تبادلۂ خیال:ایمپریس مارکیٹ

صفحے کے مندرجات دوسری زبانوں میں قابل قبول نہیں ہیں۔
آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

مزید معلومات[ترمیم]

ایمپریس مارکیٹ کراچی یا رام دین پانڈے کی قبر؟انگریزوں نے جنگ آزادی کی یادیں کس طرح مٹائیں؟ کیا پاکستانی سپریم کورٹ رام دین پانڈے کے ساتھ انصاف کر پائے گی؟ تحریر:اختر بلوچ تلخیص: ڈاکٹر احید حسن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رام دین پانڈے کون تھے کیا تھے اور انہیں سپریم کورٹ کیوں انصاف فراہم کرے؟ مزید یہ کہ اس کا ایمپریس مارکیٹ سے کیا تعلق بنتا ہے؟ ایمپریس مارکیٹ ایک تاریخی اہمیت کی حامل عمارت ہے اور اس کا 1857ء کی جنگِ آزادی سے بھی تعلق بنتا ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل، ایمپریس مارکیٹ اور اس سے متصل علاقوں میں 90 فیصد آبادی غیر مسلموں کی تھی، جن میں برطانوی راج کے اہلکار اور ان کے اہلِ خانہ اور ان کے علاوہ گوا، مدراس سے یہاں آکر بسنے والے انڈین مسیحی، پارسی اور بمبئی کے مراٹھی آباد تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں پارسیوں کی عبادت گاہ ’دار مہر‘، کیتھولک عیسائیوں کے چرچ اور اسکول، پارسیوں کی جانب سے تعمیر کیے گئے پارکس اور ڈسپینسریاں بھی نظر آئیں گی۔ مؤرخ محمد عثمان دموہی کے مطابق تقسیم سے قبل ایمپریس مارکیٹ میں مقامی لوگوں کا داخلہ ممنوع ہوتا تھا۔ پیر علی محمد راشدی کے مطابق ایمپریس مارکیٹ سے متصل سڑکوں پر وکٹوریہ بگھیاں چلتی تھیں جن پر شام کو برطانوی راج کے اہلِ خانہ سیر سپاٹوں کے لیے سواری کرتے تھے۔ یہ پورا علاقہ نہایت صاف ستھرا ہوا کرتا تھا۔ ابتدائی طور پر 1839ء میں ایمپریس مارکیٹ کو کیمپ بازار کہا جاتا تھا۔ مارکیٹ کا نقشہ انجینیئر مسٹر جیمز اسٹریچن نے تیار کیا تھا۔ 10 نومبر 1884ء کو اس عمارت کا سنگِ بنیاد گورنر بمبئی سر جیمز فرگوسن نے رکھا۔ یہ عمارت جودھپوری سرخ پتھر سے تعمیر کی گئی ہے، اس کے ٹاور کی اونچائی 140 فٹ ہے، مارکیٹ میں 4 گیلریاں ہیں، اس کا درمیانی حصہ 130 فٹ طویل اور 100 فٹ چوڑا ہے۔ مارکیٹ میں 280 اسٹالز کی جگہ تعمیر کی گئی تھی، لیکن اب اس کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تجاوزات نے عمارت کے حسن کو گہنا دیا تھا۔ وہ ٹاور جس پر ایک بڑا گھڑیال نصب تھا جس کی آواز سے علاقے میں بسنے والے لوگ جو گھڑیوں سے محروم تھے وقت کا تعین کرتے تھے۔ لیکن اب یہ گھڑیال دن میں صرف دو مرتبہ درست وقت بتاتا ہے، یہ وہ وقت ہے جہاں برسوں قبل اس کی گھڑی کے کانٹے ٹھہر گئے تھے۔ اس عمارت کی تعمیر کا ٹھیکہ 3 ٹھیکیداروں کو دیا گیا تھا، ان میں مسٹر ڈلو کیجو، جے ایس ایڈ فلیڈ اور مسٹر ولی محمد جیون شامل تھے اور اس عمارت کی تعمیر پر ڈیڑھ لاکھ روپے سے زائد کی رقم خرچ ہوئی۔ کمشنر سندھ مسٹر پرچرڈ نے 21 مار چ 1889ء کو عمارت کا افتتاح کیا اور چونکہ اس سال ملکہ وکٹوریہ کی سلور جوبلی بھی منائی جارہی تھی تو اس مناسبت سے عمارت کا نام ایمپریس مارکیٹ رکھا گیا۔ عمارت کی تعمیر کا تعلق 1857ء کی جنگِ آزادی سے بھی بنتا ہے۔ اس کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ 1857ء میں کراچی میں مقیم برطانوی فوج کی 21ویں رجمنٹ کے سپاہیوں نے رام دین پانڈے کی قیادت میں ایک منصوبہ تشکیل دیا، جس کے مطابق ایک رات کو 21ویں رجمنٹ کے سپاہیوں نے پورے کینٹونمنٹ پر قبضہ کرنا تھا اور انگریز فوجی افسران کو قتل کرکے آزادی کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا، لیکن 21ویں رجمنٹ سے ہی تعلق رکھنے والے کچھ مخبروں نے اس کی اطلاع انگریز سرکار کو دے دی جس کے بعد انگریزوں نے راتوں رات رام دین پانڈے اور اس کے ساتھ منصوبے میں شامل 14 باغی سپاہیوں کو گرفتار کرلیا۔ 13 اور 14 ستمبر 1857ء کی درمیانی شب ان باغیوں کو جنگِ آزادی کی حمایت میں حصہ لینے پر ایمپریس مارکیٹ کے مقام پر خالی میدان میں سرِعام پھانسی دی گئی جبکہ رام دین پانڈے سمیت دیگر 3 باغیوں کو توپوں کے مُنہ پر باندھ کر اڑا دیا گیا۔ بعد ازاں ان لاشوں کے ٹکڑے اکٹھے کرکے ایک گڑھے میں پھینک دیے گئے، جن باغیوں کو پھانسی دی گئی تھی اُن کی لاشوں کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کیے گئے اور اسی گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ معروف محقق گل حسن کلمتی کے مطابق ایمپریس مارکیٹ اسی جگہ پر تعمیر کی گئی تھی۔ ایمپریس مارکیٹ کی تعمیر کا مقصد لوگوں کو خرید و فروخت کی سہولتیں فراہم کرنا نہیں تھا بلکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی، ہوا یہ کہ اس واقعے کے بعد مقامی لوگ رات کی تاریکی میں یہاں آتے تھے اور اس مقام پر سرخ پھولوں کے گلدستے رکھ کر چلے جاتے تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر انگریز سرکار کو یہ خدشہ پیدا ہوا کہ کہیں یہ آہستہ آہستہ شہداء کی یادگار نہ بن جائے، اور کسی نئی بغاوت کا پیش خیمہ ثابت نہ ہو، اس لیے یہاں ایمپریس مارکیٹ تعمیر کردی گئی اور انگریز اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی رہا۔ اب معدودے چند لوگوں کے شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ یہ رام دین پانڈے اور دیگر شہداء کی یادگار ہے۔ ایمپریس مارکیٹ کے اطراف میں تمام تجاوزات ختم کردی گئی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ تجاوزات کے مقام پر پارک بنایا جائے گا۔ سندھ حکومت اس سے قبل مراد علی شاہ کی رہنمائی میں جہانگیر پارک جیسے ویران اجاڑ مقام کو ایک خوبصورت پارک میں تبدیل کرچکی ہے۔ اب یہ پارک کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن بنائے یا سندھ حکومت، لیکن کیا اس پارک کا نام رام دین پانڈے پارک رکھا جاسکتا ہے؟ یا پھر اس کے لیے بھی کوئی سرپھرا شہری چیف جسٹس کی عدالت میں مفاد عامہ کے حوالے سے درخواست دائر کرکے یہ گزارش کرے گا کہ مجوزہ پارک کا نام رام دین پانڈے پارک رکھا جائے؟ کیا مغرب کے نظریاتی غلاموں کے درمیان موجود کوئی مشرق کا کوئی غیرت مند فرزند اس کے لیے آواز بلند کرے گا؟ چھائی خاموشی کو دیکھ کر سوال یہ نہیں اٹھتا کہ مسلمان کہیں موجود بھی ہیں بلکہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ تھے بھی کہیں مسلماں موجود؟--امین اکبر (تبادلۂ خیالشراکتیں) 11:42، 17 اگست 2019ء (م ع و)

بیرونی روابط کی درستی (جنوری 2021)[ترمیم]

تمام ویکیپیڈیا صارفین کی خدمت میں آداب عرض ہے،

ابھی میں نے ایمپریس مارکیٹ پر بیرونی ربط میں ترمیم کی ہے۔ براہ کرم میری اس ترمیم پر نظر ثانی کر لیں۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو یا آپ چاہتے ہیں کہ بوٹ ان روابط یا صفحے کو نظر انداز کرے تو براہ کرم مزید معلومات کے لیے یہ صفحہ ملاحظہ فرمائیں۔ میری تبدیلیاں حسب ذیل ہیں:

نظر ثانی مکمل ہو جانے کے بعد آپ درج ذیل ہدایات کے مطابق روابط کے مسائل درست کر سکتے ہیں۔

As of February 2018, "External links modified" talk page sections are no longer generated or monitored by InternetArchiveBot. No special action is required regarding these talk page notices, other than ویکیپیڈیا:تصدیقیت using the archive tool instructions below. Editors have permission to delete these "External links modified" talk page sections if they want to de-clutter talk pages, but see the RfC before doing mass systematic removals. This message is updated dynamically through the template {{sourcecheck}} (last update: 15 July 2018).

  • If you have discovered URLs which were erroneously considered dead by the bot, you can report them with this tool.
  • If you found an error with any archives or the URLs themselves, you can fix them with [iabot.wmcloud.org/iabot/index.php?page=manageurlsingle this tool].

شکریہ!—InternetArchiveBot (بگ رپورٹ کریں) 18:40، 16 جنوری 2021ء (م ع و)