سید محمد قاسم راجوروی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
مرقد انور کا کتبہ
فائل:Pir Syed Muhammad Qasim Rajorvi.jpg
پیر سید محمد قاسم راجوروی ایک نایاب کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے
آپ کا مزار زیر تعمیر ہے

علامہ پیر سید قاسم شاہ کاظمی نقشبندی مجددی راجوروی عالم دین، مصنف، شاعر اور شیخ طریقت تھے۔ طویل عرصہ جامع مسجد بری امام ، اسلام آباد کے خطیب رہے۔ 13 کتب تصنیف کیں۔ حضرت پیر سید اسماعیل شاہ بخاریؒ المعروف کرمانوالہ سرکار (پیدائش: 1884ء۔۔۔ وصال:20 جنوری 1966ء/ 27 رمضان 1385ھ) کے خلیفہ مجاز تھے۔

ولادت[ترمیم]

آپ کی ولادت باسعادت مارچ 1929ء میں راجوری کے گاؤں لاہ میں ہوئی۔ آپ کے والد پیر سید مخدوم شاہ کاظمی راجوروی المعروف بڑے پیر صاحب (وصال: 16 اکتوبر 1936ء)، بابا جی صاحب لاروی کے خلیفہ اور حاجی بابا سید نوران شاہؒ کے برادرِ اکبر تھے۔ بچپن میں آپ کو اٹھا کر پیار سے لالیو شالیو کہا کرتے تھے۔

تعلیم[ترمیم]

ابتدائی تعلیم اپنے والدماجد اور اپنے برادر اکبر محدث اعظم کشمیر سید محبوب شاہ کاظمی (وصال: 20 اپریل 1957ء/ 20 رمضان 1376ھ) سے حاصل کی۔ بعد ازاں الحاج پیر سید محمد شاہ کاظمی (کالوچک شریف) کے فرزندِ اکبر حاجی سید طاسین شاہ کے ساتھ نیک آباد مراڑیاں شریف ضلع گجرات میں علامہ پیر محمد نیک عالم قادری (پیدائیش: 1884ء۔۔۔ وصال: 16 فروری 1958ء/26 رجب1377ھ) کی قائم کردہ درس گاہ میں تشریف لے گئے، نیک آباد شریف آپ کے نام سے ہی منسوب ہے۔ آپ کے متعلق ہمارے موصوف لکھتے ہیں کہ جب بھی آنکھ کھلتی استاد صاحب عبادت میں مشغول ہوتے، آپ ہی لکھتے ہیں کہ میرے بھتیجے سید شاہ حسین بن سید محبوب شاہ کاظمی نے پیر نیک عالم قادری سے زیارت نبوی کے لیے دعا کی درخواست کی تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا، رات کو خواب میں فرمایا: شاہ حسین وہ دیکھو حضورﷺ تشریف فرما ہیں، جی بھر کے زیارت کر لو۔ پیر نیک عالم قادری، موجودہ سجادہ نشین پیر افضل قادری کے دادا ہیں۔ یہاں سے تحصیل علومِ دین کے بعد پیر سید قاسم راجوروی، محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد قادریؒ (پیدائش:1904ء۔۔۔۔ وصال:29 دسمبر 1962ء) کی درسگاہ: جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد تشریف لے گئے علامہ سردار احمد قادری، اعلیٰحضرت احمد رضا خان بریلوی کے صاحبزادے مولانا حامد رضا خان بریلوی کے شاگرد اور خلیفہ تھے۔ جامعہ رضویہ فیصل آباد سے پیر سید قاسم راجوروی نے اپریل 1955ء میں سندِ فراغت حاصل کی۔ علم کی پیاس آپ کو کشاں کشاں حافظ الحدیث پیر سید جلال الدین شاہ کاظمی بانی جامعہ محمدیہ بھکھی شریف منڈی بہائوالدین (پیدائش:1915ء۔۔۔۔۔ وصال: 18 نومبر 1958ء) کی درسگاہ میں بھی لے گئی۔ آپ بھی شیخ احمد رضا خان بریلوی کے فرزند شیخ مصطفیٰ رضا خان بریلوی کے شاگرد اور خلیفہ تھے۔ مئی 1961ء میں دار العلوم اشرف المدارس اوکاڑہ سے سندِ قرات حاصل کی۔ سیال شریف سے خواجہ قمر الدین سیالوی، پیر سید جماعت علی شاہ صاحب محدث علی پوری اور گولڑہ شریف سے آپ کو اعزازی اسناد بھی عطا کی گئیں۔ آپ کے والد محترم پیر سید مخدوم شاہؒ کی بہت خواہش تھی کہ ان کی اولاد میں کوئی مستند عالم دین ہو، اسی خاطر آپ نے ایک فقیر سے بھی دعا کی درخواست کی تھی۔ چنانچہ اس دعا کی قبولیت پہلے آپ کے فرزند اکبر شیخ الحدیث سید محبوب شاہ کاظمیؒ کی شکل میں ہوئی اور پھر آپ ہی کی فرزند پیر سید قاسم راجوروی بھی اس دعا کی قبولیت کا مظہر ثابت ہوئے۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

اوکاڑہ میں قیام کے دوران حضرت قاسم راجوروی صاحب کو پیر سید اسماعیل شاہ بخاری المعروف کرمانوالہؒ کی صحبت کا شرف حاصل ہوا جن سے آپ نے 1958ء کے قریب کسی سال بیعتِ طریقت کی تھی، شیخ کرمانوالہ سرکار نے آپ کو تقریباََ تین مہینے کا عرصہ اپنی صحبت میں رکھ کر تربیتِ خاص سے گزارا، یہاں تک کہ حضرت قاسم راجوروی بیان کرتے ہیں کہ میرا پورا وجود ذاکر ہو گیا، پھر آپ کو سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ کی خلافت عطا کی گئی۔ حضرت کرمانوالہ آپ پر اتنی شفقت فرماتے کہ آپ کو پیر جی کہہ کر مخاطب فرماتے، آپ بیان کرتے ہیں کہ کئی مواقع پر ایسے ہوا کہ حضرت نے دل کی بات جان کر مسئلہ حل فرما دیا۔

حاجی بابا سید نوران شاہ کی نظر عنایت[ترمیم]

آپ کے عم محترم اور حضرت بابا جی صاحب لارویؒ کے خلیفہ اعظم حضرت حاجی بابا سید نوران شاہؒ کی بھی آپ پر خصوصی نظرِ عنایت تھی، ایک بار آپ کو خصوصاََ بلا کر فیض اور کئی اجازات عطا فرمائیں، ایک موقع پرآپ کی حسنِ قرات سے خوش ہو کر فرمایا کہ مبارک ہو اس ماں کو جس کا یہ بیٹا ہے۔ قاسم راجوروی صاحب نے حضرت حاجی بابا سے کتاب لکھنے کی اجازت طلب فرمائی تو فرمایا کہ میں خود نورپورشاہاں بری امام آ کر تمھیں چند چیزیں لکھوائوں گا۔ لیکن وقتِ اجل نے آپ کو مہلت نہ دی۔ مری میں حاجی بابا کا جب مرض وصال شروع ہو چکا تھا تب آپ نے قاسم راجوروی صاحب کو کئی بار دین و دنیا کی کامرانی کی دعا دی۔

روحانی واقعات[ترمیم]

ایک بار (غالباََ 2005ء میں)ایسا ہوا کہ ہمارے ممدوح گھر میں لیٹے ہوئے تھے اور آپ کی اہلیہ محترمہ اور بڑی بہو صاحبہ دربار بری امام ( جو آپ کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہے) حاضری کے لیے گئیں، جب واپس آئیں تو آپ کا چہرہ نور سے چمک رہا تھا اور آپ بیحد خوش نظر آ رہے تھے۔ وجہ پوچھنے پر فرمایا کہ ابھی ابھی حضرت مولا علی علیہ السلام تشریف لائے تھے اور اپنے دست مبارک سے ولایت کی پگ (پگڑی) میرے سر پر رکھی۔ حضرت قاسم راجوروی حضرت کرمانوالہ کے خلیفہ ہونے کے باوجود ہر کسی کو مرید بنانے کی خواہش نہ رکھتے تھے۔ اگر کوئی بہت مصر ہوتا تو ہی اسے مرید فرماتے۔

خدمات[ترمیم]

تحصیل علوم ظاہریہ و باطنیہ کے بعد آپ ایک طویل عرصہ تک (1962ء تا 1981ء) بری امام اسلام آباد کی سرکاری مسجد کے خطیب کے عہدے پر فائز رہے۔ نورپور شاہاں اسلام آباد میں 1960ء میں جامعہ اسلامیہ تدریس القرآن کے نام سے اسلامی ادارے کی بنیاد رکھی۔ 1981ء اور 1987ء میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا اور وہاں اپنے والد ماجد پیر سید مخدوم شاہ کاظمی المعروف بڑے پیر صاحب (خلیفہ حضرت بابا جی صاحب لاروی) اور اپنے چچا پیر سید سلیمان شاہ کاظمی شہید کے مزارات تعمیر کروائے۔ آپ کی سعی جمیل سے ہی آپ کے جد امجد حضرت سید شاہ جنید کاظمی کا روضہ گھن چھتر مظفر آباد میں تعمیر ہوا اور حضرت سید شاہ ابراہیم کاظمی المعروف مشہدی بابا کا روضہ حویلیاں میں۔ مسجد بری امام میں خطابت کے دوران آپ نہایت بے باکی سے وعظ و نصیحت فرماتے تھے۔ غیر شرعی امور کے مرتکب اوقاف کی چند افسران کو بھی آپ درست راستے پر چلنے کی تلقین کرتے تھے جس کے باعث اوقاف کی ان افسران اور چند مقتدیوں نے آپ سے پرخاش رکھ لی اور آپ کے دورہ کشمیر کے بعد زیادہ چھٹیوں اور NOC نہ بنوا کر جانے کا الزام لگا کر ملازمت سے سبکدوش کر دیا۔ اس کے بعد آپ مسجد حسنین کریمین نورپور شاہاں بری امام اسلام آباد میں خطابت کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ 1988ء میں تبلیغ دین کی خاطر برطانیہ تشریف لے گئے۔ وہاں کئی سال اعلائے کلمۃ الحق کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔

وفات[ترمیم]

عمر مبارک کے آخری سالوں میں صاحبِ فراش رہے۔ 21 ستمبر 2009ء/ یکم شوال 1430ھ کو وصال فرمایا۔ گورکنوں کا بیان ہے کہ وصال کے بعد تدفین کے لیے قبر کھودی گئی تو مٹی سے کستوری کی مانند خوشبو آنے لگی۔

تصانیف[ترمیم]

قاسم راجوروی ایک درجن سے زائد کتب تصنیف کیں اور بیشتر دیگر نایاب کتب کی اشاعت کا اہتمام بھی فرمایا۔ آپ کی تصانیف کی فہرست ملاحظہ ہو:

  • 1۔ شجرہ قادریہ
  • 2۔ فضل و رحمت
  • 3۔ مظہر جلال و جمال
  • 4۔ بری امام کا لاڈلا
  • 5۔ فیض مخدوم
  • 6۔ گلزار لطیف
  • 7۔ شجرہ مخدومیہ
  • 8۔ حیات بری امام
  • 9۔ خزینہ فضل و کرم
  • 10۔ سوانح حیات سید رجب علی شاہ
  • 11۔ مدح مخدومیہ
  • 12۔ ذکر مخدوم
  • 13۔ شجرہ نسب

کئی دیگر نایاب کتب کی اشاعت کا اہتمام بھی فرمایا۔ آپ نے جو کتب شائع کروائیں ان میں سے چند کے اسماء درج ذیل ہیں:

  • اسرار کبیری از حضرت بابا جی صاحب لاروی
  • مجموعہ سی حرفی از حضرت بابا جی صاحب لاروی
  • 3۔ وقایۃ العوام مصنف مولانا سید محبوب شاہ محدث راجوری (برادر اکبر پیر سید قاسم شاہ راجوروی)
  • 6۔ سی حرفی از سید شاہ جنید کاظمی شہید فرزند ارجمند حضرت حاجی بابا سید نوران شاہؒ
  • 5۔ گلدستہ عشق مصنف پیر الف دین نقشبندی
  • 6۔ ملفوظات نظامیہ از حضرت بابا جی صاحب لاروی کی کتابت کی ابتدا بھی کروائی لیکن وقتِ اجل نے آپ کو مہلت نہ دی۔[1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. یہ حالات پیر سید قاسم راجوروی صاحب کی کتب مظہر جلال و جمال، ذکر مخدوم، فیض مخدوم، سید حیدر شاہ غالب صاحب کی کتاب رہبر طریقت، چند دیگر کتب، کچھ ویب سائٹس پر موجود چند مضامین اور حضرت قاسم راجوروی صاحب کے صاحبزادہ سید وحید شاہ کاظمی سے مکالمہ کی روشنی میں تحریر کیے گئے ہیں۔