ذرائع ابلاغ میں خواتین کا استحصال

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
ادا کارہ لیلٰی الینا ریسچر کی بکنی پہنی ہوئی تصویروں کو کئی ذرائع ابلاغ کے حلقوں خصوصی جگہ دی۔

ذرائع ابلاغ میں خواتین کا استحصال (انگریزی: Exploitation of women in mass media) دنیا بھر میں سماجی فعالیت پسندوں، نسوانیت پسندوں، ماہرین تعلیم اور سیاست دانوں کے لیے ہمیشہ ہی ایک موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس کے مختلف پہلو ملک در ملک اور سماج در سماج مختلف ہیں۔ تاہم ایک عام تاثر اس بات کو لے کر کہ ہے کہ خواتین کی ذرائع ابلاغ میں تصویر کشی کیسے کی گئی ہے۔ اشتہاری اور دیگر ذرائع ابلاغ (جس میں فلم، ٹی وی، انٹرنیٹ کے ساتھ ساتھ فیشن کی وسیع صنعت شامل ہے) میں خواتین کی پیش کشی اکثر منفی رہی ہے۔ اس میں کہیں برہنگی یا عریانیت، کہیں خواتین کی مرکزیت کی بجائے ان کی حاشیہ برداری اور الحاقی حیثیت اجاگر کی گئی ہے، کہیں جنسی اور ہیجان انگیزی کے مناظر میں خواتین کی بھدی پیش کش کی گئی ہے۔[1] کچھ حلقوں سے یہ بھی دعوٰی کیا گیا سماج میں خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ، آبرو ریزی، اجتماعی آبروریزی، فحاشی، جنسی تشدد اور جنسی ہراسانی کے وسیع تر فروغ میں ذرائع ابلاغ کا بڑا ہی معاون کردار ہے۔ میڈیا پر بعض اوقات خواتین کی ایسی تصاویر بھی دکھا دی جاتی ہیں جن سے ان کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے اور ایسے واقعات منظر عام پر آنے کے بعد متاثرہ خواتین کا معاشرے میں زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔[2]

اصلاح کی کوشش[ترمیم]

کچھ گوشوں سے یہ صلاح دی گئی ہے کہ ذرائع ابلاغ، ثقافتی سرگرمیوں، حتیٰ کہ ٹی وی ڈراموں کے ذریعے خواتین کی معاشرتی سطح حصہ داری کو مثبت اور حوصلہ افزا طریقے سے دکھایا جا سکتا ہے۔ قانونی طریقوں سے آگاہی دی جا سکتی ہے جن کے ذریعے خواتین ایک محفوظ سماج کو جوڑنے کے لیے آگے بڑھ سکتی ہیں۔[3] اس کے علاوہ کئی ممالک میں قانونی ضابطے بھی مقرر ہیں جن کا کہ ذرائع ابلاغ کو خیال رکھنا ہوتا ہے۔مثلًا آبرو ریزی کے جرم کی شکار خواتین کے نام اور تصویر کی اشاعت پر قانونی روک ہے۔ الگ سے خواتین کی تصاویر کی اشاعت کے لیے میڈیا کو اجازت در کار ہوتی ہے، بہ صورت دیگر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ممکن ہے۔


مزید دیکھیے[ترمیم]

حوالہ جات[ترمیم]