کثیر شوہری
تعدد شوہری ایسی شادی ہوتی ہے جس میں ایک بیوی کے کئی شوہر ہوتے۔ یہ قدیم زمانے برصغیر اور تبت کی اقوام عام رائج تھی۔ گو یہ اب کم ہو چکی ہے مگر اب بھی لداخ، بھوٹان، نیپال اور ہمالیہ کی قوموں میں ملتی ہے۔ مہابھارت میں پانچ پانڈو کی بیوی دروپدی اسی شادی کی مثال سامنے ہے۔ فرشتہ پنجاب کی قدیم قوموں میں اس طرح کی شادی کا ذکر کرتا ہے۔ سلطنت خدادا میسور کے ٹیپوسلطان نے اپنا آخری فرمان 1788ء میں جاری کیا جس کہ مطابق ایک عورت کو جو دس شوہر تک کرتی تھی کی ممانیت فرمائی تھی۔ 1910ء میں شملہ کے تعلیم یافتہ جماعت بودہنی سبہا قائم کرکے تعدد شوہری طریقہ کے بیاہ کو ناجائز قرار دیا اور اس طریقہ کے مسدود کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اب اس شادی کا کچھ ذکر ہوجائے۔
قوموں میں دستور تھا کہ ایک عورت بیک وقت ایک سے زیادہ شوہر رکھ سکتی تھی۔ جیسے مہابھارت کے زمانے میں رانی دروپدی پانچ بھائیوں کی بیوی تھی۔ آج بھی مڈغاسکر اور ملایا کے بعض حصوں اور بحرالکاہل کے جزیروں کی عورتیں ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ شادیاں کر سکتی ہیں۔ اسکیمو اور جنوبی امریکا کی عورتیں بھی تعدد شوہری کی قائل ہیں۔ تبت اور شاید ہندوستان کے بعض پرانے قبائل میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یہ رسم رائج ہے۔ لیکن اہل اسلام اور اہل کتاب یعنی مسیحی و یہودی قوموں کے ہاں تعدد شوہری قطعاً ناجائز ہے بلکہ اگر کوئی عورت ایسا کرتی ہے تو وہ صریح زنا کی مرتکب سمجھی جاتی ہے۔
رواج
[ترمیم]سکھوں میں بھی کا رواج تھا کہ بیوی کو تمام بھائی اور شوہر اپنی سالیوں کے ساتھ تعلقات رکھتا تھا۔ کشمیر کے علاقہ پدر میں بڑھا شخص جوان عورت شادی اس لیے کرتا کہ وہ اس کے لیے اچھی اولاد پیدا کرے۔ یہ اولاد عموماً کسی اور سے ہوتی ہے اور پچنگا کہلاتی ہے۔ اگلے ہندو مقنن ایسی اولاد کو کشٹ راجا کہتے تھے۔ دارجلنگ میں بہت سے لوگوں کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہوتا ہے لیکن مشرک بیوی رکھتے ہیں۔ نیپال میں تیوار قوم کی عورت جب چاہتی ہے بستر پر جانے کی نشانی رکھ کر چلی جاتی ہے اور جس کو چاہتی ہے اپنا شوہر بنالیتی ہے اور اس شوہر سے ناراض ہوجائے تو اس شوہر کی اولاد کو بھی ساتھ لے کر پرانے شوہر کے پاس واپس آجاتی ہے۔
پنجاب
[ترمیم]تعدد شوہری طریقہ پنجاب کے کنیٹ، جاٹ، راجپوت، کشمیر کے ٹھاکروں میں بھی رائج تھی۔ پنجاب میں تعدد شوہری طریقہ کئی بھائی یا کئی لوگ مل کر تعدد شوہری شادی کرتے تھے۔ اس کے لیے وہ مکان کے دو حصہ کرتے تھے۔ پچھلے حصہ میں ان کی مشترکہ بیوی رہتی ہے اور اگلے حصہ میں سارے بھائی رہتے ہیں۔ جب کوئی بھائی بیوی کا پاس جاتا ہے تو دروازے پر اپنا جوتا یا ٹوپی رکھ دیتا ہے اور اس سے دوسرے بھائیوں کو معلوم ہوجاتا ہے کہ اندر بھائی گیا ہوا ہے۔ جو لوگ ملازمت یا تجارت کی غرض سے باہر جاتے ہیں تو وہ باری باری گھر آتے تھے۔ سب سے بڑا بھائی گھر پر رہتا ہے اور چھوٹے بھائیوں کو بیوی کے پاس جانے دیتا ہے۔ اس عورت سے جو اولاد پیدا ہوتی وہ بڑے بھائی کی کہلاتی تھی۔ ان کے بچے بھی اپنی ماں کے شوہروں کی زیادہ تعداد پر فخر کرتے تھے اور ماں کے تمام شوہروں کو اپنا باپ سمجھتے تھے۔ بعض مقامات پر پہلا لڑکا بڑے بھائی کا، دوسرا دوسرے بھائی کا، تیسرا تیسرے بھائی کا اور چوتھا چوتھے بھائی کا کہلاتا تھا۔ خواہ ان میں سے کوئی بیوی پاس نہیں گیا ہو مگر بچوں کو سلسلہ وار نامزد کیا جاتا ہے۔ پنجاب میں جن لوگوں کے بھائی نہیں ہوتے تھے وہ دوسروں کے ساتھ مل شادی کرلیتے تھے۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو دھرم بھائی کہتے تھے۔
پہاڑی قوموں میں
[ترمیم]تبت، لداخ اور ڈیرہ وون کی پہاڑی قوموں میں صرف بڑا بھائی اپنی شادی کرتا ہے۔ یہ عورت تمام بھائیوں کی بیوی بن جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے اس سے اتفاق قائم رہتا ہے اور زمین بھی تقسیم نہیں ہوتی ہے اور تمام بھائی ایک بیوی پر مطمعین رہتے ہیں۔ یہی رواج تبت اور بھوٹان میں بھی ہے۔ بڑے بھائی کی بیوی تمام بھائیوں کی بیوی بن جاتی ہے۔ ان بھائیوں میں میں اگر کوئی بھائی اپنا علحیدہ بیاہ کرنا چاہتا ہے تو اس کو علحیدہ مکان لینا پڑتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کسی بھائی کو پرانی بیوی پسند نہ کرے یا وہ اسے پسند نہ کرے تو وہ اس بھائی پاس آجاتا ہے جس نے نئی شادی کی ہو اور بھاوج اس کی بھی بیوی بن جاتی ہے۔ مالابار اور ٹرانکور میں قوم نیر بالادت آباد ہیں۔ اسی طرح ساحلی علاقہ جو ان سے ہٹ کر ہے بونٹ اور کورگ آباد ہیں۔ ان میں بھی ہر عورت کے کئی شوہر ہوتے تھے۔ اس لیے باپ کا ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے وراثت عورت کے سلسلہ میں ہوتی ہے۔ یعنی نواسہ اور بھانجہ وغیرہ بہ نسبت پوتا یا بھتیجا کے زیادہ حق رکھتے ہیں۔
چارلیس شیرنگ لکھتا ہے مغربی تبت وائسراے کی بیوی کا انتقال ہو گیا تو اس نے دوسری شادی کرنے کی بجائے مناسب سمجھا کہ اپنے بیس سالہ بیٹے کی بیوی کے ساتھ شریک ہوجائے۔ یہاں یہ بھی رواج تھا کہ کوئی شخص کسی بیوہ سے شادی کرتاہے تو اس تمام لڑکیاں اس کی ذوجیت میں آجاتی تھیں۔
جنوبی ہند
[ترمیم]ملابار ساحل کے پست اقوام اور تبت کی تمام اقوام میں پایا جاتا تھا۔
نیل گری کے ٹوڈا، نائز اور کرمبا قوم میں جس شخص کے حقیقی بھائی نہیں ہوں تو اپنے ماموں زاد، خالو زاد، پھوپازاد بیوی میں شریک ہوجاتے ہیں۔ عورت حاملہ ہونے پر خود طہ کرتی ہے کہ بچہ کس شوہر کا ہے۔ یہاں کی اکثر عورتوں کا ایک خاوند برہمن ہوتا ہے۔ سنتھال قوم میں مرد کے بیوی کے علاوہ سالیوں بھی جنسی تعلقات ہوتے تھے۔
پابندی
[ترمیم]برطانوی حکومت عہد حکومت میں مدراس ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ مروجہ دستور کے مطابق مرد اور عورت کا تعلق درست نہیں بلکہ یہ زناکاری ہے۔ اس وجہ سے اس دستور کے مطابق عورت آزاد ہے اور جب چاہے اپنا شوہر تبدیل کرے اور خاندان میں رہ کر مرضی کے مطابق نیا شوہر کا انتخاب کرے۔ 1896ء میں ایکٹ 4 نافذ کیا گیا جس کی وجہ سے حق وراثت قائم کرنے لیے ہر شخص باقیدہ بیاہ کرنے پر مجبور ہوا۔ ریاست ٹرانکور میں مردوں نے اولاد کی پرورش کا بار اٹھانا موقوف کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ایک نیا قانون ریاست کو نافذ کرنا پڑا۔ جس کی رو سے ہرشخص کو اپنی اولاد کی پرورش ترگ کرنے اور ایسی عورت کے ساتھ جس کا سنبدہم کے طریقہ سے بیاہ ہوا ہو مباشرت کرنا جرم ٹہرایا۔
تعدد ازواج اور کثیر زوجگی میں فرق
[ترمیم]تعدد ازواج صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے، جس میں صرف مرد ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ جبکہ کثیر زوجگی، مردوں، عورتوں اور حیوانات کے لیے ہے۔
تعدد ازواج صرف مسلمانوں کے ہاں چار بیویوں تک محدود ہے اگر پانچ بیویاں ہوں گی تو کثیر زوجگی شمار ہو گی اور ایک سے زیادہ شوہر رکھنے والی عورت کے لیے کبھی تعددازواج استعمال نہیں ہوا ویسے معنی کے اعتبار سے تین بیویاں بھی کثیر شمار ہوتی ہیں۔
اسلام نے توتعدد ازواج پر پابندی لگا کر اس کو چار تک محدود کر دیا۔ ایک صحابی تھے غیلان بن سلمہ ثقفی۔ قبول اسلام کے وقت ان کی دس بیویاں تھیں۔ آپ نے کہا کہ بھئی چار سے تو زیادہ رکھنے کی گنجائش نہیں۔ انھیں چھ بیویوں کو طلاق دینا پڑی۔ اسلام نے تو زائد تعداد کو محدود کیا اور اس محدود تعدادکو ہی تعدد ازواج کہا گیا کثیر زوجگی نہیں[1]
تعدد محدود کے لیے جبکہ کثیر لا محدود کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کی وضاحت اس عبارت سے ہوتی ہے۔
"اس بات پر فقہا امت کا اجماع ہے کہ اس آیت ٍ(سورہ نساء آیت 3)کی رو سے تعدد ازواج کو محدود کیا گیا ہے اور بیک وقت چار سے زیادہ بیویاں رکھنے کو ممنوع کر دیا گیا ہے۔ روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ طائف کا رئیس غیلا جب اسلام لایا تو اس کی نو بیویاں تھیں۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے حکم دیا کہ چار بیویاں رکھ لے اور باقی کو چھوڑ دے۔ اسی طرح ایک دوسرے شخص (نَوفَل بن معاویہ) کی پانچ بیویاں تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ان میں سے ایک کو چھوڑ دے"۔[2]
حوالہ جات
[ترمیم]ماخذ
[ترمیم]- تلقین مذہب۔ جے بہادر شا صوفی
- پنجاب کی ذاتیں۔ سر ڈیزل ایپسن
- احمد یار خان : رات کا راز