مندرجات کا رخ کریں

شاہ نورالحق طپاںؔ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

سید شاہ نورالحق طپاں ابدال خواجہ عمادالدین قلندر پھلواروی کی خانقاہ، خانقاہ عمادیہ کے دوسرے سجادہ نشیں ہیں۔

نام

[ترمیم]

نور الحق بن عبد الحق ہیں۔ محی السالکین لقب اور طپاں تخلص ہے۔

ولادت

[ترمیم]

ماہ جمادی الثانی روز جمعرات 1156ھ میں پیدا ہوئے۔

تعلیم

[ترمیم]

آپ نے ابتدائی علوم اپنے والد ماجد سے پھر اپنے دادا تاج العارفین اور پھوپھا ملا وحید الحق ابدال پھلواروی سے حاصل کیے۔ آپ کم سن ہی تھے کہ والد ماجد شاہ عبد الحق کو مرشد آباد کی قطبیت تفویض ہوئی اور ماہ رجب 1162ھ میں وہ مرشد آباد چلے گئے۔ آپ کی مکمل تعلیم و تربیت دادا تاج العارفین نے کی۔ سترہ سال کی عمر میں علوم ظاہری سے فراغت پائی اور اسی سال 14؍رمضان المبارک 1173ھ کو اپنے جد امجد تاج العارفین کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور تعلیم باطنی کے حصول میں لگ گئے۔

سجادہ نشینی

[ترمیم]

شمس العارفین شاہ غلام نقشبند سجادؔکے وصال فرمانے کے بعد فاتحہ چہارم کے موقع پر 6؍ ذیقعدہ 1173ھ روز جمعرات تاج العارفین پیر مجیب اللہ قادری نے تمام طرق سلاسل کی اجازت عامہ و تامہ دے کر خرقہ خلافت عطا فرما کر اپنے پیر و مرشد محبوب رب العالمین عماد الدین قلندر کے سجادہ پر بٹھادیا، جس کی بشارت بارگاہ قلندریت و غوثیت سے ہوئی تھی۔ بوقت سجادگی تمام رسومات خود تاج العارفین نے اپنے دست مبارک سے انجام دیں اور اپنے چہیتے پوتے کو اپنے پیر و مرشد کی خانقاہ سپرد کردی۔

تصانیف

[ترمیم]

آپ کی دو مشہور تصانیف بھی ہیں۔ "انوار الطریقۃ فی اظہار الحقیقۃ" اس کتاب میں خاندان عمادیہ، مجیبیہ، وارثیہ، کا تفصیلی ذکر ہے اور بزرگوں کے مختصر تراجم ہیں۔ سلسلہ قلندریہ عمادیہ اور قادریہ وارثیہ مجیبیہ کے اذکار و اشغال اور نوافل و اعمال کو ابواب کے ساتھ مرتب کیا ہے۔ اس خانوادہ کے متعلق یہ سب سے پہلا مأخد ہے۔ ان سلاسل کی خانقاہوں میں اسی کتاب سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ دوسری کتاب "تبلیغ الحاجات الیٰ مجیب الدعوت" اس میں نوافل و اعمال، اصول تکسیر وجفر، تعویذات اور دعاؤں کا مبوب ذکر کیا ہے یعنی اعمال و نوافل، دعاؤں اور تعویذات کو اس کی خاصیتوں اور فوائد کے اعتبار سے الگ الگ ابوباب قائم کر کے ایک ضخیم کتاب کی شکل میں مرتب کیا ہے۔

خلفاء

[ترمیم]

محی السالکین شاہ نور الحق طپاںؔ کے صرف دو خلفاء اجل ہوئے۔ حافظ شاہ وجیہ اللہ جو آپ کے بھانجہ (خواہر زادہ) تھے طریقت کا اجرا ان سے زیادہ نہ ہو سکا اس لیے کہ عمر کم پائی اور طپاںؔ کے سامنے ہی وصال فرماگئے۔ دوسرے غوث الدہر حافظ قرآن و صحیحین قطب الاقطاب شاہ محمد ظہورالحق جو آپ کے صاحبزادے تھے۔ شاہ محمد ظہور کو آپ نے اپنی حیات ظاہری میں ہی معرفت کے درجۂ کمال پر پہنچا یا تمام سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت عامہ عطا فرماکر اپنے سامنے سجادۂ عمادیہ پر بٹھادیا اور خود سجادگی سے الگ ہو گئے۔

وفات

[ترمیم]

4؍شعبان 1233ھ روز اتوار آپ کا وصال ہوا۔ میر اشرف کے مقبرہ پٹنہ سٹی سے تدفین کے لیے لعل میاں کی درگاہ پھلواری شریف پا پیادہ لے جایا گیا اور ب رہان الدین قادری عرف لعل میاں صاحب کی مزار کے پہلو میں مدفون ہیں۔ [1]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. انوار الاولیاء ،حسیب اللہ مختار،صفحہ 95، 96،بساط ادب کراچی پاکستان 2000ء۔