شکریہ خانم

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
شکریہ خانم
پیدائش1934
وفات13 مئی 2017ء
کراچی، پاکستان
پیشہفلائیٹ انسٹرکٹر ، کمرشل پائلٹ
زباناردو
شہریتپاکستان کا پرچمپاکستانی
تعلیمسی پی ایل
اصناففلائیٹ انسٹرکٹر

شکریہ خانم پاکستان کی پہلی کمرشل پائلٹ تھیں ۔

ابتدائی زندگی[ترمیم]

شکریہ خانم 1934ء میں پیدا ہوئیں۔ اپنی ابتدائی تعلیم اور گریجویشن کی تکمیل کے بعد [1] انھوں نے 1959ء میں سی پی ایل یعنی کمرشل پائلٹ لائسنس حاصل کیا۔ اس سے قبل کسی پاکستانی خاتون نے یہ لائسنس نہیں حاصل کیا تھا ،

کیرئیر کا آغاز[ترمیم]

شکریہ خانم نے جب پاکستان کی پہلی خاتون پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا اس دور میں پی آئی اے کے قوانین کے مطابق خواتین کو کمرشل پروازیں اڑانے کی اجازت نہیں تھی، لہذا انھوں نے پی آئ اے ٹریننگ سینٹر میں فلائیٹ انسٹرکٹر کے طور پر جاب کی آفر قبول کی۔ جہاں وہ زیرِ تربیت کیڈٹس کو تربیت دیتی تھیں۔ انھوں نے کراچی فلائنگ کلب سے بھی منسلک رہیں۔ پی آئ اے کی یہ پالیسیاں اگلی دو دہائیوں تک بدستور جاری رہیں۔ تاہم 1989ء میں ملیحہ سمیع اور عائشہ رابعہ کو اس بات کی اجازت ملی اوریوں کیپٹن عائشہ رابعہ نوید پاکستان میں پہلی فلائیٹ کپتان بنیں۔ شکریہ خانم نے تازندگی شادی نہیں کی تھی اور کراچی میں وہ اپنے گھر میں تنہا رہتی تھیں۔ وہ ایک معزز اور اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے کی فرد تھیں۔ ممتاز صافی اور اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود بھی ان کے بھانجے ہیں ۔

وفات[ترمیم]

شکریہ خانم کو مئی 2017ء میں چوٹ لگنے کے باعث ہسپتال منتقل کیا گیا۔ دورانِ علاج تشخیص ہوئی کہ وہ جگر کے کینسر میں مبتلا تھیں جو آخری سٹیج پر پہنچ چکا تھا۔ لہذا انھیں کراچی سے لاہور لایا گیا۔ اور وہ ہفتہ 13 مئی 2017ء کو انتقال کر گئیں ۔[2]

تاثرات[ترمیم]

متاز صحافی اور اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے ان کی وفات ہر بی بی سی کو تاثرات ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا ۔

شکریہ خانم بہت باہمت اور نڈر خاتون تھیں اور ایک ایسے دور سے تعلق رکھتی تھیں جو آج کی نسبت بہت روشن خیالی کا دور تھا۔۔ ۔

شکریہ خانم کو جنرل ضیا کے دور میں گراؤنڈ کر کے جہاز اڑانے سے منع کر دیا گیا ، کیونکہ شکریہ خانم کے بقول جنرل ضیا کو اس بات پر اعتراض تھا کہ ایک خاتون ہو کر ایک مرد کے ساتھ اکیلے کاک پِٹ میں رہیں گی؟ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اکثر حیران ہو کر کہتی تھیں کہ میں انہی مردوں کے ساتھ پرواز کی تیاری کرتی ہوں انہی کے ساتھ تربیت لی اور یہ سب میرے کام کے ساتھی ہیں تو پرواز میں کیا مسئلہ ہے؟ اور اسی پرواز پر فضائی میزبان بھی تو خواتین ہوتی ہیں تو یہ کیسا اعتراض ہے؟'

شکریہ خانم کے بارے میں کیپٹن عائشہ رابعہ نوید نے کہا ہے

’شکریہ خانم نے ایک ایسے دور میں پائلٹ بننے کا فیصلہ کیا جس دور میں یہ مکمل طور پر مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ اور وہ ان سب مردوں کے ہم پلہ تھیں جنہیں وہ تربیت دیتی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ 1990 میں پی آئی اے تربیت کے لیے آنے پر اُن کی ملاقات شکریہ خانم سے ہوئی جنھوں نے اُن کے آنے پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور انھوں نے مجھے 'پراعتماد رہنے اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسا کرنے کا کہا تاکہ مجھ پر یہ کہہ کر انگلی نہ اٹھائی جا سکے کہ میں ایک خاتون پائلٹ ہوں ۔[3]

حوالہ جات[ترمیم]