عجالہ نافعہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عجالۂ نافعہ شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی تالیف ہے۔
اس کتاب میں، شاہ صاحب نے سب سے پہلے، حدیث کی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے کہ، حدیث کی کتابیں کس کس طرح، مرتب و تالیف کی گئیں، مختلف ترمیمات پر مرتب مجموعوں کو کیا کیا نام دیے گئے، اس تالیف کی، ایک بہت بڑی اہم اور خاص بات، جس کا حدیث کی کتابوں کی تعلیم و مطالعہ میں، خیال رکھنا بے حد ضروری ہے، وہ ان کتابوں میں درج احادیث کے راویوں کے نام، صحیح جاننے اور پڑھنے کی ترتیب ہے۔
اگرچہ اس کے لیے قدیم ائمہ فن اور محدثین نے، بڑی بڑی تحقیقات کی ہیں اور چھوٹی چھوٹی نادر باتوں کی صحیح واقفیت، ان کی نسبتوں اور ان کے متعلقات کو، بلا مغالطہ کے جاننے کے لیے، بے حد کاوشیں فرمائی ہیں، ان میں سے کچھ اہم باتوں کا، شاہ صاحب نے بھی، اپنی اس مختصر تالیف میں تذکرہ فرما دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ راویان حدیث میں کون سے نام کو، کس لفظ کو کس طرح پڑھا جائے گا۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ مؤطا اور صحیحین میں جہاں لفظ ’’بَسِر‘‘ آئے اس کو با کے زبر اور سین کے زیرسے، پڑھنا چاہیے، مگر چار راویوں کے نام، ب کے پیش اور سین بلا نقطہ سے آئے ہیں۔
کتب حدیث کے الفاظ اور سندوں میں اس قسم کی اور بہت سی نزاکتیں اور باریک پہلو ہیں، جن کا، حدیث کے ابتدائی طالب علموں کو، ہمیشہ بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ احادیث شریفہ اور ان کی سندوں میں کئی موقعوں پر، بظاہر بہت معمولی سا فرق ہے، مگر اس فرق کو نہ جاننے راوی کو صحیح طورسے نہ پہنچانے یا زیر و زبر کی غلطی سے، بات کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے، اس لیے ایسے تمام لاحقوں، ناموں اور نسبتوں کا صحیح جاننا، پڑھنا بے حد ضروری ہے۔
اس رسالہ:’’ عجالۂ نافعہ ‘‘کا، شاہ عبد العزیز کے درس اور ان کے خاندان میں، سبقاًسبقاً پڑھنے پڑھانے کا مستقل معمول تھا اور استاذ بھی اپنے شاگردوں کو پڑھاتے رہے ہیں۔ عجالۂ نافعہ، مطبع مصطفائی کان پور سے، جمادی الاخریٰ1255ھ؁[اگست، ستمبر1839ء] پہلی مرتبہ چھپی تھی، تقریباً پچاس سال پہلے، عبد الحلیم چشتی نے، اس کا اردو میں ترجمہ کیا تھا اور ’’فوائد جامعہ‘‘ کے نام سے اس کی بہت مفصل پر از معلومات، جامع شرح لکھی تھی۔ جو 1383ھ؁ 1964ء میں پہلی مرتبہ کراچی سے چھپی تھی، بعد میں ہندوستان میں بھی طبع ہو گئی تھی، اب یہ دونوں ہی طباعتیں کم یاب ہیں۔ فوائد جامعہ بڑی کتاب ہے۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. شاہ عبد العزیز دہلوی اور ان کی علمی خدمات،ص:258۔ ڈاکٹر ثریا ڈار ، : ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور