مندرجات کا رخ کریں

پہرے دار ماں یا باپ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
(چوکیدار ماں یا باپ سے رجوع مکرر)

پہرے دار ماں یا باپ (انگریزی: Gatekeeper parent) ایک ایسی اصطلاح ہے جس کا کبھی کبھار قانونی حلقوں میں ایک ایسے والد یا والدین پر اطلاق ہوتا ہے جو خود کو اس طرح سے با اختیار طور پر پیش کرتا ہے کہ وہ دوسرے فریق اور بچوں کے رشتوں کو طے کرے۔ اصطلاح کافی وسیع ہے اور اس کا اطلاق شادی ہی کارکردگی میں زور آوری کے لیے ہو سکتا ہے یا اس سے مراد مطلقہ یا کبھی شادی نہیں کرنے والے والدین پر ہو سکتا ہے۔

خصوصیات

[ترمیم]

زیادہ تر "پہرے داری" کی صورت حال کا مطالعہ ازدواجی جوڑوں کی مرضی سے کیا گیا جو پہلی بار کے والدین ہیں۔ پرورش کے ماحول کے مطالعات جن میں مطلقہ جوڑوں یا ماورائے شادی پرورش کرنے والے رشتوں کو شامل کیا گیا یہ دکھاتے ہیں کہ ان کا برتاؤ شادی والدین سے بڑی حد تک مشابہ ہے۔ انھیں والدین کی مداخلت، والدین کی کنارہ کشی، مادرانہ کنارہ کشی اور درمیانی شخص کی بد سلوکی کے زمروں میں رکھا گیا ہے۔

ایک پہرے دار ماں یا باپ حسب ذیل برتاؤ کا مظاہرہ کرتا ہے:

  • پرورش کے دوسرے فریق، اہلیہ یا سابقًا شریک حیات رہے ماں/ باپ کے رویے پر تنقید کرتا ہے۔
  • بہت اڑیل یا غیر حقیقت پسندانہ معیاروں کو جاری رکھتا ہے تاکہ دوسرا فریق بچوں کے ساتھ وقت بتائے۔
  • بچوں کی زندگی میں بہتری لانے میں دوسرے فریق کی اہمیت یا کوششوں کو کم تر گردانتا ہے۔
  • گھر پر ساری تنظیمی، منصوبہ بندی اور وقت کے تعین پر گرفت رکھتا ہے۔
  • اس بات میں جھجک کا مظاہرہ کرتا ہے کہ وہ خاندان کی دیکھ ریکھ کی کچھ ذمے داری خود کو دور رکھے۔
  • اسے اس بات کے اعتراف کی شدید ضرورت ہوتی ہے کہ وہ والدین میں سے ایک ہے، اپنے دوسرے فریق کی طرف سے، شریک حیات سے، سابقہ شریک حیات سے اور شادی کے دائرے یا پرورش کے دائرے کے باہر سے۔
  • اسے شوہروں اور بیویوں سے ملحوظ کیے گئے روایتی رولوں پر ایقان ہوتا ہے۔
  • گھریلوں معاملات اور بچوں کی پرورش کی ذمے داری کے معاملے میں وہ دوسرے ماں / باپ، شریک حیات یا سابقہ شریک حیات کو معاون سمجھتا ہے نہ کہ اپنا ہم پلہ۔
  • دوسرے ماں / باپ، شریک حیات یا سابقہ شریک حیات سے وہ مدد کرنے کو کہتا ہے اور پھر واضح ہدایات دیتا ہے کہ کس طرح اس کام کو انجام دیا جائے۔

ازدواجی رشتے میں پہرے دار ماں یا باپ کی خصوصیات تا حال ہی ممکنہ طور نمایاں ہو سکتے ہیں، جس میں دونوں میں سے ایک کو ثانوی درجے پر پہنچایا جاتا ہے اور اسے پرورش کی صلاحیتوں میں رائے زنی سے دور کیا جاتا ہے یا پھر اس کی اپنی صلاحیت کو در کنار کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے طریقے سے پرورش کرے۔ یہ بجائے خود غالب آنے والی ماں یا باپ کو گھر کا مکمل اختیار فراہم کرتا ہے۔ اس سے دوسرے فریق میں بچوں کے معاملے میں ناراضی یا ناچاری کا جذبہ ابھار سکتا ہے۔ مابعد بلاق صورت حال میں پہرے دار ماں یا باپ دوسرے فریق سے بچوں کے ربط کو محدود بنا سکتا ہے، زبان و ذہن سے استحصال کر سکتا ہے یا پھر وہ دوسرے فریق پر سچائی سے پرے تبصروں اور دھمکیوں کا استعمال کر کے اپنا دبدبہ بنائے رکھ سکتا ہے۔

متعلقہ حالات

[ترمیم]

یہ نہ تو طے نہیں کیا گیا ہے اور نہ اس کا مطالعہ کیا گیا ہے کہ کیا ماں یا باپ کی پہرے داری والدین کی مداخلت یا والدین کی کنارہ کشی سے مختلف ماحول ہے یا پھر بقیہ دو پہرے داری کی ہی انتہا درجے کی قسمیں ہیں جو بڑھی ہوئی تنازع بھری والدین کے رشتے کے ٹوٹنے سے سامنے وجود میں آئے ہیں۔ یہ قابل غور بات ہے کہ ماں یا باپ کی پہرے داری، والدین کی مداخلت اور والدین کی کنارہ کشی کو امیریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن قابل تشخیص "ماحول" یا "کیفیات" تسلیم نہیں کیے ہیں۔ کئی دماغی صحت سے جڑے پیشہ ورانہ لوگ اس بات پر رضامند ہوئے ہیں کہ یہ اصطلاحات محض یہ سمجھانے کی کوشش ہیں کہ باپ سے ملنے سے ملنے میں بچوں کی مزاحمت کیوں ہے۔ بڑھی ہوئی تنارع کے حالات جو پہلے ہی سے دکھائی پڑتے ہیں آگے چل کر بچوں کے لیے عدم صلاحیت، غفلت اور استحصال کے الزامات پر نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں۔ یہ الزامات اکثر ماں کی جانب سے باپ پر لگائے جاتے ہیں - جب بھی رشتہ عدالتی طلاق کے مقدمے کی کار روائی کی نذر ہو۔ کوئی جاریہ مطالعہ ایسا نہیں چھپا ہے جو ان تین ماحولوں میں ربط ظاہر کرے اور امیریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن نے نہ ایسا کوئی انکشاف کیا ہے اور نہ ان ماحولوں کی اپنی کسی اشاعت میں نشان دہی کی ہے۔ ان معاملوں میں انفرادی مطالعات جاری ہیں۔

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  • Allen, S. M., & Hawkins, A. J. (1999). Maternal gatekeeping: Mother’s beliefs and behavior that inhibit greater father involvement in family work. Journal of Marriage and Family, 61, 199-212.
  • Austin, W. G. (2005a, February). Considering the Process of Support for the Other Parent and Gatekeeping in Parenting Evaluations. Colorado IDC News: The Newsletter of the State of Colorado Interdisciplinary Committee, 7(1), 10-13.
  • Austin, W. G. (2005b). The child and family investigator’s evaluation for the relocation case. In R. M. Smith (Ed.), The role of the child and family investigator and the child’s legal representative in Colorado (pp. C9-1 – C9-28). Denver: Colorado Bar Association.
  • Austin, W. G. (2008). Relocation, research, and forensic evaluation: Part II: Research support for the relocation risk assessment model. Family Court Review, 46(2), 347-365.
  • Austin, W. G. (2011). Parental gatekeeping in custody disputes. American Journal of Family Law, 25(4), 148-153.
  • Austin, W. G. (2012). Relocation, research, and child custody disputes. In K. Kuehnle & L. Drozd (Eds.), Parenting plan evaluations: Applied research for the family court (540-559). New York: Oxford University Press.
  • Austin, W. G., Pruett, M. K., Kirkpatrick, H. D., Flens, J. R., & Gould, J. W. (2012). Parental gatekeeping and child custody/child access evaluations: Part I: Conceptual framework, research, and application, manuscript submitted for publication.
  • Austin, W. G., Fieldstone, L., & Pruett, M. K. (2013). Bench book for assessing parental gatekeeping in parenting disputes: Understanding the dynamics of gate closing and opening for the best interests of children. Journal of Child Custody, 10(1), 1-16.
  • Ganong, L., Coleman, M., & McCalle, G. Gatekeeping after separation and divorce. In L. Drozd & K. Kuehnle (Eds.), Parenting plan evaluations: Applied research for the family court (pp. ). Oxford University Press.
  • Holmes, E. K., Dunn, K. C., Harper, J., Dyer, W. J., & Day, R. D. (2013). Mother knows best? Inhibitory maternal gatekeeping, psychological control, and the mother–adolescent relationship. Journal of adolescence, 36(1), 91-101.
  • Kelly, J. B., & Lamb, M. E. (2000). Using child development research to make appropriate custody and access decisions for young children. Family and Conciliation Courts Review, 38, 297-311.
  • Pruett, M. K., Arthur, L. A., & Ebling, R. (2007). The hand that rocks the cradle: Maternal gatekeeping after divorce. Pace Law Review, 27(4), 709-739.
  • Pruett, M. K., Williams, T. Y., Insabella, G., & Little, T. D. (2003). Family and legal indicators of child adjustment to divorce among families with young children. Journal of Family Psychology, 17, 169-180.
  • Puhlman, D. J. (2013). Developming And Testing A Comprehensive Measure Of Maternal Gatekeeping.آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ diginole.lib.fsu.edu (Error: unknown archive URL)
  • Sarah J.; Brown, Geoffrey L.; Cannon, Elizabeth A.; Mangelsdorf, Sarah C.; Sokolowski, Margaret Szewczyk Maternal gatekeeping, coparenting quality, and fathering behavior in families with infants. Schoppe-Sullivan, Journal of Family Psychology. Vol 22(3), Jun 2008, 389-398.
  • Stevenson, M. M., Fabricius, W. V., Cookston, J. T., Parke, R. D., Coltrane, S., Braver, S. L., & Saenz, D. S. (2013). Marital Problems, Maternal Gatekeeping Attitudes, and Father–Child Relationships in Adolescence.
  • Trinder, L. (2008). Maternal gate closing and gate opening in postdivorce families. Journal of Family Issues, 29(10), 1298-1324.