شیخ تاج الدین سنبھلی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

شیخ تاج الدین سنبھلی کا تعلق ہندوستان کے بزرگ زادوں میں سے تھے۔ آپ خواجہ محمد باقی باللہ کے بزرگ صاحب اور خلیفہ برحق تھے۔ آپ پہلے شخص تھے جن کو خواجہ باقی باللہ نے مجاز بنایا۔

شیخ تاج الدین سنبھلی
ذاتی
وفات(22 ربیع الاول 1052ھ بمطابق 20 جون 1642ء)
مذہباسلام
سلسلہنقشبندیہ
مرتبہ
مقاممکہ مکرمہ
پیشروباقی باللہ

تعارف[ترمیم]

شیخ تاج الدین سنبھلی ہندستان کے بزرگ زادوں میں سے تھے۔ سنبھل کے ایک دیہات کے رہنے والے تھے۔ آپ خواجہ محمد باقی باللہ کے بزرگ اصحاب و احباب اور خلیفہ برحق تھے۔

ابتدائی ارادت[ترمیم]

شروع میں تاج الدین سنبھلی شیخ اللہ بخش خليفہ میر سید علی قوام جونپوری کے حلقہ ارادت میں شامل تھے اور ان سے خلافت کا شرف حاصل تھا۔ شیخ اللہ بخش آپ پر بہت زیادہ مہربانی و عنایت فرمایا کرتے تھے۔

خلافت[ترمیم]

شیخ اللہ بخش کے مجاز اور نائب مناب ہونے کے باوجود آپ ذوق وشوق کے غلبہ سے خواجہ محمد باقی باللہ کی صحبت و تربیت میں آگئے۔ مروی ہے کہ آپ خواجہ محمد باقی باللہ کے پہلے مرید ہیں۔ باقی باللہ نے آپ کی طلب و تواضع کو قبول فرمایا اور اپنی نظر عنایات و برکات سے آپ کو خوب نوازا۔ آپ حضرت خواجہ کی خلوت خاص کے ہم نشیں اورمحفل خصوصی کے انیس بن گئے۔ حضرت خواجہ سے مستفیض ہونے والوں میں آپ سے زیادہ کوئی مصاحب نہیں تھا۔ جب آپ حضرت خواجہ کومغلوب الحال پاتے تو حکایات و لطائف کی باتوں باتوں سے آپ عالم شعور میں کھینچ لاتے۔ حضرت خواجہ اسرار کے دریافت کرنے میں سب سے زیادہ دلیر تھے۔ خواجہ باقی باللہ نے اکابر نقشبند کی نسبتوں سے آپ کو آگاہ فرمایا۔ طریقہ سے تعلیم کی اجازت مرحمت فرمائی۔ کہتے کہ پہلا شخص جن کو خواجہ باقی باللہ نے مجاز بنایا، وہ آپ ہی تھے

کلاہ حضرت عزیزان[ترمیم]

جب خواجہ محمد باقی باللہ نے شیخ تاج الدین کو خلافت عطا فرمانے کا عزم فرمایا تو حضرت خواجہ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگر شیخ تاج بھی اس سے متعلق واقعہ میں کچھ دیکھیں تو بہتر ہوگا۔ چنانچہ یونہی ہوا کہ شیخ تاج الدین نے خواب میں دیکھا کہ وہ خطہ فاخرہ بخارا کے علاقہ میں خواجہ عزیزان علی رامیتی (متوفی 721ھ/1321ء) کی خدمت میں حاضر ہیں۔ خواجہ عزیزان علی نے اپنی ترکی کلاہ آپ کے سر پر رکھی اور بہت زیادہ عنایات فرمائیں۔ جب خواجہ باقی باللہ نے یہ واقعہ سنا تو انھوں نے شیخ تاج الدین کو خلافت عطا فرما دی اور آپ کو اپنے وطن مالوف سنبھل کی جانب روانہ فرما دیا۔

مسند ارشاد[ترمیم]

جب خواجہ محمد باقی باللہ کی نے شیخ تاج الدین کو خلافت و اجازت عطا فرمائی تو آپ کی ذات اور نظر میں ایک عظیم اثر پیدا ہو گیا کہ آپ جس شخص کو بطریق تلقین فرماتے اسے جذبات وغلبات گھیر لیتے اور اس سے ارادت و احوال ظاہر ہونے لگتے تھے۔ آپ نے ان دونوں ہی میں خواجہ محمد باقی باللہ سے رخصت طلب کی۔ اس کے بعد آپ اپنے وطن مالوف سنبھل میں جا کر اپنے مرشد کامل کے ارشاد کے مطابق اصحاب اور طالبین کی رشد و ہدایت میں مصروف ہو گئے۔

دیار عرب میں سکونت[ترمیم]

جب شیخ تاج الدین کے مرشد کامل خواجہ محمد باقی باللہ (متوفی 1012ھ/1603ء) نے وصال فرمایا تو آپ نے سیر بلاد کا ارادہ کیا۔ اکثر ممالک ہندوستان اور کشمیر کی سیاحت کرتے ہوئے حرمین شریفین کی زیارت کے لیے چلے گئے۔ جب وہاں پہنچے تو ان ممالک متبرکہ کے لوگوں کو آپ سے بہت زیادہ لگاؤ پیدا ہو گیا۔ اکابرین حرم میں سے شیخ محمد علان (متوفی 1031ھ/1622ء) جو اس منبع الانوار دیار کے بزرگوں میں علم وعمل اور ریاضت وقناعت کے لحاظ سے بہت بلند درجہ کے حامل تھے، آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے جس کی بنا پر آپ کو وہاں مقبولیت و شہرت عام حاصل ہو گئی۔ آپ دیارعرب میں شیخ الشیخ علان کے نام سے مشہور ہو گئے۔ شیخ محمد علان نے کتاب رشحات عین الحیات ملا واعظ کاشفی (متوفی 910ھ/1590ء) کا عربی میں ترجمہ کیا تھا، تا کہ اہل عرب ان بزرگوں کے احوال سے آگاہ ہو جائیں۔ شیخ محمد علان کی وفات کے بعد آپ ہندوستان تشریف لائے لیکن بعد ازاں واپس حجاز مقدس میں چلے گئے۔ آپ نے اپنی عمر کا اکثر حصہ حجاز مقدس اور عربستان میں بسر فرمایا۔ یمن، احسا اور حجاز مقدس میں طریقہ عالیہ نقشبندیہ کو پھیلایا۔ ان علاقوں میں آپ کے مریدوں کی ایک بڑی جماعت تھی۔ آخر عمر میں آپ ولایت لیبہ و بصرہ میں گئے اور ایک جم غفیر آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گیا۔ ان دیار کا حاکم بھی آپ کے مخلصین میں داخل ہوا۔ آپ ہمیشہ حجرہ خلوت میں تشریف فرما رہتے تھے اور آنے جانے والوں سے ضرورت کے تحت ملاقات فرماتے۔ ان کا نام و مقام دریافت فرماتے اور بعد ازاں انھیں رخصت کر دیتے تھے۔ مختلف اسلامی ممالک کے بادشاہ آپ کی زیارت سے فیض یاب ہونے کی سعی میں لگے رہتے تھے۔ اگر آپ پسند فرماتے تو انھیں اندر آنے کی اجازت مرحمت فرماتے ، ورنہ کہہ دیتے کہ کسی اور وقت آنا۔ عرب، شام اور روم کے بادشاہ، امرا اور عام لوگ آپ کے بہت زیادہ معتقد تھے۔ آپ ان ممالک میں آفتاب سے زیادہ مشہور تھے۔

وصال[ترمیم]

شیخ تاج الدین سنبھلی نے مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کے نزدیک 1046ھ بمطآبق 1636ء میں ایک زمین خریدی اور یہیں رہائش پزیر ہو گئے۔ آپ کا وصال اپنی رہائش گاہ پر 22 ربیع الاول 1052ھ بمطابق 20 جون 1642ء کو ننانوے (99) برس کی عمر میں ہوا۔ آپ کی تدفین مکہ مکرمہ میں ایک باغ میں کی گئی۔

تصانیف[ترمیم]

شیخ تاج الدین سنبھلی نے اہل عرب کی فائدہ رسانی کے لیے متعدد عربی زبان میں کتب تصنیف کی۔ آپ نے متعدد فارسی کتب کا ترجمہ عربی میں کیا۔ آپ کی چند کتب کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. رسالہ فی سلوک خلاصتہ السادات نقشبندیہ (عربی)
  2. رسالہ پیری و مریدی (عربی)
  3. رشحات عین الحیات (عربی ترجمہ)
  4. نفخات الانس (عربی ترجمہ)
  5. رسالہ عرفانی (عربی ترجمہ) [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تاریخ و تذکرہ خانقاہ سرھند شریف مولف محمد نذیر رانجھا صفحہ 178 تا 184