مندرجات کا رخ کریں

ترک اولاد

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(لقیط سے رجوع مکرر)

ترک اولاد ایسا طرز عمل ہے جس کے تحت لوگ اپنے بچوں کے مفادات اور ان پر اپنا دعویٰ زائد از قانونی طریقے سے چھوڑ دیتے ہیں اور اس کے پیچھے یہ ارادہ ہوتا ہے کہ کبھی سر پر ستی کریں گے یا اس بات کا دعویٰ ہی کریں گے۔عربی میں لقیط اس بچے کو کہتے ہیں جو کہیں پڑا ملے اور اس کے والدین کا پتہ نہ ہو۔

عام طور سے اس اصطلاح کو جسمانی طور پر بچوں کے ترک کیے جانے کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے، مگر اس میں کئی غفلت اور جذباتی عدم وابستگی کے معاملے ہو سکتے ہیں، جیسے کہ ماں یا باپ میں سے کوئی اپنی اولاد کو لمبے عرصے تک مالی اور جذباتی مدد فراہم نہ کرنا۔ ترک اطفال ایسی صورت حال کو کہا جاتا ہے جس میں ماں باپ 12 مہینوں سے کم عمر کے کسی بچے کو کسی عوامی یا نجی ملکیت کے مقام پر خود سے چھٹکارا پانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ یہی باز خانہ آمدی پر نتیجہ خیز ہو سکتی ہے اگر گود لینے والے ماں پاپ غیر قانونی ذرائع، جیسے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ان بچوں کو نیا گھر فراہم کر دیں۔ [1][2][3] زیادہ تر معاملوں میں ترک اولاد بچوں کے استحصال کے قوانین کی ذیلی ذفعوں میں زمرہ بند ہے اور ایک سنگین قابل سزا جرم ہے۔ ریاستہائے متحدہ کی کچھ ریاستوں میں والدین کے حقوق کی باز تنصیب کی گنجائش موجود ہے۔ مگر یہ عملًا ناممکن ہے کہ کبھی دوبارہ والدین اولاد کو اپنے پاس لیں گے۔[4][غیر معتبر مآخذ؟] اس کے علاوہ مجرموں پر غیر ذمے دارانہ ترک ذمے داری کا مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اگر متاثرہ بچہ اس مذموم قدم کی وجہ سے مر جاتا ہے۔[5][غیر معتبر مآخذ؟]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Reuters Investigates - The Child Exchange"۔ Reuters۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2018 
  2. "What is Rehoming and What Can Be Done to Stop it" (بزبان انگریزی)۔ 2015-12-29۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2018 
  3. "What is Adoption Rehoming, Disruption, Dissolution? -" (بزبان انگریزی)۔ 2014-05-20۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 08 مارچ 2018 
  4. Cindy Chung۔ "Parental Rights Terminated Due to Child Abandonment"۔ Legal Zoom۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 جون 2018 
  5. "Child Abandonment - FindLaw"۔ Findlaw۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 مارچ 2018