بنوں میں دور سکھا شاہی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے


شاہ شجاع درانی نے بنوں کو رنجیت سنگھ کے حوالے کیا۔ رنجیت سنگھ 1824ء میں لاہور سے عیسیٰ خیل کے راستے بنوں آئے۔ مروت قوم سے کچھ لگان وصول کیا اور کنور شیر سنگھ کو بنوں بھیجا مگر بنوں کے لوگوں نے برائے نام لگان دیا۔ جن میں کھوٹ اور جست کے زیور شامل تھے مگر سکھا شاہی اس بات پر خوش ہوئی کہ کم از کم ان لوگوں نے اطاعت تو قبول کر لی۔ دوسری مرتبہ کنور کڑک سنگھ اور فتح سنگھ بنوں آئے اور اس بار انھوں نے پرانی کسر نکال لی۔ خوب قتل عام کیا۔ سکھا شاہی کی زیادتیوں کے خلاف دلاسہ خان داود شاہ باغی ہوا اور غازی بنا۔ آمندی کے مقام پر سکھوں کے ساتھ معرکہ ہو لیکن غازیوں کو شکست ہوئی یوں غازی دلاسہ خان علاقہ داوڑ چلے گئے۔

تیسری بار 1830ء میں کنور کڑک سنگھ اور فتح سنگھ دونوں بنوں آئے اور لگان کی وصولی میں دوبارہ مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا یوں وہ ناکام ہو کر پشاور چلے گئے۔ چوتھی دفعہ تارا سنگھ 1833ء میں بنوں آیا۔ علاقہ مروت کو خوب لوٹا اور غازی دلاسہ خان کی سرکوبی کے لیے علاقہ ممش خیل آیا وہاں سے دلاسہ خان کے گاؤں کا محاصرہ کیا ان کی گاؤں کی فصیل پر گولہ باری کی لیکن اُس کے سارے توپچی غازیوں کے ہاتھوں مارے گئے پھر سکھ سپاہیوں اور غازیوں میں دست بدست اور دو بدو لڑائی ہوئی اس طرح سکھ سپاہی مغلوب اور ناکام ہوئے۔
پھر تارا سنگھ واپس لاہور پہنچا اور رنجیت سنگھ کو بتایا کہ سارا بنوں باغی ہو گیا ہے۔ رنجیت سنگھ نے بنوں کے کی ملکوں کو بلایا جو ان سے ملے اور اطاعت کا یقین دلایا۔ اور سارا قصور وار تار سنگھ کو قرار دیا۔ اس کے بعد سردار کنور نونہال سنگھ اور راجا سوچیت سنگھ کو بنوں بھیجا گیا۔ انھوں نے یہاں خوب ظلم ڈھائے ان کی ظلم کی داستانیں آج بھی مشہور ہیں۔ گوشت کھانے پر پابندی تھی، بنوں والوں کو ہراساں کرنے کے لیے سروں کا مینار تعمیر کیا گیا۔ اس نے دلاسہ خان کو اپنے گاؤں کے قلعے میں محصور کیا ان کا کسی دوسرے نے ساتھ نہیں دیا۔ محاصرے نے جب طول کیھنچا تو دلاسہ خان کو مجبورا پہاڑوں کی طرف فرار ہونا پڑا۔ سکھ سپاہ برابر ظلم ڈھاتے رہے مگر پھر بھی انھیں لگان کی وصولی میں برابر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آخر کار خالصہ دربار نے انگریز جنرل ایڈورڈز کو سکھ فوج اور بنوں کا نگران مقرر کیا۔ تاکہ واجب الادا لگان وصول کیا جاسکے۔