صارف:سید کوثر عباس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
گر تو می خواہی مسلمان زیستن نیست ممکن جزبقرآن زیستن(علامہ محمد اقبال) قرآن کریم کا بروشسکی زبان میں پہلا اور واحد ترجمہ
جناب غلام الدین غلام ہنزائی کا شمار شمالی علاقہ جات گلگت میں اسماعیلیہ فرقہ کے بر جستہ علماء اور بروشسکی زبان کے محققین اور صاحب دیوان شعراء میں ہوتاہے۔آپ تقریبا سترہ کتابوں کے مولف یا مترجم ہیں بروشسکی زبان میں کلام الٰہی کا ترجمہ آپ کی تازہ ترین کاوش ہے جو قرآنی تعلیمات اور بروشسکی زبان وادب کے حوالے سے ایک گرانمایہ اضافہ ہے ۔قرآن مجید کا یہ ترجمہ قرآنی علوم پر کام کرنے والے بروشسکی زبان کے محققین اور طلباء کے لئے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے۔قرآنی علوم کے ماہرین خصوصا بروشسکی زبان جاننے والے علماء بخوبی جانتے ہیں قرآن مجید جیسی عربی زبان کی فصیح وبلیغ الہٰامی کتاب کا بروشسکی جیسی تہی دامن زبان میں ترجمہ کرنا کتنا مشکل ،محنت طلب اور وقت طلب کام ہوسکتاہے۔مگر اس مشکل اور اہم کام کو جناب غلام الدین ہنزائی نے چند سالوں کی محنت سے بروشوقوم کے لئے آسان بنادیا۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں بلتی،بروشسکی،شینا،کھوار اور وخی زبانے بولی جاتی ہیں۔ان میں سے بلتی اور کھوار زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ پہلے ہی ہوچکاتھا ۔اور شینا زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ اپنے تکمیل کے آخری مراحل سے گزررہاہے امیدہے کہ بہت ہی جلدقرآن مجید کا یہ ترجمہ بھی شایع ہوکر منظر عام پر آئے گا ۔لیکن اس سے پہلے جناب غلام الدین ہنزائی کی کاوشوں سے بروشسکی زبان کو بھی کلام الٰہی کااعجاز وبرکات لینے کا شرف حاصل ہوا ہے جس پر صرف غلام الدین ہنزائی ہی نہیں بلکہ بروشوقوم مبارک باد کے مستحق ہے۔کیونکہ فاضل مترجم نے قرآن مجید کا بروشسکی زبان میں ترجمہ کرکے نہ صرف بروشسکی زبان وادب کی خدمت کیا ہے بلکہ کلام الٰہی کوبروشوقوم تک ان کی اپنی زبان میں پہنچانے کا فریضہ بھی ادا کیا ہے۔جناب غلام الدین ہنزائی کواس زبردست اور تاریخی کارنامہ انجام دینے پر اس کا حقیقی اجر تو وہی (خداوند تعالی) دے گا جس کے کلام کا انہوں نے ترجمہ کیا ہے ۔لیکن اس تاریخی موقعہ پر شمالی علاقہ جات کے مشاہیرعلم وقلم نے بھی جناب غلام الدین ہنزائی کوخوب داد دیا ہے ۔ ہم یہاں پر شمالی علاقہ سے تعلق رکھنے والے مختلف مکاتب فکر کے بعض علماء اور دانشوروں کی رائے کو بیان کرتے ہیں . جناب فداعلی ایثار صاحب فاضل مترجم کو اس عظیم کارنامہ انجام دینے پر داد تحسین دیتے ہوئے لکھتے ہیں’’بروشوقوم کی جانب سے آپ بے پناہ تبریکات کے مستحق ہیں کہ آپ نے اس قوم کی علمی وادبی حوالے سے تنگ دامن زبان کو بھی ان زبانوں کی فہرست میں شامل کیا ،جن کا دامن قرآنی تراجم کے متاعِ بے بہاسے مالامال ہے ۔ہر چند کہ بروشسکی زبان تخلیقِ ادب کے ابتدائی مراحل سے گزررہی ہے ،مگر جوں جوں یہ زبان ادبی بلوغت کی منزلیں طے کرتی جائے گی۔توں توں بروشوقوم میں یہ میلان اور رغبت بھی بڑھتی جائے گی کہ وہ اپنی مادری زبان میں ترجمہ قرآن مجید سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے اور تمام آنے والے بروشونسل کے لوگ جناب غلام الدین صاحب کی اس خدمت ترجمہ قرآن کو منت گزار نہ نظر سے دیکھ لیں گے آپ کی یہ لازوال خدمت ترجمہ قرآن بروشسکی زبان کےلئے یقینا ایک علمی وادبی خدمت متصور ہوگی‘‘۔ جناب پروفیسر عثمان علی سابق پرنسپل کالج آف ایجوکیشن ،گلگت۔لکھتے ہیں ۔ ’’آپ(غلام الدین ہنزائی)نے قرآن پاک کا بروشسکی میں ترجمہ کرکے خود اس زبان کو مرنے ،مٹنے سے بچایاہے۔کیونکہ بروشسکی جیسی زبانیں جو بے برگ ونوا اور بے خاندان ہیں،آنے والے دور کی معاشرتی اور لسانی تغیرات سے جی نہیں سکتیں ۔میں سمجھتا ہوں قرآن پاک کا ترجمہ اس زبان کو زندگی بخشے گا۔لوگ اپنی زبان میں خدائی احکام کا مطالعہ کرکے اپنی زندگیوں کو سنوار سکیں گے‘‘۔ قرآن مجید کا بلتی زبان کے مترجم جناب محمد یوسف حسین آبادی صاحب لکھتے ہیں۔’’بروشسکی ایسی علاقائی زبان میں کلام الٰہی کا ترجمہ کرنا یقیناایک تاریخی کارنامے سے کم نہیں ۔برشسکی بولنے والوں کے لئے بلاشبہ یہ ایک نعمت غیر مترقبہ ہے جس کے لئے انہیں مترجم کا شکر گراز ہونا چاہئے‘‘۔
قراقرم انٹر نیشنل یونیورسٹی ،گلگت کے وائس چانسلر جناب عزیزعلی نجم صاحب لکھتے ہیں۔ ’’جناب غلام الدین ہنزائی صاحب نے قرآن حکیم کا ترجمہ بروشسکی زبان میں ترتیب دے کر اشاعت وتبلیغ قرآن میں نہ صرف حصہ لیابلکہ اہل بروشسکی کو قرآن سے قریبی تعلق مہیّا کرکے ایک عظیم صدقہ جاریہ اور خدمت خلق کے حق دار ٹھرے‘‘۔
شیرباز علی برچہ صاحب لکھتے ہیں کہ ’’بروشسکی ایک قدیم زبان صحیح تاہم اس میں اتنی وسعت نہیں کہ وہ قرآنی علوم ومفاہیم کے بیکراں سمندر کا احاطہ کرے۔ باوجود اس کے مترجم نے قرآن پاک کا ترجمہ کرتے وقت اس کم مائیگی کا کہیں احساس ہونے نہیں دیاہے‘‘۔ جناب سید محمدیحییٰ صاحب لکھتے ہیں۔ ’’جناب غلام الدین ہنزائی صاحب نے اپنے صوفیانہ کلام اور قرآن کریم کا بروشسکی میں ترجمہ کرکے اس کو دوام بخشاہے۔اگرچہ بروشسکی زبان کے حروف تہجی معروف نہیں پھربھی صاحب موصوف کا قرآن کریم کا بروشسکی ترجمہ ایک لازوال قلمی شاہکار ہے‘‘۔ جناب غلام الدین ہنزائی صاحب اپنے اس عظیم کارمانہ کے بارے میں لکھتے ہیں ۔’’ترجمہ کسی بھی زبان کا بعینہ ناممکن ہے ۔اور بات جب عربی جیسی بلیغ زبان اور بروشسکی جیسے محدود اور ادبی لحاظ سے تہی دامن زبان کی ہوتو مسئلہ اور زیادہ پر پیچ ہوجاتاہے ۔کلام مقدس کا بلحاظ ترجمہ اس کے معانی اور اسرار ورموز کا احاطہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں اور مجھے ترجمہ کے دوران شدت سے اس کاادارک رہاہے۔لیکن میرے نزدیک یہ ایک دینی فریضہ تھا اور بروشسکی زبان کے لئے ایک ادبی خدمت ۔اسی احساس نے اس مشکل مرحلہ کو میرے لئے آسان کردیا۔مجھے امید ہے کہ شمالی علاقہ جات کے عوام بالعموم اور بروشوقوم بالخصوص اس کو ایک عظیم تحفہ سمجھ کر قبول کرے گی اور میری اولاد کو اپنی نیک دعاوں میں یاد کرے گی‘‘۔ یقینا جناب غلام الدین ہنزائی صاحب نے بروشسکی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ کرکے شمالی علاقہ جات کے عوام بلخصوص بروشوقوم پر بہت بڑا حسان کیا ہے ان کی یہ کاوش نہ صرف ترجمے کے اعتبار سے لائق تحسین ہے بلکہ بروشسکی زبان وثقافت کے احیاء کی راہ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔بروشسکی زبان میں قرآن مجید کی اشاعت سے اس زبان سے واقف لوگوں میں قرآن فہمی عام ہوجائے گی جس کااجر یقینا فاضل مترجم کوملے گا،خداوند متعال ان کی توفیقات میں مزید اضافہ کرے۔آپ نے جس خلوص اور جذبہ ایمانی کے ساتھ اس عظیم فریضہ کو انجام دیا ہے اس سے نہ صرف قرآنی تعلیمات اور بروشسکی زبان وادب کی خدمت ہوئی ہے بلکہ آپ نے یہ عظیم کارنامہ انجام دے کر اپنی علمی اور ادبی حیثیت کو بھی ممتاز بنادیاہے ۔کیونکہ قرآن مجید جیسی عربی زبان کی فصیح وبلیغ الہٰامی کتاب کا بروشسکی جیسی تنگ دامن زبان میں ترجمہ کرنا جوئے شیر لانے سے زیادہ مشکل کام ہے ۔جناب شیرباز علی برچہ صاحب کے بقول ’’باوجود اسکے مترجم نے قرآن پاک کا ترجمہ کرتے وقت اس کم مائیگی کا کہیں احساس ہونے نہیں دیا‘‘۔ بروشسکی زبان میں قرآن مجید کے ترجمے کی افادیت کے حوالے سے ذہنوں میں ایک سوال ابھرتاکہ بروشسکی ترجمہ پڑھنے میں دقت ہوتی ہے ۔(جناب فدا علی ایثار صاحب کے بقول)ہر چندکہ بروشسکی زبان تخلیق ادب کے ابتدائی مراحل سے گزررہی ہے مگر جوں جوں یہ زبان ادبی بلوغت کی منزلیں طے کرتی جائے گی ۔توں توں بروشوقوم میں یہ میلان اور رغبت بھی بڑھتی جائے گی کہ وہ اپنی مادری زبان میں ترجمہ قرآن مجید سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرے۔ بہر حال یہ ایک مقدس دینی فریضہ تھا جسے فاضل مترجم نے نہایت ہی احسن طریقے سے انجام دیاہے اب بروشسکی زبان جاننے والے علماء اور دانشوروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس مقدس کام میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لئے اپنی تجاویز سے جناب مترجم کوآگاہ کرے ۔انسان خطاونسیان کا پتلا ہے اگر اس ترجمے میں کہیں کوئی کمی بیشی نظر آئے تو بھی جناب مترجم کو آگاہ کریں تاکہ اگلے ایڈیشن میں اس کی تصحیح کی جاسکے۔ ہماری نظراس ترجمے کی چند خصوصیات یہ ہیں: ٭ اس ترجمے کی سب سے پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ بروشسکی زبان میں قرآن مجیدکا پہلا اور واحدترجمہ ہے ۔ ٭ مترجم کے بقول’’قرآن کریم کا ترجمہ کرتے وقت مروجہ بروشسکی زبان کو ترجیح دی گئی ہے ‘‘۔ ٭ قرآن مجید کے عربی متن کو حظ طہ عثمان میں جبکہ بروشسکی ترجمہ کو اسکے اپنے رسم الخط میں تحریر کیا گیاہے۔ ٭ متن قرآن مجید کو دائیں صفحے پر جبکہ ترجمہ کو اسکے مقابل بائیں صفحے پر درج کیاہے۔ ٭ دونوں طرف آیت کا نمبر درج ہے اس سے متعلقہ یامطلوبہ آیت تلاش کرنے میں سہولت رہتی ہے۔ ٭ ترجمہ کے آخر میں بروشسکی زائد حروف وعلامات کا تعارف اور مختصر گرائمربھی شامل کیا گیاہے تاکہ بروشسکی ترجمہ کو سمجھنے اور صحیح
پڑھنے میں قارئین کے لئے آسانی رہے۔
٭ لفظی ترجمہ کے بجائے ہر ہر آیت کا بامحاورہ ترجمہ کیا ہے جو عام قارئین کے لئے آسان اور قابل تفہیم ہے۔ ٭ اس ترجمے کی ایک خصوصیت فاضل مترجم کے ایزادات کا برمحل قوسین میں استعمال ہے۔جسے آیات کا مفہوم واضح ہونے کے علاوہ ان
کا باہمی ربط وتعلق بھی کھل کر سامنے آجاتاہے۔
٭ قرآن مجید کا متن ۴۰۶ صفحات اور ترجمہ بھی ۴۰۶ صفحات پر درج ہے اسی طرح متن اور ترجمہ دونوں ۸۰۲۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ قرآن مجید کے اس ترجمے کے مطالعے کے دوران مذکورہ بالا تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ کچھ غلطیاں بھی نظر آئی ان سب کا اس مختصر مکالے میں ذکر کی گنجائش نہیں ہے ۔انشاء اللہ بہت جلدی اس ترجمے کے بارے میں ایک اورمفصل تحقیقی مقالے میںان تمام خوبیوں اور خامیوں کو بیان کرنے کو کوشش کی جائے گی ۔
تحریر:سید کوثر عباس موسوی