ام عطیہ بنت حارث

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ام عطیہ بنت حارث کا شمار بڑی جلیل القدر صحابیات میں ہوتا ہے۔

نام و نسب[ترمیم]

نسیبہ بنت حارث نام، انصار کے قبیلہ مالک بن النجار سے تھیں۔

اسلام[ترمیم]

جب رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ جوق در جوق سعادت اندوز اسلام ہونے لگے آپ نے بیعت کی خواہش مند عورتوں کو ایک مکان میں جمع ہونے کی ہدایت فرمائی۔ ان خواتین میں ام عطیہ بھی شامل تھیں۔ جب تمام خواتین اس مکان میں جمع ہوگئیں تو حضور نے عمر فاروق کو ان کی طرف بھیجا کہ ان شرائط پر بیعت لیں :

  • 1۔ کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہرائیں گی۔
  • 2۔ اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گے۔
  • 3۔ چوری نہ کریں گی۔
  • 4۔ زنا سے بچیں گی۔
  • 5۔ کسی پر جھوٹی تہمت نہ لگائیں گی۔
  • 6۔ اچھی باتوں سے انکار نہ کریں گی۔

بیعت کے بعد ام عطیہ نے عمرفاروق سے پوچھا: "اچھی باتوں سے انکار نہ کرنے کیا مطلب ہے؟" عمر نے جواب دیا" نوحہ اور بین نہ کرنا"

غزوات میں شرکت[ترمیم]

اُمّ عطیہ عہدِ رسالت کے سات معرکوں میں شریک ہوئیں، جن میں وہ مردوں کے لیے کھانا پکاتیں، ان کے سامان کی حفاظت کرتیں، مریضوں کی تیمارداری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں۔ میں آنحضرتﷺ کی صاحبزادی زینب کا انتقال ہوا تو اُمّ عطیہ اور چند عورتوں نے ان کو غسل دیا، آنحضرتﷺ نے ان کو نہلانے کی ترکیب بتلائی۔ خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں ان کا ایک لڑکا کسی غزوہ میں شریک تھا، بیمار ہو کر بصرہ آیا، اُمّ عطیہ مدینہ میں تھیں، خبر ملی تو نہایت عجلت سے بصرہ روانہ ہوئیں لیکن پہنچنے سے ایک دو دن قبل وہ وفات پاچکا تھا۔ یہاں آکر انھوں نے بنو خلف کے قصر میں قیام کیا، اس کے بعد بصرہ میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔

وفات[ترمیم]

وفات کی تاریخ اور سنہ معلوم نہیں اور نہ اولاد کی تفصیل کا علم ہے۔

فضل وکمال[ترمیم]

چند حدیثیں روایت کی ہیں راویوں میں حسبِ ذیل : حضرت انس رضی اللہ عنہ، ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ، حفصہ بنت سیرین، اسماعیل بن عبد الرحمن بن عطیبہ، عبد الملک، ابن عمیر، علی بن الاقمر، ام شراحیل۔ صحابہ اور تابعین ان سے میت کے نہلانے کا طریقہ سیکھتے تھے۔ [1]

اخلاق و عادات[ترمیم]

حضرت محمدﷺ سے بہت محبت کرتی تھیں اور آپ بھی ان سے محبت کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت محمدﷺ نے ان کے پاس صدقہ کی ایک بکری بھیجی تو انھوں نے اس کا گوشت عائشہ صدیقہ کے پاس روانہ کیا۔ آپ گھر میں تشریف لائے تو کھانے کے لیے مانگا، بولیں : اور تو کچھ نہیں ہے البتہ جو بکری آپ نے نسیبہ کے پاس بھیجی تھی اس کا گوشت رکھا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’لاؤ،کیونکہ وہ مستحق کے پاس پہنچ چکی۔ ‘‘ حضرت محمدﷺ کے ساتھ آپ کے اعزّہ و اقارب سے بھی خاص تعلقات تھے، چنانچہ ابن سعد نے لکھا ہے کہ ’’علی اُمّ عطیہ کے مکان میں قیلولہ فرماتے تھے۔ ‘‘ احکام نبوی کی پوری پابندی کرتی تھیں، حضرت محمدﷺ نے بیعت میں نوحہ کی ممانعت کی تھی، اس پر انھوں نے ہمیشہ عمل کیا، چنانچہ بیعت ہی کے وقت آنحضرتﷺ سے عرض کی کہ فلاں خاندان کے لوگ میرے ہاں رہ چکے ہیں، اس لیے مجھ کو بھی ان کے ہاں جاکر رہنا ضروری ہے، آپ اس خاندان کو مستثنیٰ کردیجیے۔ چنانچہ آپ نے مستثنیٰ کر دیا۔[2] حافظ ابن عبد البراندلسی نے "الاستیعاب" میں ام عطیہ کے بارے میں یہ رائے ظاہر کی ہے کہ"صحابیات میں ان کا بڑا مرتبہ تھا"

حوالہ جات[ترمیم]

  1. (تہذیب:12/455۔ اصابہ:8/259)
  2. سیر الصحابیات، مؤلف، مولانا سعید انصاری 95،مشتاق بک کارنر لاہور