے بارے میں مسلمان متفق ہیں اگرچہ اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ پیدا ہو چکے ہیں یا نہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک امام مہدی﷤ اور حضرت عیسیٰ﷤قیامت کے نزدیک اسلامی حکومت قائم کر کے دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔ ایک ایسے شخص کے بارے میں عقائد تقریباً دنیا کے تمام مذاہب میں ملتے ہیں جو آخرِ دنیا میں خدا کی سچی حکومت قائم کرے گا اور دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں متعدد مذاہب میں پیش گوئیاں ملتی ہیں اور الہامی کتب میں بھی یہ ذکر شامل ہے۔مسلمانوں کے عقائد کے مطابق یہ شخص امام مہدی ﷤ ہوں گے اور ان کے ساتھ حضرت عیسیٰ ﷤ کا ظہور بھی ہوگا اور یہ دونوں علاحدہ شخصیات ہیں۔ ان کی آمد اور ان کی نشانیوں کی حدیث میں تفصیل موجود ہے پھر بھی اب تک مقامِ مہدی کے کئی جھوٹے دعویدار پیدا ہوئے اور فنا ہو گئے۔

امام مہدی﷤ کا وجود:

امام مہدی ﷤ کا تصور اسلام سے پہلے بھی قدیم کتابوں میں ملتا ہے۔زرتشتی،ہندو، عیسائی، یہودی وغیرہ سب یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ دنیا ختم ہونے کے قریب ایک نجات دہندہ کا ظہور ہوگا جو دنیا میں ایک انصاف پر مبنی حکومت قائم کرے گا۔ یہ تصور مسلمانوں میں اس لیے نہیں آیا کہ اس سے پہلے یہ موجود تھا بلکہ یہ عقیدہ احادیث سے ثابت ہے۔ امام مہدی﷤ کے وجود کے بارے میں اسلامی کتب میں صراحت سے احادیث ملتی ہیں جو تواتر میں ہیں۔

عقیدہ اہل سنت:

         علما ءِکے اہل سنت مطابق امام مہدی﷤حضرت محمدﷺکی بیٹی حضرت فاطمہ﷞ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی نسل سے ہوں گے۔ ان کا نام محمد ہوگا اور کنیت ابو القاسم ہوگی۔ وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے مگر پیدا ہونے کے بعد وہ باقاعدہ حضرت عیسیٰ﷤ کے ساتھ مل کر کفار و مشرکین سے جنگ کریں گے اور ایک اسلامی حکومت قائم کریں گے۔ ان کی پیدائش قیامت کے نزدیک ہوگی۔ اور ان کا ظہور مشرق سے ہوگا اور بعض روایات کے مطابق مکہ سے ہوگا۔ ان کے ظہور کی نشانیاں بھی کثرت سے بیان کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل احادیث اہل سنت کی کتب میں موجود ہیں۔ جن پر شیعہ حضرات بھی عقیدہ رکھتے ہیں۔

(1)۔ حضرت ابوہریرہ ﷜بیان کرتے ہیں:نبی کریمﷺنے فرمایا: تم لوگوں کا اس وقت خوشی سے کیا حال ہوگا جب تم میں عیسیٰ ابن مریم ﷤آسمان سے اتریں گے اور تمھارا امام تمھیں میں سے ہوگا۔ ([28])

(2)۔ حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری ﷜بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت میں سے ایک جماعت قیام حق کے لیے کامیاب جنگ قیامت تک کرتی رہے گی۔ حضرت جابر کہتے ہیں ان مبارک کلمات کے بعد آپﷺنے فرمایا آخر میں عیسیٰ ابن مریم ﷤آسمان سے اتریں گے تو مسلمانوں کا امیر(مہدی) ان سے عرض کرے گا تشریف لائیں ہمیں نماز پڑھائیں (اس کے جواب میں عیسیٰ ﷤ فرمائیں گے (اس وقت) امامت نہیں کروں گا۔ تمھارا بعض بعض پر امیر ہے (یعنی حضرت عیسیٰ ﷤ اس وقت امامت سے انکار فرمادیں گے۔ اس فضیلت وبزرگی کی بنا پر جو اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو عطا کی ہے۔ ([29])

(3)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :دنیا اس وقت تک ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ میرے اہل بیت (آل اولاد) میں سے ایک شخص عرب کا بادشاہ ہوجائے، جس کا نام میرے نام (یعنی محمد ) کے مطابق ہوگا۔ ([30])

( 4)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷜بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: میرے اہل بیت سے ایک شخص خلیفہ ہوگا جس کا نام میرے نام کے موافق ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ ﷜ سے مروی ایک روایت میں ہے کہ اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُسی دن کو دراز کر دیں گے یہاں تک کہ وہ شخص (یعنی مہدی خلیفہ )ہوجائے۔([31])

(5)۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا( اگر دنیا کا صرف ایک دن باقی بچے گا تو اللہ تعالیٰ اسی دن کو دراز فرمادیں گے تاکہ میرے اہل بیت سے ایک شخص کو پیدا فرمائیں جس کا نام اور ولدیت میرے نام اور ولدیت کے مطابق ہوگی۔ وہ زمین کو عدل وانصاف سے بھردے گا۔ (یعنی پوری دنیا میں عدل وانصاف ہی کی حکمرانی ہوگی) جس طرح وہ (اس سے پہلے) ظلم وزیادتی سے بھری ہوگی۔([32])

( 6)۔ حضرت علی ﷜ نبی کریم اکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اگر زمانہ سے ایک ہی دن باقی رہ جائے گا (جب بھی) اللہ تعالیٰ میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو زمین کو عدل وانصاف سے معمور کر دے گا جس طرح وہ (اس سے قبل) ظلم سے بھری ہوگی۔([33])

( 7)۔ حضرت ام المومنین ام سلمہ ﷞کہتی ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہمہدی﷤میری نسل اور فاطمہ ﷞ کی اولاد سے ہوگا۔ ([34])

( 8)۔ حضرت ابوسعید خدری ﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: مہدی ﷤مجھ سے ہوگا (یعنی میری نسل سے ہوگا) اس کا چہرہ خوب نورانی، چمک دار اور ناک ستواں وبلند ہوگی۔ زمین کو عدل وانصاف سے بھردے گا، جس طرح پہلے وہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔ (مطلبیہ ہے کہ مہدی (﷜) کی خلافت سے پہلے دنیا میں ظلم وزیادتی کی حکمرانی ہوگی اور عدل وانصاف کا نام ونشان تک نہ ہوگا۔([35])

( 9)۔ حضرت ام سلمہ ﷞رسول خدﷺ کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ ایک خلیفہ کی وفات کے وقت (نئے خلیفہ کے انتخاب پر مدینہ کے مسلمانوں میں) اختلاف ہوگا ایک شخص (یعنی مہدی ﷤) اس خیال سے کہ کہیں لوگ مجھے نہ خلیفہ بنادیں مدینہ سے مکہ چلے جائیں گے۔ مکہ کے کچھ لوگ (جو انھیں بحیثیت مہدی﷤کے انھیں پہچان لیں گے ان کے پاس آئیں گے اور انھیں (مکان) سے باہر نکال کر حجر اسود ومقامِ ابراہیم کے درمیان ان سے بیعت (خلافت) کر لیں گے (جب ان کی خلافت کی خبر عام ہوگی) تو ملک شام سے ایک لشکر ان سے جنگ کے لیے روانہ ہوگا (جو آپ تک پہنچنے سے پہلے ہی) مکہ ومدینہ کے درمیان بیداء (چٹیل میدان) میں زمین کے اندر دھنسا دیا جائے گا (اس عبرت خیز ہلاکت کے بعد) شام کے ابدال اور عراق کے اولیاء آکر آپ سے بیعت خلافت کریں گے۔ بعد ازاں ایک قریشی النسل شخص (یعنی سفیانی)جس کی ننہال قبیلہ کلب میں ہوگی خلیفہ مہدی﷤اور اُن کے اعوان وانصار سے جنگ کے لےے ایک لشکر بھیجے گا۔ وہ لوگ اس حملہ آور لشکر پر غالب ہوں گے یہی (جنگ) کلب ہے اور خسارہ ہے اس شخص کے واسطے جو کلب سے حاصل شدہ غنیمت میں شریک نہ ہو (اس فتح وکامرانی کے بعد) خلیفہ مہدی﷤خوب داد ودہش کریں گے اور لوگوں کو ان کے نبی ا کی سنت پر چلائیں گے اور اسلام مکمل طور پر زمین میں مستحکم ہوجائے گا۔ (یعنی دنیا میں پورے طور پر اسلام کا رواج وغلبہ ہوگا) بحالت خلافتِ مہدی﷤دنیا میں سات سال اور دوسری روایات کے اعتبار سے نو سال رہ کر فوت ہوجائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں گے۔([36])

(10)۔ ابواسحاق السبیعی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی ﷜نے اپنے برخور دار حضرت حسن کو دیکھتے ہوئے کہا میرا یہ بیٹا سید ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے اسے سیدنامزد کیا ہے۔ اس کی اولاد میں ایک شخص پیدا ہوگا اس کا نام وہی ہوگا جو تمھارے نبی ﷺ کا اسم گرامی ہے۔ (یعنی اس کا نام محمدﷺہوگا) سیرت واخلاق میں (میرے بیٹے) حسن ﷜ کے مشابہ ہوگا اور شکل وصورت میں اس کے مشابہ نہ ہوگا۔ اس کے بعد پھر نبی کریمﷺکا یہ ارشاد نقل کیا کہ یہ شخص زمین کو عدل وانصاف سے بھردے گا۔([37])

(11) ۔ نبی کریمﷺنے ارشاد فرمایا:مہدی میرے اہل بیت سے ہیں۔([38])

(12) ۔ آپﷺنے ارشاد فرمایا : مہدی فاطمہ (﷟) کی نسل سے ہیں۔([39])

ذکر امام مہدی  ﷤پر مبنی کتب:

حجاز مقدسہ کی ایک علمی شخصیت اور مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبد المحسن عباد اپنی ایک تقریر کہ جو’’عقيدة أهل السنة والأثر في المهدي المنتظر‘‘ کے عنوان سے مدینہ یونیورسٹی کے رسالہ میں بھی آئی ہے اس میں کہتے ہیں : میں ان بائیس(22) اصحاب کے نام کہ جنھوں نے پیغمبر اسلامﷺ سے ’’(امام)مہدی‘‘ کے بارے میں احادیث نقل کی ہیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:

(1)حضرت عثمان بن عفان، (2)حضرت علی بن ابی طالب، (3)حضرت طلحہ بن زبیر،(4)حضرت عبد الرحمن بن عوف،(5)حضرت عبد اللہ بن عباس،(6)حضرت عبد اللہ بن مسعود، (7)حضرت عبد اللہ بن عمر،(8)حضرت حسین بن علی، (9)حضرت ابوسعیدالخدری،(10)حضرت عمران بن حصین،(11)حضرت ام سلمہ، (12) حضرت ام حبیبہ، (13)حضرت جابر بن عبد اللہ،(14)حضرت ابوھریرہ، (15)حضرت انس بن مالک،(16)حضرت عمار بن یاسر، (17)حضرت عوف بن مالک، (18) حضرت حذ یفہ بن الیمان، (19)حضرت علی الہلالی، (20)حضرت عبد اللہ بن حارث بن حمزہ، (21) حضرت ثوبان(خادم پیغمبراسلام )، (22)حضرت ابوالطفیل(رضی اللہ عنہم) ۔([40])

اہل تشیع کی طرح اہل سنت کی کتابوں میں بھی بہت سی روایات امام مہدی ﷤ کے بارے میں نقل کی گئی ہیں، حتیٰ کہ بعض مصنفینِ اہل سنت نے مستقل کتابیں امام مہدی﷤ کے بارے میں لکھی ہیںجن سے وہ اعتراض بھی دور ہوجاتا ہے کہ جنھوں نے کہا کہ یہ عقیدہ صرف اہل تشیع کے ساتھ مخصوص ہے۔

قارئین کرام!

اکثر علمائے اسلام نے امام مہدی ﷤ کے بارے میں اقرار کیا ہے اور اس سلسلہ میں اخبارا ورروایات کی تصحیح کی خاطر کتابیں تالیف کی ہیں،تاکہ زمانہ پر حقیقت واضح ہوجائے اور اس حقیقت کو لوگوں کے سامنے پیش کریں جس کو رسول اکرمﷺ نے پیش کیا ہے ، لہٰذا ہم مثال کے طور پر چند مؤلفین کے نام پیش کرتے ہیں ، اگرچہ مؤلفین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جس کو ہم بیان کرتے ہیں:

1-الأحاديث الواردة في المهدي([41])

2-ذكر المهدي ونعوته و حقيقة مخرجه وثبوته

3-الأربعون حديثا في المهدي ([42])

4-جزء في المهدي ([43])

5-قصيدة في المهدي([44])

6-البيان في أخبار صاحب الزمان ([45])

7-عقد الدرر في أخبار المهدي المنتظر ([46])

8- كتاب في أخبار المهدي ([47])

9-جزء في ذكر المهدي([48])

10-فصل في أمر الفاطمي وما يذهب الناس إليه في شأنه([49])

11-تأليف يتعلق بالمهدي([50])

12-العرف الوردي في أخبار المهدي([51])

13-تلخيص البيان في علامات مهدي آخر الزمان([52])

14-القول المختصر في علامات المهدي المنتظر([53])

15-تلخيص البيان في أخبار مهدي الزمان([54])

16-البرهان في علامات مهدي آخر الزمان([55])

17-رسالة([56])

18-الرد على من حكم وقضى بأن المهدي الموعود جاء ومضى([57])

19-المشرب الوردي في مذهب المهدي([58])

20-مرآة الفكر في المهدي المنتظر

21-فرائد الفكر في المهدي المنتظر([59])

22-تنبيه الوسنان إلى أخبار مهدي أخر الزمان([60])

23-جواب عن سؤال في المهدي([61])

24-العرف الوردي في دلائل المهدي([62])

25-التوضيح في تواتر ما جاء في المنتظر والدجال والمسيح([63])

26-الدر المنضود في ذكر المهدي الموعود([64])

27-القطر الشهدي في أوصاف المهدي([65])

28-العطر الوردي([66])

29-عقود الدرر في شأن المهدي المنتظر([67])

30-الهداية الندية للامة المحمدية في فضل الذات المهدية([68])

31-تأليف في المهدي([69])

32-إبراز الوهم المكنون من كلام ابن خلدون

33-الجواب المقنع المحرر فالرد على متن طغى وتجبر بدعوى أنه عيسى أو المهدي المنتظر([70])

34-تنوير الرجال في ظهور المهدي والدجال([71])

35-المهدي المنتظر([72])

36-تحديق النظر في أخبار المهدي المنتظر([73])

37-الرد على من كذب بالأحاديث الصحيحة الواردة في المهدي

38-عقيدة أهل السنة والأثر في المهدي المنتظر([74])

39-الاحتجاج بالأثر على من أنكر المهدي المنتظر

40-إقامة البرهان في الرد على من أنكر خروج المهدي والدجال و نزول المسيح آخر الزمان([75])

41-مختصر الأخبار المشاعة في أشراط الساعة وأخبار المهدي([76])

42-سيد البشر يتحدث عن المهدي المنتظر([77])

43-القول الفصل في المهدي المنتظر([78])

44-المهدي المنتظر([79])

45-المهدي حقيقة لا خرافة([80])

46-المهدي المنتظر بين الحقيقة والخرافة([81])

47-المهدي المنتظر في الميزان([82])

48-حقيقة الخبر عن المهدي المنتظر([83])

49-المهدي وأشراط الساعة([84])

50-من هو المهدي المنتظر؟([85])

51-الأحاديث الواردة في شأن المهدي في ميزان الجرح والتعديل([86])

52-ثلاثة ينتظرهم العالم:الدجال والمسيح والمهدي[87])

53-حقيقة الخبر عن المهدي المنتظر من الكتاب والسنة([88])

54-المهدي المنتظر ومن ينتظرونه([89])

55-المهدي المنتظر بين العقيدة الدينية والمضمون السياسي([90])

56-المهدي في الإسلام مند أقدم العصور إلى اليوم([91])

57-المهدي والمهدوية([92])

58-المهدي والمهدوية نظرة في تاريخ العرب السياسي([93])

59-عمر أمة الإسلام، وقرب ظهور المهدي عليه السلام([94])

60-معرفت امام مهدي([95])

ثبت الكتب التي ألفها الشيعة في موضوع(المهدي المنتظر)

1- كشف المخفي في مناقب المهدي([96])

2-بشارة الأنام بظهور المهدي ([97])

3-البرهان على وجود صاحب الزمان ([98])

4-البرهان على صحة طول عمر صاحب الزمان ([99])

5-الجوابات في خروج المهدي([100])

6-كشف الأستار عن وجه الغائب عن الأبصار([101])

7-المحجة فيما نزل في القائم الحجة([102])

8-تبصرة الولي فيمن رأى القائم المهدي([103])

9-الملاحم والفتن في ظهور الغائب المنتظر([104])

10-مطلع الأنوار في ذكر الإمام الغائب عن الأبصار([105])

11-حصائل الفكر في أحوال المهدي المنتظر([106])

12-مختصر كشف الريبة في أخبار خروج الحجة([107])

13-منتخب الأثر في الإمام الثاني عشر([108])

14-المختصر في الإمام المنتظر([109])

15-إلزام الناصب في إثبات الحجة الغائب([110])

16-البرهان على صحة طول عمر الإمام([111])

17-معجم أحاديث المهدي([112])

18-موسوعة أحاديث المهدي([113])

19-أحاديث المهدي من مسند احمد بن حنبل([114])

20-المهدي المنتظر والعقل([115])

21-المهدي المنتظر بين التصور والتصديق([116])

22-المهدي المنتظر([117])

23-المهدي الموعود ودفع الشبهات عنه([118])

24-المهدي الموعود([119])

25-المهدي في أحاديث المسلمين حقيقة ثابتة([120])

26-المهدي الموعود المنتظر عند علما أهل السنة والإمامية([121])

27-المصلح المنتظر([122])

28-المصلح المنتظر([123])

29-العقيدة بالمهدية([124])

30-شمس المغرب([125])

31-الإمام المنتظر أمل المعصومين([126])

32-شرعة التسمية حول حرمة تسمية صاحب الأمر([127])

33-حياة الإمام المهدي([128])

34-حوار عن الإمام المهدي([129])

35-تذكرة المهدي([130])

36-بشارة الإسلام في علامات المهدي([131])

37-الإمام المهدي من المهد إلى الظهور([132])

38-الإمام المهدي قدوة وأسوة([133])

39-الإمام المهدي([134])

40-الإمام المنتظر وظهوره([135])

41-الإمام المنتظر([136])

42-الإمام الثاني عشر([137])

43-إلى مشيخة الأزهر([138])

44-الأمة و قائدها المنتظر([139])

45-دولة المهدي([140])

46-منقذ البشرية([141])

47-المهدي والمسيح قراءة في الإنجيل([142])

48-بحث حول المهدي([143])

49-تطبيق المعاييرعلى مااختلف وتعارض من أحاديث المهدي بكتب الفريقين([144])

50-الإمام المهدي([145])

51-الإمام المهدي بين التواتر وحساب الاحتمال([146])

52-الأربعون حديثا فيمن يملا الأرض قسطا وعدل([147])

53-الموعود الذي ينتظره العالم([148])

54-المهدي موعود الأمم([149])

55-المنتظر على ضوء حقائق العامة([150])

56-ثورة المهدي في ضوء فلسفة التاريخ([151])

57-المصلح المنتظر في أحاديث الأديان([152])

58-قائم آل محمد وفلسفة غيبته([153])

59-المهدي في أحاديث الرسول بطرق أهل السنة([154])

60-الروض الفسيح في بيان الفوارق بين المهدي والمسيح([155])

علاماتِ ظہور:

امام مہدی ﷤کے ظہور کی بے شمار علامات کتب اہل سنت اور اہل تشیع دونوں میں ملتی ہیں۔ ان میں سے بہت سی پوری بھی ہو چکی ہیں۔ ان علامات میں سے کچھ حتمی ہیں اور کچھ غیر حتمی۔ حتمی علامات سے مراد وہ علامات ہیں جن کا بروایت پورا ہونا ضروری ہے۔ کچھ ان کے ظہور سے کافی پہلے وقوع پزیر ہوں گی اور کچھ ظہور کے نزدیک۔ یہاں ان میں سے کچھ درج کی جاتی ہیں۔

(١)سب سے مشہور علامت دجال کا خروج ہے۔

مغربی مفکر اِسے حضرت عیسی ﷤ کا مخالف (Antichrist) کہتے ہیں۔ یہ ذکر تورات میں بھی ملتا ہے۔

(٢)سورج کا مغرب سے طلوع ہونا۔ یعنی زمین کی گردش میں فرق متوقع ہے۔

(٣) علم نجوم و فلکیات کے برخلاف رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور پندرہ کو سورج گرہن لگے گا۔

(٤) سفیانی کا خروج،یہ ابو سفیان کی اولاد سے ایک شخص ہوگا اور ماں کی طرف سے بنو کلب سے ہوگا، جو بے شمار لوگوں کو قتل کرے گا، اس کا پورا لشکر بیداء کے مقام پر زمین میں دھنس جائے گا۔ بیدا مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔

بعد ظہور:

(٧) امام مہدی ﷤ کا ظہورخانہ کعبہ سے ہوگا ،اور لوگ رکن و مقام کے درمیان ان کی بیعت کریں گے۔

(٨) حضرت عیسیٰ ﷤ کا نزول ہوگا،اور وہ امام مہدی ﷤ کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔

(٩) دجال کا قتل ہوگا اور بیت المقدس فتح ہوگا۔

(6)خلا صہ کلام :

راقم الحروف اس مقدمہ کتاب کو ان الفاظ کے ساتھ ختم کرتاہے جو پیامبر امام مہدی شاعر مشرق علامہ (ڈاکٹر)محمد اقبال﷫ نے اپنی نظم مہدی میںاپنے نظریات کا اظہار فرمایا ہے کیونکہ علامہ محمد اقبال کا نظریہ بالکل احادیث کے مطابق ہے، جن میں امام مہدی کے آنے کا ذک رہے ۔

مہدی

قوموں کی حیات ان کے تخیل پہ ہے موقوف

یہ ذوق سکھاتا ہے ادب مرغِ چمن کو

مجذوب فرنگی نے بہ انداز فرنگی

مہدی کے تخیل سے کیا زندہ وطن کو

اے وہ کہ تو مہدی کے تخیل سے ہے بیزار

نومید نہ کر آہوئے مشکیں سے ختن کو

ہوزندہ کفن پوش تو میت اسے سمجھیں

یا چاک کریں مردکِ ناداں کے کفن کو

تشریح اشعار:

         پروفیسر یوسف سلیم چشتی مذکورہ نظم کاترجمہ وتشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ نظم بہت غور سے پڑھنے کے قابل ہے ۔ علامہ محمد اقبال مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تم مہدی کے تو منتظر ہو ، لیکن مہدی کے تخیل سے بیزار ہو ، یہ عجیب بات ہے۔تم کہتے ہوکہ امام مہدی آئیں گے تو مسلمانوں کو سروری حاصل ہوگی اور وہ اسلام کا نام دنیا میں بلند کریں گے ۔ بہت خوب !مجھے اس سے انکار نہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ تم ان کے آنے کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھے ہوئے کیوں بیٹھے ہو...؟یعنی ظہور مہدی کے یہ معنی کب ہیں کہ مسلمان عمل سے بیگانہ ہوجائیں ....؟

وہ جب آئیں گے ، ہم ان کا صدق دل سے خیر مقدم کریں گے ۔ لیکن جب تک وہ ظاہر ہوں ہمیں برابر جدوجہداور جہاد میں مصروف رہنا چاہیے۔

         علامہ محمد اقبال مسلمانوں سے یہ کہتے ہیں کہ ظہور مہدی کے انتظار کے ساتھ ساتھ مہدی کے تخیل کو بھی مدنظر رکھو۔یعنی مہدی کے مفہوم پر غور کروکہ مہدی وہ بندہ حق ہوگاجو اسلام کے نام کو دنیا میں سربلند کرے گا۔پس لازم ہے کہ مسلمان اس رتبہ کو حاصل کرنے کی کوشش کرے کیوں نہ ہرمسلمان اپنے اندر وہ خوبیاں اور نیکیاں او ر صفاتِ عالیہ پیدا کرے کہ ان کی بنا پر اللہ ان میں سے کسی کو مہدی کے مرتبہ پر فائز کر دے ...؟آخر مہدی آسمان سے تو آئے گا نہیں ، اللہ تعالیٰ ملت اسلامیہ ہی میں سے کسی فرد کو اس منصب رفیع پر سرفراز فرمائے گا ،تو کیوں نہ ہرمسلمان اس عزت کے حصول کے لیے کوشش کرے..؟

پہلا شعر:

         علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں کہ قوموں کی زندگی یعنی ترقی اور عظمت،افراد یا مال کی کثرت پرموقوف نہیں بلکہ ان کے'' تخیل '' پر منحصر ہے۔اگر کوئی قوم کوئی بلند تخیل یا نصب العین اپنے سامنے رکھے گی تو یقینا سربلندی حاصل کرے گی ،اور جس قوم کے تخیلات پست اور ادنیٰ قسم کے ہوں گے وہ قوم بھی پست رہے گی ۔ الغرض یہ ایک قانون فطرت ہے کہ جیسا تخیل ویسی قوم۔نیز یہ ذوق (نصب العین)قوم کے افراد کو ادب یعنی ترقی کے راستے سکھاتا ہے اور جدوجہد کی طرف مائل کرتاہے۔

دوسرا شعر:

         چنانچہ جرمنی کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے کہ''نطشے'' (Nietzsche) نے اپنی قوم کے سامنے مغربی انداز میں ،مہدی کا تخیل پیش کیا یعنی اس جرمن فلسفی نے مہدی کے تخیل کو فوق البشر(Superman)کے نام سے اپنی قوم کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ بہت جلد تمھارے اندر ایک فوق البشر (غیر معمولی طاقتوں والا انسان ) ظاہر ہونے والا ہے۔اس تخیل کی بدولت جرمن قوم کا ہر فرد فوق البشر بننے کی کوشش میں مصروف ہو گیا اور ایک صدی کے اندراندر جرمن قوم دنیا کی اقوام کی پہلی صف میں آگئی۔

تیسرا اور چوتھا شعر:

         اے مسلم،تو مہدی کا تو منتظر ہے ،لیکن اس کے تخیل سے بیزار ہے ، یعنی اس کے مفہوم پر غور نہیں کرتا،تو ختن کوآہوئے مشکیں سے نومید مت کر،یعنی قوم کو مہدی کے وجود سے محروم مت کر، اگر کوئی زندہ شخص ،جو حرکت اور جدوجہد کرسکتاہے ، کفن پوش ہوکر چارپائی پر لیٹ جائے ،جیسے مردہ پڑاہوتا ہے،تو کیا عقل مند آدمی سے فی الحقیقت مردہ قرار دے گا یا اس مرد نادان کے کفن کو چاک کرکے پھینک دے گا؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ملت اسلامیہ کے ہر فرد کو ترقی کا موقع دیا ہے۔([156])

حضرت امام جعفر صادق ﷤فرماتے ہیں:اے ربّ لم یزل!تو مجھے اپنی ذات کی معرفت کرادے اور اگر تو نے مجھے اپنی ذات کی معرفت نہ کرائی تو میں تیرے نبی ﷺکو نہیں پہچان سکتا۔اے ربّ لم یزل! تو مجھے اپنے رسولﷺکی معرفت کرادے اور اگر تو نے مجھے اپنے رسولﷺکیپہچان نہ کرائی تو میں تیری نشانی (امام مہدی ﷤)کو نہیں پہچان سکوں گا۔اے ربّ لم یزل!تو مجھے اپنی نشانی (امام مہدی ﷤)کی معرفت کرادے اور اگر تو مجھے اپنی نشانی (امام مہدی ﷤)کی پہچان نہ کرائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہوجاؤں گا۔

   مذکورہ دعامیں نظام کائنات کے مجموعہ میں امام مہدی ﷤کی عظمت کی معرفت بیان فرمائی گئی ہے اوراللہ ربّ العزت کی طرف سے امام مہدی ﷤ اور نبی کریمﷺکا حقیقی جانشین اور تمام لوگوں کا ہادی ورہبر ہے ، جس کی اطاعت سب پر واجب ہے ، کیونکہ اس کی اطاعت اللہ رب العزت کی اطاعت ہے۔معرفت امام مہدی ﷤کا دوسراپہلو امام مہدی ﷤کی صفات وسیرت کی پہچان ہے،معرفت کا یہ پہلو انتظار کرنے والے کی رفتار وگفتار پر بہت زیادہ موثر انداز میں اثر انداز ہوتاہے۔آخر میں راقم اُن تمام اساتذہ کرام،شیوخ ومشائخ عظام اور خاص کر علمدوست احباب کا تہ دل سے شکر گذا رہے ،جن کی علمی معاونت سے عاجز نے یہ تحقیقی کام سر انجام دیا۔عاجز اپنے ربّ  کریم عزوجل کا ہزارہا بار بھی شکر کرے وہ کم ہے، کیونکہ رب کریم نے جو امام مہدی﷤ سے متعلق فکر ومعرفت عاجز کو عطافرمائی یہ کل حیات کا سرمایہ حیات ہے ۔ ہم نے کئی کتب تواریخ وسوانح میں علم آخرالزمان  سے متعلق پڑھا کہ آخر زمانہ یعنی قرب قیامت کی نشانیاں وظہور امام مہدی﷤وخروج دجال وغیرہ ۔ ان تمام نشانیوں میں سب سے اہم نشانی ظہور امام مہدی﷤ہے، جیساحدیث پاک میں ہے :(( مَنْ كَذَّبَ بِالدَّجَّالِ فَقَدْ كَفَرَ، وَمَنْ كَذَّبَ بالمهدي فَقَدْ كَفَرَ)).([157])

ترجمہ:حضرت جابر بن عبد اللہ﷜بیان کرتے ہیں :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے دجال کے آنے کا انکار کیا اس نے کفر کیا اور جس نے امام مہدی﷤کا انکار کیا اس نے بھی کفر کیا۔

مذکورہ بالا حدیث سے  عقیدہ ظہورامام مہدی کا اندازہ لگایاجاسکتا ہے  کہ  یہ عقیدہ کتنا اہم ہے۔اسی پر ہم شکر گزار ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں امام مہدیکے متعلق شعور وآگاہی اور معرفت عطافرمائی اور اس سلسلہ شعور وآگاہی کی اہم کڑی نظریہ ظہورِ امام مہدی ﷤کے موضوع پر موسوعة الامام المهدي (امام مہد ی انسائیکلوپیڈیا)ہے ، جس کی تکمیل کے لیے ہم اپنے رب لم یزل سے دعا گو ہیں کہ وہ اسے جلداز پائے تکمیل تک پہنچادے ۔ آمین

سیدمحمد خالد محمود شامی۔([158])


[1] جامعہ رکن الاسلام کا الحاق سندھ یونیورسٹی (جامشورو)اور جامعۃ الازہر(مصر ) سے ہے۔ 

[2] معمر بن أبي عمرو راشد الأزدي (المتوفى: 153هـ)

[3] أبو بكر عبد الله بن الزبير القرشي الأسدي الحميدي المكي (المتوفى: 219هـ)

[4] أبو عبد الله نعيم بن حماد الخزاعي المروزي (المتوفى: 228هـ)

[5] أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم العبسي (المتوفى: 235هـ)

[6] أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال الشيباني (المتوفى: 241هـ)

[7] محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي(المتوفى:256ه)

[8] محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي(المتوفى:256ه)

[9] مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)

[10] ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني (المتوفى: 273هـ)

[11])أبو داود سليمان بن الأشعث الأزدي(المتوفى: 275هـ)

[12] محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى ، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)

[13] أبى بكر بن أبى خيثمة النسائي (المتوفى:279هـ)

[14] أبو محمد الحارث بن محمد التميمي المعروف بابن أبي أسامة(المتوفى: 282هـ)

[15]أبو بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ)

[16]أبو عبد الرحمن أحمد بن شعيب بن علي الخراساني، النسائي (المتوفى: 303هـ)

[17] أبو بكر محمد بن هارون الرُّوياني (المتوفى: 307هـ)

[18] أبو يعلى أحمد بن علي بن المثُنى التميمي، الموصلي (المتوفى: 307هـ)

[19] محمد بن جرير بن يزيد بن كثير ، أبو جعفر الطبري (المتوفى: 310هـ)

[20]أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة النيسابوري (المتوفى: 311هـ)

[21])) أبو عَوانة يَعقُوب بن إسحَاق الإسفرَايينيّ (المتوفى 316 هـ)

[22])) حافظ أبي الحسين أحمد بن جعفر بن محمدالمعروف بابن المنادي (المتوفى: 336ه)

[23])) سليمان بن أحمد بن أيوب اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360هـ)

[24])) محمد بن حبان بن أحمد بن حبان أبو حاتم، البُستي (المتوفى: 354هـ)

[25])) المطهر بن طاہر المقدسي (متوفى:355ه)

[26])) أبو بكر محمد بن إبراهيم الأصبهاني الخازن، المشهور بابن المقرئ (المتوفى: 381هـ)

[27])) أبو الحسن علي بن عمر البغدادي الدارقطني (المتوفى: 385هـ)


[28]))محمد بن إسماعيل أبو عبدالله البخاري الجعفي،الجامع المسند الصحيح (صحيح البخاري)، كتاب أحاديث الأنبياء، باب نزول عيسى ابن مريم عليهما السلام، رقم الحدیث:3449،ج4،ص168، مطبوعة:دار طوق النجاة، بيروت،لبنان، 1422هـ

[29]))مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)،المسند الصحيح، کتاب الایمان،باب نزول عیسیٰ...الخ،رقمالحدیث:247،ج1،ص137،مطبوعة:دار إحياء التراث العربي، بيروت،لبنان

[30]))محمدبنعيسى،الترمذي،أبوعيسى(المتوفى: 279هـ)،الجامع الكبير(سنن الترمذي)، کتاب فتن،باب ماجاء فی المهدي، رقم  

الحدیث:2230،ج4،ص75،مطبوعة:دارالغربالإسلامي،بيروت،لبنان،1998ء

[31]))الجامع الكبير(سنن الترمذي) ، کتاب فتن،باب ماجاء فی المهدي،رقمالحدیث:2231،ج4،ص75

[32]))أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي(المتوفى: 275هـ)،سنن أبي داود،كتاب المهدي،رقم الحدیث: 4282، ج4،ص 106،مطبوعه:المكتبة العصرية، صيدا، بيروت،لبنان

[33]))سنن أبي داود،كتاب المهدي،رقم الحدیث: 4283، ج4،ص 106

[34]))سنن أبي داود،كتاب المهدي،رقم الحدیث: 4284، ج4،ص 106

[35]))سنن أبي داود،كتاب المهدي،رقم الحدیث: 4285، ج4،ص 106

[36]))سنن أبي داود،كتاب المهدي،رقم الحدیث: 4286، ج4،ص 106

[37]))سنن أبي داود،كتاب المهدي،رقم الحدیث: 4290، ج4،ص 106

[38]))ابن ماجة ،أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني (المتوفى: 273هـ)،سنن ابن ماجه ، ابواب الفتن،باب خروج المهدي، رقم الحدیث: 4085، ج5،ص213،مطبوعه:دارالرسالةالعالمية،بيروت،لبنان،1430هـ

[39]))سنن ابن ماجه،ابواب الفتن،باب خروج المهدي،رقم الحدیث: 4086، ج5،ص213

[40]))مصلح جھانی، ص 109تا110

[41]))للحافظأبى بكر بن أبى خيثمة النسائي المتوفى: 279هـ.

[42])) للحافظ أبي نعيم الاصبهانيالمتوفّى 430هـ.

[43]))للحافظ أبى الحسين ابن المنادى الحنبلي المتوفى 336 هـ.

[44]))للشيخ محمد بن علي بن العربي الطائي.

[45]))للشيخ أبى عبد الله محمد بن يوسف الكنجي الشافعي المتوفى 658هـ،طبع في مطبعة النعمان بالنجف 1960.

[46]))لبدر الدين يوسف بن يحيى الشافعي المشهور بالزكي أو ابن الزكي المتوفى685هـ ، وهو مطبوع في مكتبة الخانجي بتحقيق عبد الفتاح الحلو ثم مصورا بدار الكتب العلمية.

[47]))للشيخ بدر الدين الحسن بن محمد القرشي المطلبي النابلسي الحنبلي المتوفى 772ه.

[48]))للحافظ عماد الدين ابن كثير الدمشقي المتوفى 774ه.

[49]))للمؤرخ عبد الرحمن بن خلدون المتوفى 808ه.

[50]))للحافظ أبي زرعة العراقي المتوفى سنة 826هـ.

[51]))للحافظ جلال الدين السيوطي.

[52]))للشيخ أحمد بن سليمان الرومي الحنفي المشهوربابن كمال باشا المتوفى 940 هـ.

[53]))للفقيه ابن حجرالهيثمي الشافعي المكي المتوفى 973 هـ.

[54]))للشيخ العلامة علي بن حسام المتقي الهندي صاحب كتاب كنز العمال المتوفى 975 هـ، طبع بدار التبليغ الإسلامي بقم بإيران.

[55]))للشيخ العلامة علي بن حسام المتقي الهندي صاحب كتاب كنز العمال المتوفى 975 هـ، طبع في دار الصحابة وبمنشورات شركة الرضوان بطهران1979م.

[56]))فارسية في المهدي مرتبة على أربعة أبواب ذكره صاحب كشف الظنون.

[57]))للشيخ العلامة علي بن سلطان القاري الحنفي المتوفى1014 هـ

[58]))للشيخ العلامة علي بن سلطان القاري الحنفي المتوفى1014 هـ، طبع في مطبعة محمد شاهين سنة 1278هـ.

[59]))للشيخ العلامة مرعي بن يوسف الكرمي الحنبلي المتوفى 1033 ه.

[60]))لأحمد النوبي المتوفى 1037ه.

[61]))امة محمد بن إسماعيل الأمير الصنعاني اليماني المتوفى 1182 هـ ، طبع في مكتبة دار القدس باليمن 1993ء.

[62]))للشيخ وجيه الدين أبى الفضل عبد الرحمن بن مصطفى العيدروس الحضرمي اليمني نزيل مصر 1192ه.

[63]))للعلامة محمد بن علي الشوكاني اليماني المتوفى 1250 هـ.

[64]))للعلامة صديق حسن خان القنوجي الهندي المتوفى 1307هـ.

[65]))لشهاب الدين احمد بن احمد الحلواني المصري المتوفى 1308 هـ.

[66]))هو شرح على المنظومة السابقة طبع في بولاق 1308 ه

[67]))مخطوط بمكتبة الحرم.

[68]))للشيخ مصطفى البكري.

[69]))للشيخ أبي العلاء إدريس بن محمد العراقي الحسيني المغربي.

[70]))للشيخ محمد حبيب الله الشنقيطي المتوفى 1363ه،طبع في دارالشروق1981م.

[71]))لرشيد الرشيد، طبع في مطبعة البلاغة بحلب 1389هـ

[72]))للشيخ أبى الفضل عبد الله بن محمد بن الصديق الغماري المغربي، طبع في دار الطباعة الحديثة بالمغرب.

[73]))لمحمد بن عبدالعزيز بن مانع النجدي.

[74]))للشيخ عبد المحسن بن حمد العباد ،طبعا بمطابع الرشيد بالمدينة المنورة 1402 هـ.

[75]))طبع في مكتبة المعارف بالرياض 1985، للشيخ حمود بن عبدالله التويجري المتوفى رحمه الله سنة 1413هـ.

[76]))للشيخ عبدالله بن سليمان المشعل، طبع بمطابع الرياض بالسعودية 1985م.

[77]))لحامد محمود محمد ليمود، طبع بمطبعة المدني بالقاهرة.

[78]))لعبد الله حجاج، طبع في دار العلوم للطباعة والنشر بالقاهرة.

[79]))لإبراهيم مشوخي طبع بمكتبة المنار بالأردن 1983م.

[80]))لمحمد بن احمد بن إسماعيل المقدم،طبع بدار الإيمان 1400.

[81]))لعبد القادر أحمد عطا، طبع في دار العلوم للطباعة بالقاهرة 1400.

[82]))لعبد المعطي عبد المقصود، طبع في دار نشر الثقافة بالإسكندرية.

[83]))لصلاح الدين عبدالحميد الهادي ، طبع في مكتبة تاج بداير طنطا.

[84]))للشيخ محمد علي الصابوني،طبع في السعودية،بشركة الشهاب بالجزائر 1990م.

[85]))لمحمدنورمربوبنجرالمكي،طبع في مجلس إحياء كتب التراث الإسلامي بالقاهرة1993م.

[86]))للشيخ عبد العليم بن عبد العظيم البستوي، طبع في دار ابن حزم 1999 م.

[87]))لعبد اللطيف عاشور، طبع بدار القران بالقاهرة والساعي بالرياض 1986م.

[88]))لصلاح الدين عبدالحميد هادي،طبع بمطبعة تاج طنطا بمصر 1980م.

[89]))لعبد الكريم الخطيب، طبع في دار الفكر العربي 1980م.

[90]))لمحمد فريد حجاب، طبع بالمؤسسة الوطنية بالجزائر 1984م.

[91]))لسعد محمد حسن، طبع بالقاهرة 1953م.

[92]))طبع بدار المعارف بالقاهرة 1951م.

[93]))طبع بمطبعة العاني ببغداد 1957م.

[94]))لجمال الدينأمين محمّد،طبع 1996م،طبع في المكتبة التوفيقية مصر 1417ه.

[95]))لمفتی محمّدهاشم، طبع في اسلامک ببلشر،کراتشی، باکستان،1437ه.

[96])) للشيخ يحيى بن الحسن ابن البطريق الشيعي المتوفى سنة 600هـ.

[97])) لمصطفى الكاظمي ، طبع ببغداد 1912م.

[98])) لمحسن الأمين العاملي،طبع بمكتبة نينوى الحديثة بطهران 1979م.

[99])) لأبى الفتح الكراجكي المتوفى سنة 449هـ .

[100])) للشيخ المفيد المتوفى سنة413هـ،طبع في المؤتمر العالمي 1993م.

[101])) لميرزا حسين النوري الطبرسي المتوفى سنة1320هـ طبع بمطبعة الخيام1980م.

[102])) لهاشم البحراني، طبع في مؤسسة الوفاء بيروت.

[103])) طبع بمؤسسة المعارف الإسلامية 1991م.

[104])) لرضي الدين أبي القاسم علي بن موسى بن جعفر بن طاووس المتوفى سنة 664هـ، طبع في مؤسسة الأعلمي للتراث 1987م.

[105])) لمحمد باقر فقيه إيماني،طبع بفاطمية نور مشهد إيران 1992م.

[106])) لمحمد صالح بن سيد البحراني، طبع بمكتبة الحياة بيروت .

[107])) لإبراهيم الكاشاني، طبع بالمطبعة العثمانية 1912م.

[108])) للطف الله الصافي،و طبع بمنشورات مكتب الصدر طهران.

[109])) لمحمد رضا الحسيني طبع بمؤسسة مدين بقم إيران 1995م.

[110])) لعلي بن زين الحائري، طبع بمؤسسة الأعلمي بيروت  1977م.

[111])) لمحمد الكراجكي الطرابلسي،طبع بدار الدخائر بقم.

[112]))طبعمؤسسة المعارف الإسلامية بقم 1994م.

[113]))طبع مكتبة أمير المؤمنين بأصفهان 1981م.

[114])) لمحمد جواد الحسيني،طبع بمؤسسة النشر الإسلامي 1989م.

[115])) لمحمد جواد مغنية ،طبع بدار العلم للملايين.

[116])) لمحمد حسن آل ياسين،طبع بدا الحيلة بيروت 1978م.

[117])) لمرتضى القزويني،طبع بمكتبة النهضة الإسلامية بالنجف 1966م.

[118])) لعبد الرضا الشهرستاني،طبع بمطبعة خراسان بمشهد إيران 1978م.

[119])) لعبد الحسين ، طبع بدار التعارف بيروت 1990م.

[120])) لمحمد رضا الجلالي، نشر سنة 1977م.

[121])) لنجم الدين جعفر بن محمد العسكري،طبع بمؤسسة الزهراء بيروت 1977م.

[122])) لجواد جعفر الخليلي،طبع بدارالأضواء ـ بيروت 1989م.

[123])) لمحمد رضا شمس الدين العاملي،طبع بالمطبعة العلمية بالنجف 1956م.

[124])) للطف الله الكلبايكاني، طبع بوزارة الإرشاد طهران 1981م.

[125])) لمحمد رضا الحكيمي،طبع بالدار الإسلامية بيروت 1998م.

[126])) لمحمد رضا الحكيمي،طبع بمؤسسة الأعلمي 1995م.

[127])) لمحمد باقر ميرداماد،طبع بمهدية ميرداماد بأصفان 1989م.

[128])) لباقر شريف القرشي ،طبع بمطبعة الأمير 1996م.

[129])) لناصر الحائري،طبع بمنشورات سيد الشهداء بقم 1985م.

[130])) لعلاء الدين المدرس، طبع بطهران 1992م.

[131])) لمصطفى الكاظمي، طبع بمؤسسة البعثة طهران 1990م.

[132])) لمحمد كاظم القزويني،طبع بمؤسسة الوفاء بيروت 1985م.

[133])) لمحمد تقي المدارسي، طبع بالمركز الثقافي الإسلامي بطهران 1985م۔

[134])) لعلي محمد علي الدخيل،طبع في مطبعة الآداب بالنجف 1965م وبدار المرتضى بيروت 1983م.

[135])) لجواد حسين الحسيني الشاهروردي،طبع بمكتبة الإرشاد الكويت 1985م.

[136])) لمحمد كاظم القزويني،طبع بدار الطليعة بالكويت.

[137])) لمحمد سعيد الموسوي الهندي،طبع بالنجف 1973م.

[138])) لعبد الله السبيتي،طبع في دار الحديث بغداد 1955م.

[139])) لمحمد الحيدري،طبع بمؤسسة الإمام المهدي 1983م.

[140])) لباسم الهاشمي ، طبع بدار الحق بيروت 1994م.

[141])) لإبراهيم الأميني،طبع بدار الهادي بيروت 1992م.

[142])) لباسم الهاشمي،طبع في دار المحجة البيضاء بيروت 1414هـ.

[143])) لمحمد باقر الصدر، طبع بتحقيق عبد الجبار شرارة.

[144])) لثامر هاشم حبيب العميدي،طبع بقم بإيران 1416هـ.

[145])) لعلي الميلاني الحسيني، طبع بمركز الأبحاث العقائدية بإيران.

[146])) لمحمد باقر الإيرواني،طبع بمركز الأبحاث العقائدية بإيران.

[147])) لهادي النجفي، طبع بدار الدخائر بقم إيران1991م.

[148])) تأليف علي الدواني.

[149])) تأليف محمد تقي شريعتي.

[150])) تأليف محمد حسين الأديب.

[151])) تأليف الشيخ مرتضى المطهري.

[152])) تأليف محمد أمين زين الدين العاملي.

[153])) تأليف الحاج ميرزا خليل.

[154])) لجعفر الحسيني.

[155])) تأليف الشيخ محمد باقر الإلهي القمي.

[156])) شرح ضرب کلیم ،نظم مہدی ،صفحہ174

[157])) أبو القاسم عبد الرحمن بن عبد الله بن أحمد السهيلي (المتوفى: 581هـ)،الروض الأنف في شرح السيرة النبوية لابن هشام،ج2،ص279،مطبوعه: دار إحياء التراث العربي، بيروت،لبنان،1421هـ

[158])) (خریج مجمع الشیخ احمد کفتارو،دمشق، السوريه)

حوالہ جات[ترمیم]

  1. استشهاد فارغ (معاونت) 
  2. استشهاد فارغ (معاونت)