تبتی سماج میں خواتین

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

تبت پر 1950ء سے چین کا قبضہ ہے۔ چینی تسلط کے بعد اسے تبتی خود مختار علاقہ قرار دیا گیا ہے، اگر چیکہ تبتی لوگ کئی دہوں کے بعد اس علاقے کو آج بھی ایک الگ ملک سمجھتے آئے ہیں۔[1] چین سے الحاق کے بعد تبت میں چینی نسل کے لوگوں کی آبادی مقامی تبتی لوگوں سے زیادہ ہو گئی، جب کہ کئی تبتی ملک سے فرار ہو کر دوسرے ملکوں میں قیام پزیر ہو چکے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کی ایک معتد بہ تعداد بھارت آ چکی ہے۔ بھارتی ریاست ہماچل پردیش کا ایک شہر اور ضلع کانگڑ کی ایک بلدیاتی کونسل دھرم شالہ میں تبتی بدھ مت کے رہنما دلائی لاما کی رہائش گاہ بھی ہے یہیں سے جلا وطن تبتی حکومت چلتی ہے۔ بھارت اور بالخصوص دھرم شالہ جدید تبتی ثقافت اور ان کی سماجی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے، جسے دنیا رو شناس ہوتی ہے، کیوں کہ چین میں واقع تبت تک دنیا کی آزادانہ رسائی نہیں ہے۔ دلائی لاما کی قیادت میں تبتی سماج میں مرد و زن کے سماجی موقف کو مساوی بنانے کی کافی کوشش کی ہے۔ تبتی سماج میں خواتین (انگریزی: Women in Tibetan society) تعلیم اور روز گار کے ساتھ ساتھ کئی دیگر محاذوں پر مردوں کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہیں۔

قیادت[ترمیم]

حالاں کہ تبتی خواتین مردوں کے ساتھ ظاہری طور پر مساوی موقف رکھتی ہیں، مگر شاذ و نادر ہی کوئی تبتی خاتون جلا وطن حکومت یا کوئی عوامی محاذ پر کوئی قائدانہ ذمے داری سنبھالتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ عام طور سے تبتی مرد اور وہاں کی عورتیں اگلے جنم میں مرد کے طور پیدا ہونے کی دعائیں مانگتے ہیں۔ تبتی حقوق نسواں کے لیے فعالیت پسند عمومًا ایسے محاذوں پر عورتوں کے حقوق کی باتیں کرتی ہیں جو مخالف مرد نہ ہو۔[2]

تعلیم[ترمیم]

تبتی خواتین جدید طور پر تعلیم سے آشنا ہوتی ہیں۔ تبتی سنیاسیوں اور سنیاسنوں میں روایتی طور پر تعلیم کا فرق رہا کرتا تھا۔ سنیاسنوں کو تعلیم کی اجازت نہیں تھی۔ تاہم جدید دلائی لاما کے اصلاحات کی وجہ سے اب یہ صورت حال بدل چکی ہے۔ اب سنیاسن خواتین بھی آشرموں 21 کی تعلیم کی سندِ فراغت (جسے یہ لوگ گیشیما، دونوں یائے مجہول) پا سکتی ہیں جو ڈاکٹریٹ کی مساوی ڈگری ہے۔ یہ سلسلہ 2006ء سے شروع ہوا جب 20 ننوں کو پہلی بار گیشیما عطا کی گئی تھی۔ [2]

سماجی اختراعات[ترمیم]

جدید زمانے سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے تبتی سماج میں کئی تبدیلیاں رو نما ہوئی ہیں۔ ان میں 2002ء سے شروع ہونے والا مس تبت مقابلہ حسن ہے۔ خواتین کی ترقی اور ان کی تن درستی کے پیش نظر تبتی فٹ بال ٹیم بھی تشکیل پا چکی ہے۔ [2]

مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]