وطن اصلی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

وطنِ اصلی :وطن اصلی سے مراد کسی شخص کی وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہے یااس کے گھرکے لوگ وہاں رہتے ہیں یاوہاں سَکُونت کرلی اوریہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا۔[1] صاحب بدائع امام کا سانی کے بیان کے مطابق وطن کی تین قسمیں ہیں : (1) وطن اصلی۔ (2) وطن اقامت (3) وطن سکنیٰ ۔

وطن اصلی[ترمیم]

وطن اصلی : کسی شخص کا وطن اصلی تین وجوہ میں سے کسی ایک وجہ سے بنتا ہے۔

  • (1) جائے ولادت جب کہ آدمی وہاں رہتا بھی ہو۔
  • (2) وہ جگہ جہاں آدمی نے سکونت اختیار کرلی ہو اور یہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہیں جائے۔
  • (3) جہاں اس کے اہل و عیال مستقل رہائش رکھتے ہوں۔ جہاں مرد شادی کر لے اورعورت کا میکہ بھی وہ وطن بھی اصلی ہوتا ہے
  • وطن اصلی یہ سب سے اعلی درجے کا وطن ہوتا ہے۔ وطن اصلی میں اقامت کی نیت ضروری نہیں
  • اگر کسی شخص نے اپنا شہر بالکل چھوڑ دیا اور کسی دوسرے شہر میں اپنا گھر بنا لیا اور بیوی بچوں سمیت وہاں رہنے لگا اور شہر اور پہلے شہر اور پہلے گھر سے کچھ مطلب نہیں رہا تو اب دوسرا شہر اس کا وطن اصلی بن گیا اور پہلا شہر اور پردیس برابر ہو گئے اس لیے اگر پہلے شہر میں جائے گا تو مسافر ہوگا۔[2]

وطنِ اصلی کا حکم[ترمیم]

نماز سے متعلق وطن اصلی اور وطن اقامت کا حکم یکساں ہے ہر دو مقامات پر انسان پوری ہی نماز ادا کریگا ،عبد اللہ بن عمر اور بعض دوسرے صحابہ سے ثابت ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنے اصلی وطن سے اڑتالیس میل یا یزادہ دور جاکر پندرہ دن سے کم مدت ٹھہرنے کا ارادہ کرے تو وہ مسافر شمار ہوگا اور نماز قصرادا کریگا۔[3]

وطن اصلی کی اقسام[ترمیم]

جس جگہ آدمی نے ملازمت یا تجارت وغیرہ کی غرض سے مستقل سکونت اختیار کر لی ہے ،اور وہاں اپنے اہل و عیال کو بھی لا رکھا ہے اور وہاں گھر و زمین بھی بنالی ہے اور وہیں رہ جانے کی نیت بھی ہے تو فقہا کی تصریحات کے مطابق اس کو اس کا وطن اصلی مانا جائے گا۔ لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ وہاں سے واپس اپنے وطن یا کسی اور جگہ چلے جانے کا قصد نہ ہو، اگر ایسا قصد و ارادہ ہوگا تو وہ مقام وطن اصلی نہ ہوگا۔علامہ کاسانی رحمہ اللہ اور علامہ ابن نجیم مصری کی یہ عبارت اس بارے میں صاف ہے:
’’ وھو وطن الانسان في بلدتہ ، أو بلدۃ أخری اتخذھا دارا ، و توطن بھا مع أھلہ وولدہ ، ولیس من قصدہ الارتحال عنھا بل التعیش بھا‘‘۔
وطن اصلی انسان کا اپنا شہر ہے یا کوئی دوسرا شہر جس کو اس نے اپنے لیے وطن بنا لیا ہو اور اپنے اہل و عیال کو اس میں رکھا ہو اور وہاں سے منتقل ہونے کا کوئی قصد نہ ہو۔[4] اسی سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک آدمی کے دو یا زائد وطن اصلی ہو سکتے ہیں،مثلا ایک وہ جگہ جہاں پیدائش ہوئی ،دوسری وہ جگہ جہاں اس نے شادی کرکے اپنے اہل و عیال کو رکھا ہو اہے اور تیسری وہ جگہ جہاں اس نے دوسری شادی کی اور وہاں بھی اپنے اہل و عیال کو رکھا ہوا ہے ۔

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بہارشریعت ،حصہ4،ص99
  2. البدائع : ج : 1: ص : 97، 98
  3. تفسیر معالم العرفان۔ مولانا صوفی عبد الحمید سواتی
  4. بدائع الصنائع:1/280، البحر الرائق:2/239