غوث علی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

نام نامی غوث علی اور والد کا نام سید احمد علی تھا۔ آپ حسنی حسینی سید تھے۔ پیدائش 1219ھجری میں موضع استہاون میں ہوئی اور وفات 26 ربیع الاول 1297ھ میں پانی پت میں ہوئی۔ آپ کا مزار پانی پت میں واقع ہے۔ آپ سلسلہ قادریہ ، سہروردیہ ، چشتیہ اور نقشبندیہ میں بیعت تھے۔ آپ کے مشہور خلفاء میں محمد یوسف اور مولوی گل حسن شامل ہیں۔

نام و نسب[ترمیم]

نام نامی اسم گرامی غوث علی والد کا اسم گرامی سید احمد علی تھا جو درجہ ولایت پر فائز تھے اور والدہ ماجدہ صاحبہ جذب و سکر تھیں۔

آپ کا سلسلہ نسب بتیس واسطوں سے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتہی ہو تا ہے۔ آپ حسنی و حسینی ہیں۔

ولادت[ترمیم]

سید غوث علی جمعہ کے دن رمضان کے مہینے میں 1219ھ میں موضع استهاون میں پیدا ہوئے۔

تعليم و تربیت[ترمیم]

آپ کے والد ماجد نے آپ کو دہلی بلایا اور آپ کی تعلیم دہلی میں ہوئی۔ آپ نے حدیث و فقہ کی کتب حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی اور حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق سے پڑھیں۔ منطق و دینیات کی تعلیم آپ نے مولوی فضل امام صاحب خیر آبادی سے حاصل کی۔ مثنوی مولانا روم آپ نے مولوی قلندر على جلال آبادی سے پڑھی۔ آپ نے علم ہیت و دیگر علوم ظاہری و باطنی میں دستگاه حاصل کی۔

بیعت و خلافت[ترمیم]

آپ کئی سلسلوں میں بیعت ہیں۔ آپ کئی سلسلے کے بزرگوں سے خرقہ خلافت پا کر سرفراز ہوئے۔

  1. سب سے پہلے آپ اپنے والد ماجد سے بیعت ہوئے۔ حضرت لعل شاہ کے روحانی فیوض سے مستفید ہوئے۔
  2. خاندان سہروردیہ میں آپ مرید و خلیفہ حضرت سید فدا حسین رسول شاہی کے ہیں۔
  3. خاندان قادریہ میں آپ مرید و خلیفہ حضرت سید اعظم علی شاہ کے ہیں۔
  4. نقش بندی سلسلہ میں آپ مرید و خلیفہ حضرت حبیب اللہ شاہ کے ہیں۔
  5. خاندان چشتیہ میں آپ مرید و خلیفہ حضرت امیر الدین کے ہیں۔

سیرو سیاحت[ترمیم]

آپ نے ہندوستان کی سیر و سیاحت فرمائی۔ مکہ معظمہ ، مدینہ منوره ، بغداد ، نجف ، اشرف اور بیت المقدس بھی حاضر ہوئے اور روحانی فیوض و برکات سے مستفید ہوئے۔ مصر ، روم و شام کی سیر و سیاحت فرمائی۔ بہت سے درویشوں سے ملاقات ہوئی۔ آپ نواسی بزرگوں سے ملے اور ان کے باطنی فیض سے مستفید ہوئے۔ ان کے علاوہ آپ بہت سے جوگیوں ، سناسیوں اور دیگر مذاہب کی بزرگ ہستیوں سے ملے اور ان سے استفادہ کیا۔

پانی پت میں سکونت[ترمیم]

آپ نے زندگی کے آخری ایام پانی پت میں رہاش اختیار کر لی۔ قلندر صاحب کے مزار کے ایک حجرے میں رہتے تھے۔

وفات شریف[ترمیم]

آپ نے 26 ربیع الاول 1297ھ کو اس دار فانی سے کوچ فرمایا۔ بوقت وفات آپ کی عمر اٹھہتر سال کی تھی۔ مزار پر انوار پانی پت میں واقع ہے۔

خلفاء[ترمیم]

آپ کے وصال کے بعد آپ کے خلیفہ محمد یوسف آپ کے سجادہ نشین ہوئے۔ آپ کے ممتاز خلفاء حسب ذیل ہیں۔ محمد یوسف ، مولوی گل حسن

سیرت پاک[ترمیم]

آپ قطب ارشاد تھے۔ آپ کو مرتبہ غوثیت بھی حاصل تھا۔ آپ کمالات باطنی میں یکتا اور توحید میں لاثانی تھے۔ آپ کو نسبت جذب حاصل تھی۔ ترک و تجرید ، قناعت و توكل ، ریاضت و مجاہدہ میں اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کی سخاوت کا یہ حال تھا کہ جو کچھ آتا اسی وقت محتاجوں ، بیواؤں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ سائل آپ کے پاس سے کبھی خالی ہاتھ نہیں گیا۔ خوارک آپ کی بہت کم تھی۔ کھانا سادہ پسند فرماتے تھے۔ لباس آپ کا سفید اور سادہ ہوتا تھا۔ رنگین کپڑے نہیں پہنتے تھے۔ آپ کو علم ظاہر اور علم باطن میں کمال حاصل تھا۔ آپ منبع شریعت تھے۔ فصاحت ، بلاغت اور متانت میں بے نظیر تھے۔

تعلیمات[ترمیم]

آپ کی تعلیمات اہل ذوق و شوق اہل تصوف اور اہل عرفان ہی کے لیے مفید نہیں ہیں بلکہ ہر شخص آپ کی تعلیمات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔

اسلام کی ترقی[ترمیم]

اسلام کی ترقی کا دار و مدار اتفاق اولو العزمی اور غیرت پر ہے۔

غیر اللہ سے بے پروائی[ترمیم]

آپ طالب حق کو یہ ہدایت فرماتے تھے کہ غیر اللہ سے کبھی ملتجی نہ ہونا۔ کسی حاجت کے واسطے سوال نہ کرنا۔ کیونکہ سوال کرنا اصول طریقت کے بالکل خلاف ہے۔ اس لیے کہ حصول مقصد اصلی اسی پر منحصر ہے کہ طالب ماسوا اللہ سے بے سروکار ہو اور موجودات عالم سے قطع تعلق کرے۔ سوال کرنا فقر کی شان عظمت کے منافی ہے اور سبب تذلیل ہے۔ یہ رکیک فعل اعزاز فقراء کے پاک و شفاف دامن پر بد نما دھبہ لگاتا ہے۔

توحید[ترمیم]

ایک توحید عامہ جس کو توحید شریعت کہتے ہیں۔ دو سری توحید خاص و توحید طریقت۔ تیسری خاص الخاص توحيد معرفت و حقیقت۔ توحید عالی بھی اس کا نام ہے۔ توحيد عام میں جمہور خلائق شریک ہیں۔ اس توحید کا اصول احکام شرعی کی اتباع پر منحصر ہے اور توحید خاص و خاص الخاص از روئے فیوضات باطنی حاصل ہوتی ہے۔ یہ توحيد انبیا علیہم السلام اور اولیائے کرام کا حصہ خاص ہے۔ زبان سے لا الہ الا اللہ کہنا اور دل سے یکتائی حق پر اعتقاد رکھنا توحيد عام ہے اور تجليات ذات مطلق کا قلب سالک پر متلی ہونا اور ذره آفتاب میں بے امتیاز کمی و بیشی نور حق نظر آنا اور نور ذات کے سامنے ذرات وجود عالم کا معدوم ہونا اور ایک ذات کا نور پیش نظر رہنا توحيد خاص ہے۔ موجد کا بحرنا پیدا کنار توحید میں شناوری کرتے کرتے قعر دریائے ذات اقدس میں غوطہ مارتا اور محو در محو اور فنا در فنا ہو جانا اور کل کائنات کو مع اپنی ہستی خاص کے محو کرنا توحيد خاص الخاص ہے۔

سلوک[ترمیم]

آپ فرماتے ہیں کہ سلوک کے معنی لغت عربی میں چلنا ہے۔ خواہ سفر ظاہر ہو خواہ سفر باطن۔ مگر اہل تصوف کے نزدیک سیر فی اللہ سے مراد ہے۔ سیر فی اللہ میں منازل بہت ہیں اور اپنی ہستی سے گذر کر خدا کی ہستی کی طرف ہمہ تن مائل ہونا بھی سلوک میں شامل ہے۔ جس وقت تزکیہ نفس ہو گیا اس وقت تزکیہ دل کرنا چاہیے۔ تصفیہ دل بے پاس انفاس کے ہو نہیں سکتا۔


اقوال[ترمیم]

  1. جب خدا ساتھ ہو گیا تو کسی دوسرے مددگار کی چنداں ضرورت نہیں۔
  2. صبر اگرچہ کڑوا ہے لیکن پھل اس کا میٹھا ہے الصبر مفتاح الفرح کی تصدیق بڑے بڑے تجربوں سے ہو چکی ہے۔ صبر کے بعد خوشی ضرور ہوتی ہے۔
  3. مال و دولت ، حسن و جمال پر فخر کرنا لا حاصل ہے۔ ایک نہ ایک دن ان کو ضرور زوال ہو گا۔
  4. استقامت اور استقلال انسان کے واسطے بڑی بیش بہا نعمت ہے۔
  5. ہر شخص نے اپنی خواہشات کے موافق جداگانہ قبلہ بنا رکھا ہے اور اسی خیال میں مستغرق اور منھک ہے۔
  6. دنیا اور اس کی تمام اشیاء ہیچ ہیں اس کی عارضی زیب و زینت پر مفتون ہونا ابدی زندگی سے ہاتھ دھونا ہے۔
  7. دنیا مردار ہے اور اس کے طلب کرنے والے کتوں کی خاصیت رکھتے ہیں۔
  8. اولوالعزمی اور بلند ہمتی کی بدولت مشکل سے مشکل کام آسان ہو جاتا ہے۔
  9. طمع سے ذلت اور قناعت سے عزت ہوتی ہے۔
  10. جس وقت تجلی ذات ہوتی ہے ہر طرح سے اسرار توحید و یکتائی منکشف ہوتے ہیں۔
  11. عشق سے انسان کو حیات ابدی حاصل ہوتی ہے۔
  12. صفائی بغیر مجاہدہ کے حاصل نہیں ہوتی اور جمال لا يزال بغیر صفائی کے نہیں دکھائی دیتا۔

اوراد و وظائف[ترمیم]

سید علی غوث کے بتائے گئے چند اوراد و وظائف درج ذیل ہیں۔

اولاد کے واسطے[ترمیم]

آپ فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے اولاد نہ ہوتی ہو تو اس کو چاہیے کہ صبح کی نماز کے بعد اکیس بار درود شریف پڑھے اور ایک سو اکیس (121) بار رب لا تذرنی فرداونت خير الوارثین پڑھے پھر اکیس بار درود شریف پڑھے اور اپنے اوپر دم کرے اور پانی پر دم کرکے خود بھی پئے اور اپنی بیوی کو بھی پلاوے۔

بخار سے اچھا ہونے کے واسطے[ترمیم]

آپ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو بخار آتا ہو تو مریض کو چاہیے کہ صبح کی نماز کے بعد سات مرتبہ درود شریف پڑھے پھر ایک سو اکیاون (151) بار قلنا يانارکونی بر دوااسلاما علی ابراہیم پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے اور پانی پر یا دوائی پر دم کر کے پئے۔

مصیبت سے نجات کے واسطے[ترمیم]

آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مصیبت میں گرفتار ہو تو اس کو چاہیے کہ بعد نماز عشاء گیاره مرتبہ درود شریف پڑھے اور پھر اکاون بار لا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین پڑھے اور پھر گیارہ بار درود شریف پڑھ کر دعا مانگے مصیبت سے نجات پائے گا.

کشف و کرامات[ترمیم]

  • ایک شخص سید غوث علی شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ عسرت اور تنگی معاش سے پریشان تھا۔ آپ سے دعا کا خواستگار ہوا۔ آپ نے اس کو ایک چٹکی خاص دی اور تاکید فرمائی کہ اس کو سرہانے رکھنا اور فجر کی نماز کے بعد اکیس مرتبہ یہ پڑھا کرنا
اے کریمے کہ از خزانہ غیب گبروتر سا وظیفہ خور داری
دوستاں راکجا کئی محروم تو کہ با دشمناں نظر داری

اس شخص نے ایسا ہی کیا اس کو پانچ روپے روزانہ سرہانے سے ملنے لگے۔ کچھ دنوں کے بعد اس شخص نے آپ کی ہدایت کے خلاف اس بات کا ذکر لوگوں سے کیا اسی روز سے روپے ملنا بند ہو گئے۔

  • عطا محمد کو دولت تو ملی تھی لیکن اولاد کی دولت سے محروم تھے۔ ضعیف ہو گئے تھے لیکن اولاد کی آرزو باقی تھی۔ عطا محمد نے آپ سے عرض کیا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا نے چاہا تو بیٹا پیدا ہو گا۔ آپ کی دعا سے عطا محمد کا گھر روشن ہوا۔ عطا محمد اپنے بچے کو آپ کے پاس لائے۔ آپ نے بچے کے سر پر اپنا ایک ہاتھ پھیرا اور دوسرا عطا محمد کے سر پر رکھ کر فرمایا
پیرے کہ دم ز عشق زند بس غنیمت است از شاخ کہنہ میوه نورس غنیمت است
  • ایک شخص جو پانی پت میں نائب تحصیل دار تھا، آپ سے بہت عقیدت رکھتا تھا اس نے کوئی امتحان دیا تھا ایک دن وہ آپ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ امتحان دیا ہے‘ کامیابی کے لیے دعا فرمائے اگر مستقل ہو جائے تو کیا اچھا ہو۔ آپ مسکرائے اور پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا ایسی خوش خبری اول باپ دیا کرتا ہے۔

وہ شخص جب واپس اپنے مکان پر گیا اس کو اپنے والد کا خط ملا اسی وقت وہ خوش خبری اس کے والد نے اس کو تحریر کی تھی۔

  • پنڈت شو مدت دہلی میں کمشنر کے سرشتہ دار تھے کمشنران سے کسنی بات پر خفا ہو گیا۔ اس نے ان کو برخاست کرنے کی دھمکی دی۔ پنڈت جی کو آپ سے بہت عقیدت تھی وہ دہلی سے پانی پت آئے اور آپ کی خدمت میں آئے۔ پنڈت جی نے ایک مرتبان جس میں مربا بھرا ہوا تھا آپ کو پیش کیا۔ آپ نے پنڈت جی سے دریافت فرمایا کہ مرتبان میں کیا ہے۔ پنڈت جی نے عرض کیا کہ حضور کے لیے مربا لایا ہوں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ : بہت خوب مربی بیارو مربا بخور۔ پھر پنڈت جی سے مخاطب ہوئے کہ کہو صاحب اب تو کمشنر صاحب تم پر بہت مہربان ہیں۔ پنڈت جی نے سارا قصہ آپ کے گوش گزار کیا۔ آپ نے فرمایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا اور میاں ! تم کو تو اس نے ڈپٹی کر دیا ہے۔ تم پریشان نہ ہو۔ خدا فضل کرے گا وہ بھی مہربان ہوگا۔

بعد ازاں پنڈت جی کو معلوم ہوا کہ واقعی کمشنر نے ان کے ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر بنانے کی پر زور سفارش کی ہے۔ کچھ ہی دنوں کے بعد پنڈت جی ایکسٹرا اسٹنٹ کمشنر ہو گئے۔ [1]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. جدید تذکرہ اولیائے پاک و ہند مولف ڈاکٹر ظہور الحسن شارب صفحہ 365 تا 371