یوم نیلا بٹ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نیلا بٹ کے یوم کے پیچھے جو کہانی چھپی ہے اس سے پردہ اٹھتا ہے۔

انیلا سے نیلا بٹ کی محبت بهری داستان اور [[جموں کشمیری]] قوم !

یوں تو ہم سب ہی اس چیز سے باخوبی واقف ہین کہ [[ریاست جموں کشمیر]] کی عوام کے ساتھ صدیوں سے دهوکہ دہی اور فراڈ ہوتے آئے ہین ، اس قوم کو بے وقوف بنانے مین جہان بیرونی ہاتھ ملوث رہے وہیں ہمارے اپنے بهی کسی سے پیچهے نہ رہے ، اس قوم کو خوب لوٹا خوب نچایا یہاں تک کہ آج بهی ہماری قوم انہی من گهڑت فلسفوں پر کچھ کچھ یقین رکهتی ہے ، حالانکہ تاریخ نے ہمارے سامنے اس صدی مین بہت کچھ کهول کر رکھ دیا !

چلیے آج اس مقام کا بهی جائزه لیتے ہین جس کا نام نیلا بٹ ہے اس دور مین اور من گهڑت قصے اور کہانیوں سے یہاں تک بهی سنا ہے کہ یہاں سے پہلی گولی چلا کر جہاد جموں کشمیر کا آغاز کیا تها .

اس آغاز کے بانی رہنما غازی آباد کے ایک نوجوان جس کا نام سردار عبد القیوم خان تها نے اپنے دست مبارک سے کیا تها !

مین نے بذات خود تاریخ کے بیسوں کتابوں کو کهنگالا ہے جن مین 1819 سے لے کر آج تلک کی مختلف کتابین ہین کسی ایک کتاب میں 1943 /44 سے پہلے مقام نیلا بٹ کا ذکر نہیں ملا آخر کیوں کیا کسی مصنف کو اس مقام کی واقفیت نہیں تهی یا یہ مقام بعد مین ایجاد ہوا ، قارئین کرام آپ کی نظر اگر تاریخ پر پڑهی ہو تو آپ اس چیز سے باخوبی واقفیت رکھتے ہوں گئے کہ یہ خطہ ہمیشہ ہی تاریخ مین نمایاں رہا ہے کسی نہ کسی وجہ سے ، اس خطے کے ایک ایک گاؤں ایک ایک پہاڑی ایک ایک نالے کا نام تاریخ کی کتابوں مین لکها گیا ہے لیکن نیلا بٹ کا ذکر کیوں نہیں ؟

آئیے آج تاریخ کے تلخ حقائق پر روشنی ڈالتے ہین !

قارئین کرام عرض یہ ہے کہ نیلا بٹ کے مقام پر پہلی گولی چلانے والے شیر دل مجاہد مجاہد اول سردار عبد القیوم خان صاحب اس وقت مہاراجا [[ہری سنگھ]] کی فوج مین ایک کلرک کی ذمداری انجام دیا کرتے تهے ، چونکہ اس وقت ریاست مکمل طور پر آزاد تهی ریاست کے چاروں اطراف کے لوگ ایک دوسرے سے ملتے جلتے تهے ایک طرف سے دوسری طرف آنے جانے کا رجحان بهی تها ، اسی کا فائده اٹهاتے ہوئے شیر دل مجاہد مجاہد اول سردار عبد القیوم خان صاحب بهی کبهی کبار ریاست کے باقی حصوں مین آتے جاتے رہتے تهے ، اسی اثناء مین انہین گاؤں کے ایک بڑے گهرانے کی ایک لڑکی سے پیار بهی ہو گیا بات نکل چلی ، مجاہد اول بهی شکل و صورت مین کسی سے کم نہ تهے اور ایک زبردست عاشق اور رنگین مزاج کے مالک تهے انہین بهی دیکھ کر وه [[حسینہ]] ره نہ پائی اور اس کم بخت کو بهی مجاہد اول کے عشق مین خواب نظر آنے لگئے ، اس حسینہ کا نام انیلا تها سے تعلق رکھتی تهی 6 بهائیوں کی بہن تهی ، جب دونوں طرف سے عشق اپنے عروج پر پہنچا تو مجاہد اول سردار عبد القیوم خان صاحب نے اڑان بهر لی اور لڑکی کو لے کر نو دو گیاره ہو گئے ، جب اس کا علم اس حسین و جمیل دوشیزہ کے بهائیوں کو ہوا تو پیچها کرتے کرتے غازی آباد تک پہنچ گئے ، جس پر ایک رد عمل ایک لازمی امر تها ، ان بهائیوں کو جب اس معاشقے کا علم ہوا تو ان کی غیرت نے جوش مارا تو انہون نے اپنی بہن کے رنگین مزاج عاشق سمیت دونوں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا ، اسی دوران دونوں عاشق اور معشوق کو رنگے ہاتهوں عشق کے عہدو پیماں کرتے پکڑ لیا ، چونکہ ان کا کام تمام کرنے کا منصوبہ تو پہلے سے ہی طے شده تها ، جب دونوں کو پکڑ کر ایک گہری کهائی کے طرف لے جانے لگئے تو اسی وقت مجاہد اول صاحب کے ذہین ذہن مین ایک ترکیب سوجی اور سردار صاحب نے رفعہ حاجت کا بہانہ بنا کر اپنے عشق کو اکیلے چهوڑ کر انہین دهوکہ دیتے ہوئے اپنی آرمی ٹریننگ کی گوریلا تکنیک استعمال کی اور وہاں سے رائے فرار اختیار کر گئے ، جس کا خمیازہ اس معشوق کو اکیلے ہی بهگتنا پڑها اور اسے اس کے بهائیوں نے جگہ پر ہی قتل کر دیا !

جب اس بات کی خبر مجاہد اول تک پہنچی تو نہ صرف ان کی انکهوں مین انسوں آئے بلکے شدید صدمے سے بهی دو چار ہوئے ، یہان تک کہ کئی دنون تک کهانا بهی نہ کها سکے ، جب سردار صاحب یعنی گذشتہ مجاہد اول اس صدمے سے باہر آئے تو انھوں نے اپنے عشق کو رہتی دنیا تک زنده رکهنے کے لیے جائے واردات کا نام نیلا بٹ رکه دیا !

اب لڑکی کا نام انیلا تھا تو [[سردار عبدالقیوم خان]] صاحب نے یہ سوچ کر کہ کیوں نہ انیلا کا پہلا حرف ہٹا دیا جائے جس سے کہ لفظ نیلا رہ جائے گا اس طرح کسی کو کوئی شک بھی نہیں ہوگا اس کی وجہ یہ تھی کہ سادگی کا زمانہ تھا اور تعلیم اور شعور کا فقدان ہونے کی وجہ سے سردار صاحب کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی اور انھوں نے مشہور کروادیا کہ نیلا بٹ کے مقام پر پہلی گولی انھوں نے چلائی

قارئین کرام آپ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائیں گے لہکن زمانہ قدیم سے لے کر آپ کو نیلا بٹ کے نام کی کوئی جگہ مقام کاسراغ نہیں مل سکے گا کیونکہ اس نام کی کوئی جگہ یا ملتا جلتا کوئی قصبہ یا پہاڑی مقام تھا ہی نہیں

یہ نام فرضی طور پر رکھا گیا تھا اور اس کے بعد سردار صاحب نے اپنے دور صدارت مین اس فرضی مقام کو اور زیادہ تشہیر دی اور پورے ریاست کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کو اور اپنے مجاہد اول ہونے لقب کو اچھی طرح سے عوام میں مشہور کروا دیا!

آپ کو میری یہ تحریر پڑھ کر یقین تو آگیا ہوگا کہ کس چالاکی سے اس خطے کی قوم کو چار دہائیوں سے مسلسل بے وقوف بنا کر مجاہد اول صاحب نے یہ نیلے بٹ کا ٹوپی ڈراما رچائے رکھا