غیر رسم عثمانی میں قرآن حکیم
اس مضمون یا قطعے کو قرآن میں ضم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ |
غیر رسم عثمانی میں قرآن حکیم کی کتابت بسم اللہ الرحمٰن الرحیم حامداً و مصلیًا و مسلمًا رسم تین طرح کے ہیں: 1-رسم عثمانی: اسے رسم القرآن، رسم المصحف اور خط القرآن بھی کہا جاتا ہے۔ 2- رسم عربی: عربی زبان کا معروف و معہو دخط، جو کثیر کلمات میں خط القرآن سے مختلف ہے۔ 3-رسم غیر عربی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں کے رسم الخط جنھیں خطِ عجمی بھی کہا جا سکتا ہے۔ قرآن حکیم کو رسم القرآن و رسم عثمانی میں ہی لکھنا واجب ہے اور اس سے انحراف کرکے کسی دوسرے رسم الخط جیسے ہندی، گجراتی، مراٹھی، ملیالم، تمل، پنجابی، بنگالی، تلگو، سندھی، فرانسیسی، انگریزی وغیرہ میں لکھنا حرام و گناہ ہے۔ حتی کہ معروف و معہو د رسم عربی میں بھی لکھنا جائز نہیں کہ یہ انحراف در حقیقت کتاب اللہ کے عموم و اطلاق، نبوی فرمودات اور اجماع صحابہ و اجماعِ امت سے انحراف ہے جو حرام و گناہ ہے۔ دلائل سورۂ حِجرمیں اللہ عز و جل کا ارشاد ہے:# اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ۔ بے شک ہم نے اتارا ہے یہ قرآن ،اور بے شک ہم خود اس کے محافظ ہیں۔ (٩/الحجر ١٥) یہ آیۂ کریمہ اپنے عموم و اطلاق کے لحاظ سے قرآن حکیم کے نظم و رسم دونوں کی حفاظت کو شامل ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسم قرآن وہی محفوظ ہے جو کلامِ الٰہی کے اسرار و مفاہیم پر دال ہے اور جس کی رہنمائی رسول عربی صلی اللہ تعالٰیٰ علیہ وسلم نے فرمائی۔ واضح ہوکہ نصوص کے عموم و اطلاق سے استدلال مجتہد و غیر مجتہد سب میں شائع ذائع ہے، یہ اہل اجتہاد کے ساتھ خاص نہیں۔# عہد صحابہ سے آج تک سلفاً خلفاً اس امر پر اجماع امت قائم رہا ہے کہ مصحف شریف میں خط قرآن سے قرآن ہی لکھا جاتا ہے، غیر قرآن نہیں لکھا جاتا اس لیے مصحف شریف میں خط قرآن سے جو کچھ لکھا گیا ہے وہ قرآن ہے۔ امام ابوزکریا محی الدین نووی شافعی رحمة اللہ تعالٰیٰ علیہ (متوفی ٦٧٦ھ) اپنی عظیم الشان کتاب منہاج شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں: ومن قال بأنّھا (أی البسملة) اٰیة من الفاتحة أنّھا کتبت فی المصحف بخط المصحف وکان ھٰذا باتّفاق الصحابة وجماعِہم علیٰ أن لایثبتوا فیہ بخط القرآن غیر القرآن، وأجمع بعدھم المسلمون کلّہم فی کلّ الاعصار لیٰ یومنا اھ۔ (المنھاج بشرح صحیح مسلم بن الحجاج، ص:١٧٢، ج:١، باب حجة من قال: لایجھر بالبسملة) محمد ناصر حسین