شفعہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شُفعہ:غیر مَنْقول جائداد کوکسی شخص نے جتنے میں خریدااُتنے ہی میں اس جائیدادکے مالک ہونے کاحق جودوسرے شخص کوحاصل ہو جاتا ہے اس کو شفعہ کہتے ہیں۔[1]

لغوی معنی[ترمیم]

شفعہ" مشتق " ہے شفع" سے جس کے عربی میں لغوی معانی ہیں ملانا اور جفت کرنا "

اصطلاحی معنی[ترمیم]

شفعہ اصطلاح فقہ میں اس ہمسائیگی یا شراکت کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے کسی ہمسایہ یا کسی شریک کو اس کے دوسرے ہمسایہ یا دوسرے شریک کے فروخت ہونیوالی زمین یا فروخت ہونیوالے مکان کو خریدنے کا ایک مخصوص حق حاصل ہوتا ہے اور یہ حق صرف زمین یا مکان کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے جس شخص کو یہ حق حاصل ہوتا ہے اسے شفیع کہتے ہیں۔ اس حق کا نام شفعہ اس لیے ہے کہ یہ خاص حق فروخت ہونیوالی زمین یا مکان کو شفیع کی زمین یا مکان سے ملاتا ہے۔

اختلاف ائمہ[ترمیم]

امام شافعی امام مالک اور امام احمد کے نزدیک حق شفعہ صرف شریک کو حاصل ہوتا ہے ہمسایہ کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا جبکہ امام اعظم ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ حق شفعہ جس طرح شریک کے لیے ثابت ہے اسی طرح ہمسایہ کے لیے بھی ثابت ہے۔ ایک صحیح روایت کے مطابق امام احمد بھی اسی کے قائل ہیں ہمسایہ کے حق شفعہ کے ثبوت میں احادیث منقول ہیں جو بالکل صحیح درجے کی ہیں ان کی موجودگی میں ہمسایہ کو حق شفعہ دینے سے انکار ایک بے دلیل بات ہے۔

مسلک احناف[ترمیم]

حنفی مسلک کے مطابق شفیع کے تین درجے ہیں

  • اول خلیط فی النفس المبیع یعنی فروخت ہونیوالے مکان کی ملکیت میں کئی آدمی شریک ہوں خواہ وہ مکان ان سب شرکاء کو وراثت میں پہنچا ہو یا ان سب نے مشترک طور پر اسے خریدا ہو اور یا کسی نے ان سب کو مشترک طور پر ہبہ کیا ہو۔
  • دوم خلیط فی حق المبیع یعنی اس فروخت ہونیوالے مکان یا زمین کی ملکیت میں شریک نہ ہو بلکہ اس زمین یا مکان کے حقوق میں شریک ہو جیسے حق مرور یعنی آمدورفت کا حق حق مسیل یعنی پانی کے نکاس کا حق اور حق شرب یعنی کھیت وغیرہ کو سیراب کرنے کے لیے پانی لے جانے کی نالی وغیرہ کا حق۔
  • سوم جار یعنی ہمسایہ جس کا مکان فروخت ہونیوالے مکان سے متصل ہو اور ان دونوں مکانوں کی دیواریں ملی ہوئی ہوں نیز دونوں کے دروازوں کا راستہ ایک ہو۔
  • ان تینوں کے علاوہ اور کوئی شفیع نہیں ہو سکتا لہذا سب سے پہلے تو حق شفعہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو اس فروخت ہونیوالے مکان یا زمین کی ملکیت میں شریک ہو اس کی موجودگی میں حق شفعہ نہ تو حقوق میں شریک کو حاصل ہوگا اور نہ ہمسایہ کو اگر یہ شریک حق شفعہ سے دست کشی اختیار کرے تو پھر حق شفعہ اس شخص کو پہنچے گا جو حقوق میں شریک ہو اور یہ بھی دست کشی اختیار کرلے تب حق شفعہ ہمسایہ کو حاصل ہوگا اور اگر یہ ہمسایہ بھی اپنے اس حق سے دست کش ہو جائے تو اس کے بعد کسی کو بھی حق شفعہ حاصل نہیں ہوگا۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. بہارشریعت،ج3،حصہ 15،ص233
  2. مظاہر حق شرح مشکوۃ:جلد سوم:حدیث نمبر 179