تلونڈی رائے

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

ضلع لدھیانہ کا تاریخی قصبہ

چندر بنسی منج راجپوتوں کی غالب آبادی پر مشتمل گاؤں تلونڈی رائے اپنے تھانہ رائے کوٹ سے شمال مغرب میں تین کوس تحصیل ہیڈ کوارٹر جگراؤں سے مشرق کی سمت میں سات کوس اور ضلعی صدر مقام لدھیانہ سے جنوب مشرق میں میں 20 کوں کے فاصلے پر واقع ہے تلونڈی رائے سے رائے کوٹ تک کا راستہ خام تھا۔ اس سے آگے جگراؤں تک پکی سڑک تھی جس پر اُن دِنوں تانگے چلتے تھے۔ یہ سڑک فیروز پور سے ہوتی ہوئی ہیڈ گنڈا سنگھ والا سے گذر کر تحصیل قصور کو عبور کرتی ہوئی لاہور پہنچتی تھی۔ جب کہ ضلعی ہیڈ کوارٹر لدھیانہ جانے کے لیے نور پورہ (بفاصلہ تین کوس) کا خام راستہ طے کر کے پختہ سڑک پر سوار ہو تے جہاں تانگہ کی سواری دستیاب ہوتی تھی اور ہلواڑہ ہوتے ہوئے ملاں پور پہنچتے جو ریلوے اسٹیشن تھا۔ تاہم ملاں پور سے لدھیانہ تک پختہ سڑک بھی تھی جس پر تانگے ملتے تھے اور قیامِ پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے تو بسیں بھی چلنے۔لگی تھیں۔ جن کے مالک سکھ تھے۔

تلونڈی رائے چھوٹی اینٹوں سے تعمیر کردہ فصیل سے محصور تھا لیکن آبادی بڑھ جانے کے سبب فصیل سے باہر بھی کئی محلے آباد ہو گئے تھے۔ اب یہ فصیل جگہ جگہ سے شکستہ تھی اور بعض حضرات نے تو فصیل آکھیڑ کر اس حصہ کو اپنے مکانات کی حدود میں شامل کر لیا تھا۔ یہ فصیل محتاط اندازے کے مطابق 8 فٹ کے لگ بھگ چوڑی تھی۔ روایت کی جاتی ہے کہ یہ فصیل (رائے کلہ خاں اول) بانی دیہہ کی تعمیر کردہ ہے۔ 1947ء تک اس فصیل کے جو آثار باقی تھے اس میں تین 3 دروازے اور 2 برج شامل تھے۔ دروازوں کے کواڑ بہت مضبوط، وزنی اور نوک دار آہنی سیخوں سے محفوظ کیے ہوئے تھے۔ گاؤں کی اکثر گلیاں اور بازار فراخ تھے۔ لیکن یہ گلیاں اور بازار خام تھے ، یعنی سولنگ وغیرہ نہیں تھا البتہ نکاسی آب کے لیے پختہ نالیاں اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کردہ تھیں۔ گھروں میں رات کے وقت لاٹیں یا دیے جلائے جاتے تھے اس لیے کہ 1947ء تک گاؤں میں تو کیا، رائے کوٹ، جگراؤں اور دیگر نواحی قصبات میں برقی رو نہیں پہنچی تھی۔ گاؤں میں مکانات زیادہ تر پُختہ تھے بعض مکانات دو منزل بھی تھے۔ مثلاً سردار بہادر کپتان فوج دار خاں، فیض محمد خاں امیر خاں انسپکٹر پولیس اور عبد الرحمن۔خاں پسر امیر خان نمبر دار مرحوم وغیرہ کے مکانات دو منزلہ تھے۔

پتیاں[ترمیم]

  • پتی شیر خان۔

نمبرداران۔ رائے محمد اقبال احمد خاں، رائے فضل محمد خاں۔

  • پتی سلیم خان۔

نمبردار۔ ملک محمد خان ولد علی محمد خان۔

  • پتی شاہ محمد خاں۔

نمبر دار۔ عبد الرحمن خان۔

  • پتی شہاب خاں۔

نمبرداران ۔۔ مدد علی خاں عرف مدے خاں، فضل محمد خاں علاوہ ازیں دو نمبرداریاں اور بھی تھیں جو سادات اور پٹھانوں کی تھیں۔

گاؤں کے واحد ذیلدار رائے محمد اقبال تھے جو نمبردار اور ذیلدار ہونے کے علاوہ آنریری مجسٹریٹ بھی تھے۔ رائے صاحب موصوف نے قیامِ پاکستان کے بعد چیچہ وطنی میں انتقال کیا۔ گاؤں کے سب سے بڑے مالک خان بہادر رائے ولی محمد خاں تھے، جن کے صاحبزادگان رائے محمد اقبال (مذکورہ بالا) اور نیاز محمد خاں تھے۔ موخر الذکر نے بھی چیچہ وطنی میں وفات پائی۔

اعلیٰ تعلیم یافتہ[ترمیم]

چودھری محمد حسن خاں گاؤں کے واحد بی اے، ایل ایل بی (علیگ ) تھے، جنھوں نے 46-1945ء کے انتخابات میں انبالہ ڈویژن کی دیہی نشست پر مسلم لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے حصہ لیا اور کامیاب رہے، آپ نے کمالیہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں انتقال کیا مرحوم کا تعلق پتی سلیم خاں سے تھا دوسرے شخص رائے خلیق الزماں خاں بھی ، بی اے، اہل ایل بی تھے۔ تیسرے شخص رائے خلیق الزماں خاں بی اے تھے۔ موصوف ابتداً نور پور موجودہ فیصل آباد میں آباد ہوئے بعد میں راولپنڈی میں مستقل رہائش اختیار کر لی۔ انکا تعلق بھی پتی سلیم خاں سے تھا۔ مذکورہ حضرات کے علاوہ بھی کئی اشخاص میٹرک یا ایف اے تک تعلیم یافتہ تھے۔ گاؤں میں لوئر مڈل اسکول (یعنی چھ جماعت تک کا) تھا مولانا رشید احمد گنگوہی مختلف اوقات میں اس اسکول کے ہیڈ ماسٹر رہے ۔ مولوی بہادر علی خان اور ضلع لدھیانہ کے رہنے والے اور مولانا رشید احمد گنگوہی کے مرید تھے۔ تلونڈی رائے میں دیوبندی مکتب فکر کی دعوت و تحریک کو رواج دینے میں ان کی مساعی کا بڑا حصہ ہے۔ انھیں اگر راجپوت قوم کا مصلح کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ ان کی دعوت پر مختلف اوقات میں علمائے کرام کی گاؤں میں آمد ہوتی رہتی تھی۔ مزید تعلیم کے حصول کے لیے طلبہ ہائی اسکول رائے کوٹ سے رجوع کیا کرتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے اسلامیہ کالج یا گورنمنٹ کالج لدھیانہ سے استفادہ کیا جاتا تھا۔ گاؤں میں لڑکیوں کے لیے کوئی یا اسکول نہیں تھا۔ تاہم گھروں میں ناظرہ قرآن حکیم ، مفتی کفایت اللہ کی "تعلیم الاسلام" اور مولانا اشرف علی تھانوی کا "بہشتی زیور" پڑھانے کی روایت موجود تھی۔ بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کی بچیوں کو "پکی روٹی" ، "راہ نجات" اور "اسلام کی پہلی کتاب" پڑھائی جاتیں تھیں، یہ کتب مولوی غلام قادر بھیروی کی تالیف کردہ تھیں۔ بچوں کے لیے کم وبیش ہر مسجد میں ناظرہ قرآن حکیم کی تعلیم کا اہتمام موجود تھا۔ جبکہ مولوی قائم دین کی مسجد سے ملحقہ مدرسہ میں ابتدائی دینی کتب کی تعلیم کے علاوہ حفظ قرآن بھی کرایا جاتا تھا۔ یہ مدرسہ، 'مدرسہ عربیہ خلیلیہ" کہلاتا تھا، جو مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے نام نامی سے منسوب تھا۔ مولوی قائم دین موصوف مظاہر العلوم سہارن پور سے فارغ التحصیل تھے۔ انھوں نے گاؤں میں اصلاح عقائد اور تربیت اخلاق کے لیے قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ آپ نے قیامِ پاکستان کے بعد تحصیل شجاع آباد ضلع ملتان میں وفات پائی۔

تلونڈی رائے کے راجپوت اور دیگر مسلمان، اقوام مسلک کے اعتبار سے اہلِ سنت والجماعت تھے، تاہم مکتب فکر کے اعتبار سے دیو بندی اور بریلوی فکر میں بٹے ہوئے تھے۔ علاوہ ازیں سادات کا ایک گھرانہ جو "پیروں کا گھرانہ" کہلاتا تھا مسلکاََ شیعہ تھا۔ شیعہ محرم کے ایام میں تعزیہ نکالنے کا اہتمام کرتے تھے۔ اس جلوس میں سنی مسلمان بھی شریک ہوا کرتے۔ اُن دِنوں شیعہ اور سنی کے درمیان اتنی مغائرت نہیں تھی اور بھائی چارہ کی کی فضا کا تھی۔

مساجد[ترمیم]

گاؤں میں چھ پُختہ مساجد تھیں، چار اندرونِ بستی اور دو بیرونِ فصیل جن کے پیش امام متعین تھے۔ عیدگاہ کی عمارت گاؤں سے باہر واقع تھی جو عیدین کے مواقع پر تنگ دامانی کا احساس دلاتی تھی کیونکہ آس پاس کے چھوٹے دیہات کے مسلمان بھی نمازِ عید ادا کر نے کے لیے آ جایا کرتے تھے۔

خانقاہیں[ترمیم]

یہ تعداد میں چار تھیں۔ 1۔ بیگو کی خانقاہ۔ 2۔ بیبی رکھی کی خانقاہ۔ 3۔ پیرارائیاں والی خانقاہ۔ 4- گوگا پیر کی خانقاہ، جسے عرف عام میں، گوگا پیر کی مڑھی کہا جاتا تھا اور جس سے چوہڑے چمار عقیدت رکھتے تھے۔ اول الذکر خانقاہ کی مجاور خاتون مسماۃ بیگو کے نام سے ماسوم تھی، اصل صاحبِ خانقاہ کا نام معلوم نہیں ہو سکا تھا۔ تاہم یہ خانقاہ اس اعتبار سے اہم اور معروف تھی کہ مخصوص ایام میں برصغیر کے معروف قوال مبارک علی فتح علی خاص طور پر مدعو کیے جاتے تھے۔

تکیے[ترمیم]

یوں تو کئی تھے مگر معروف دو تھے، ایک تکیہ شاہ جمال ،جو شیعہ قبرستان کی حدود میں واقع تھا، دوسرا تکیہ پھجے شاہ جس کے نام میں 20 بیکہ اراضی وقف تھی۔ البتہ اولالذکر اس حوالے سے معروف تھا کہ اس میں میر مولا داد کی قبر تھی جس کے بارے میں یہ بات مشہور تھی کہ وہ ایک راگ کا موجد تھا۔ چنانچہ جب بھی مبارک علی، فتح علی اور دیگر قوال تلونڈی رائے آتے تو اس قبر پر ضرور حاضری دیتے، میر مولا داد کی قبر کے سرہانے نیم کا ایک درخت تھا، جس کے بارے میں گائیک حضرات کے درمیان میں روایت مقبول تھی کہ اس درخت کے اڑھائی پتے ملحقہ خام تالاب (ٹوبہ) کے اڑھائی چلو پانی کے ساتھ چبانے اور نگل لینے سے آواز میں حسن اور سوز پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ گانے کا ذوق رکھنے والے حضرات اور مراثی و قوال اس نیم کے درخت کے پتے چباتے تھے۔

کنویں[ترمیم]

گاؤں میں آب نوشی کے نو کنویں تھے۔ ان کے علاوہ جوہڑے چماروں کے علاحدہ کنویں تھے اور ہندوؤں کی اُن کے اپنے گھروں کی حدود میں کوئیاں تھیں۔ راجپوت گھرانوں میں آب رسانی کا فریضہ سقے انجام دیتے تھے۔ جب کہ دوسری مسلمان پیشہ ور اقوام کی خواتین پانی بھرنے کے لیے خود باہر آیا جایا کرتی تھیں۔ اسی طرح چوہڑے چماروں کی عورتیں اپنے مخصوص کنوؤں سے خود پانی بھرا کرتی تھیں۔ ہندو گھروں کے اندر چونکہ کنویں موجود تھے اس لیے ان کی مستورات کو اس غرض کے لیے باہر آنے کی ضرورت شاذ ہی پیش آتی تھی ۔

دکانیں[ترمیم]

تلونڈی رائے میں باقاعدہ بازار تھا، اگرچہ دکانوں کی تعداد 30-25 کے لگ بھگ تھی۔ علاوہ ازیں گلیوں میں بھی اکا دکا دوکانیں تھیں۔ دکان دار کھتری ہندو بنے تھے، جو اس کاروبار پر چھائے ہوئے تھے۔ دکان داری کا پیشہ دو راجپوتوں دوست محمد خان پتی شیر خان اور شیر جنگ خاں پتی شاہ محمد، نے بھی اختیار کیا تھا، جسے برادری نے پسند نہیں کیا، چنانچہ ان کے کاروبار کا حال مندا ہی رہا۔ اگر چہ گاؤں میں بازار تھا، جہاں ضرورت کی ہر شے دستیاب تھی لیکن شادی بیاہ کے مواقع پر ضروریات کے لیے رائے کوٹ سے رجوع کیا جاتا تھا، جب کہ صاحبِ ثروت جگراؤں، لدھیانہ اور امرتسر سے رجوع کرتے تھے۔

اراضی و ذرائع آبپاشی[ترمیم]

تلونڈی رائے کے کل رقبہ میں 20 ہزار بیگہ خام تھا۔ مالکانِ اراضی زیادہ تر راجپوت تھے۔ ملکیت کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر سید اور تیسرے نمبر پر پٹھان آتے تھے۔ جب کہ آرائیں غیر مالک تھے اور ان کی حیثیت مزارعین کی تھی۔ روایت ہے کہ سیدوں کو راجپوتوں نے یہاں لا کر آباد کیا تھا۔ ابتداً یہاں آباد کیے جانے والے سیدوں میں یتیم بچے تھے جنہیں ہمارے اسلاف از راه ترحم و ثواب، گاؤں میں لے آئے، ان کی نہ صرف پرورش کی بلکہ جوان ہونے پر سادات گھرانے میں اِن کی شادی کر دی اور معاش کے لیے معقول قطعات اراضی بھی ہبہ کر دے۔

محکمہ مال کی اصطلاحات کے مطابق تلونڈی رائے کی زرعی اراضی مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم تھی: نہری، چاہی، نیائیں، بنجر بارانی، بنجر قدیم و جدید (غیر ممکن)، پھڑ (سخت ناقص)، روسلی (ریتلی بارانی)۔ گاؤں کی اراضیات کے کچھ حصے کو شہر سر بند، جو دریائے ستلج سے روپڑ کے مقام سے نکلتی ہے، کی ایک شاخ جسے راجباہ اور عرف عام میں سواء کہا جاتا تھا، سیراب کرتا تھا۔ یہ راجباہ تلونڈی کی زمین کو سیراب کرتا ہوا موضع برج نقلیاں کی حدود میں ختم ہو جاتا تھا۔ یہ راجباہ ششماہی تھا اور صرف موسمِ گرما میں جاری رہتا تھا کیونکہ سردیوں کے موسم میں دریائے ستلج میں پانی کی سطح گر جاتی تھی۔ آبپاشی کا دوسرا بڑا ذریعہ رہٹ تھے۔ ایسے چاہات جن پر ریٹ نصب تھے تعداد میں کم و بیش پچاس تھے۔ ان کنوؤں کی سطح آب تقریباً دس بارہ ہاتھ تھی۔ چونکہ موسم برسات میں بارشیں بہت ہوتی تھی اس لیے بارانی اور ریتلی اراضیات میں اس موسم کی اجناس کاشت کر لی جاتی تھیں۔

اجناس[ترمیم]

گندم ، مکئی، چنا،باجرہ ،جوار تل، سرسوں ، توریا، تارا میرا، موٹھ، مونگ، ارہر، کماد کے علاوہ کپاس، سن، سنوکڑا (سنی) وغیرہ۔ اسی طرح سبزیات تقریباً سبھی پیدا ہوتی تھیں جن کی کاشت بالعموم آرائیں کرتے تھے۔ پھل دار درخت اور پودوں کی کاشت کا رحجان بہت کم تھا تاہم اکا دکا کھیتوں میں لیموں، انار، ککل، لوکاٹ اور شہتوت کے پودے مل جاتے تھے۔ باقاعدہ باغ صرف ایک تھا جو رائے عزیز خان کا تھا جس میں سنگتر کاشت کیا ہوا تھا۔

جنگلی حیات[ترمیم]

گاؤں سے کچھ فاصلے پر گھنا جنگل تھا۔ جس میں نیل گائے روچھ، ہرن اور خرگوش پائے جاتے تھے۔ بعض صاحبِ ذوق حضرات نے شکاری کتے بھی پال رکھے تھے ورنہ بالعموم بندوق سے ہی شکار کیا جا تا تھا۔ پرندوں میں بھٹ تیتر، تیتر، بٹیر، تلیر ہریل کبوتر اور فاختہ عام تھے۔ تیتر اور بٹیر کا شکار عام طور پر جال لگا کر کیا جاتا تھا۔ جوہڑوں میں مچھلی بھی پیدا ہو جاتی تھی جسے لڑکے بالے جوہڑوں میں گھس کر یونہی پکڑ لیتے تھے۔

آبنائے دیہہ[ترمیم]

گاؤں میں یوں تو کئی خام تالاب (جوہڑ) تھے لیکن ایک تالاب ایسا تھا جسے قدیم ترین تصور کیا جا تا تھا۔ جس کے حوالے سے متواتر روایت چلی آتی تھی کہ جب رائے کلہ اول کا بسلسلہ شکار اس تالاب کے قریب سے گذر ہوا تو اس نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا کہ تالاب کے ایک کنارے پر بکری اور دوسرے پر شیر پانی پی رہے ہیں۔ نہ بکری شیر کو دیکھ کر گھبرائی اور نہ شیر بکری کو دیکھ کر غرایا۔ رائے کلہ نے یہ چشم دید ماجرا جب واپس اپنے گاؤں اٹھور آ کر بڑے بوڑھوں سے بیان کیا تو انھوں نے اس واقعہ کی تعبیر کی کہ وہ سرزمین جہاں یہ تالاب واقع ہے جائے امن اور سعیدومبارک ہے ۔ اس پر رائے کلہ کو خیال آیا کہ کیوں نہ اس مقام پر بستی بسائی جائے ۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ رائے کلہ اپنے خاندان کے افراد اور اس خاندان کے خدمت گزاروں کو لے کر یہاں آن بیٹھا اور یوں تلونڈی رائے کی بنا پڑی۔ سینہ بسینہ چلی آنے والی روایت کے مطابق یہ واقعہ 1474ء کا ہے۔

گنگا ساگر[ترمیم]

اورنگزیب عالم گیر کے دور میں گورو گوبند سنگھ کا رائے کوٹ آنا ایک متواتر روایت کے ساتھ ثابت ہے۔ کہتے ہیں کہ اورنگزیب نے گرو گوبند سنگھ کو باغی قرار دیتے ہوئے اس کی گرفتاری کا حکم دیا تو وہ جائے پناہ کی تلاش میں رائے کوٹ کے قریب سے گذرا۔ ان دنوں رائے کلہ دوم علاقہ کا حکمران تھا۔ رائے کوٹ کے قریب جنگل میں ایک شخص بھینسیں چرا رہا تھا۔ گرو گوبند سنگھ کو بھوک لگی تھی اس نے چرواہے سے درخواست کی کہ اسے پینے کے لیے کچھ دودھ دیا جائے۔ چرواہے نے جواب دیا کہ اس گلہ کی تمام بینسیں اسر ہیں یعنی دود ہی نہیں دیتیں، اس پر گورو گوبند سنگھ نے کہا کہ یہ لوٹا لو اور اللہ کا نام لے کر کسی بھینس کے نیچے دوہنے کے لیے بیٹھ جاؤ۔ چرواہے نے حیرت واستعجاب کے ساتھ لوٹا ہاتھ میں لیا اور ایک بھینس کو دوہنے کے لیے بیٹھ گیا۔ کہتے ہیں کہ بھینس کے تھنوں میں دودھ اتر آیا اور وہ لوٹا دودھ سے بھر گیا۔ چرواہا گورو کی اس کرامت سے متحیر ہوا اور اس نے فوری طور پر اس عجیب و غریب واقعہ کی اطلاع رائے کلہ دوم کو دی۔ رائے کلہ یہ سنتے ہی وہاں آیا اور گرو گوبند سنگھ سے ملا اور اسے اپنے ہاں لے آیا اور کہا کہ بلاخوف و خطر جب تک آپ کا دل چاہے یہاں قیام کرو۔ گرو نے جب رائے کلہ کے اخلاص کو دیکھا تو اس سے درخواست کی کہ کسی ذریعے سے سرہند میں میرے بیٹوں کی سلامتی کے بارے میں معلومات حاصل کیجیے جہاں ان کے بیٹے زیرِ حراست تھے۔ رائے کلمہ نے اپنے کسی معتمد آدمی کے ذریعے یہ معلومات حاصل کیں جس نے آ کر بتایا کہ وہ ہنوز زندہ سلامت ہیں ۔ گورو گوبند سنگھ نے اس احسان کے بدلے میں رائے کلمہ کو ایک پوتھی (مذہبی کتاب) کھانڈا (تلوار) اور ایک لوٹا دیا جسے گنگا ساگر یا ساغر کے نام سے معنون کیا جا تا ہے۔ اس لونے کی عجیب خصوصیات یہ تھی کہ اس کے پیندے اور اطراف میں باریک سوراخ تھے۔ لوٹے میں اگر ریت ڈالا جاتی تو وہ سوراخوں سے باہر نکل جاتا تھا اور وہ کو بھرا نہیں جا سکتا تھا مگر جب اسے پانی سے بھرنے لگتے تو وہ بہتا رہتا، لیکِن جب لبالب بھر جاتا، بہنے سے رک جاتا۔ راوی بشیر احمد منج نے بچشم خود اس لوٹے کے درشن کیے ہیں یہ لوٹا تانبے یا بھرت کا بنا ہوا تھا۔ یہ لوٹا 1947ء تک رائے عنایت خاں ولد رائے فیض طلب خاں کے پاس محفوظ رہا اور وہ ہجرت کے موقع پر اسے اپنے ہمراء پاکستان پہنچے اور کمالیہ میں آباد ہوئے۔ یہ لوٹا رائے عنایت خاں مرحوم کے پوتے رائے عزیز اللہ خاں کے پاس آج بھی محفوظ ہونا بیان کیا جاتا ہے۔ گورو گوبند سنگھ کی رائے کوٹ آمد کے حوالے سے ایک اور روایت جو معروف ہے وہ یہ ہے کہ گرو موصوف نے جنگل میں اپنے مختصر قیام کے دوران ایک مقام پر اپنی مسواک زمین میں گاڑ دی ، جو سرسبز ہو گئی اور بتدریج تناور درخت کی صورت اختیار کر گئی، جہاں سکھوں نے گوردوارہ تعمیر کرایا ہوا تھا، جسے گوردوارہ ٹاہلی صاحب کہا جاتا تھا۔ 1947ء تک سکھوں کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ ہر سال مخصوص ایام میں اس مقام پر جمع ہوتے اور جلوس کی شکل میں رائے عنایت خاں کے ہاں گنگا ساغر کی زیارت کے لیے جایا کرتے تھے۔

تہذیب وتمدان[ترمیم]

بزرگ خواه اپنی برادری یا قوم کا ہو یا کسی بھی دوسری برادری اور قوم سے تعلق رکھتا ہو، ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ مثلاً اپنی عمر سے بڑے شخص کے سرہانے بیٹھنے سے احتراز کیا جاتا تھا۔ نوجوان اور لڑکے بالے اصل میں تو اس چار پائی پر بیٹھتے ہی نہیں تھے جس پر کوئی بزرگ بیٹھا ہو۔ اسی طرح بزرگوں کے سامنے باآواز بلند گفتگو کرنا خلافِ ادب سمجھا جا تا تھا اور کسی کو ایسی جرات ہوتی بھی نہیں تھی۔ خواتین پردے کی سخت پابند تھیں، دن کے اوقات میں گھر سے باہر انتہائی ناگزیر مجبوری کے عالم میں ہی نکلتی تھیں، مثلاً گاؤں، خاندان یا قبیلہ میں کسی موت پر ۔ لیکن یہ صرف بڑی بوڑھیاں ہوتی تھیں، نوجوان بچیاں نہیں۔ یہ بڑی بوڑھیاں بھی پردے کے بغیر گھر سے باہر نہیں ملتی تھیں۔ خواتین کے احترام کا یہ عالم تھا کہ گلی سے گزرنے والا مرد، باپردہ خاتون کو سامنے سے آتے دیکھا تو گلی کی دیوار کی جانب منہ پھیر کر کھڑا ہو جاتا تھا۔ تاوقتیکہ وہ خاتون گذر نہ جائے۔

اسی طرح جوان بچیاں بھی ناگز برضرورت کے تحت ہی گھر سے باہر قدم رکھتیں مگر اکیلی نہیں ٹولیوں کی صورت میں اور رات کی تاریکی میں چادر اوڑھے کر۔ اکیلی بھی گھر سے باہر نکلتی مگر گھر کے کسی فرد کے ساتھ۔ ایک محلے سے دوسرے میں جانے کے لیے ڈولی کے استعمال کا رواج بھی تھا۔ بہوئیں، اپنی ساس، سسر یا رشتے کے اعتبار سے بڑی کسی بھی خاتون کے سامنے اپنے خاوند سے مخاطب نہیں ہوتی تھیں اور نہ خاوند ہی اپنی والدہ ، والد یا کسی دوسرے بزرگ کے سامنے اپنی بیوی سے ہمکلام ہوتا تھا۔ بیویوں کا اپنے خاوند کا نام لینا معیوب سمجھا جاتا تھا اور نہ خاوند ہی اہل خانہ کے سامنے بیوی کو نام لے کر پکارتا تھا۔ اگر خاوند کو کوئی ایسی ضرورت پیش آ جاتی تھی کہ وہ اپنی بیوی سے کوئی کام کرنے کے لیے کہے تو وہ کسی تمہید کے بغیر مثلاً یوں کہتا ۔۔۔ اندر سے میرے کپڑے تو اٹھا لانا۔ گویا ایسا جملہ جس میں کسی رشتے یا تعلق کا اظہار نہ ہوتا ہو، بیوی سے مخاطب ہونا سمجھا جاتا تھا۔ بیوہ خاتون خواد وہ نوبیاہتا ہو، عقد ثانی کی مجاز نہ تھی اور اسے ساری عمر اس حالت میں گزارنا ہوتی تھی کہ وہ ریشمی یا شوخ رنگ کے کپڑے نہیں پہن سکتی تھی، اس کے لیے صرف سفید یا سیاہ رنگ ہی مباح و جائز مقصور ہوتے تھے۔ کسی قسم کی آرائش مثلاً سرمہ لگانا، دنداسہ استعمال کرنا، مانگ نکالنا، چوڑیاں یا زیورات پہننا ممنوع تھا۔ وہ اپنے خاوند کی موت پر آنسو تو بہا سکتی تھی مگر صرف تنہائی میں۔ بین کرنا تو کجا ، وہ سسکی بھی نہیں بھر سکتی تھی۔ جس معاشرے اور ماحول میں وہ پلی بڑھی تھی اس کی روایت یہی تھی، اس لیے وہ اس جبر پر عمل کرنے میں بظاہر کوئی انقباض محسوس نہیں کرتی تھی کہ یہی اس کا مقدر تھا اور یہی بزرگوں کی روایت اور ریت تھی۔ گھر میں داخل ہوتے وقت خود اہلِ خانہ مرد بھی کھنکھارتے تھے یعنی چپکے سے گھر میں داخل نہیں ہو جاتے تھے۔ اسی طرح کوئی رشتہ دار آتا تو وہ پہلے دروازے کے آکر کھنکھارتا۔ پھر اپنا نام بتاتا کہ میں فلاں ہوں اور فلاں جگہ سے آیا ہوں اگر وہ محرم ہوتا تو اسے اندر بلا لیا جا تا۔ مہمان خواہ قریبی عزیز ہوں بیٹھکوں میں ٹھہرائے جاتے تھے اور یہ بیٹھکیں بالعموم گھر سے باہر فاصلے پر واقع ہوتی تھیں۔ تلونڈی رائے کی بیشتر بیٹھکیں فصیل کے باہر تھیں البتہ چند اندرون فصیل بھی تھیں مگر گھر سے قطعی علاحدہ۔ ایسا نہیں تھا کہ اس بیٹھک کا کوئی دروازہ یا کھڑکی براہ راست گھر میں کھلتی ہو۔

نوجوانوں کا نکے سر رہنا اور پھرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ سر میں تیل لگا کر اور مانگ پٹی نکال کر ننگے سر کاؤں کی گلیوں گزرنے کی کسی نوجوان کو جرات نہیں ہوتی تھی کوئی شخص خواہ وہ تلونڈی کا باسی ہو یا باہر کسی دوسرے گاؤں سے آنیوالا شخص گھوڑے یا کسی دوسری سواری اونٹ وغیرہ پر سوار ہو کر گاؤں کی گلیوں سے گزرنے کا مجاز نہ تھا۔ رشتے ناطے کے سلسلے میں اس روایت پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا کہ گاؤں کی کسی کنواری لڑکی کا نکاح بیرون گاؤں نہیں کیا جا تا تھا۔ اس پابندی کے باعث ظاہر ہے کہ بچوں کا رشتہ ایک مسئلہ کی شکل اختیار کر جاتا تھا اور یوں بعض کنوارپن میں ہی کہولت کی عمر کو آتی جاتی تھیں۔ حد یہ ہے کہ گاؤں کی بعض پتیوں کے راجپوت گاؤں ہی کی کسی دوسری پتی سے رشتہ دارانہ تعلق جوڑنا گویا توہین سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس لڑکے بیرون گاؤں بھی بیاہ لیے جاتے تھے۔ جن گوتوں کے ہاں سے تعلق قائم ہوتا تھا، وہ بالعموم چوہان، نارو، گھوڑ واہ اور بھٹی گوت تھے۔ موخر الذکر رشتہ داریوں کا تعلق مندرجہ ذیل دیہات سے منسلک تھا۔

1-مواضعات تلون نکودر ( ضلع جالندھر منج راجپوت دیہات)۔

2- جلال آباد ،محلاں، ورھے (ضلع فیروز پور منج راجپوت دیہات)۔

3۔ کسبہ، قطبہ، اٹهور، دھنیر، شاہجہان پور (ضلع لدھیانہ منج راجپوت دیہات)۔ 4۔ ہریانہ شام چورای (ضلع ہوشیار پور نارو راجپوت دیہات)۔ 5- گڑھ شنکر (ضلع ہوشیار پور گھوڑے واہ راجپوت دیہات)۔

6۔ راہوں، کریام (ضلع جالندھر، گھوڑے واہ راجپوت دیہات)۔

7- پنجلاسہ (ضلع انبالہ، چوہان راجپوت دیہات)۔

8- بھنگالہ (ریاست کپورتھلہ بھٹی راجپوت دیہات)۔

قیامِ پاکستان سے قبل ایک اور روایت جس پر تلونڈی رائے کے منج راجپوت خاصی سختی سے عمل پیرا تھے ، وہ یہ کی کہ کسی چھوٹے گاؤں، خواہ وہ منج راجپوت ہی کیوں نہ ہوں، سے رشتہ داری کا تعلق جوڑنے سے اجتناب کیا جا تا تھا۔ لیکن اب قیامِ پاکستان کے بعد یہ دائرہ وسیع تر ہو گیا ہے ۔

اب مذکورہ بالا اضلاع کے علاوہ دوسرے اضلاع اور مذکورہ گوتوں کے علاوہ دوسرے کوتوں میں بھی رشتے ناطے ہونے لگے ہیں۔

قبولِ اسلام[ترمیم]

منج راجپوت قبیلہ کے اولین مسلمان ہمارے جدِ امجد رائے تلسی داس ، 1323ء میں عمر چالیس 40 سال حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے دستِ حق پرست پر بعہد غیاث الدین تغلق 1325 - 1320ء بروایت مہكل ہر (موجودہ نام فرید کوٹ) کے مقام پر دولت اسلام سے مالا مال ہوئے اور ان کا نام سراج الدین تجویز فرمایا، تاہم وہ اپنے عرف "شیخ چاچو" سے معروف ہوئے۔ سینہ بسینہ چلی آنے والی روایات کے مطابق رائے تلسی داس (شیخ چاچو) کا خاندان بعہد خاندانِ خلجی (1320ء- 1290ء) جیسلمیر سے ترکِ سکونت کر کے خطہ پنجاب میں آیا۔ انھوں نے پہلے پہل جس مقام کو اپنی بود و باش کے لیے منتخب کیا اس کا نام تو ہنوز پردہ تاریکی میں ہے، تاہم یہ بات طے ہے کہ ان دنوں اس علاقے پر پنوار راجپوتوں کا تسلط تھا۔ کہتے ہیں شیخ چاچو کے فرزندِ ارجمند صادق جہانیاں عرف رائے بھرو اول نے یہاں کے حکمران راؤ اودھے سنگھ پنوار پر قابو پا کر اس علاقے پر اپنا تسلط قائم کیا۔

فریقین کے درمیان سے معرکہ آرائی موکل ہر کے مقام پر ہوئی نتیجتاً ریاست کے مرکزی مقام اٹھور سمیت یہ علاقہ رائے بھرو کے زیرِ تسلط آ گیا۔

رائے بھرو کے تین فرزند ہوئے۔ رائے ڈلہ، رائے کلہ اور رائے روپو، یہ تینوں اپنی عرفیت کے حوالے ہی سے معروف ہیں، ان کے اسلامی نام معلوم نہیں ہو سکتے۔ ان تینوں بھائیوں اور آگے چل کر ان کے اخلاف نے، متعدد دیہات آباد کیے جن کی معلوم تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

ڈلہ: دریائے ستلج کے کنارے بستی، جس کا ضلع لدھیانہ ہے، رائے ڈلہ بن رائے بھرو اول نے اپنے نام پر آباد کی تھی۔

کسبہ: ریاست پٹیالہ کی حدود میں واقع یہ گاؤں رائے سلطان کمال الدین بن رائے ڈالہ نے آباد کیا تھا۔

فیروز پور: انڈیا میں ایک موجودہ ضلعی صدر مقام ہے، رائے فیروز بن رائے سلطان کمال الدین نے اس بستی کی بنیاد ڈالی۔

داؤد ہر: موجودہ ضلع موگھہ انڈیا۔ رائے داؤد بن رائے سلطان بن کمال الدین نے آباد کیا تھا۔

بھروال: ضلع فیروز پور میں ہے۔ رائے محمد شاہ عرف رائے بھرو دوم بن رائے داؤد اس بستی کے موسس ہیں۔

جلال آباد: ضلع فیروز پور میں ہے۔ رائے جلال خاں بن رائے محمد شاه عرف رائے پھر دوم نے آباد گیا تھا۔

مانک پور: ضلع جالندھر میں ہے۔ رائے مان خاں بن رائے محمد شاہ مذکور بالا نے آباد کیا تھا۔

قطبہ: ضلع لدھیانہ میں ہے۔ رائے قطب خان بن رائے محمد شاہ نے آبا د کیا تھا۔

تلونڈی رائے: ضلع لدھیانہ میں ہے۔ رائے کلہ اول بن رائے چوکو بن رائے بھرو اول کا بنا کردہ ہے ۔ نیز رائے کلہ موصوف کے اخلاف نے بھی رائے کوٹ، جگراؤں ، ہلوارا اور آنڈلو نامی بستیاں آباد کیں۔ یہ چاروں آبادیاں بھی ضلع لدھیانہ سے متعلق تھیں۔

غالبِ کلاں اور کُوکری: ضلع لدھیانہ میں ہیں۔ رائے روپو بن صادق جہانیاں عرف رائے بھرو اول کے بنا کردہ ہیں۔ رائے روپو کی نسل بھنیر، سلطان خانوالہ پنڈ، ہر دو اندرون حدود سابقہ ریاست پٹیالہ میں بھی آباد تھی۔

شاہجہان پور: سابقہ ریاست کپور تھلہ میں ہے۔ اس کے بانی رائے حسن جہانیاں عرف رائے لوپال بن شیخ چاچو تھے ۔

رائے حسن جہانیاں کی نسل سے منج راجپوت گھرانے مواضعات بھیٹر اور نواں پنڈ بھی آباد تھے۔

رائے سر: ضلع لدھیانہ میں ہے۔ رائے پدھارتھ خاں بین رائے مانک خاں بن رائے محمد شاہ نے آباد کیا تھا۔

تلون: ضلع جالندھر میں ہے۔ رائے عزت خاں بن رائے محمد شاہ عرف رائے بھرو دوم نے بنایا تھا۔

نکودر: ضلع جالندھر میں ہے۔ رائے نیکودار خاں بن رائے محمد شاہ نے آباد کیا۔

جيتوال، ضلع جالندھر میں ہے۔ رائے اجیت خاں بن رائے محمد شاہ کا بنا کر وہ ہے ۔

چکری: ضلع اٹک موجودہ ضلع راولپنڈی پاکستان میں ہے۔ رائے محمد شاہ عرف رائے بھرو دوم کے اخلاف میں سے کسی نامعلوم الاسم نے آباد کیا۔

1947ء کے بعد نئے آشیانے[ترمیم]

تلونڈی رائے کے منج راجپوتوں کی اکثریت کمالیہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں آباد ہے۔ دوسری بڑی تعداد چیچہ وطنی شہرضلع ساہیوال میں سکونت پزیر ہے اور تیسری بڑی تعداد نور پور شاہ چک نمبر 122 ج ب تحصیل وضلع فیصل آباد میں آباد ہے۔ علاوہ مضلع ۔ ازیں چک نمبر 110 تحصیل چیچہ وطنی، چک 70 تحصیل ساہیوال، راولپنڈی شہر میں بھی چند گھرانے آباد ہیں۔ جب کہ ایک ایک دو دو گھرانے ساہیوال شہر اور فیصل آباد غلام محمد آباد کالونی، جھنگ شہر، کروڑ لعل عیسن ضلع لیہ، تلمبہ ضلع خانیوال، نت کلاں ضلع گوجرانوالہ، موضع اولکے ضلع گوجرانوالہ، چک ڈگورہ تحصیل فیصل آباد اور کراچی میں بھی آباد ہیں۔ جب کہ راوی لاہور اور نور پور ضلع فیصل آباد میں آباد ہے۔

منتخب ارکان اسمبلی کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔

1- رائے اقبال احمد خان مرحوم۔ 2 ۔ رائے احمد نواز خاں۔ 3- رائے علی نواز خان 4- رائے حسن نواز خاں۔ واضح رہے موخر الذکر تینوں حضرات اول الذکر کے فرزندان ارجمند ہیں۔

یہاں زمناً یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہو گا کہ رائے اقبال احمد خاں نے 46-1945ء کے تاریخ ساز انتخابات میں ضلع لدھیانہ کے دیہی حلقہ سے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر حصہ لیا۔ موصوف نے 8927 ووٹ لے کر اپنے مدِمقابل مسٹر محمد شفیع یونینسٹ پارٹی اور مفتی ضیا الحسن کانگریس پارٹی کو 6220 ووٹوں کی برتری سے عبرت ناک شکست دی تھی۔ انہی انتخابات میں چودھری محمد حسن خاں نے ضلع انبالہ اور شملہ کے دیہی حلقہ سے مسلم لیگی امیدوار کی حیثیت حصہ لے کر اپنے مدِمقابل یونینسٹ امیدوار راؤ محمد امراؤ بہادر اور کانگریسی امیدوار مولوی محمد یاسین خاں خانپوری کو 9080 ووٹوں کی برتری سے عبرت ناک شکست سے دوچار کیا تھا۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. کتاب کا نام: راجپوت نامہ۔ مصنف: جمیل احمد رانا۔ صفحات: 96 تا 102۔