ادھو داس

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

رائے بہادر اُدھو داس شکار پور، سندھ کے ایک معروف تاجر تھے، جنھوں نے شکارپور میں اپنی مدد آپ کے تحت تقسیم ہند سے قبل 1933ع میں شہریوں کے لیے ایک ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کے لیے ذاتی طور پر ایک لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔ اس وقت کے ایک لاکھ روپے کی مالیت اب کیا ہوگی یہ کوئی ماہر معاشیات ہی بتا سکتا ہے۔

ہسپتال کی تعمیر کے پس منظر میں ایک ہی جذبہ کار فرما تھا اور وہ تھا انسان دوستی کا۔ معروف دانشور ڈاکٹر انور فگار کے مطابق یہی وجہ تھی کہ 30 اپریل 1933ء میں ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد ہسپتال کی تعمیر و ترقی میں انھوں نے اپنا تن، من، دھن سب وقف کر دیا۔

جب انھیں اُدھو داس ہسپتال کے لیے سندھ میں چندے کے حصول میں دشواری کا سامنا ہوا تو اسی سلسلے میں انھوں نے اپنا رخ بمبئی کی جانب کیا اور وہیں چل بسے۔ اپنے ہسپتال کے لیے چندہ جمع کرنے والے اُدھو داس کی موت ان جیسے کسی اور سماجی کارکن کے نام سے منسوب ہسپتال میں ہوئی، جہاں وہ 73 برس کی عمر میں 17 جنوری 1943ء کو یہ جہان چھوڑ کر اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔

اُدھو داس کے اس نیک کام میں ہندوؤں کے علاوہ مسلمان بھی شامل تھے گو کہ ان کی تعداد ہندوؤں کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ ان مسلمانوں میں نمایاں نام لیڈی نصرت حاجی عبد اللہ ہارون کا ہے جنھوں نے ہسپتال کے لیے 7,000 روپے کا چندہ دیا۔ خان بہادر عبد الستار آف کوئٹہ نے ایک ہزار روپے، حاجی مہربخش مولا بخش اینڈ سنز کراچی والا نے پانچ سو روپے کا عطیہ دیا۔

ہسپتال میں ادھو داس کا مجسمہ[ترمیم]

ادھو داس کی خدمات کے صلے میں ہسپتال کے بیرونی دروازے کے چبوترے پر اس کا سفید سنگ مرمر سے بنا مجسمہ لگا ہوا تھا۔ ضمیر اعوان کے مطابق مجسمے کو سب سے پہلے اس وقت نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جب مسجد منزل گاہ کا واقعہ شروع ہوا۔ شر پسندوں کی نظریں اُدھو داس کے مجسمے پر تھیں کہ کسی بھی طرح اس مجسمے کو زمین بوس کیا جائے، اس لیے مجسمے کو سفید رنگ کے کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد اس مجسمے پر وقتاً فوقتاً کئی حملے ہوتے رہے۔ حملہ آوروں کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ کسی بھی طرح مجسمے کے ناک کان کاٹے جائیں، لیکن اس حوالے سے انھیں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ مجسمے کو مسمار کرنے کا آخری حملہ 1979 ء میں ہوا۔ شکارپور کے مقامی صحافی زاہد نون کے مطابق ایک مذہبی تنظیم کی جانب سے شکارپور میں ایک ریلی منعقد کی گئی۔ ریلی کے شرکاء کے ہاتھوں میں مختلف قسم کے آہنی اوزار تھے ان افراد نے مجسمے پر ہلا بول دیا اور بالآخر مجسمے کو گرا کر دم لیا۔

ادھو داس کا مجسمہ سندھالوجی ڈپارٹمنٹ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں[ترمیم]

بعدِ ازاں یہ مجسمہ غائب ہو گیا لیکن اب یہ انسٹی ٹیوٹ آف سندھولاجی سندھ یونیورسٹی جامشورو میں موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ مجسمہ وہاں کب، کیوں اور کیسے پہنچا؟ سندھولاجی کے سابق چیئرمین محمد قاسم ماکا نے بتایا کہ یہ مجسمہ ڈاکٹر غلام علی الانا کے دور میں لایا گیا تھا۔ الانا نے بتایا کہ غالباً 81-1980 کی بات ہے، مجھے شکارپور سے کسی صاحب نے فون کیا۔ مجھے ان کا نام یاد نہیں لیکن وہ ذات کے آغا تھے۔ انھوں نے بتایا کہ شکارپور کے ہسپتال کے باہر اُدھو داس کے مجسمے پر ایک مذہبی تنظیم کے لوگوں نے حملہ کر کے اس کی گردن اُڑا دی اور ہاتھ پیر توڑ دیے، براہ مہربانی اس مجسمے کو سندھولاجی منتقل کر کے اس کی اصل شکل میں بحال کریں۔ میں نے محکمے کے کچھ دوستوں کے تعاون سے مجسمے کو، جو بہت ہی شکستہ حالت میں تھا، سندھالوجی منتقل کر دیا۔ منتقل کرنے کے بعد بھی مجھے ایک خوف یہ تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اس مجسمے پر سندھالوجی میں بھی حملہ ہو جائے۔ ہم نے مجسمے کو روشن شاہ راشدی میوزیم میں ایک دروازے کے پیچھے رکھ کر کپڑے سے ڈھانپ دیا تاکہ کوئی اسے دیکھ نہ پائے۔

جب بھی میوزیم میں کوئی پروگرام ہوتا تھا تو ہم اس حوالے سے خاصے محتاط ہوتے تھے کہ کوئی اس طرف نہ جا پائے۔ ایک بار معروف قانون دان اے کے بروہی سندھولاجی کے دورے پر تشریف لائے۔ بروہی کے ضیاء الحق سے خصوصی مراسم تھے۔ یہ 1980 ء کی بات ہے۔ ہم نے ان کو میوزیم کا دورہ کروایا اور پوری کوشش کی کہ کپڑے میں ڈھکا مجسمہ ان کو نظر نہ آئے لیکن قسمت نے ہمارا ساتھ نہ دیا۔ بروہی کی نظر کپڑے سے ڈھکے مجسمے پر پڑ گئی۔ وہ مجھ سے بولے یہ کیا چھپایا ہے؟ مجھے دکھاؤ۔

"میں نے کہا آپ سے اور مذہبی جماعتوں سے ڈر لگتا ہے۔ انھوں نے کہا میں ہر صورت میں دیکھنا چاہوں گا۔ مجبوراً مجسمے سے کپڑا ہٹایا گیا۔ وہ مجسمے کی حالت دیکھ کر خاصے رنجیدہ ہوئے اور بولے یہ تو اُدھو داس ہے۔ یہ تو بہت عظیم انسان تھے۔ ان کے مجسمے کو جلد از جلد اصلی شکل میں بحال کرو۔ اس کے اخراجات میں ادا کروں گا۔ ان کے اس فرمان کے بعد ہم نے مجسمے کی بحالی کی ذمہ داری عظیم چانڈیو اور علی نواز پھلپوٹو کو سونپ دی۔

ادھو داس ہسپتال کا نام تبدیل کرنے کی کوشش[ترمیم]

سندھالاجی کے سابق ڈائریکٹر نے یہ بھی بتاعا کے ضیاء الحق کے دور میں سندھ کے ایک صوبائی وزیر صحت احد یوسف مجھ سے ملنے آئے اور کہا آپ سے ایک مشورہ کرنا ہے۔ احد یوسف نے بتایا کہ مذہبی تنظیموں کی جانب سے ان پر دباؤ ہے کہ رائے بہادر اُدھو داس ہسپتال کا نام تبدیل کیا جائے۔

غلام علی الانا کے مطابق "میں نے احد یوسف کو کہا ایک شخص جس نے ہسپتال کی تعمیر کے لیے اپنی جان قربان کی، اب اس کے نام سے منسوب ہسپتال کا نام بھی بدلا جائے گا۔ تمھارے پاس اختیار ہے تم یہ کرسکتے ہو۔ لیکن یاد رکھو تاریخ میں تمھیں کبھی بھی اچھے لفظوں سے یاد نہیں کیا جائے گا۔ احد یوسف خاموشی سے چلے گئے۔ مگر احد یوسف نے ہسپتال کا نام تبدیل نہیں کیا۔ " [1] [2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. اُدھو داس کی گردن زنی، مصنف: اختر بلوچ اردو روزنامہ ڈان
  2. سندھی روزنامہ عبرت 20 جنوری 2016ع، کالم: آئیں ایک محسن کو یاد کریں، کالم نویس: نسیم بخاری