امام رضا کے علمی مناظرے

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

امام علی رضا کے علمی مناظرے حضرت کے ولی عہد بننے کے بعد مامون رشید کی دربار میں خود مامون کی دعوت پر دیگر ادیان کے اہل علم لوگوں سے انجام پائے؛ جن میں سے اس مقالہ میں نصاریٰ، یہودی اور مجوسی علما کے مناظرات ذکر کیے گئے ہیں

مقدمه[ترمیم]

ولی عہدی کے مرحلے کو طے کرنے کے بعد مامون رشید نے مختلف ادیان کے علما کو بلا کر امام علی رضا سے مناظرہ کرایا اور یہ حسد کی بنیاد پر ایسا کرتا تھا کہ کہیں امام رضا ان کے سامنے خاموش ہوجائیں۔[1]

عالم نصاریٰ سے مناظرہ[ترمیم]

مامون کے عہد میں "جاثلیق" نامی نصاریٰ کا ایک بہت بڑا عالم و مناظرہ میں شہرتِ عامہ رکھتا تھا، اس کی عادت تھی کہ متکلمین اسلام سے کہا کرتا تھا کہ ہم تم دونوں نبوت عیسیٰ اور ان کی کتاب پر متفق ہیں اور اسی بات پر اتفاق بھی رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ ہیں۔ اختلاف ہے کہ تم نبوتِ پیغمبر اسلام پر اعتقاد رکھتے ہو اور ہم انکار کرتے ہیں پھر ہم اور تم ان کی (اس دنیا سے ظاہری) رحلت پر بھی متفق ہیں، اب ایسی صورت میں آپ کے پاس کونسی دلیل ہے جو ہمارے لیے حجت ہو؟

یہ کلام سن کر اکثر مناظر خاموش ہو جاتے تھے۔ مامون رشید کے کہنے پر ایک دن وہ امام رضا سے بھی ہم کلام ہوا، موقع مناظرہ میں مذکورہ سوال دہراتے ہوئے اس نے کہا کہ پہلے آپ یہ بتائیں کہ حضرت عیسیٰ اور ان کی کتاب دونوں پر ایمان و اعتقاد رکھتے ہیں یا نہیں؟

امام رضا نے فرمایا؛

میں اس عیسیٰ کی نبوت کا یقیناً اعتقاد رکھتا ہوں جس نے ہمارے نبی یعنی پیغمبر اسلام کی نبوت کی اپنے حواریوں کو بشارت دی ہے اور ان کی کتاب کی بھی تصدیق کرتا ہوں جس میں یہ بشارت درج ہے، جو عیسائی اس کے معترف نہیں اور جو کتاب اس کے شارح و مصدق نہیں اس پر میرا ایمان نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر جاثلیق خاموش ہو گیا

مزید امام نے فرمایا؛ اے جاثلیق ہم اس عیسیٰ کو جس نے آخری نبی یعنی پیغمبر اسلام کی نبوت کی بشارت دی۔ نبی برحق جانتے ہیں لیکن تم ان کی تنقیص کرتے ہو اور کہتے ہو کہ وہ روزہ نماز کے پابند نہ تھے۔

جاثلیق نے کہا کہ ہم تو یہ نہیں کہتے وہ تو ہمیشہ قائم الیل (رات میں قیام کرتے) و صائم النهار (دن میں روزہ سے) رہا کرتے تھے

امام رضا نے فرمایا؛ عیسیٰ بنا بر اعتقاد نصاریٰ خود معاذالله خدا تھے تو یہ روزہ اور نماز کس کے لیے کرتے تھے؟

یہ سن کر جاثلیق مبہوت ہو گیا اور کوئی جواب نہ دے سکا البتہ یہ کہنے لگا کہ جو مردوں کو زندہ کرے، جذامی کو شفا دے، نابین کو بنائی دے اور پانی پر چلے تو کیا وہ اس کا سزاوار نہیں ہے کہ اس کی پرستش کی جائے اور اسے معبود سمجھا جائے؟

امام رضا نے فرمایا؛ الیسع بھی پانی پر چلتے تھے اور اندھے کوڑھی کو شفا دیتے تھے، اسی طرح حزقیل پیغمبر نے ٣٥ ہزار انسانوں کو ساٹھ برس کے بعد زندہ کیا تھا، قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھر چھوڑ کر گئے تھے حقِ تعالی نے ایک ساعت میں سب کو ماردیا، بہت دنوں بعد ایک نبی استخوان ھائے  بوسیدہ سے گذرے تو خداوند متعال نے ان پر وحی نازل کی کہ انھیں آواز دو، انھوں نے آواز دی۔ اے غطام البالیہ (استخوان مردہ) اٹھ کڑے ہو۔ وہ سب بحکم خدا اٹھ کھڑے ہوئے اسی طرح حضرت ابراہیم کا پرندوں کو زندہ کرنا اور حضرت موسیٰ کے کوہِ طور پر لے جانے اور پیغمبر اسلام کے احیائے اموات فرمانے کا حوالہ دے کر فرمایا؛ ان چیزوں پر تورات، انجیل اور قرآن مجید کی گواہی موجود ہے اگر مردوں کو زندہ کرنے سے انسان خدا ہو سکتا ہے تو یہ سب انبیا بھی خدا ہونے کے مستحق ہیں۔

یہ سن کر جاثلیق چپ ہو گیا اور اس نے قبول اسلام کے علاوہ کوئی چارہ نہ دیکھا۔[2]

عالم یہود سے مناظرہ[ترمیم]

یہودی علما میں سے ایک عالم جس کا نام "راس الجالوت" تھا۔ اس کو اپنے علم پر بڑا تکبر و ناز تھا اور کسی کو بھی اپنی نظر میں نہ لاتا تھا ایک دن اس کا مناظرہ امام علی رضا سے ہوا، آپ سے گفتگو میں اس نے اپنے علم کی حقیقت جانی اور سمجھا کہ میں خود فریبی میں مبتلا ہوں۔ اس نے امام سے سوالات کیے اور تسلی بخش جوابات سنے جب وہ سوالات کر چکا تو اس کے بعد امام علی رضا نے فرمایا؛ اے راس الجالوت! تم تورات کی اس عبارت کا کیا مطلب سمجھتے ہو کہ"آیا نور سینا سے اور روشن ہوا جبل ساعر سے اور ظاہر ہوا کوہِ فاران سے"، راس الجالوت نے کہا کہ میں نے یہ عبارت پڑھی ضرور ہے مگر اس کے مطلب و تشریح سے واقف نہیں ہوں۔

امام رضا نے فرمایا؛ نور سے وحی مراد ہے، سینا (طور) وہ پہاڑ مراد ہے جس پر اللہ پاک سے حضرت موسیٰ کلام کرتے تھے، جبل ساعر سے محل و مقام عیسیٰ مراد ہے اور کوہِ فاران سے جبل مکہ مراد ہے جو شہر سے ایک منزل کے فاصلے پر ہے۔ امام رضا نے مزید فرمایا؛ تم نے حضرت موسیٰ کی وصیت دیکھی ہے؟ تمھارے پاس بنی اخوان سے ایک نبی آئے گا اس کی بات ماننا اور اس کی تصدیق کرنا۔

راس الجالوت نے کہا؛ ہاں دیکھی ہے

امام نے پوچھا کہ بنی اخوان سے کیا مراد ہے؟

راس الجالوت نے کہا کہ معلوم نہیں۔

امام رضا نے فرمایا؛ وہ اولاد اسماعیل ہیں، وہ حضرت ابراہیم کے بیٹے اور بنی اسرائیل کے مورثِ اعلیٰ حضرت اسحاق بن ابراہیم کے کے بھائی ہیں اور انھیں (کی ذریت) سے پیغمبر اسلام حضرت محمد ہیں۔ اس کے بعد جبلِ فاران والی بشارت کی تشریح فرما کر کہا کہ شعیا نبی کا قول تورات میں مذکور ہے کہ "میں نے دو سوار دیکھے کہ جن کے پرتو سے دنیا روشن ہو گئی، ان میں سے ایک گدھے پر سواری کیے ہوئے تھا اور دوسرا اونٹ پر"۔ اے راس الجالوت! تم بتا سکتے ہو کہ اس سے کیا مراد ہے؟

اس نے بتانے سے انکار کیا (مطلب اسے معلوم نہیں تھا)

امام رضا نے فرمایا؛ راکب الحمار (گدھے پر سوار) سے مراد حضرت عیسیٰ اور راکب الجمل (اونٹ پر سوار) سے حضرت محمد مراد ہیں۔ پھر امام رضا نے مزید فرمایا کہ تم حبقوق نبی کے اس قول سے واقف ہو کہ خدا اپنا بیان جبلِ فاران سے لایا اور تمام اس (کی آوازوں) سے بھر گیا اس کی امت اور اس کے لشکر کے سوار خشکی اور تری میں جنگ کریں گے ان پر ایک کتاب آئے گی اور سب کچھ بیت المقدس کی خرابی کے بعد ہوگا۔ اس کے بعد امام رضا نے فرمایا یہ بتاؤ کہ تمھارے پاس حضرت موسیٰ کی نبوت کی کیا دلیل ہے؟

راس الجالوت نے کہا کہ ان سے وہ امور ظاہر ہیں جو ان سے پہلے کے انبیا پر نہیں ہوئے تھے۔ مثلاً دریائے نیل کا شگافتہ ہونا، عصا کا سانپ بن جانا، ایک پتھر سے بارہ چشمے کا ظاہر ہونا اور یدِ بیضا (ہاتھ کا چمکنا) وغیرہ

امام رضا نے فرمایا؛ جو بھی اس قسم کے معجزات کو ظاہر کرے اور نبوت کا مدعی ہو اس کی تصدیق کرنی چاہیے؟

راس الجالوت نے کہا نہیں۔

امام نے پوچھا کیوں؟

اس نے کہا کہ موسیٰ کو جو قربت اور منزلت حق تعالیٰ  کے نزدیک تھی وہ کسی کو نہیں ہوئی لہذا ہم پر واجب ہے کہ جب تک کوئی شخص اپنی آنکھوں (کے سامنے) وہی معجزات اور کرامات نہ دکھلائے ہم اس کی نبوت کا اقرار نہ کریں۔

امام رضا نے فرمایا؛ تم موسیٰ سے پہلے انبیا مرسلین کی نبوت کا کیسے اقرار کرتے ہو؟ حالانکہ انھوں نے نہ کوئی دریا شگافتہ کیا، نہ کسی پتھر سے چشمے نکالے، نہ ان کا ہاتھ روشن ہوا اور نہ ان کا عصا اژدہا بنا۔

راس الجالوت نے کہا؛ جب ایسے امور کا اظہار خاص طور سے ہو جن کا اظہار کرنے سے عموماً تمام خلائق عاجز ہو تو وہ اگرچہ بعینهِ ہو یا نہ ہو، ان کی تصدیق پُر واجب ہو جائے گی۔

امام رضا نے فرمایا؛ حضرت عيسیٰ بھی مردوں کو زندہ کرتے تھے، کَور مادر زاد کو بینا بناتے تھے، مبروص کو شفا دیتے تھے، مٹی کی چڑیا بنا کر ہوا میں اڑاتے تھے۔ یہ وہ امور ہیں جس سے عام لوگ عاجز ہیں پھر تم ان پیغمبروں کو کیوں نہیں مانتے؟

راس الجالوت نے کہا کہ لوگ ایسا کہتے ہیں مگر ہم نے ان کو ایسا کرتے دیکھا نہیں ہے۔

امام رضا نے فرمایا؛ تو کیا آیات موسیٰ اور معجزات موسیٰ کو تم نے بچشم خود دیکھا ہے؟ آخر وہ بھی تو معتبر لوگوں کی زبانی سے سنا ہوگا، ویسے ہی اگر عیسیٰ کے معجزات ثقہ اور معتبر لوگوں سے سنو تو تم کو ان کی نبوت پر ایمان لانا چاہیے اور بالکل اسی طرح آیات اور معجزات کی روشنی میں حضرت محمد پیغمبر اسلام کی نبوت اور رسالت کا اقرار کرنا چاہیے۔ مزید آپ نے فرمایا کہ سنو ان کا ایک عظیم معجزہ قرآن مجید ہے، جس کی فصاحت اور بلاغت کا جواب قیامت تک نہیں دیا جا سکے گا۔ یہ سن کر وہ خاموش ہو گیا۔[3][4]

عالم مجوس سے مناظرہ[ترمیم]

مجوسی یعنی آتش پرست مطلب آگ کی پرستش یا پوجا کرنے والا اور زرتشت نامی مذہب سے بھی معروف ہیں۔ آتش پرستوں کا ایک مشہور عالم امام علی رضا کی خدمت میں حاضر ہو کر علمی گفتگو کرنے لگا، امام رضا نے اس کے سوالات کے مکمل جوابات عنایت فرمائے اس کے بعد آپ نے اس سے سوال کیا کہ تمھارے پاس زرتشت کی نبوت کی کیا دلیل ہے؟

اس نے کہا کہ انھوں نے ہماری ایسی چیزوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے جس کی طرف پہلے کسی نے رہنمائی نہیں کی تھی، ہمارے اسلاف کہا کرتے تھے کہ زرتشت نے ہمارے لیے وہ امور مباح کیے ہیں کہ ان سے پہلے کسی نے نہیں کیے تھے۔

امام علی رضا نے فرمایا؛ تم کو اس امر میں کیا عذر ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی نبی اور رسول کے فضائل اور کمالات تم پر روشن کرے اور تم اس کے ماننے میں پس و پیش کرو، مطلب یہ ہے جس طرح تم نے معتبر لوگوں سے سن کر زرتشت کی نبوت قبول کرلی اسی طرح معتبر لوگوں سے سن کر انبیا اور رسل کی نبوت ماننے میں تمھیں کیا عذر ہو سکتا ہے؟ یہ سن کر وہ مجوسی خاموش ہو گیا[5]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. تحریر؛ مجلس مصنفين اداره در راه حق (قم، ایران) (٢٠١٠)۔ سوانح حیات اھل بیت اطھار علیھم السلام۔ کراچی سندھ: ناشر؛ محمد امین مرچنٹ کراچی سندھ 
  2. ابى جعفر الصدوق محمد بن على الحسین بن بابويه قمى۔ عیون اخبار الرضا ج ١۔ اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ 
  3. سيد نجم الحسن کراروی (١٣٩٣)۔ چودہ ١٤ ستارے ´´مع اضافه``۔ امامیہ کتب خانہ لاہور 
  4. ابی جعفر الصدوق محمد بن علی الحسین بن بابويه قمى۔ عیون اخبار الرضا ج ١۔ اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ 
  5. ابی جعفر الصدوق محمد بن علی الحسین بن بابويه قمى۔ عیون اخبار الرضا ج ١۔ اکبر حسین جیوانی ٹرسٹ