میاں خیل

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

میاں خیل قبیلہ

لغت کی کتاب فیروز الغات کے مطابق لغوی معنی کے اعتبار سے لفظِ میاں،آقا،سردار،مالک،حضور، سرکار،خاوند،شہزادہ،استاد، جناب،دوست عالم،نیک،شریف عزت دار اور بزرگ،مذہبی سربراہ کو جبکہ میاں گان ان کی اولاد کو کہا جاتا ہے



میاں قیاس الدین میاں خیل افغانستان کابل سے ہجرت کر کے برصغیر پاک و ہند آئے.

میاں خیل قبیلہ کے میاں قیاس الدین اپنے اہل و عیال کے ساتھ افغانستان کے قدیم شہر کابل کے قصبہ گومل سے ہجرت کر کے بغرض جہاد براستہ خیبر پاس سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ کے ملحقہ علاقوں میں اباد ہوئے

میاں گان لوگوں نے سید احمد شہید رح اور شاہ اسماعیل شہید رح کے شانہ بشانہ انگریزوں مرہٹوں سکھوں اور باقی غیر مسلم قوتوں کے خلاف جہاد کیا

میاں قیاس الدین کے دو بیٹے میاں شمس الدین اور میاں ستار الدین کا نام تاریخ میں ملتا ہے میاں قیاس الدین خیبر پاس سے ہوتے ہوئے نوشہرہ اور پھر صوابی میں اباد ہوئے اور پھر صوابی سے ہجرت کر کے ہزارہ ڈویژن ضلع ہری پور کے گاؤں برگ امازئی میں اباد ہوئے.. میاں قیاس الدین کے بیٹے ستارالدین کی اولاد سے میاں جمال الدین اور میاں جموں دو بھائی تھے میاں جمال الدین کی اولاد مختلف علاقوں میں اباد ہوئے جن میں برگ، گڑھی ستھانہ، انورہ، چنگر، لورگراں کھیری گندف، پھرہالہ، پنڈ منیم، کھلابٹ کیاء مشہور ہیں اور میاں جموں کی اولاد کھیری ضلع ہری پور کے ایک گاؤں میں اباد ہوئے.

میاں خیل قبیلہ کے لوگ خدا پرست اور دین اسلام پر چلنے والے لوگ ہیں پرامن زندگی گزارنا ان کا شیوا ہے لیکن بات جب ملک وطن اور دین اسلام ناموس انبیا کرام علیہم السلام اور ناموس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی ہو تو میاں خیل قبیلہ جان کی بازی لگا دیتا ہے۔

میاں قیاس الدین بابا کا مزار برگ امازئی کے قبرستان میں ہے میاں قیاس الدین بابا کا جائے مدفن برگ امازئی کا قبرستان ہے

میاں قیاس الدین بابا کے ایک بھائی کا مزار برگ کے ملحقہ گاؤں میں ہے جسے چھاڑی والا بابا کے نام سے جانا جاتا ہے

میاں خیل قبیلہ جب دریائے سندھ کے کنارے تربیلہ اور تور غر میں آباد ہوا تو ان کو مقامی سیدوں اور صاحبزادہ اخونزادہ لوگوں نے رہنے کے لیے جگہ دی

یہ قبیلہ جلد ہی یہاں کے مقامی لوگوں کے ساتھ گل مل گیا..

اس قبیلہ کے لوگ اسلحہ سازی کا کام بخوبی جانتے تھے جس کی وجہ سے جلد ہی یہاں کے لوگوں میں مشعور ہو گئے اور ان کے باقی قبائل کے ساتھ تعلقات استوار ہوتے رہے..

قبیلہ کے افراد کی اسلحہ سازی کے ہنر کی تعریف اہل علاقہ کی زباں زد عام ہے اس قبیلہ کی مشعور تین توپوں کا زکر بھی قابل زکر ہے جن میں سے ایک توپ ایبٹ آباد پولیس لائن میں نسب کی گئی جو کے میاں عبد الرحمن خان کی ہاتھ کی بنی ہوئی ہے اور اج بھی مین روڈ پولیس لائن ایبٹ آباد میں نسب ہے اور دوسری توپ نوشہرہ چھاؤنی میں نسب کی گئی جب کے تیسری توپ معززین قبیلہ نے تربیلہ ڈیم بنتے وقت اداروں سے چھپا کر ڈیم میں چھپا دی تھی یہ سوچ کر کہ جب حالات سدھر جائیں گے تو اجداد کی نشانی کے طور پر قبیلہ کے حجرہ میں نسب کی جائے گی لیکن ڈیم کے ابتدائی دنوں میں پانی کا بھاؤ بہت تیز تھا جس کی وجہ سے شائد وہ توپ بہہ گئی اور آج تک نہ مل سکی

قبیلہ کے معززین و اجداد کے ہاتھوں سے بنی ہوئی بندوقیں اور اسلحہ اج بھی اہل علاقہ تربیلہ و تور غر نے سنبھال کر رکھا ہوا ہے بطور نشانی..

اسلحہ سازی کا ہنر تو قبیلہ کی اکثریت کے پاس تھا جس کی وجہ سے انھوں نے قابض انگریز کے ناک میں دم کر رکھا تھا آئے روز انگریز کے ساتھ معرکہ آرائی ہوتی.. انگریز نے اس قبیلہ پر پابندی لگائی ہوئی تھی کہ ان لوگوں کے ساتھ تعلقات.. تجارت اور لین دین نہیں کیا جا سکتا.. اور نہ ہی اس قبیلہ کے لوگ زمین جائداد نہیں خرید سکتے ہیں..

پاکستان بننے کے بعد جب تربیلہ ڈیم بنانے کے لیے صدر پاکستان ایوب خان نے 96 گاؤں کو اجاڑہ تو لوگوں کو پنجاب سندھ بلوچستان میں زمینیں الاٹ کی گئی

سنہ 1974 میں میاں خیل قبیلہ کی یہ شاخ بھی تربیلہ ڈیم کے متاثرین میں شمار ہوئی اور اس میاں خیل قبیلہ کی شاخ نے بھی باقی اقوام کی طرح نوآبادیاتی نظام کے تحت نئی اباد ہونے والی بستی کھلابٹ ٹاؤن شپ میں مستقل سکونت اختیار کی. کچھ معززین قبیلہ نے دوردراز کے علاقوں میں ہجرت کی جس میں پھرہالہ، پنڈ منیم، راج پور چیچیاں منگ، چنگر، لورگران، تنی، ترپی، لساں نواب، امب دربند، گندف قابل زکر ہیں اور کچھ لوگ کراچی کی طرف ہجرت کر گئے..

سنہ 1974 تک یہ لوگ مقامی سیدوں اور صاحبزادہ اخونزادہ لوگوں کی زمینوں پر رہائش پزیر رہے.. تربیلہ ڈیم بننے کے بعد میاں خیل قبیلہ کی شاخ قیاس خیل کے معززین کرام و اکابرین، و مشران نے اپنے لیے زمین جائداد لینے کا فیصلہ کیا جس کی وجہ سے تمام قبیلہ کے افراد نے اپنے استطاعت کے مطابق جہاں جہاں جگہ میسر ہوئی زمین خرید کر رہائش پزیر ہوئے..

نوٹ: بعض لوگ اعوان ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں جو سراسر کم علمی اور نا بلدی کی وجہ سے ہے کیوں کہ اس قبیلہ کے کسی فرد کا تعلق اعوان قبیلہ سے بالکل بھی نہیں ہے اور یہ سراسر من گھڑت اور بے ڈھنگ سی بات ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ.

چونکہ میاں خیل قبیلہ بوجہ عداوت انگریز تجارت اور زمینی لین دین نہیں کر سکتے تھے تو تربیلہ ڈیم بننے تک تمام قبیلہ کے مشران کے پاس ذاتی زمین جائداد کچھ بھی نہ تھی

ماسوائے میاں بشیر بابا کے بیٹے میاں حمید گل بابا کے بیٹے میاں اسماعیل بابا کے بیٹے میاں عبدالطیف کے..

میاں عبدالطیف بابا نے کاغذاتِ میں ردوبدل کر کے مطلب قوم تبدیل کر کے یعنی اپنے آپ کو اعوان ظاہر کر کے سب سے پہلے زمین خریدی .. یہاں یہ بات بھی قابل زکر ہے بقول مشران و اکابرین قبیلہ کہ میاں عبدالطیف بابا کی نرینہ اولاد نہیں تھی ان کی صرف چھ بیٹیاں تھی جن کی فکر رہائش کے لیے میاں عبدالطیف بابا نے اپنے ایک دوست جن کا نام نصیر خان تنولی تھا اور گاؤں انورہ سے تعلق ہے ان کے باہمی صلاح مشورہ سے یہ انتہائی قدم اٹھایا اور اپنے اپ کو اعوان ظاہر کر کے سب سے پہلے زمین خریدی اور رہائش گاہ بنائی..

اس کاغذاتی ردوبدل کے علاوہ میاں اسماعیل بابا کی اولاد کا تعلق کسی بھی طور پر اعوان قبیلہ سے نہیں ہے جو ایک سراسر غلط اور مفروضی بات ہے جس کا کوئی بھی دستاویزی ثبوت کسی کے پاس نہیں ہے..

جس کو بنیاد بنا کر کچھ لوگ اعوان ہونے کا جھوٹا و بے بنیاد دعوی کرتے ہیں جو سراسر غلط فعل ہے اور ان اشخاص کے پاس کوئی مستند کاغذات یا کوئی شجرہ یا کوئی علمی معلومات تک نہیں ہیں اور باقی مشران و اکابرین قبیلہ اس من گھڑت قول و فعل کی سختی سے تردید کرتے ہیں اور سخت نالاں ہیں.

میاں خیل قبیلہ کی شاخ قیاس خیل جو مختلف علاقہ جات میں اباد ہوئے ان کی تفصیل درج ذیل ہے..

میاں قیاس الدین بابا کے دو بیٹے میاں جمال الدین بابا اور میاں جموں بابا

میاں جمال الدین بابا کے بیٹے میاں زیداللہ بابا ، میاں نجم الدین بابا ، میاں بشیر بابا، میاں قیاس الدین بابا ثانی، میاں خلیل بابا.

میاں خلیل بابا صاحب اولاد نہیں تھے۔

میاں بشیر بابا کی اولاد انورہ گڑھی ستھانہ سے راج پور، چیچیاں منگ کھلابٹ ٹاؤن شپ

میاں زیداللہ بابا کی اولاد برگ، کھلابٹ ٹاؤن شپ، پھرہالا، پنڈمنیم، چنگر، لورگراں، لساں نواب اور کراچی

میاں جمال الدین بابا کے بیٹے میاں قیاس الدین ثانی کی اولاد گندف اور کھلابٹ ٹاؤن شپ

میاں نجم الدین بابا کی اولاد اوگی اور ملحقہ گاؤں، کراچی

میاں قیاس الدین بابا کے بیٹے میاں جموں بابا کی اولاد ہری پور کے گاؤں کھیری ماڑی اور کراچی میں آباد ہیں

میاں جموں بابا کے بیٹے میاں رحم الدین بابا تھے

میاں رحم الدین بابا کی اولاد میں، میاں مصری بابا، میاں حمید گل بابا، میاں حسن گل بابا اور میاں گل حسین بابا معروف ہیں

میاں مصری بابا نہایت ہی متقی و پرہیز گار اور درویش صفت انسان تھے ان کا مزار کھیری ماڑی گاؤں میں موجود ہے

میاں خیل قبیلہ کے اس علاقہ میں اسلحہ کے دو کارخانے بہت مشعور ہوئے ایک کارخانہ میاں جمال الدین بابا کی اولاد سے میاں بشیر بابا کی اولاد گڑھی ستھانہ اور انورہ میں اور دوسرا کارخانہ میاں جمال الدین بابا کی اولاد سے میاں زیداللہ کے بیٹے میاں خیراللہ کی اولاد کا برگ امازئی میں تھا

میاں قیاس الدین بابا نے افغانستان سے برصغیر ہجرت کی تو اس علاقہ میں میاں خیل قبیلہ کی نسل نے اپنی الگ خیل اپنے جد امجد میاں قیاس الدین بابا کے نام سے قیاس خیل منسوب کی جس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کے مقامی لوگ میاں قیاس الدین بابا کو ہی جانتے تھے تو ان لوگوں کو قیاس خیل قوم سے جانا جاتا ہے

میاں قیاس الدین بابا کی اولاد متاثرین تربیلہ ڈیم میں شمار کی جاتی ہے تربیلہ ڈیم بننے کے بعد جب قبیلہ مشران و اکابرین نے نئے آباد ہونے والے علاقوں میں رہائش اختیار کی تو حصول حلال رزق کے لیے ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے منسلک ہو گئے اب زیادہ تر لوگ ٹرانسپورٹ کا کام کرتے ہیں

میاں بشیر بابا کی زیادہ تر اولاد اب ٹرانسپورٹ کے شعبہ سے منسلک ہیں

میاں عبد الجلیل خان کی اولاد کا ٹرانسپورٹ اور اسکریپ کے کاروبار میں نمایاں نام و رتبہ ہے

میاں قیاس الدین کی آل اولاد کا شجرہ مکمل ضلع ہری پور کی یونین کونسل کھلابٹ ٹاؤن شپ میں میاں خیراللہ بابا کی اولاد کے پاس موجود ہے


میاں خیل قبیلہ ڈیرہ اسماعیل خان میں

میاں خیل قبیلہ ڈیرہ اسماعیل خان کے جنوبی علاقوں چودھواں میں زیادہ تر آباد ہے میاں خیل قبیلے کی مشہور شخصیات میں سردار عطاء اللہ خان مرحوم، سردار ثناء اللہ خان میاں خیل صوبائی وزیر، آئی جی سندھ شاہد حیات خان اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مظہر عالم میاں خیل مشہور شخصیات میں شامل ہیں کہتے ہیں کہ لودی کے تین بیٹے تھے ایک نیازی، دوسرا سیانڑی تیسرا دوتانی.. سیانڑی کے آگے دو بیٹے تھے ایک پڑانگی دوسرا اسمعیل.. اسمعیل کے آگے دو بیٹے تھے ایک لوہانی دوسرا سوری.. اس لوہانی نے دو شادیاں کیں. اول زوجہ سے مروت پیدا ہوئے جن کو سپین لوہانی کہتے ہیں جبکہ زوجہ دوم سے جو اولاد ہوئی وہ تور لوہانی کہلائی. تور لوہانی میں دولت خیل، میاں خیل اور تتور شامل ہیں۔ اس آرٹیکل میں ہم میاں خیلوں کا ذکر کریں گے باقی ہر آئندہ آرٹیکل میں بات کریں گے. کہتے ہیں کہ یہ سارے لوہانی کٹہ واز کے علاقے میں رہتے تھے جہاں پر سپین لوہانیوں کا سلیمان خیل غلجیوں سے کسی عورت کے تنازع پر جھگڑا ہو گیا جس کے نتیجے میں تور و سپین لوہانیوں نے ملکر غلجیوں کے خلاف جنگ لڑی لیکن شکست انکا مقدر بنی اور یوں دولت خیل اپنے دیگر لوہانی قبیلوں کے ساتھ براستہ گومل ٹانک و دامان آ گئے جہاں پر پڑانگی و سروانی قبائل آباد تھے جنھیں شکست دیکر انھوں نے ٹانک و دامان پر قبضہ کیا. اس علاقے کو آپس میں تقسیم کر لیا. چرن جیت لعل کے بیان کے مطابق جب پندرھویں صدی میں لوہانیوں نے ٹانک و دامان کو آپس میں تقسیمِ کیا تو چودھواں کا علاقہ جہاں سروانی آباد تھے وہ میاں خیلوں کے حصہ میں آیا جہاں پر میاں خیلوں نے استریانی پشتونوں کے ساتھ الحاق کرکے سروانیوں کو یہاں سے نکال کر خود قابض ہو گئے.. بعد میں جب نواب کٹی خیلوں کو مروتوں و اندرونی دولت خیلوں کے خلاف بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا تو انھوں نے گنڈاپوروں کو جو اس وقت تک خانہ بدوش تھے کو میاں خیلوں کی کچھ جگہوں پر آباد ہونے کا حکم دیا جس سے میاں خیلوں و گنڈاپوروں کے درمیان تنازعات شروع ہو گئے لیکن کٹی خیلوں کی سرداری کے سبب میاں خیل گنڈاپوروں کو اپنے مقبوضہ جات سے ہٹانے میں ناکام رہے. کیونکہ میاں خیلوں کی افرادی قوت بھی گنڈاپوروں کی نسبت قلیل تھی

سیّد اور میاں میں فرق؟

بحث چلتی ہے کہ سیّد اور میاں میں کیا فرق ہے،دونوں ایک ہیں یا الگ الگ؟اگر ایک ہیں یعنی الفاظ مترادفہ ہیں تو کس بنیاد پر اور الگ الگ ہیں تو وہ بھی کس بنیاد پر؟

سیّد وہ لوگ ہیں جن کا شجرہ نسب امام حسن اور امام حسین سلام اللّٰہ علیھما سے ہوتے ہوئے حضرت فاطمہ سلام اللّٰہ اور حضرت علی کرّم اللّٰہ وجہہ سے جا ملتا ہو،

میاں عالم،نیک،شریف عزت دار اور بزرگ،مذہبی سربراہ کو جبکہ میاں گان ان کی اولاد کو کہا جاتا ہے۔

ایک انگریز مؤرخ مک میہن اُوریمزی اپنی کتاب"دا خاورہ او دا خلک" میں لکھتے ہیں میاں گان یہ ان بزرگان اور مذہبی پیشواؤں کی اولاد ہیں جنھوں نے شہرت صرف مقامی سطح پر نہیں دور دراز تک مختلف قبیلوں میں پائی بھی ہو،میاں گان ان بزرگوں کی پشت کو کہا جاتا ہے جو زمانہ قدیم میں گذرے ہو،جدید بزرگوں کی اولاد کو میاں نہیں کہا جا سکتا،آگے لکھتے ہیں کہ اخون سوات کی اولاد اس طبقے میں شامل نہیں،ان کی اولاد کو میاں گلان محض احترام کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے،اصل میں یہ اخونزادگان ہیں،مزید لکھا ہے اگر یہ خاندان اپنا روحانی ریکارڈ برقرار رکھے تو امکان ہے کہ آنے والے زمانے میں ان کی اولاد میاں گان ہو۔ کتاب تاریخ ریاست سوات میں صفحہ نمبر/51/ پر لکھا ہے وہ لوگ جن کے آباء،اجداد اپنے زمانے کے بڑی ولی تھے ان کی اولاد کو میاں کہا جاتا ہے۔ اسی طرح اخوند لفظ بھی اس وقت کے بڑے عالم سکالر اور روحانی شخصیت کو کہا جاتا تھا جو آگے چل کر ان کی اولاد کو اخوند خیل کہا جاتا ہے،جن کے بڑے اپنے زمانے کے اولیاء اللّٰہ تھے اور ان کے باقاعدہ آستانے ہوا کرتے تھے تو انھیں آستانہ دار کہا جاتا تھا چونکہ یہ لفظِ میاں ایک ادب اور احترام کا لفظ ہے تو سوات،بونیر،شانگلہ،دیر اور ملاکنڈ کے بعض علاقوں میں دوسرے قبیلے کے لوگ بطور ادب و احترام سادات کو بھی میاں صاحب سے پکارتے ہیں،جس سے ہم نے یہ سمجھا جو میاں ہوگا وہ سیّد ہوگا یہ بالکل غلط ہے کیوں کہ میاں کوئی خاص نسب،قبیلہ نہیں اگر کوئی خاص نسب،قبیلہ ہوتا تو نسابہ اور محققین اسے ضرور لکھتے لیکن ایسا کہیں سے ثابت نہیں بالکہ ایک ادب کا لفظ ہے جو بزرگوں کی اولاد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،اس لحاظ سے جن علاقوں میں سادات کو بطور احترام میاں صاحب کہا جاتا ہے تو وہاں ہر سیّد میاں ہے لیکن ہر میاں سیّد نہیں۔ اگر اسے صرف سادات ہی کے لیے خاص مانا جائے یعنی جس کے نام میں میاں ہو وہ ضرور سیّد ہوگا تو پھر بہت سارے لوگ ایسے ہیں جن کے ناموں میں لفظ میاں ہے جبکہ حال یہ ہے کہ اب تک کسی نے بھی اسے سیّد نہیں کہا ہے اور خود بھی اپنے کو سیّد نہیں کہتے یہ لفظ صرف پشتون معاشرے میں احترام کے لیے خاص نہیں بالکہ اردو ادب میں بھی جا بجا ادب،احترام کے لیے استعمال کرتے ہیں،شوہر کو بھی میاں کہتے ہیں، بطورِ ادب،احترام اور تعظیماً ہندوستانی مفسرین و دیگر علما وہ اس لفظ کو کچھ یوں ذکر کرتے ہیں "میاں اللّٰہ،اللّٰہ میاں" یعنی لفظِ اللّٰہ کے بعد یا اس سے پہلے جا بجا اپنے کلام میں لاتے ہیں پنجابی زبان بولنے والے جب آپ کی بات کاٹتے ہیں تو کہتے ہیں "ارے میاں" یہ بات اس طرح ہے، خلاصہ کلام یہ نکلا کہ لفظِ میاں کسی خاص نسب کے لیے خاص نہیں جیسے کوئی میاں صاحب بولے اور ہم کوئی نسب،قبیلہ ہی سمجھے بالکہ یہ ایک عام لفظ جو کسی بھی قبیلے سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کی اولاد کے لیے استعمال ہوتا ہے،لہٰذا ہمیں ہر میاں کو سیّد نہیں سمجھنا چاہئیے،اگر کوئی آپ کے سامنے کسی کے لیے میاں صاحب استعمال کریں تو آپ کو خود تحقیق کرنی ہے کہ اس علاقے میں سادات کو کس ناموں سے پکارا جاتا ہے جیسے پختونخوا کے اکثر علاقوں میں باچا صاحب،شاہ جی،باجی اگر اس علاقے میں رہنے والے صرف سادات ہو لفظ میاں صرف سادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہو تو جس کا تذکرہ کیا جا رہا ہے وہ سیّد ہوگا،اگر دوسرے بزرگان دین کی اولاد بھی اسی علاقے میں رہتے ہو تو پھر تحقیق کی ضرورت ہوگی کہ یہ میاں صاحب کس بزرگ کی اولاد سے ہے یعنی کس قبیلے کے سے تعلق رکھتا ہے،

انداز بیاں گر چہ میرا شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

نوٹ:اگر کوئی میرے اس دعوی جس میں یہ کہا ہے کہ لفظِ میاں کسی قبیلے کے لیے خاص نہیں کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں تو دلیل کی بنیاد پر بحث کر سکتے ہیں۔

. میاں خیلوں کے متعلق زیادہ تر معلومات ہمیں چرن جیت لعل کی کتاب تاریخ قسمت ڈیرہ اسماعیل، حیات افغانی اور گزٹیر آف ڈیرہ اسماعیل خان سے ملتی ہیں. [1]

  1. تحریر و تحقیق؛ نیازی پٹھان قبیلہ فیس بک پیج Www.niazitribe.org