بچوں تک رسائی
بچوں تک رسائی جسے انگریزی میں ویزی ٹیشن کہا جاتا ہے، ایک عمومی اصطلاح ہے جو ماں باپ یا کسی اور متعلقہ شخص کے اس درجۂ تعلق کو طے کرتا ہے جو وہ کسی نااتفاقی، علحدگی یا طلاق کی صورت میں بچوں سے رکھتا ہے یا رکھ سکتا ہے۔ یہ ربط و تعلق در حقیقت ان مجموعی حقوق اور سہولتوں میں سے ہے جو کوئی ماں باپ خاندان میں جنم لینے والے بچے کے لیے حاصل کر سکتے ہیں۔
کئی بار کہ بچی یا بچہ سمجھدار ہونے سے قبل ماں کی پرورش میں رہیں گے[1] اور باپ ان انھیں کچھ وقت کے لیے دیکھ سکتا ہے، اگر چیکہ آمدنی کی روانی کی وجہ سے ضرورتوں کی بڑی حد تک کفالت وہی کرتا ہے۔ پرورش اور ملاقات کے رول کبھی الٹ بھی ہو سکتے ہیں اگر ماں کے بارے میں ثابت کیا جائے کہ وہ غیر ذمے دار ہے، صحت کی بنا پر نہیں کر سکتی یا وہ کسی اور وجہ سے یہ ذمے داری لینا ہی نہیں چاہتی۔
بر صغیر میں طلاق اور باپ کی بچوں تک رسائی
[ترمیم]گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ 1890ء کے تحت بھارت اور پاکستان میں علحدگی کے بعد بچوں کا 97.7 فیصد وقت صرف ایک فریق (ماں) کو دیا جاتا ہے۔ میاں بیوی کے مابین علیحدگیوں کے نتیجے میں گارڈین عدالتوں میں خطرناک حد تک مقدمات کااضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اسی وجہ سے چھٹے اور ساتویں گارڈین جج کا بھی تقرر کر نا پڑا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان میں 2015ء سے پہلے 9ماہ میں کل4125 نئے مقدمات درج ہوئے جبکہ اس وقت کل 4151 مقدمات زیر سماعت تھے۔[2] ان حالات میں طلاق کی صورتوں میں بچوں تک رسائی کے فیصلوں کا طے کرنا عدالتوں کی ایک بڑی ذمے داری ہے۔
بچوں تک رسائی کی گنجائشوں پر عدالتی حلقوں کی برہمی
[ترمیم]پاکستان کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ عدالتی تاریخ میں اپنا نام امر کر جائیں اور اس حوالے سے بچوں کے باپ کو مکمل آزادانہ طور پر ملنے کا حق دیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر کوئی باپ بچوں کا خرچہ وقت پر ادا نہ کرے تو اس کے گھر پر پولیس چھاپے مارنا شروع کردیتی ہے لیکن اپنے بچوں سے پورے ایک مہینے میں صرف ایک مرتبہ وہ بھی دو گھنٹے کی ملاقات گاڈین کی موجودگی میں قرین انصاف نہیں۔ انھوں نے کہا جس طرح طلاق یافتہ خاتون کے سرپرست کی موجودگی قانون کی نظر میں ضروری ہوتی ہے اسی طرح باپ کے رشتہ داروں کو بھی یہی حق ملنا چاہیے کیونکہ بچوں کے حوالے سے جتنے حقوق ایک ماں کے ہوتے ہیں اتنے ہی بچوں کے باپ کے بھی ہوتے ہیں۔[3]
بچوں تک رسائی کی گنجائشوں پر عدالتی حلقوں کی برہمی
[ترمیم]1999ء کی بھارت پاکستان کارگل جنگ کے دوران بھارتی فوجی محمد عارف اور جگسیر سنگھ سیاچن کے علاقے میں گرفتار کیے گئے تھے اور بھارت نے انھیں بھگوڑا قرار دے دیا تھا۔ بھارتی فوج کی ڈیبریفنگ کے بعد محمد عارف نے گاؤں کی پنچایت کے ذریعے اپنی بیوی کو واپس حاصل کرنے کی کوشش کی اور پنچائت نے محمد عارف کے حق میں فیصلہ دے دیا کیونکہ اس نے بیوی کو طلاق نہیں دی تھی۔تاہم محمد عارف اپنی بیوی کو قبول کرنے کے لیے تو تیار ہے مگر اس کی کوکھ میں موجود بچے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جبکہ اس کی بیوی کے دوسرے شوہر نے بیوی کے بغیر بچے کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔[4] اس طرح سے یہ ایک بچے کی دیکھ ریکھ اور اس کی رسائی مسئلہ پیدا ہو گیا تھا، جس کا تفصیلی ذکر اس جنگ سے متاثرہ خاتون پر لکھے گئے مضمون میں دیکھا جا سکتا ہے۔
مزید دیکھیے
[ترمیم]حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ "Ashraf Ul Fatawa"۔ 31 جنوری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2018
- ↑ طلاق کے بعد باپ سے ناانصابی کا 124سال پرانا قانون تبدیل
- ↑ "جو باپ طلاق دینے کے بعد بچوں کا خرچہ ادا کرتا ہے اسے اپنے بچوں سے ملنے کی مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے ، ماہرقانون بعض اوقات مائیں بچوںکے والد کا نام بدل دیتی ،غلط تربیت پربچے ..."۔ 30 جنوری 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2018
- ↑ ’بیوی چاہیے بچہ نہیں‘: آپ کی رائے