یونس بن عبید

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
یونس بن عبید
معلومات شخصیت
عملی زندگی
استاد ابوبکر بن انس بن مالک   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں


یونس بن عبیدؒ تابعین میں سے ہیں۔

نام ونسب[ترمیم]

یونس نام،ابو عبیداللہ کنیت،بنی عبد قیس کے غلام تھے۔

فضل وکمال[ترمیم]

یونس اگرچہ غلام تھے،لیکن حسن بصری کے خاص اصحاب میں تھے،ان کے فیض صحبت وہم نشینی نے ان کو دولتِ علم وعمل سے مالا مال کر دیا تھا،حافظ ذہبی ان کو امام حجۃً اورقدوہ لکھتے ہیں [1]امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق اورجلالت پر سب کا اتفاق ہے اور وہ جلیل القدر تابعی تھے [2]ابن حبان لکھتے ہیں کہ وہ علم و فضل حفظ واتقان پابندی سنت اور اہل بدعت سے بغض ،تقشف،تفقہ فی الدین اورکثرتِ حفظ میں اپنے زمانہ کے مساوات میں تھے۔

حدیث[ترمیم]

حدیث میں اپنے عہد کے ممتاز حفاظ میں تھے،علامہ ابن سعد لکھتے ہیں:کان ثقۃ کثیر الحدیث صحابہ میں انھوں نے انس بن مالکؓ کو دیکھا تھا،لیکن ان سے فیض یاب نہ ہو سکے انھوں نے زیادہ تر حضرت حسن بصریؓ سے استفادہ کیا،ان کے بعد محمد بن سیرین ثابت البنانی، عبد الرحمن بن ابی بکرہ،حکیم بن عرج،نافع مولی ابن عمر،حمید بن بلال،عطاء بن ابی رباح وغیرہ سے سماع حدیث کیا تھا۔ [3] حدیث میں اپنے اکثر معاصرین پر فائق تھے،سعید بن عامر کا بیان ہے کہ میں نے یونس بن عبید سے افضل کسی کو نہیں پایا،تمام اہل بصرہ کی یہی رائے ہے ابو حاتم کہتے ہیں کہ وہ سلیمان تیمی سے بھی بلند مرتبہ تھے،تیمی ان کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتے تھے۔اس کمال کے ساتھ وہ حدیث میں بڑے محتاط تھے،حدیث بیان کرنے کے بعد ہمیشہ تین مرتبہ استغفراللہ کہتے تھے [4] محض احتیاط کی بنا پر حدیثوں کو قلم بند نہیں کرتے تھے۔

تلامذہ[ترمیم]

قابل ذکر تلامذہ کے نام یہ ہیں، ان کے صاحبزادے عبد اللہ،شعبہ،ثوری،وہیب حماد،عبد اللہ بن عیسیٰ ،خزاز اورخارجہ بن مصعب وغیرہ۔ [5]

اخلاص فی العلم[ترمیم]

ان کی علمی طلب شہرت اور ناموری کے لیے نہیں ؛بلکہ خالصۃ للہ تھی یہ ہشام بن حسام کا بیان ہے کہ میں نے یونس بن عبید کے سوا کسی کو ایسا نہیں پایا جس کی غرض علم سے محض وجہ اللہ ہو۔ [6]

فضائل اخلاق[ترمیم]

وفور علم کے ساتھ عمل بھی یہی درجہ کا تھا،عقائد میں بڑے متشدد اورمذہب میں بڑے متقشف تھے،ابن حبان لکھتے ہیں کہ وہ بڑے عامل سنت بدعات سے نفرت کرنے والے اور متقشف تھے،عقائد کے باب میں اتنے متشدد تھے کہ جدید عقائد وخیالات کو گناہ گبیرہ سے بھی بڑھ کر سمجھتے تھے،اپنے صاحبزادے سے ایک مرتبہ فرمایا کہ میں تم کو سود،چوری اورشراب نوشی سے منع کرتا ہوں،لیکن تمھارا ان چیزوں میں مبتلا ہوکر خدا سے ملنا،اس کے مقابلہ میں زیادہ پسند کرتا ہوں کہ عمرو بن عبید اوراس کے ساتھیوں کے ہم خیال ہوکر اس سے ملو۔ [7]

مبتدعین کی عیادت کرنا بھی کار ثواب نہ سمجھتے تھے،ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ میرا ایک معتزلی پڑوسی بیمار ہے میں اس کی عیادت کروں،فرمایا ثواب کی نیت سے نہیں۔ [8] فرائض کے علاوہ زیادہ روزہ نماز نہ کرتے تھے،لیکن خدا کے حقوق وفرائض کی ادائیگی کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے،سلام بن مطیع کا بیان ہے کہ یونس بہت زیادہ نماز روزہ نہیں کرتے تھے؛ لیکن خدا کی قسم جب خدا کے حقوق کا وقت آتا تو وہ اس کی ادائیگی کے لیے بالکل تیار رہتے تھے [9]جہاد کو افضل العبادات سمجھتے تھے، اس کے چھوٹ جانے کا انتہائی قلق ہوتا تھا، ان کو کسی سبب سے جہاد کا موقع نہ ملا تھا، اس کا تادم آخر قلق رہا،اسحٰق بن ابراہیم کا بیان ہے کہ یونس مرض الموت میں اپنے پیروں کی طرف دیکھ کر روتے تھے لوگوں نے سبب پوچھا،فرمایا کہ وہ خدا کی راہ میں غبار آلود نہیں ہوئے [10]زبان پر اکثر کلمۂ استغفار جاری رہتا تھا ،عبد الملک بن سلیمان کا بیان ہے کہ میں نے ان سے زیادہ استغفار کرنے والا نہیں دیکھا۔ [11]

دیانت[ترمیم]

ان کا ذریعہ معاش تجارت تھا،ریشمی کپڑوں کی تجارت کرتے تھے اورتجارتی دیانت میں اس قدر مبالغہ کرتے تھے کہ اس مبالغہ کے ساتھ تجارت کرنا مشکل ہے ان کی تجارتی دیانت کے بہت سے واقعات کتابوں میں مذکور ہیں۔ ایک مرتبہ ایک خاص مقام پر ریشم کا نرخ بہت چڑھ گیا تھا، انھیں معلوم ہوا توانہوں نے ایک دوسرے مقام کے ریشم فروش سے تیس ہزار کا ریشم خریدا بعد کو انھیں خیال آیا تو اس بیچنے والے سے پوچھا کہ تم کو فلاں مقام پر مال کے نرخ چڑھنے کی خبر تھی، اس نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں اپنا مال کیوں فروخت کرتا،یہ جواب سن کر روپیہ لے کر مال واپس کر دیا۔ [12] ایک مرتبہ ایک عورت ان کے پاس خز کی چادر فروخت کرنے کے لیے لائی،انھوں نے اسے دیکھ کر قیمت پوچھی، اس نے کہا ساٹھ درہم، انھوں نے اپنے ایک ہمسایہ تاجر کو چادر دکھا کر پوچھا تمھاری نظر میں اس کی کیا قیمت ہے، اس نے کہا ایک سو بیس تک ہو سکتی ہے قیمت لگوانے کے بعد عورت سے کہا،اپنے گھروالوں سے پوچھ آؤ وہ ایک سو پچیس تک بیچنے کی اجازت دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک عورت ریشم کا ایک جبہ بیچنے کے لیے لائی،انھوں نے قیمت دریافت کی ،اس نے پانسو بتائی،ان کی نگاہ میں وہ اس سے بہت زیادہ قیمت کا تھا،اس لیے انھوں نے دو ہزار تک اس کی قیمت لگادی۔ [13] اس احتیاط کے باوجود انھیں اس بارے میں پورا اطمینان نہ ہوتا تھا،ابن شوذب کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ یونس اورابن عون حلال وحرام پر باتیں کر رہے تھے،دونوں نے کہا کہ ہمارے مال میں ایک درہم بھی حلال کا نہیں ہے۔ [14]

وفات[ترمیم]

139میں وفات پائی عبد اللہ بن عباسؓ کے پوتے سلیمان اور عبد اللہ بن علی اور پرپوتے جعفر اورمحمد نے جنازہ اٹھایا اوران کی زبان پر تھا کہخدا کی قسم یہ عزت وشرف ہے۔ [15]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تذکرۃ الحفاظ:1/130)
  2. (تہذیب الاسماء:1/168)
  3. (تہذیب التہذیب:11/442)
  4. (ابن سعد،ج 7،ق2،ص23)
  5. (تہذیب التہذیب:11/242)
  6. (تذکرۃ الحفاظ:1/130)
  7. (تہذیب التہذیب:11/444)
  8. (تہذیب التہذیب ایضاً)
  9. (تہذیب التہذیب:11/243)
  10. (تہذیب التہذیب ایضاً:444)
  11. (تہذیب التہذیب ایضاً:443)
  12. (تہذیب التہذیب ایضاً:444)
  13. (تہذیب التہذیب،ج11،ص444)
  14. (تہذیب التہذیب ایضاً)
  15. (ابن سعد،ج7،ق2،ص24)